با ادب
محفلین
امامیات ( مکاتیب ) خط نمبر ۱
بیٹی کے نام خط
جان سے پیاری بیٹی !
سلام عرض ہے ۔ میری پیاری بیٹی دنیا عجائب خانہ ہے ۔ اور اس عجائب خانے کی عجیب بات یہ ہے کہ تمھاری ماں ہو کر مجھے کچھ باتیں تم سے اس خط کے ذریعے کرنی پڑ رہی ہیں ۔
زندگی ایسے موڑ پہ ہے میری جان جہاں ایک ماں عجیب بے بسی محسوس کرتی ہے ۔ اپنی جوان ہوتی بچی کو معاشرے کی درندگی سے ڈرا کر خوف زدہ کر دے یا اتنانڈر بنا دے کہ وہ خود بھی بسااوقات درندہ بن جائے ۔
میری بچی میانہ روی کی راہ بڑی کھٹن ہے ۔ لیکن یہی بہترین راستہ ہے ۔ یہ وہی راستہ ہے جس کے اختتام پہ وہ منزل موجود ہے جہاں پہنچنے پر سستایا جا سکتا ہے ۔
میری بیٹی ! اس دنیا میں سر اٹھا کر جینے کا ایک چلن ہمیشہ یاد رکھنا۔ دنیا میں ہر انسان کی عزت کرنا لیکن صنفِ مخالف کے لیے اپنا ایک اصول وضع کرنا کہ ان کے اورتمھارے بیچ کھینچی گئی لائن واضح اور انمٹ ہو ۔ اس لائن کے پار تمھیں خود بھی کبھی نہیں جانا اوراس لائن کو پار کرنے کی اجازت بھی کبھی کسی کو مت دینا ۔
میری بیٹی تم عورت ہو اس بات کا اپنی طاقت بنانا اسے اپنی کمزوری کبھی مت سمجھنا۔ سر اٹھا کے جینا اور چھوٹے چھوٹے غموں پہ واویلا کبھی مت کرنا ۔ جو چیزیں تکلیف دیتی ہیں ان تکالیف کا تذکرہ اگر ہمہ وقت بہ آواز بلند کیا جاتا رہے تو وہ آپکی نفسیات پہ برے اثرات مرتب کر کے آپکوکمزور کر دیتی ہیں ۔
اگر ہم ایک گھنٹہ یہ کہتے ہوئے گزار دیں کہ گرمی ہے ۔ تو گرمی ختم نہیں ہو جاتی لیکن احساس شدت پکڑ لیتا ہے ۔ جب کہ اسی گرمی کو صبر اور خاموشی کے ساتھ گزارنے پہ اللہ آپکے دل کو تھام لیتا ہے ۔
میری بیٹی ! دنیا میں اللہ کے ماسوا کبھی کسی سے مت ڈرنا۔
تم عورت ہو اس پاک رب نے تمھیں نازک اندام بنایا لیکن یاد رکھو شیشے کا بلوریں جام ٹوٹے تو اسکا کانچ توڑنے والے ہاتھوں کو لہو لہان کر جاتا ہے ۔
جس دن تمھیں اس بات کا ادراک ہو گیا کہ تم صرف ایک خوبصورت شو پیس نہیں ہو ۔ وقت پڑنے پہ ایک تیز دھار آلہ بن سکتی ہو اس دن تم سے اپنے دشمن سے ہمیشہ کے لیے گھبرانا چھوڑ دو گی ۔
میری پیاری بیٹی ! گدھ مردار کھاتا ہے کیونکہ مردار کھانے کے لیے محنت نہیں کرنی پڑتی مشقت نہیں اٹھانی پڑتی وہ تیار مل جاتا ہے ۔لیکن شاہین شکار کر کے کھاتا ہے ۔ وہ گھات لگاتا ہے محنت کرتا ہے اڑان بھرتا ہے اور اپنی تیز نگاہوں سے شکار کی موجودگی کا یقین کرتا ہے ۔لیکن جب حملہ کرتا ہے تو ایسی مضبوط گرفت ہوتی ہے کہ شکار مر تو سکتا ہے لیکن اس شکنجے سے خود کو آزاد نہیں کروا سکتا ۔
دنیا میں جہاں بھی تم اپنے آس پاس کے گدھ نما انسانوں کو زمین پہ چھوڑ کر اونچی اڑان بھرو گی تو حسد کے مارے گدھ تمھیں فقط ایک بات سے ذلیل کرنے نیچا دکھانے کی کوشش کریں گے ۔
" بھئی آخر کو ہے تو عورت "
" ارے عورتوں کی اتنی سمجھ کہاں "
اور جو راجا گدھ ہونگے وہ اس سے بڑھ کر گندی اور غلیظ زبان کا استعمال کرتے ہوئے یہ بھول جائیں گے کہ وہ ایک عورت کےبطن سے پیداہوئے۔
ہر وہ انسان چاہے وہ مردہو یا عورت جسےانسانوں کےشرف کا پاس نہیں وہ نہ انسان کہلانے کے لائق ہے اور نہ کوئی بھی کسی بھی قسم کی صنف ۔ اسلیےمیری بچی ایسے حیوانوں کی باتوں کودرگزر کر کے اپنے فلاح کے سفر میں آگے بڑھتی جانا۔
میری بیٹی فلاح کیا ہے اس پہ انشاء اللہ اگلے خط میں تمھیں مطلع کرونگی۔
خوش رہو ۔
اللہ تمھیں ہمیشہ اپنی امان میں رکھے۔
فقط تمھاری ماں
سمیراامام
امامیات ( مکاتیب ) خط نمبر ۲
خط بنام دختر ( ۲)
جان سے پیاری !
السلام علیکم !
اب کے خط لکھنے میں تاخیر ہو گئی ۔ سردیوں کی آمد آمد ہے اور تم تو جانتی ہو اس موسم کے آغاز کے ساتھ ہی متعدد بیماریاں مجھے گھیر لیتی ہیں ۔ لیکن یقین مانو دل ہمہ وقت تم میں ہی اٹکا رہتا ہے ۔
میری بچی مجھے اس بات کا احساس ہے کہ ہر شخص زندگی میں جو بھی سیکھتا ہے اپنے تجربات سے سیکھتا ہے ۔ اپنے ہی تجربے سے سیکھ کر چیزوں کی حقیقت سمجھ میں آتی ہے ۔
دوسروں کی نصیحت ہمیں اکثر ناگوار گزرتی ہے ۔ پیاری بیٹی میرے اور تمھارے رشتے میں میں نصیحت کے بوجھ کو شامل نہیں کرنا چاہتی ۔
بس ان خطوط کے ذریعے تم سے اپنے دل کی بات کہہ دیتی ہوں ۔ اور تمھاری کہی سن لیتی ہوں ۔جیسے دو سکھی سہیلیاں آپس میں بیٹھ کر کہہ سن لیا کرتی ہیں ۔
پچھلے خط میں تم سے " فلاح " کا تذکرہ کیا تھا ۔ میں اکثر سوچا کرتی تھی کہ اللہ ہم سے بار بار فلاح کی بات کیوں کرتے ہیں ۔ اور آخر انسان کی فلاح ہے کیا ۔
دنیا کے چلن کو دیکھا تو یوں محسوس ہوا کہ وہ انسان جس نے اچھا کمایا اچھا پہنا اوڑھا اچھا کھایا بہتر گھر گاڑی زندگی کی سہولیات سے مزین ہوا دنیا نے اسے کامیاب انسان کے لقب سے نوازا ۔
لیکن ایسی کامیابی بھی مجھے بے چینی میں مبتلا کر دیتی۔ زندگی گزارنے کے لیے ان تمام لوازمات کا ہونا ازحد ضروری ہے ۔ لیکن کیا یہی لوازمات فلاح کا بھی باعث ہیں ۔
ہر متجسس بچے کے اندر سوالات کے جوار بھاٹا اٹھتے ہیں ۔ میں بھی متجسس رہی ۔ بالکل ایسی ہی جیسی اب تم ہو ۔
سوالات کرتی اپنی گول آنکھوں کو تم جب مزید گول گول گھماتی تو مجھے اپنا بچپن یاد آکے رہ جاتا ۔
ایک دن لغت میں فلاح کے معنی مل گئے۔
فلاح کسان کو کہتے ہیں۔
کیسی عجیب بات تھی کہ کامیابی کی مثال کسان کو مدنظر رکھ کر دی جا رہی تھی ۔
کسان کی زندگی پہ غور کیا تو جیسےالگ ہی دنیا وا ہو گئی ۔
زندگی کو با مقصد اور با معنی بنانے کے لیے ہمیں کسان کے فلسفہ حیات پہ غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
کسان زمین کو پانی لگا کر نرم کرتا ہے ۔ پھر زمین کی گوڈی کر کے اس میں بیج بوتا ہے ۔
" بیج " جو زمین کے اندر چھپ جاتا ہے ۔ کسان آس اور امید کو قائم رکھتا ہے کہ اس زمین کے اندر سے ضرور بالضرور کونپل پھوٹے گی ۔ ہم انسان ذرا دیر اندھیرے میں آجائیں یا ذرا سی دیر کو بھی کسی شے کی حقیقت ہم سے چھپی رہے تو ہم ہزار گمان کر ڈالتے ہیں ۔ اور اپنے کئے گئے گمانوں سے ہی مایوس ہونے لگتے ہیں ۔ لیکن کسان ہمیشہ بیج بونے کے بعد اللہ کی رحمت سے پر امید رہتا ہے ۔
اور ایک دن اس بیج سے کونپل پھوٹ نکلتی ہے ۔ ننھا پودا فصل بننے تک جن مراحل سے گزرتا ہے ان تمام مرحلوں میں کسان کی ہمت عزم اور محنت ہر لمحہ شامل رہتی ہے ۔
اوراس تمام مشقت کےبعد فصل کی صورت اسے اپنی محنت کا صلہ مل جاتا ہے جو اسے خوشی اور آسودگی سے نہال کر دیتا ہے۔
تو میری بچی جان لو کہ فلاح وہ کامیابی ہے جوکڑی محنت اور سخت مشقت کےبعدملتی ہے ۔ لیکن جب مل جاتی ہے تو انسان کو مطمئن ' آسودہ اور خوشحال کر دیتی ہے ۔
فلاح کے معنی تو جان لیے تھے اب یہ سمجھنا باقی تھا کہ فلاح پا لینے والے کون لوگ ہیں۔
جس دن انکو جان لیا مانو ایک طلسم ہوشربا کھل گئی تھی۔ زندگی رہی تو کبھی تمھیں ضرور بتاؤنگی کہ فلاح پا لینے والے کون ہیں۔
ابھی کے لیے تو فقط یہ جان لو کہ جو کامیابی پلیٹ میں رکھ کر مل جائے اسے کافی مت جاننا۔
یاد رکھنا کہ جس شے کے حصول کے لیے تم نے اپنا خون پسینہ بہایا ہوگا اس شے کا مل جانا نہ صرف الوہی خوشی سے ہمکنار کرتا بلکہ طمانیت ' اپنی ذات پہ اعتماد اور محنت کی عظمت سے آگاہ بھی کرتا ہے ۔
اپنا خیال رکھنا ۔ خالہ اور بڑے ماموں کو سلام کہنا
والسلام
تمھاری والدہ
سمیرا امام
۵ نومبر ۲۰۱۹
امامیات ( مکاتیب ) خط نمبر ۳
پیاری اماں کے لیے خط (۱)
پیاری اماں !
السلام علیکم !
اماں ! آپ نے میری خیریت پوچھی تھی اور اس خیریت کے جواب میں میرا دل چاہتا ہے کہ بس کچھ دیر کے لیے اڑ کر آپکے پاس آجاؤں اور آپ مجھے اپنی آغوش میں چھپا لیں ۔
اماں ! مجھے لگتا ہے آپ بہت ظالم ماں ہیں ۔ جیسے ہی میں یہ سوچتی ہوں کہ آپ ظالم ماں ہیں اسی وقت مجھے یہ خیال بھی آتا ہے کہ شاید میں ایک فرماں بردار بیٹی نہیں ۔
اپنے گھر سے دور ایک انجان شہر انجان لوگوں میں رہتے ہوئے جب میں آپکے اونچے آدرشوں بھرے خط پڑھتی ہوں تو گھٹن کا احساس بڑھنے لگتا ہے ۔
پیاری اماں ! آپ کو سوچوں تو لگتا ہے جو آپ کہتی ہیں وہی درست ہے اور دنیا کاچلن دیکھوں تو یہی درست لگتا ہے ۔
میری دوستیں مجھے کچھ زیادہ پسند نہیں کرتیں انکا خیال ہے کہ میں بہت زیادہ " آؤٹ ڈیٹڈ " ہوں ۔ اور مجھے زندگی گزارنے کا چلن نہیں آتا ۔ وہ کہتی ہیں یہی وقت ہے زندگی سے لطف اٹھانے کا ۔ chill کرو
اور میں جو خود بھی chill کرنا چاہتی ہوں مجھے اس chill کا طریقہ ہی نہیں آتا ۔ مجھے لگتا ہے میں اپنی دنیا کے انسانوں جیسی نہیں ہوں ۔ آپ کی باتیں خوب صورت ہیں لیکن ان پہ عمل کرنا بے حد مشکل ہے ۔ میں ان سب باتوں کو اپنانا چاہتی ہوں لیکن انکو اپنانے کے چکر میں میں اپنے مدار میں تنہا رہ جاتی ہوں ۔
جب میں اپنے اردگرد دیکھتی ہوں سب اس دائرے سے نکل کر دور جا چکے ہوتے ہیں ۔ اور میں وہیں کہیں اس دائرے کے اندر موجود اکیلی کھڑی خود سے دور جانے والوں کو تکا کرتی ہوں ۔
آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ تعلیم کو زندگی کا محور ومقصد سمجھنا ۔ اورمقصدپہ فوکس رکھنا ۔
اماں ! مجھے لگتا ہے میں نہ تو زندگی پہ فوکس قائم رکھ پا رہی ہوں نہ ہی مقصد پہ ۔
اور مجھے ان سب امتحانوں سے نبٹنے کا طریقہ بھی شاید نہیں آتا ۔
کل میں اپنی دوستوں کے ساتھ سردیوں کے لیے کچھ ضروری اشیاء کی خریداری کرنے ایک قریبی مال گئی ۔
جانے کتنی دیر وہ سب وہاں گھومتی رہیں ۔ کتنے کپڑے انکے شایانِ شان نہیں تھے اور کتنے ہی جوڑوں کو انھوں نے اپنے قابل سمجھا ۔ رنگ و بو کا ایک سیلاب تھا جس میں وہ خوش تھیں چہلیں کرتی اسے زندگی سے لطف اٹھانا خیال کرتی تھیں ۔
اور میں سوچ رہی تھی کہ کسی دن اماں سے سوال ضرور پوچھونگی کہ آخر یہ اونچی اڑان اڑتے شاہین کس برانڈ کو زیادہ پسند کرتے ہیں ۔
اماں ! یہ پرندے کیسے خوش نصیب ہیں نا انکی فکروں اور ہمارے تفکرات میں کیسا واضح فرق ہے ۔ وہ جانتے ہیں انکے اہداف کیا ہیں ۔ جب کہ ہم آئے روز اپنے لیے کسی نئے ہدف ( goal ) کو پسند کرتے ہیں ۔ ہمارے اندر یہ خیر وشر کی جنگ بڑی تکلیف دہ ہے اماں ۔ اس جنگ کو لڑنا اور اس میں فتح یاب ہونا بے حد مشکل ۔ تبھی آپکی باتیں میری گھٹن بڑھا دیتی ہیں ۔
خود جنگ لڑنا اور کسی سے جنگ لڑنےکا کہنا دو الگ الگ باتیں ہیں پیاری ماں ۔ مجھے لگتا ہے شاید میں اس جنگ کی فاتح نہیں بن پاؤنگی ۔ کیا آپ اپنی شکست خوردہ بیٹی کی شکست تسلیم کر لیں گی ؟؟
وہی بیٹی اماں جو رات کو اپنی دوستوں سے کہتی ہے آج ہم نے پورا دن بے مقصد گزارا ۔ جانے کتنے گھنٹے تن بدن کے سنوارنے سجانے کے اوزاروں کی دیکھ بھال میں گزارے ۔ اور کتنے ہی فتنوں کا شکار ہوئے ۔ تو وہ مجھ سے ناراض ہو گئیں ۔ اب بھی ناراض ہیں ۔
پیاری اماں ! اکیلے زندگی گزارنا بے حد مشکل ہے ۔ میرا جی چاہتا ہے میں اپنی ان ہی سہیلیوں کے رنگ میں رنگ جاؤں ۔ کہ جب میں انکی نظروں میں اپنے لیے طنزیہ ہنسی دیکھتی ہوں تو مجھے نہایت شرمندگی ہوتی ہے ۔ مجھے لگتا ہے یہ سب جو کہتی ہیں اسے مان کر مجھے انکی محبت اور پسندیدگی مل جائے گی ۔
پیاری اماں زندگی میں اپنی ذات کو ڈگمگانے سے بچا لینے کا ڈھنگ ابھی شاید میں سیکھ رہی ہوں ۔ اور یہ ایک مشکل اور تکلیف دہ امر ہے۔
امید ہے آپ کی زندگی میں وہ کمزور لمحات ضرور آئے ہونگے جب بلند پروازی سے تھک کر گر جانے کو جی چاہتا ہے ۔ جب آپ کو لگا ہو کے دنیا میں کتنی مخلوق ایسی ہے جو بلند پرواز نہیں لیکن اسی دنیا کا حصہ ہے اور بہت آرام اور سکون سے زندگی گزارے جا رہی ہے ۔ پھر آخر ان آسمانوں کی وسعتیں چھو لینے والوں کے وجود میں بھرے پارے کے کیا معنی ہیں ۔ یہ کیونکر اپنے بازوؤں کی تمام قوت کو بروئے کار لائے خود کو مشقت کی چکی میں پیستے چلے جاتے ہیں ۔
پیاری اماں فلاح مشقت کے بعد ملنے والی کامیابی ہے ۔ اس فلاح کا حصول کیونکر ممکن ہے ؟؟
اور کامیابی کے شارٹ کٹ آخر کیوں نہیں ہوا کرتے ؟؟
یہ فلاح اس قدر مشکل کیوں ہے ؟؟
جوابات کی منتظر
آپکی بیٹی ۔
سمیرا امام
۶ نومبر ' ۲۰۱۹
امامیات ( مکاتیب ) خط نمبر ۴
بیٹی کے نام ( ۳ )
پیاری بیٹی
السلام علیکم !
اللہ ہمیشہ تم پہ اپنا فضل کرے ۔ امید ہے خیریت سے ہوگی ۔
میری بچی ! زندگی میں وہ مقام آ ہی گیا جس کے لیے میں سوچا کرتی تھی کہ آخر کیسا ہوگا وہ مقام جب اپنی اولاد آپکو کٹہرے میں کھڑا کر کے آپ سے آپکی تربیت کے اصول و ضوابط پہ سوال کرے گی ۔ آپکو اور آپ کے نظریات کو اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ جانے گی ۔
ایسا ہی ایک وقت تھامیری جان جب میں نے اپنے والدین سے سوالات کیے تھے ۔ کہ کیوں وہ اپنےزمانے کی گھسی پٹی منطق کو میری زندگی پہ لاگو کرناچاہتے ہیں ۔
اس دن میرے والد نے فقط ایک بات پہ افسوس کا اظہار کیا تھا ۔ کہ شاہین بچے کو صحبتِ زاغ خراب کر گئی ۔ ان کی بات آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے ۔ کہتے تھے
" میری بچی اپنے آسمان کی تلاش میں سرگرداں عمرگزارو ۔ شاہین اگر زاغوں میں پل جائے تو خود کو زاغ سمجھنے لگتا ہے ۔
زاغ شاہین کا اثر کبھی قبول نہیں کرتے کیونکہ انکے پروں میں بلند پروازی کی طاقت ہی نہیں ہوتی ۔ انکی زندگی سخت کوشی سے تعبیر نہیں ہوتی وہ دوسروں کے پھینکے گئے ٹکڑوں پہ گزارا کر لیتے ہیں ۔ وہ شاہین سے کوئی اثر اسی لیے قبول نہیں کرتے کہ بلند پروازی میں محنت ہے سخت کوشی ہے خودداری ہے غیرت ہے ۔ لیکن شاہین انکا اثرضرور قبول کر لیتا ہے ۔
وہ سمجھتا ہے کہ جب شکار زمین پہ پڑامل ہی رہا ہے تو بلند پرواز کر کے خود کو کیوں مصیبت میں ڈالا جائے ۔ لیکن وہ یہ بھول جاتا ہے کہ یہ آرام کا لقمہ اسکی صحت کے لیے زہر ثابت ہوتا ہے اور بہت جلد اسکی موت کا باعث بن جاتا ہے۔ علامہ نے کہا تھا نا
ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صُحبتِ زاغ
"
اب سنو میری جان ! ہمارے لیے کیوں ضروری ہے کہ ہم پرواز بلند کر کے آسمان کی بیکراں وسعت میں اکیلے ہو جائیں ؟؟
یہ تنہائی اولاً مشکل لگتی ہے اور یہ مشکل ضرور ہے ۔ لیکن یہ لازم بھی ہے ۔ میں نے سوچا تھا اب کے خط لکھونگی تو تمھیں بتاؤنگی کہ فلاح پانے والے کون ہیں ۔ لیکن تمھاری بے چینی اور بے قراری نے مجھے سمجھایا کہ پہلے یہ سمجھایا جائے کہ فلاح پانا ضروری کیوں ہے ؟؟
اوسط درجے کی کامیابی پہ قناعت کیوں نہ کر لی جائے ؟؟ باقی سب انسان بھی تو ہیں جو اس فلاح پانے کی دھن کے بغیر بھی زندگی گزارے جا رہے ہیں ۔
میری بچی وہ انسان جن کی سوچ کا محور و مقصد فقط انکی اپنی ذات ہے اور انکی ذات سے کسی دوسرے کو کوئی فیض نہیں ملتا بھلا ایسی بے فیض زندگی میری بیٹی کا خواب ہو سکتی ہے ؟؟
کیا میری وہی بیٹی جو ہررات مجھ سے جگنو کی کہانی سنا کرتی تھی اور لہک لہک کے شعر پڑھا کرتی تھی
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
وہ مجھ سے ایک دن یہ بھی پوچھ سکتی ہے کہ ماں ! سب اپنے لیے جیتے ہیں کیوں نہ ہم بھی انکے رنگ میں رنگ جائیں ۔ ہم ان سے دور ہو کر اکیلے ہوئے جاتے ہیں ۔
میری بچی بھلا شاہین بھی زاغوں کے غول سے دوری اور تنہائی پہ دکھی اور پریشان ہوا کرتا ہے ؟؟
وہ تو ہے ہی خلوت پسند ۔ کہ اسے اپنی جہانوں کے دریافت سے فرصت نہیں اسے اپنے لیے طیب رزق بھی ڈھونڈنا ہے ۔ جو اسکی پروازمیں کوتاہی نہ آنے دے ۔ وہ جانتا ہے کہ جس روز اس کے رزق کے دانے میں فرق آئے گا اس روز سے اسکی پرواز کی بلندی میں فرق ضرور آئے گا ۔
میری بچی ! جانتی ہو " طیب " کیا ہے ؟؟
اللہ نے اپنے نبیوں ' عوام الناس اور مومنین سے الگ الگ خطاب کر کے کہا کہ وہ طیب کھائیں ۔ ہم کہتے ہیں طیب پاک ہے ۔ پاک کیسے ہے ؟؟
میری بچی طیب رزق وہ ہے جو خوش ذائقہ ہو ' خوشبودار ہو ' خوش رنگ ہو اور حلال طریقے سے کمایا گیا ہو ۔
کیا یہ ممکن ہے کہ تمھارا نوالہ نجاست میں پڑا ملے اور تم اسے اٹھا کے اسلیے منہ میں ڈال لو کہ اکثریت ایسا کر رہی ہے ؟؟
میری بچی اسی اکثریت نے ایک دن دجال کا پیروکار بن جانا ہے کیا تب بھی تم اسی اکثریت کے گروہ میں شامل ہوناچاہو گی یا وہ تنہا شخص بننے کی آرزو کروگی کہ دجال جس کا سر اسلیے کاٹ دے گا کہ وہ اقرار کرے گا کہ میرا رب فقط اللہ ہے ؟؟
فلاح کا حصول کیوں ضروری ہے میری جان ؟
کیوں کہ فلاح پانے والے سخت کوشی و سخت جانی کو زندگی کا حصول جان کے طیب کو بدن کا جزو بناتے ہیں ۔
میری بچی !
ہے شباب اپنے لہُو کی آگ میں جلنے کا نام
سخت کوشی سے ہے تلخِ زندگانی انگبیں
میری پیاری ! یہ جو دنیا کے مالز ' شاپنگ گھر گاڑی بنگلے ہیں یہ نہایت معمولی قیمت کے ہیں ۔ یہ شاہینوں کےشایان شان نہیں ۔ شاہین کے لیے اس سے بڑھ کر کا وعدہ ہے ۔ اور اس نے اسی اعلیٰ اور بہترین محلات کے لیے جد و جہد کرنی ہے ۔ دنیا کی ساٹھ سال کی زندگی کو ایک انسان اینٹ گارے کا گھر بنانے کی خاطر کولہو کے بیل کی طرح جتا رہتا ہے ۔ اور جو زندگی ابداً ابدا ہے اسکے گھر کا کیا ؟؟
کیا میری بچی ان محلات کی آرزو نہیں رکھتی ؟؟
میری سہیلیوں کی تعداد ہمیشہ کم رہی کیونکہ وہ بھی مجھے پسند نہیں کیا کرتی تھیں ۔ لیکن جس دن میں نے زاغوں کی صحبت کو حسرت سے دیکھنا چھوڑ دیا اور پرواز پہ توجہ مرکوز کی تو آسمان کی بلندی میں اڑتےشاہینوں سے ملاقات نے مجھے خوشی اوراطمینان سے سرشار کر دیا ۔
ارتکاز کیا ہے ؟ فوکس کی ضرورت کیوں در پیش ہوتی ہے زندگی رہی میری بیٹی تو ضرور تمھیں بتانا ہے ۔
میں جانتی ہوں یہ سب باتیں ابھی تمھیں مشکل اور عجیب لگیں گی لیکن جب بھی تاریکی بڑھے گی یہ سب لفظ بڑھ کر تمھارا ہاتھ تھام لیں گے ۔
آج میرے والد زندہ نہیں لیکن انکے الفاظ زندہ ہیں میری جان ۔
اپنے ناناابو کو دعاؤں میں یادرکھنا۔ تعلیم پہ توجہ دو اور اپنے والدین کی مغفرت کی دعا کیا کرو
اللہ تمھارے دل کو مقصد پہ فوکس کرناسکھا دے آمین ۔
فقط
تمھاری اماں ۔
سمیرا امام
امامیات ( مکاتیب ) خط نمبر ۴
بیٹی کے نام ( ۳ )
پیاری بیٹی
السلام علیکم !
اللہ ہمیشہ تم پہ اپنا فضل کرے ۔ امید ہے خیریت سے ہوگی ۔
میری بچی ! زندگی میں وہ مقام آ ہی گیا جس کے لیے میں سوچا کرتی تھی کہ آخر کیسا ہوگا وہ مقام جب اپنی اولاد آپکو کٹہرے میں کھڑا کر کے آپ سے آپکی تربیت کے اصول و ضوابط پہ سوال کرے گی ۔ آپکو اور آپ کے نظریات کو اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ جانے گی ۔
ایسا ہی ایک وقت تھامیری جان جب میں نے اپنے والدین سے سوالات کیے تھے ۔ کہ کیوں وہ اپنےزمانے کی گھسی پٹی منطق کو میری زندگی پہ لاگو کرناچاہتے ہیں ۔
اس دن میرے والد نے فقط ایک بات پہ افسوس کا اظہار کیا تھا ۔ کہ شاہین بچے کو صحبتِ زاغ خراب کر گئی ۔ ان کی بات آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے ۔ کہتے تھے
" میری بچی اپنے آسمان کی تلاش میں سرگرداں عمرگزارو ۔ شاہین اگر زاغوں میں پل جائے تو خود کو زاغ سمجھنے لگتا ہے ۔
زاغ شاہین کا اثر کبھی قبول نہیں کرتے کیونکہ انکے پروں میں بلند پروازی کی طاقت ہی نہیں ہوتی ۔ انکی زندگی سخت کوشی سے تعبیر نہیں ہوتی وہ دوسروں کے پھینکے گئے ٹکڑوں پہ گزارا کر لیتے ہیں ۔ وہ شاہین سے کوئی اثر اسی لیے قبول نہیں کرتے کہ بلند پروازی میں محنت ہے سخت کوشی ہے خودداری ہے غیرت ہے ۔ لیکن شاہین انکا اثرضرور قبول کر لیتا ہے ۔
وہ سمجھتا ہے کہ جب شکار زمین پہ پڑامل ہی رہا ہے تو بلند پرواز کر کے خود کو کیوں مصیبت میں ڈالا جائے ۔ لیکن وہ یہ بھول جاتا ہے کہ یہ آرام کا لقمہ اسکی صحت کے لیے زہر ثابت ہوتا ہے اور بہت جلد اسکی موت کا باعث بن جاتا ہے۔ علامہ نے کہا تھا نا
ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صُحبتِ زاغ
"
اب سنو میری جان ! ہمارے لیے کیوں ضروری ہے کہ ہم پرواز بلند کر کے آسمان کی بیکراں وسعت میں اکیلے ہو جائیں ؟؟
یہ تنہائی اولاً مشکل لگتی ہے اور یہ مشکل ضرور ہے ۔ لیکن یہ لازم بھی ہے ۔ میں نے سوچا تھا اب کے خط لکھونگی تو تمھیں بتاؤنگی کہ فلاح پانے والے کون ہیں ۔ لیکن تمھاری بے چینی اور بے قراری نے مجھے سمجھایا کہ پہلے یہ سمجھایا جائے کہ فلاح پانا ضروری کیوں ہے ؟؟
اوسط درجے کی کامیابی پہ قناعت کیوں نہ کر لی جائے ؟؟ باقی سب انسان بھی تو ہیں جو اس فلاح پانے کی دھن کے بغیر بھی زندگی گزارے جا رہے ہیں ۔
میری بچی وہ انسان جن کی سوچ کا محور و مقصد فقط انکی اپنی ذات ہے اور انکی ذات سے کسی دوسرے کو کوئی فیض نہیں ملتا بھلا ایسی بے فیض زندگی میری بیٹی کا خواب ہو سکتی ہے ؟؟
کیا میری وہی بیٹی جو ہررات مجھ سے جگنو کی کہانی سنا کرتی تھی اور لہک لہک کے شعر پڑھا کرتی تھی
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
وہ مجھ سے ایک دن یہ بھی پوچھ سکتی ہے کہ ماں ! سب اپنے لیے جیتے ہیں کیوں نہ ہم بھی انکے رنگ میں رنگ جائیں ۔ ہم ان سے دور ہو کر اکیلے ہوئے جاتے ہیں ۔
میری بچی بھلا شاہین بھی زاغوں کے غول سے دوری اور تنہائی پہ دکھی اور پریشان ہوا کرتا ہے ؟؟
وہ تو ہے ہی خلوت پسند ۔ کہ اسے اپنی جہانوں کے دریافت سے فرصت نہیں اسے اپنے لیے طیب رزق بھی ڈھونڈنا ہے ۔ جو اسکی پروازمیں کوتاہی نہ آنے دے ۔ وہ جانتا ہے کہ جس روز اس کے رزق کے دانے میں فرق آئے گا اس روز سے اسکی پرواز کی بلندی میں فرق ضرور آئے گا ۔
میری بچی ! جانتی ہو " طیب " کیا ہے ؟؟
اللہ نے اپنے نبیوں ' عوام الناس اور مومنین سے الگ الگ خطاب کر کے کہا کہ وہ طیب کھائیں ۔ ہم کہتے ہیں طیب پاک ہے ۔ پاک کیسے ہے ؟؟
میری بچی طیب رزق وہ ہے جو خوش ذائقہ ہو ' خوشبودار ہو ' خوش رنگ ہو اور حلال طریقے سے کمایا گیا ہو ۔
کیا یہ ممکن ہے کہ تمھارا نوالہ نجاست میں پڑا ملے اور تم اسے اٹھا کے اسلیے منہ میں ڈال لو کہ اکثریت ایسا کر رہی ہے ؟؟
میری بچی اسی اکثریت نے ایک دن دجال کا پیروکار بن جانا ہے کیا تب بھی تم اسی اکثریت کے گروہ میں شامل ہوناچاہو گی یا وہ تنہا شخص بننے کی آرزو کروگی کہ دجال جس کا سر اسلیے کاٹ دے گا کہ وہ اقرار کرے گا کہ میرا رب فقط اللہ ہے ؟؟
فلاح کا حصول کیوں ضروری ہے میری جان ؟
کیوں کہ فلاح پانے والے سخت کوشی و سخت جانی کو زندگی کا حصول جان کے طیب کو بدن کا جزو بناتے ہیں ۔
میری بچی !
ہے شباب اپنے لہُو کی آگ میں جلنے کا نام
سخت کوشی سے ہے تلخِ زندگانی انگبیں
میری پیاری ! یہ جو دنیا کے مالز ' شاپنگ گھر گاڑی بنگلے ہیں یہ نہایت معمولی قیمت کے ہیں ۔ یہ شاہینوں کےشایان شان نہیں ۔ شاہین کے لیے اس سے بڑھ کر کا وعدہ ہے ۔ اور اس نے اسی اعلیٰ اور بہترین محلات کے لیے جد و جہد کرنی ہے ۔ دنیا کی ساٹھ سال کی زندگی کو ایک انسان اینٹ گارے کا گھر بنانے کی خاطر کولہو کے بیل کی طرح جتا رہتا ہے ۔ اور جو زندگی ابداً ابدا ہے اسکے گھر کا کیا ؟؟
کیا میری بچی ان محلات کی آرزو نہیں رکھتی ؟؟
میری سہیلیوں کی تعداد ہمیشہ کم رہی کیونکہ وہ بھی مجھے پسند نہیں کیا کرتی تھیں ۔ لیکن جس دن میں نے زاغوں کی صحبت کو حسرت سے دیکھنا چھوڑ دیا اور پرواز پہ توجہ مرکوز کی تو آسمان کی بلندی میں اڑتےشاہینوں سے ملاقات نے مجھے خوشی اوراطمینان سے سرشار کر دیا ۔
ارتکاز کیا ہے ؟ فوکس کی ضرورت کیوں در پیش ہوتی ہے زندگی رہی میری بیٹی تو ضرور تمھیں بتانا ہے ۔
میں جانتی ہوں یہ سب باتیں ابھی تمھیں مشکل اور عجیب لگیں گی لیکن جب بھی تاریکی بڑھے گی یہ سب لفظ بڑھ کر تمھارا ہاتھ تھام لیں گے ۔
آج میرے والد زندہ نہیں لیکن انکے الفاظ زندہ ہیں میری جان ۔
اپنے ناناابو کو دعاؤں میں یادرکھنا۔ تعلیم پہ توجہ دو اور اپنے والدین کی مغفرت کی دعا کیا کرو
اللہ تمھارے دل کو مقصد پہ فوکس کرناسکھا دے آمین ۔
فقط
تمھاری اماں ۔
سمیرا امام
امامیات (مکاتیب) ( خط نمبر۵)
میری پیاری !
سلامتی و فضل ہمیشہ تم پہ نازل ہو ۔
کبھی کبھار اپنی ہی اولاد کو وہ سب ضروری باتیں جو انکی زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہوتی ہیں ' بتاتے ہوئے انسان خود ان تمام تجربات کو جن سے وہ خود گزر چکا ہوتا ہے از سر نو یاد کرتے ہوئے تھکن سے چور ہو جاتا ہے ۔
انسانوں میں مختلف قسم کے انسان ہوتے ہیں ۔ کچھ ایسے جنہیں خود اپنی ذات پہ کسی قسم کا کوئی قابو (کنٹرول) نہیں ہوتا ۔ اور انکی ڈوریں ہمیشہ دوسروں کے ہاتھ میں رہتی ہیں ۔ وہ نہ تو اپنے دل و دماغ کو کسی ایک نکتے پہ یکجا کر پاتے ہیں نہ ہی دل یا دماغ دونوں میں سے کسی ایک کی سن لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔
اور کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں اپنی ذات پہ قابو پانے کا بہترین ہنر آتا ہے ۔ ایسے افراد کی شخصیات مکمل اور کمپوز ہوتی ہیں ۔
بچپن میں آپ سب بچے اکثر ایک کھیل کھیلا کرتے تھے ۔ ایک سادہ صفحہ لے کر اسکے بالکل وسط میں ایک نکتہ ڈالتے اور پھر سب وقت نوٹ کرتے کہ کس نے کتنی دیر تک اس نکتے پہ نظریں جمائے رکھیں ۔ جو بچہ زیادہ دیر تک نگاہوں کے ارتکاز کو ٹوٹنے نہیں دیتا تھا وہ ہی فاتح کہلاتا ۔
ایسے کھیلوں کو دماغ پہ کنٹرول حاصل کرنے والے کھیل تصور کیا جاتا تھا ۔
ارتکاز ہی وہ واحد اصول ہے میری بچی جس کی مستقل مشق سے آپ دل و دماغ دونوں کو ایک نکتے پہ یکجا کرکے مطلوبہ اہداف حاصل کر سکتے ہیں ۔
لیکن یہ ارتکاز حاصل کیسے کیا جائے گا ؟
میری پیاری بیٹی میں نے تم سے کہا تھا کہ زندگی میں فلاح بے حد ضروری ہے ۔ اور فلاح مشقت کے بعد ملنے والی نشاط انگیز کامیابی ہے ۔
میری شہزادی ! آج میں تمھیں ایک کہانی سناؤنگی ۔
گو میں بہت پڑھی لکھی خاتون نہیں لیکن تمھاری ماں ہونے کی حیثیت سے اپنی پیاری بچی کو چند ایسی کہانیاں ضرورسنانا چاہتی ہوں جنہوں نے زندگی کے سفر میں میری مٹھی میں وہ جگنو تھما دیے کہ جب اندھیرا بہت بڑھ جائے تو میں مٹھی کھول کے جگنوؤں کی روشنی سے دل بہلا سکوں۔ اور تاریکی کی بجائے وہ جگنو میری توجہ کا مرکز رہیں ۔
تو کہانی کا آغاز ہوتا ہے دنیا کے سب سے پیارے شخص سے ۔ جن کا تعلق بہترین خاندان سے تھا ۔ لیکن یتیمی و یسیری سے بھر پور بچپن گزارا ۔
اور جب اللہ نے دنیا کے اس سب سے پیارے انسان کو نبوت دی تو اُنکے گنتی کے چند ساتھی جنہوں نے انکی حقانیت کو تسلیم کیا وہ زمانے والوں کے ہاتھوں شدید تکالیف سے دوچار ہوئے ۔
پیاری بچی یہ تکلیف سہنے والے معاشرے میں خود کو بالکل ویسے ہی تنہا اور اکیلا محسوس کرتے تھے جیسے تم خود کو کرتی ہو ۔ ان لوگوں کے درمیان جو دنیا کی حُب میں مبتلا تھے ۔ جنہیں دنیا کی جاہ و حشمت ' دولت وحکمرانی عزیز تھی اور ان ہی سب چیزوں کو وہ زندگی کا مطمع نظر خیال کرتے تھے ۔ ان سب کے بیچ وہ ان سے مختلف اور اکیلے تھے ۔
ان لوگوں میں وہ چند گنے چنے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو نہ تو دولت رکھتے تھے نہ ہی سردار تھے نہ ان سب چیزوں کی محبت میں اللہ کے رسول کی اتباع کر رہے تھے وہ بھی مصائب زمانہ سے گھبرا جایا کرتے ۔
رؤسائے کفار انھیں حقارت کی نظر سے دیکھا کرتے ۔
وہ دُکھی ہوجاتے تب اللہ نے ان پیارے اصحاب کو خوش خبری دی ۔
اللہ کیسی عظیم ہستی ہے میری بچی جس نے انسانوں کے جذبات کا کیسا خیال رکھا کہ جب انھیں ضرورت تھی کہ کہیں وہ خود کو کمتر نہ سمجھنے لگیں تب اللہ نے انکا مورال بلند کر ڈالا
اور ان کو پیغام دیا ۔ کہ یہ کفار کی جاہ و حشمت یہ کامیابی نہیں ہے ۔ یہ " فلاح " نہیں ۔
بلکہ فلاح پانےوالے تو کوئی اور ہیں ۔
بھلا وہ فلاح پانے والے کون ہونگے میری بچی ؟؟ وہ تمھاری نظر میں کون ہو سکتے ہیں ؟ اور کن کوہوناچاہیے ؟
میں چاہتی ہوں جب میں تمھیں ان اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فلاح کی کہانی سناؤں تو اس سے پہلے میں تمھارا نظریہ جان لوں ۔
میری پیاری بیٹی کی نظر میں فلاح کیا ہے ؟
اور میرے رب نے کن کو فلاح پانے والے قرار دیا ؟
تھوڑے کو بہت اور تار کو خط جانو ۔ جواب جلد دینے کی کوشش کیا کرو پیاری ۔ اماں کو بیٹی کے خط کا انتظار رہتا ہے ۔
اللہ تمھیں فلاح پانے والوں میں سے کر دے آمین ۔
فقط تمھاری اماں
سمیرا امام
امامیات ( مکاتیب ) چھٹا خط
خط بنام والدہ (۲)
( فلاح کا حصول اور مشکلات )
اماں جان السلام علیکم !!
آپکا خط ملے ایک لمبا عرصہ بیت گیا ۔ آپ نے جو سوالات میرے سامنے رکھے ان سوالات کے جوابات نے میری روحانیت کو ایک عجیب سی کشمکش کا شکار کر دیا ۔ آپ نے پوچھا کہ فلاح پانے والے میری نظر میں کون ہیں ؟
مجھے آپکی سنائی گئی سبھی کہانیاں یاد آکے رہ گئیں اماں !
لیکن اسباق یاد کرنا الگ بات ہے اور ان پہ عمل پیرا ہونا الگ
ہر فردِ واحد زندگی کے اپنے سفر سے گزرتا ہے اور ہر ایک کی زندگی کے چیلنجز الگ ہوتے ہیں ۔
فلاح ! کامیابی ۔۔۔
اللہ نے کہا
مومن فلاح پا گئے ۔۔۔۔ بھلا کون سے مومن؟
وہ جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں ۔
وہ جو لغو سے اعراض برتتے ہیں ۔
وہ جو زکات ادا کرتے ہیں
اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔
یہی ہیں نا فلاح پانے والے اماں ؟؟
پھر تو میں شاید کبھی بھی فلاح پانے والوں میں سے نہیں ہو سکتی اماں ۔
میں تو پہلی شرط پہ ہی ناکام ہوگئی ۔ نماز قائم ہی نہیں ہو پاتی اماں تو خشوع کیسے آئے ؟؟
پتا ہے اماں ! کل ہی کی بات ہے میں اور حنیفہ مینٹل ڈس آرڈرز پہ مباحثہ کر رہے تھے ۔ حنیفہ نے کہا کہ کیا کبھی دل اور دماغ دونوں بیک وقت سرور کی کیفیت میں پائے جاتے ہیں ؟؟
اور وہ کونسا ایسا لمحہ ہوتا ہے جب انسان ecstacy کی حالت میں خود کو مخمور محسوس کرتا ہے اور اسکے دل و دماغ کا بوجھ چھٹ جاتا ہے ۔ اور وہ خود کو ہوا میں تیرتا محسوس کرتا ہے ۔
مجھے اسکا سوال سمجھنے کے لیے کچھ وقت لگا ۔
اس نے مجھے سے کہا ایسا فقط تب ممکن ہے جب انسان ڈرگز لیتا ہو ۔ لوگ نشہ فقط اس لیے کرتے ہیں کہ وہ سرور کی اس کیفیت کو پا لینا چاہتے ہیں اور feel free والی کیفیت سے گزرنے کے لیے وہ الکحل یا کسی بھی قسم کے نشے کا سہارا لیتے ہیں ۔
یہ نشہ اور بھی بہت سی چیزوں میں پایا جاتا ہے جیسے مرد عورت کا تعلق ' پیسے کو خرچ کرنے کی عیاشی ' کسی بھی انسان کی محبت میں مبتلا ہو کے اسکے ساتھ کے حصول کی خواہش ۔
لیکن حنیفہ کیا بغیر کسی بھی قسم کے نشے کی لت کے ہم اس سرور کی کیفیت سے نہیں گزر سکتے ؟؟
میرے اس سوال پہ اس نے مجھ سے ہی استفسار کیا اماں کہ کیا مجھے ان چیزوں سے دوری پہ رہ کے کبھی دل و دماغ کے اس سرور کی کیفیت سے سامنا ہوا ؟
اور مجھے اپنی کیفیات یاد تھیں ۔ وہی کیفیات جب انسان سمجھتا ہے کہ اس ے معراج کی منزل پا لی ۔ وہ آسمان کی بلندیوں کو چھو آیا ۔ مجھ جیسے لوگ جنھیں تھوڑے پہ قناعت کرنا نہیں آتا اماں بلندی سے کم کسی شے پہ راضی ہو ہی نہیں پاتے ۔
ایسی ہی کیفیت جس کا حنیفہ نے تذکرہ کیا کہ دل و دماغ دونوں ہوا میں ڈولنے لگتے ہیں ۔ecstacy کی کیفیت چھا جاتی ہے اور دل پہ ایسی سکینت کا نزول ہوتا ہے کہ انسان کو لگتا ہے دنیا میں غم نام کی کوئی شے نہیں ہے ۔ بس سرور ہی سرور ہے ۔
اور یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب نماز مومن کی معراج بن جاتی ہے ۔ جب یکسوئی اور خشوع و خضوع کی وہ کیفیت حاصل ہو جاتی ہے ۔
ایسی لذت جیسے آپ اللہ سے ملاقات کر کے لوٹے ہوں ۔
دل جیسے نور اور روشنی سے بھر کر دماغ کو روشن کر دیتا ہے ۔
اور حنیفہ نے بھنویں اچکا کے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
یار تم مولوی لوگ ساری عمر کنویں کے مینڈک ہی رہتے ہو ۔
اور اماں مجھے اپنا آپ کنویں کے مینڈک ہی لگا ایک ایسی لڑکی کے سامنے جو بلند افکار کی باتیں کیا کرتی تھی ۔ جو ہر موضوع پہ بولنے کی صلاحیت سے مالامال تھی اسکے سامنے مجھے یوں لگا جیسے ہم ہر جگہ بس دینداری کے پردے میں اپنی احساس کمتری کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
ہمیں لگتا ہے کہ یہ لوگ جو دنیاوی طور پہ اتنے بہترین اتنے مکمل ہوتے ہیں ہم سے انکی یہ کامیابی دیکھی نہیں جاتی تو ہم حسد کا شکار ہو کے انھیں جہنم کے ڈراوے دیا کرتے ہیں ۔
میں اسی احساس کمتری کے زیرِ اثر شاید حنیفہ کی ڈرگز والی اصطلاح کو مان لیتی اماں ۔ لیکن آپ نے کہیں سے آکے ہاتھ تھام لیا تھا ۔ مجھے وہ کہانیاں یاد آگئی تھیں اماں اور مجھے اپنی ان کیفیات کا بھی ادراک تھا کہ جب اللہ نے نمازوں میں وہ لطف دیا کہ دل دنیا سے بے نیاز ہوا اور میں نے ecstacy کی اس کیفیت کو پورے طور پہ محسوس کیا تھا تو حنیفہ میری کیفیات کو کیسے جھٹلا سکتی ہے ۔ کیا وہ سرور کی اس منزل سے گزری ہے ؟؟
میں نے اس سے یہ سوال پوچھ ڈالا ۔
حنیفہ تم نے کبھی ڈرگز لی ہیں ؟؟
نہیں یار ۔ لیکن میں لینا چاہتی ہوں ۔ میں اس joy کو محسوس کرنا چاہتی ہوں جب آپ worldly worries سے بہت دور ہوتے ہیں ۔
جب آپ خود کو بادلوں پہ تیرتا محسوس کرتے ہیں ؟؟
حنیفہ کیا تم نے کبھی نماز پڑھی ہے ؟؟ خشوع و خضوع سے ؟؟
اوہ کم آن ۔۔
اگر ایک تجربہ زندگی میں کیا ہی نہیں تو کیے بغیر کسی بھی تجربے کو کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے حنیفہ ؟؟
تجربہ تو میں نے ڈرگز اور الکحل کا بھی نہیں کیا لیکن میں اسے مان رہی ہوں ۔
ایک چیز کو بغیر پرکھے اور جانے مان لینا اور ایک چیز کو بغیر جانے اور پرکھے جھٹلا دینا ان دونوں رویوں کی وجہ کیا ہو سکتی ہے ؟؟ کیا تعصب ؟؟ عقیدہ ؟؟ نظریہ ؟؟
اماں حنیفہ میرے سوال پہ خاموش ہو گئی ۔ لیکن اس نے مجھ سے کہا ہے کہ میں خشوع وخضوع کو ڈیفائن کروں ۔
کیسے اماں ؟؟ جب کہ خضوع و خشوع کی نمازیں زندگی میں ایک یا دو ہی رہی ہونگی ۔ جب کہ ڈرگز تو روزمرہ کی بنیاد پہ مل سکتی ہے ؟؟
میں جانتی ہوں نماز پڑھنا فرض ہے ۔ فرض ڈیوٹی ہے جسے آپ کسی حال میں نہیں چھوڑ سکتے ۔ جیسے آپ اپنا دفتر جانانہیں چھوڑتے اپنا کاروبار نہیں چھوڑتے ۔ اپنے تمام ضروری کام نہیں چھوڑتے ایسے ہی نماز بھی ہے ۔
بس پڑھنی ہے خضوع و خشوع فرض نہیں ہے اماں نماز فرض ہے ۔ لیکن اماں فلاح تو انکے لیے ہے نا جو اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع والے ہوتے ہیں ۔
فلاح کیسے حاصل ہو پھر ؟؟
کیا خضوع و خشوع کی سعادت بزور بازو مل سکتی ہے ؟؟
نہیں اماں ۔۔۔۔ مجھے اپنی نمازوں سے اب وحشت ہونے لگتی ہے ۔
دل دماغ بکھرے ' وحشت کا شکار ہی رہتے ہیں ۔ میں جب خود اس اذیت میں مبتلا ہوِ کہ میری نماز ecstacy کی کیفیت میں مبتلا نہیں کرتی تو میں حنیفہ کو کیسے سمجھا سکتی ہوں ؟؟
زندگی میں ایک آدھ مرتبہ کی نماز کہ جب واقعی دل ہلکا پھلکا ہوجاتا ہے اور دماغ سے تفکرات جھڑ جاتے ہیں کا تجربہ میں کیسے اسکے سامنے وثوق سے بیان کرسکتی ہوں اماں ؟؟
آپکے جواب کی منتظر رہونگی ۔ دعاؤں میں یاد رکھیے ۔
والسلام
آپکی بیٹی ۔
#سمیراامام
۳۰ نومبر ' ۲۰۱۹
بیٹی کے نام خط
جان سے پیاری بیٹی !
سلام عرض ہے ۔ میری پیاری بیٹی دنیا عجائب خانہ ہے ۔ اور اس عجائب خانے کی عجیب بات یہ ہے کہ تمھاری ماں ہو کر مجھے کچھ باتیں تم سے اس خط کے ذریعے کرنی پڑ رہی ہیں ۔
زندگی ایسے موڑ پہ ہے میری جان جہاں ایک ماں عجیب بے بسی محسوس کرتی ہے ۔ اپنی جوان ہوتی بچی کو معاشرے کی درندگی سے ڈرا کر خوف زدہ کر دے یا اتنانڈر بنا دے کہ وہ خود بھی بسااوقات درندہ بن جائے ۔
میری بچی میانہ روی کی راہ بڑی کھٹن ہے ۔ لیکن یہی بہترین راستہ ہے ۔ یہ وہی راستہ ہے جس کے اختتام پہ وہ منزل موجود ہے جہاں پہنچنے پر سستایا جا سکتا ہے ۔
میری بیٹی ! اس دنیا میں سر اٹھا کر جینے کا ایک چلن ہمیشہ یاد رکھنا۔ دنیا میں ہر انسان کی عزت کرنا لیکن صنفِ مخالف کے لیے اپنا ایک اصول وضع کرنا کہ ان کے اورتمھارے بیچ کھینچی گئی لائن واضح اور انمٹ ہو ۔ اس لائن کے پار تمھیں خود بھی کبھی نہیں جانا اوراس لائن کو پار کرنے کی اجازت بھی کبھی کسی کو مت دینا ۔
میری بیٹی تم عورت ہو اس بات کا اپنی طاقت بنانا اسے اپنی کمزوری کبھی مت سمجھنا۔ سر اٹھا کے جینا اور چھوٹے چھوٹے غموں پہ واویلا کبھی مت کرنا ۔ جو چیزیں تکلیف دیتی ہیں ان تکالیف کا تذکرہ اگر ہمہ وقت بہ آواز بلند کیا جاتا رہے تو وہ آپکی نفسیات پہ برے اثرات مرتب کر کے آپکوکمزور کر دیتی ہیں ۔
اگر ہم ایک گھنٹہ یہ کہتے ہوئے گزار دیں کہ گرمی ہے ۔ تو گرمی ختم نہیں ہو جاتی لیکن احساس شدت پکڑ لیتا ہے ۔ جب کہ اسی گرمی کو صبر اور خاموشی کے ساتھ گزارنے پہ اللہ آپکے دل کو تھام لیتا ہے ۔
میری بیٹی ! دنیا میں اللہ کے ماسوا کبھی کسی سے مت ڈرنا۔
تم عورت ہو اس پاک رب نے تمھیں نازک اندام بنایا لیکن یاد رکھو شیشے کا بلوریں جام ٹوٹے تو اسکا کانچ توڑنے والے ہاتھوں کو لہو لہان کر جاتا ہے ۔
جس دن تمھیں اس بات کا ادراک ہو گیا کہ تم صرف ایک خوبصورت شو پیس نہیں ہو ۔ وقت پڑنے پہ ایک تیز دھار آلہ بن سکتی ہو اس دن تم سے اپنے دشمن سے ہمیشہ کے لیے گھبرانا چھوڑ دو گی ۔
میری پیاری بیٹی ! گدھ مردار کھاتا ہے کیونکہ مردار کھانے کے لیے محنت نہیں کرنی پڑتی مشقت نہیں اٹھانی پڑتی وہ تیار مل جاتا ہے ۔لیکن شاہین شکار کر کے کھاتا ہے ۔ وہ گھات لگاتا ہے محنت کرتا ہے اڑان بھرتا ہے اور اپنی تیز نگاہوں سے شکار کی موجودگی کا یقین کرتا ہے ۔لیکن جب حملہ کرتا ہے تو ایسی مضبوط گرفت ہوتی ہے کہ شکار مر تو سکتا ہے لیکن اس شکنجے سے خود کو آزاد نہیں کروا سکتا ۔
دنیا میں جہاں بھی تم اپنے آس پاس کے گدھ نما انسانوں کو زمین پہ چھوڑ کر اونچی اڑان بھرو گی تو حسد کے مارے گدھ تمھیں فقط ایک بات سے ذلیل کرنے نیچا دکھانے کی کوشش کریں گے ۔
" بھئی آخر کو ہے تو عورت "
" ارے عورتوں کی اتنی سمجھ کہاں "
اور جو راجا گدھ ہونگے وہ اس سے بڑھ کر گندی اور غلیظ زبان کا استعمال کرتے ہوئے یہ بھول جائیں گے کہ وہ ایک عورت کےبطن سے پیداہوئے۔
ہر وہ انسان چاہے وہ مردہو یا عورت جسےانسانوں کےشرف کا پاس نہیں وہ نہ انسان کہلانے کے لائق ہے اور نہ کوئی بھی کسی بھی قسم کی صنف ۔ اسلیےمیری بچی ایسے حیوانوں کی باتوں کودرگزر کر کے اپنے فلاح کے سفر میں آگے بڑھتی جانا۔
میری بیٹی فلاح کیا ہے اس پہ انشاء اللہ اگلے خط میں تمھیں مطلع کرونگی۔
خوش رہو ۔
اللہ تمھیں ہمیشہ اپنی امان میں رکھے۔
فقط تمھاری ماں
سمیراامام
امامیات ( مکاتیب ) خط نمبر ۲
خط بنام دختر ( ۲)
جان سے پیاری !
السلام علیکم !
اب کے خط لکھنے میں تاخیر ہو گئی ۔ سردیوں کی آمد آمد ہے اور تم تو جانتی ہو اس موسم کے آغاز کے ساتھ ہی متعدد بیماریاں مجھے گھیر لیتی ہیں ۔ لیکن یقین مانو دل ہمہ وقت تم میں ہی اٹکا رہتا ہے ۔
میری بچی مجھے اس بات کا احساس ہے کہ ہر شخص زندگی میں جو بھی سیکھتا ہے اپنے تجربات سے سیکھتا ہے ۔ اپنے ہی تجربے سے سیکھ کر چیزوں کی حقیقت سمجھ میں آتی ہے ۔
دوسروں کی نصیحت ہمیں اکثر ناگوار گزرتی ہے ۔ پیاری بیٹی میرے اور تمھارے رشتے میں میں نصیحت کے بوجھ کو شامل نہیں کرنا چاہتی ۔
بس ان خطوط کے ذریعے تم سے اپنے دل کی بات کہہ دیتی ہوں ۔ اور تمھاری کہی سن لیتی ہوں ۔جیسے دو سکھی سہیلیاں آپس میں بیٹھ کر کہہ سن لیا کرتی ہیں ۔
پچھلے خط میں تم سے " فلاح " کا تذکرہ کیا تھا ۔ میں اکثر سوچا کرتی تھی کہ اللہ ہم سے بار بار فلاح کی بات کیوں کرتے ہیں ۔ اور آخر انسان کی فلاح ہے کیا ۔
دنیا کے چلن کو دیکھا تو یوں محسوس ہوا کہ وہ انسان جس نے اچھا کمایا اچھا پہنا اوڑھا اچھا کھایا بہتر گھر گاڑی زندگی کی سہولیات سے مزین ہوا دنیا نے اسے کامیاب انسان کے لقب سے نوازا ۔
لیکن ایسی کامیابی بھی مجھے بے چینی میں مبتلا کر دیتی۔ زندگی گزارنے کے لیے ان تمام لوازمات کا ہونا ازحد ضروری ہے ۔ لیکن کیا یہی لوازمات فلاح کا بھی باعث ہیں ۔
ہر متجسس بچے کے اندر سوالات کے جوار بھاٹا اٹھتے ہیں ۔ میں بھی متجسس رہی ۔ بالکل ایسی ہی جیسی اب تم ہو ۔
سوالات کرتی اپنی گول آنکھوں کو تم جب مزید گول گول گھماتی تو مجھے اپنا بچپن یاد آکے رہ جاتا ۔
ایک دن لغت میں فلاح کے معنی مل گئے۔
فلاح کسان کو کہتے ہیں۔
کیسی عجیب بات تھی کہ کامیابی کی مثال کسان کو مدنظر رکھ کر دی جا رہی تھی ۔
کسان کی زندگی پہ غور کیا تو جیسےالگ ہی دنیا وا ہو گئی ۔
زندگی کو با مقصد اور با معنی بنانے کے لیے ہمیں کسان کے فلسفہ حیات پہ غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
کسان زمین کو پانی لگا کر نرم کرتا ہے ۔ پھر زمین کی گوڈی کر کے اس میں بیج بوتا ہے ۔
" بیج " جو زمین کے اندر چھپ جاتا ہے ۔ کسان آس اور امید کو قائم رکھتا ہے کہ اس زمین کے اندر سے ضرور بالضرور کونپل پھوٹے گی ۔ ہم انسان ذرا دیر اندھیرے میں آجائیں یا ذرا سی دیر کو بھی کسی شے کی حقیقت ہم سے چھپی رہے تو ہم ہزار گمان کر ڈالتے ہیں ۔ اور اپنے کئے گئے گمانوں سے ہی مایوس ہونے لگتے ہیں ۔ لیکن کسان ہمیشہ بیج بونے کے بعد اللہ کی رحمت سے پر امید رہتا ہے ۔
اور ایک دن اس بیج سے کونپل پھوٹ نکلتی ہے ۔ ننھا پودا فصل بننے تک جن مراحل سے گزرتا ہے ان تمام مرحلوں میں کسان کی ہمت عزم اور محنت ہر لمحہ شامل رہتی ہے ۔
اوراس تمام مشقت کےبعد فصل کی صورت اسے اپنی محنت کا صلہ مل جاتا ہے جو اسے خوشی اور آسودگی سے نہال کر دیتا ہے۔
تو میری بچی جان لو کہ فلاح وہ کامیابی ہے جوکڑی محنت اور سخت مشقت کےبعدملتی ہے ۔ لیکن جب مل جاتی ہے تو انسان کو مطمئن ' آسودہ اور خوشحال کر دیتی ہے ۔
فلاح کے معنی تو جان لیے تھے اب یہ سمجھنا باقی تھا کہ فلاح پا لینے والے کون لوگ ہیں۔
جس دن انکو جان لیا مانو ایک طلسم ہوشربا کھل گئی تھی۔ زندگی رہی تو کبھی تمھیں ضرور بتاؤنگی کہ فلاح پا لینے والے کون ہیں۔
ابھی کے لیے تو فقط یہ جان لو کہ جو کامیابی پلیٹ میں رکھ کر مل جائے اسے کافی مت جاننا۔
یاد رکھنا کہ جس شے کے حصول کے لیے تم نے اپنا خون پسینہ بہایا ہوگا اس شے کا مل جانا نہ صرف الوہی خوشی سے ہمکنار کرتا بلکہ طمانیت ' اپنی ذات پہ اعتماد اور محنت کی عظمت سے آگاہ بھی کرتا ہے ۔
اپنا خیال رکھنا ۔ خالہ اور بڑے ماموں کو سلام کہنا
والسلام
تمھاری والدہ
سمیرا امام
۵ نومبر ۲۰۱۹
امامیات ( مکاتیب ) خط نمبر ۳
پیاری اماں کے لیے خط (۱)
پیاری اماں !
السلام علیکم !
اماں ! آپ نے میری خیریت پوچھی تھی اور اس خیریت کے جواب میں میرا دل چاہتا ہے کہ بس کچھ دیر کے لیے اڑ کر آپکے پاس آجاؤں اور آپ مجھے اپنی آغوش میں چھپا لیں ۔
اماں ! مجھے لگتا ہے آپ بہت ظالم ماں ہیں ۔ جیسے ہی میں یہ سوچتی ہوں کہ آپ ظالم ماں ہیں اسی وقت مجھے یہ خیال بھی آتا ہے کہ شاید میں ایک فرماں بردار بیٹی نہیں ۔
اپنے گھر سے دور ایک انجان شہر انجان لوگوں میں رہتے ہوئے جب میں آپکے اونچے آدرشوں بھرے خط پڑھتی ہوں تو گھٹن کا احساس بڑھنے لگتا ہے ۔
پیاری اماں ! آپ کو سوچوں تو لگتا ہے جو آپ کہتی ہیں وہی درست ہے اور دنیا کاچلن دیکھوں تو یہی درست لگتا ہے ۔
میری دوستیں مجھے کچھ زیادہ پسند نہیں کرتیں انکا خیال ہے کہ میں بہت زیادہ " آؤٹ ڈیٹڈ " ہوں ۔ اور مجھے زندگی گزارنے کا چلن نہیں آتا ۔ وہ کہتی ہیں یہی وقت ہے زندگی سے لطف اٹھانے کا ۔ chill کرو
اور میں جو خود بھی chill کرنا چاہتی ہوں مجھے اس chill کا طریقہ ہی نہیں آتا ۔ مجھے لگتا ہے میں اپنی دنیا کے انسانوں جیسی نہیں ہوں ۔ آپ کی باتیں خوب صورت ہیں لیکن ان پہ عمل کرنا بے حد مشکل ہے ۔ میں ان سب باتوں کو اپنانا چاہتی ہوں لیکن انکو اپنانے کے چکر میں میں اپنے مدار میں تنہا رہ جاتی ہوں ۔
جب میں اپنے اردگرد دیکھتی ہوں سب اس دائرے سے نکل کر دور جا چکے ہوتے ہیں ۔ اور میں وہیں کہیں اس دائرے کے اندر موجود اکیلی کھڑی خود سے دور جانے والوں کو تکا کرتی ہوں ۔
آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ تعلیم کو زندگی کا محور ومقصد سمجھنا ۔ اورمقصدپہ فوکس رکھنا ۔
اماں ! مجھے لگتا ہے میں نہ تو زندگی پہ فوکس قائم رکھ پا رہی ہوں نہ ہی مقصد پہ ۔
اور مجھے ان سب امتحانوں سے نبٹنے کا طریقہ بھی شاید نہیں آتا ۔
کل میں اپنی دوستوں کے ساتھ سردیوں کے لیے کچھ ضروری اشیاء کی خریداری کرنے ایک قریبی مال گئی ۔
جانے کتنی دیر وہ سب وہاں گھومتی رہیں ۔ کتنے کپڑے انکے شایانِ شان نہیں تھے اور کتنے ہی جوڑوں کو انھوں نے اپنے قابل سمجھا ۔ رنگ و بو کا ایک سیلاب تھا جس میں وہ خوش تھیں چہلیں کرتی اسے زندگی سے لطف اٹھانا خیال کرتی تھیں ۔
اور میں سوچ رہی تھی کہ کسی دن اماں سے سوال ضرور پوچھونگی کہ آخر یہ اونچی اڑان اڑتے شاہین کس برانڈ کو زیادہ پسند کرتے ہیں ۔
اماں ! یہ پرندے کیسے خوش نصیب ہیں نا انکی فکروں اور ہمارے تفکرات میں کیسا واضح فرق ہے ۔ وہ جانتے ہیں انکے اہداف کیا ہیں ۔ جب کہ ہم آئے روز اپنے لیے کسی نئے ہدف ( goal ) کو پسند کرتے ہیں ۔ ہمارے اندر یہ خیر وشر کی جنگ بڑی تکلیف دہ ہے اماں ۔ اس جنگ کو لڑنا اور اس میں فتح یاب ہونا بے حد مشکل ۔ تبھی آپکی باتیں میری گھٹن بڑھا دیتی ہیں ۔
خود جنگ لڑنا اور کسی سے جنگ لڑنےکا کہنا دو الگ الگ باتیں ہیں پیاری ماں ۔ مجھے لگتا ہے شاید میں اس جنگ کی فاتح نہیں بن پاؤنگی ۔ کیا آپ اپنی شکست خوردہ بیٹی کی شکست تسلیم کر لیں گی ؟؟
وہی بیٹی اماں جو رات کو اپنی دوستوں سے کہتی ہے آج ہم نے پورا دن بے مقصد گزارا ۔ جانے کتنے گھنٹے تن بدن کے سنوارنے سجانے کے اوزاروں کی دیکھ بھال میں گزارے ۔ اور کتنے ہی فتنوں کا شکار ہوئے ۔ تو وہ مجھ سے ناراض ہو گئیں ۔ اب بھی ناراض ہیں ۔
پیاری اماں ! اکیلے زندگی گزارنا بے حد مشکل ہے ۔ میرا جی چاہتا ہے میں اپنی ان ہی سہیلیوں کے رنگ میں رنگ جاؤں ۔ کہ جب میں انکی نظروں میں اپنے لیے طنزیہ ہنسی دیکھتی ہوں تو مجھے نہایت شرمندگی ہوتی ہے ۔ مجھے لگتا ہے یہ سب جو کہتی ہیں اسے مان کر مجھے انکی محبت اور پسندیدگی مل جائے گی ۔
پیاری اماں زندگی میں اپنی ذات کو ڈگمگانے سے بچا لینے کا ڈھنگ ابھی شاید میں سیکھ رہی ہوں ۔ اور یہ ایک مشکل اور تکلیف دہ امر ہے۔
امید ہے آپ کی زندگی میں وہ کمزور لمحات ضرور آئے ہونگے جب بلند پروازی سے تھک کر گر جانے کو جی چاہتا ہے ۔ جب آپ کو لگا ہو کے دنیا میں کتنی مخلوق ایسی ہے جو بلند پرواز نہیں لیکن اسی دنیا کا حصہ ہے اور بہت آرام اور سکون سے زندگی گزارے جا رہی ہے ۔ پھر آخر ان آسمانوں کی وسعتیں چھو لینے والوں کے وجود میں بھرے پارے کے کیا معنی ہیں ۔ یہ کیونکر اپنے بازوؤں کی تمام قوت کو بروئے کار لائے خود کو مشقت کی چکی میں پیستے چلے جاتے ہیں ۔
پیاری اماں فلاح مشقت کے بعد ملنے والی کامیابی ہے ۔ اس فلاح کا حصول کیونکر ممکن ہے ؟؟
اور کامیابی کے شارٹ کٹ آخر کیوں نہیں ہوا کرتے ؟؟
یہ فلاح اس قدر مشکل کیوں ہے ؟؟
جوابات کی منتظر
آپکی بیٹی ۔
سمیرا امام
۶ نومبر ' ۲۰۱۹
امامیات ( مکاتیب ) خط نمبر ۴
بیٹی کے نام ( ۳ )
پیاری بیٹی
السلام علیکم !
اللہ ہمیشہ تم پہ اپنا فضل کرے ۔ امید ہے خیریت سے ہوگی ۔
میری بچی ! زندگی میں وہ مقام آ ہی گیا جس کے لیے میں سوچا کرتی تھی کہ آخر کیسا ہوگا وہ مقام جب اپنی اولاد آپکو کٹہرے میں کھڑا کر کے آپ سے آپکی تربیت کے اصول و ضوابط پہ سوال کرے گی ۔ آپکو اور آپ کے نظریات کو اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ جانے گی ۔
ایسا ہی ایک وقت تھامیری جان جب میں نے اپنے والدین سے سوالات کیے تھے ۔ کہ کیوں وہ اپنےزمانے کی گھسی پٹی منطق کو میری زندگی پہ لاگو کرناچاہتے ہیں ۔
اس دن میرے والد نے فقط ایک بات پہ افسوس کا اظہار کیا تھا ۔ کہ شاہین بچے کو صحبتِ زاغ خراب کر گئی ۔ ان کی بات آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے ۔ کہتے تھے
" میری بچی اپنے آسمان کی تلاش میں سرگرداں عمرگزارو ۔ شاہین اگر زاغوں میں پل جائے تو خود کو زاغ سمجھنے لگتا ہے ۔
زاغ شاہین کا اثر کبھی قبول نہیں کرتے کیونکہ انکے پروں میں بلند پروازی کی طاقت ہی نہیں ہوتی ۔ انکی زندگی سخت کوشی سے تعبیر نہیں ہوتی وہ دوسروں کے پھینکے گئے ٹکڑوں پہ گزارا کر لیتے ہیں ۔ وہ شاہین سے کوئی اثر اسی لیے قبول نہیں کرتے کہ بلند پروازی میں محنت ہے سخت کوشی ہے خودداری ہے غیرت ہے ۔ لیکن شاہین انکا اثرضرور قبول کر لیتا ہے ۔
وہ سمجھتا ہے کہ جب شکار زمین پہ پڑامل ہی رہا ہے تو بلند پرواز کر کے خود کو کیوں مصیبت میں ڈالا جائے ۔ لیکن وہ یہ بھول جاتا ہے کہ یہ آرام کا لقمہ اسکی صحت کے لیے زہر ثابت ہوتا ہے اور بہت جلد اسکی موت کا باعث بن جاتا ہے۔ علامہ نے کہا تھا نا
ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صُحبتِ زاغ
"
اب سنو میری جان ! ہمارے لیے کیوں ضروری ہے کہ ہم پرواز بلند کر کے آسمان کی بیکراں وسعت میں اکیلے ہو جائیں ؟؟
یہ تنہائی اولاً مشکل لگتی ہے اور یہ مشکل ضرور ہے ۔ لیکن یہ لازم بھی ہے ۔ میں نے سوچا تھا اب کے خط لکھونگی تو تمھیں بتاؤنگی کہ فلاح پانے والے کون ہیں ۔ لیکن تمھاری بے چینی اور بے قراری نے مجھے سمجھایا کہ پہلے یہ سمجھایا جائے کہ فلاح پانا ضروری کیوں ہے ؟؟
اوسط درجے کی کامیابی پہ قناعت کیوں نہ کر لی جائے ؟؟ باقی سب انسان بھی تو ہیں جو اس فلاح پانے کی دھن کے بغیر بھی زندگی گزارے جا رہے ہیں ۔
میری بچی وہ انسان جن کی سوچ کا محور و مقصد فقط انکی اپنی ذات ہے اور انکی ذات سے کسی دوسرے کو کوئی فیض نہیں ملتا بھلا ایسی بے فیض زندگی میری بیٹی کا خواب ہو سکتی ہے ؟؟
کیا میری وہی بیٹی جو ہررات مجھ سے جگنو کی کہانی سنا کرتی تھی اور لہک لہک کے شعر پڑھا کرتی تھی
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
وہ مجھ سے ایک دن یہ بھی پوچھ سکتی ہے کہ ماں ! سب اپنے لیے جیتے ہیں کیوں نہ ہم بھی انکے رنگ میں رنگ جائیں ۔ ہم ان سے دور ہو کر اکیلے ہوئے جاتے ہیں ۔
میری بچی بھلا شاہین بھی زاغوں کے غول سے دوری اور تنہائی پہ دکھی اور پریشان ہوا کرتا ہے ؟؟
وہ تو ہے ہی خلوت پسند ۔ کہ اسے اپنی جہانوں کے دریافت سے فرصت نہیں اسے اپنے لیے طیب رزق بھی ڈھونڈنا ہے ۔ جو اسکی پروازمیں کوتاہی نہ آنے دے ۔ وہ جانتا ہے کہ جس روز اس کے رزق کے دانے میں فرق آئے گا اس روز سے اسکی پرواز کی بلندی میں فرق ضرور آئے گا ۔
میری بچی ! جانتی ہو " طیب " کیا ہے ؟؟
اللہ نے اپنے نبیوں ' عوام الناس اور مومنین سے الگ الگ خطاب کر کے کہا کہ وہ طیب کھائیں ۔ ہم کہتے ہیں طیب پاک ہے ۔ پاک کیسے ہے ؟؟
میری بچی طیب رزق وہ ہے جو خوش ذائقہ ہو ' خوشبودار ہو ' خوش رنگ ہو اور حلال طریقے سے کمایا گیا ہو ۔
کیا یہ ممکن ہے کہ تمھارا نوالہ نجاست میں پڑا ملے اور تم اسے اٹھا کے اسلیے منہ میں ڈال لو کہ اکثریت ایسا کر رہی ہے ؟؟
میری بچی اسی اکثریت نے ایک دن دجال کا پیروکار بن جانا ہے کیا تب بھی تم اسی اکثریت کے گروہ میں شامل ہوناچاہو گی یا وہ تنہا شخص بننے کی آرزو کروگی کہ دجال جس کا سر اسلیے کاٹ دے گا کہ وہ اقرار کرے گا کہ میرا رب فقط اللہ ہے ؟؟
فلاح کا حصول کیوں ضروری ہے میری جان ؟
کیوں کہ فلاح پانے والے سخت کوشی و سخت جانی کو زندگی کا حصول جان کے طیب کو بدن کا جزو بناتے ہیں ۔
میری بچی !
ہے شباب اپنے لہُو کی آگ میں جلنے کا نام
سخت کوشی سے ہے تلخِ زندگانی انگبیں
میری پیاری ! یہ جو دنیا کے مالز ' شاپنگ گھر گاڑی بنگلے ہیں یہ نہایت معمولی قیمت کے ہیں ۔ یہ شاہینوں کےشایان شان نہیں ۔ شاہین کے لیے اس سے بڑھ کر کا وعدہ ہے ۔ اور اس نے اسی اعلیٰ اور بہترین محلات کے لیے جد و جہد کرنی ہے ۔ دنیا کی ساٹھ سال کی زندگی کو ایک انسان اینٹ گارے کا گھر بنانے کی خاطر کولہو کے بیل کی طرح جتا رہتا ہے ۔ اور جو زندگی ابداً ابدا ہے اسکے گھر کا کیا ؟؟
کیا میری بچی ان محلات کی آرزو نہیں رکھتی ؟؟
میری سہیلیوں کی تعداد ہمیشہ کم رہی کیونکہ وہ بھی مجھے پسند نہیں کیا کرتی تھیں ۔ لیکن جس دن میں نے زاغوں کی صحبت کو حسرت سے دیکھنا چھوڑ دیا اور پرواز پہ توجہ مرکوز کی تو آسمان کی بلندی میں اڑتےشاہینوں سے ملاقات نے مجھے خوشی اوراطمینان سے سرشار کر دیا ۔
ارتکاز کیا ہے ؟ فوکس کی ضرورت کیوں در پیش ہوتی ہے زندگی رہی میری بیٹی تو ضرور تمھیں بتانا ہے ۔
میں جانتی ہوں یہ سب باتیں ابھی تمھیں مشکل اور عجیب لگیں گی لیکن جب بھی تاریکی بڑھے گی یہ سب لفظ بڑھ کر تمھارا ہاتھ تھام لیں گے ۔
آج میرے والد زندہ نہیں لیکن انکے الفاظ زندہ ہیں میری جان ۔
اپنے ناناابو کو دعاؤں میں یادرکھنا۔ تعلیم پہ توجہ دو اور اپنے والدین کی مغفرت کی دعا کیا کرو
اللہ تمھارے دل کو مقصد پہ فوکس کرناسکھا دے آمین ۔
فقط
تمھاری اماں ۔
سمیرا امام
امامیات ( مکاتیب ) خط نمبر ۴
بیٹی کے نام ( ۳ )
پیاری بیٹی
السلام علیکم !
اللہ ہمیشہ تم پہ اپنا فضل کرے ۔ امید ہے خیریت سے ہوگی ۔
میری بچی ! زندگی میں وہ مقام آ ہی گیا جس کے لیے میں سوچا کرتی تھی کہ آخر کیسا ہوگا وہ مقام جب اپنی اولاد آپکو کٹہرے میں کھڑا کر کے آپ سے آپکی تربیت کے اصول و ضوابط پہ سوال کرے گی ۔ آپکو اور آپ کے نظریات کو اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ جانے گی ۔
ایسا ہی ایک وقت تھامیری جان جب میں نے اپنے والدین سے سوالات کیے تھے ۔ کہ کیوں وہ اپنےزمانے کی گھسی پٹی منطق کو میری زندگی پہ لاگو کرناچاہتے ہیں ۔
اس دن میرے والد نے فقط ایک بات پہ افسوس کا اظہار کیا تھا ۔ کہ شاہین بچے کو صحبتِ زاغ خراب کر گئی ۔ ان کی بات آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے ۔ کہتے تھے
" میری بچی اپنے آسمان کی تلاش میں سرگرداں عمرگزارو ۔ شاہین اگر زاغوں میں پل جائے تو خود کو زاغ سمجھنے لگتا ہے ۔
زاغ شاہین کا اثر کبھی قبول نہیں کرتے کیونکہ انکے پروں میں بلند پروازی کی طاقت ہی نہیں ہوتی ۔ انکی زندگی سخت کوشی سے تعبیر نہیں ہوتی وہ دوسروں کے پھینکے گئے ٹکڑوں پہ گزارا کر لیتے ہیں ۔ وہ شاہین سے کوئی اثر اسی لیے قبول نہیں کرتے کہ بلند پروازی میں محنت ہے سخت کوشی ہے خودداری ہے غیرت ہے ۔ لیکن شاہین انکا اثرضرور قبول کر لیتا ہے ۔
وہ سمجھتا ہے کہ جب شکار زمین پہ پڑامل ہی رہا ہے تو بلند پرواز کر کے خود کو کیوں مصیبت میں ڈالا جائے ۔ لیکن وہ یہ بھول جاتا ہے کہ یہ آرام کا لقمہ اسکی صحت کے لیے زہر ثابت ہوتا ہے اور بہت جلد اسکی موت کا باعث بن جاتا ہے۔ علامہ نے کہا تھا نا
ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صُحبتِ زاغ
"
اب سنو میری جان ! ہمارے لیے کیوں ضروری ہے کہ ہم پرواز بلند کر کے آسمان کی بیکراں وسعت میں اکیلے ہو جائیں ؟؟
یہ تنہائی اولاً مشکل لگتی ہے اور یہ مشکل ضرور ہے ۔ لیکن یہ لازم بھی ہے ۔ میں نے سوچا تھا اب کے خط لکھونگی تو تمھیں بتاؤنگی کہ فلاح پانے والے کون ہیں ۔ لیکن تمھاری بے چینی اور بے قراری نے مجھے سمجھایا کہ پہلے یہ سمجھایا جائے کہ فلاح پانا ضروری کیوں ہے ؟؟
اوسط درجے کی کامیابی پہ قناعت کیوں نہ کر لی جائے ؟؟ باقی سب انسان بھی تو ہیں جو اس فلاح پانے کی دھن کے بغیر بھی زندگی گزارے جا رہے ہیں ۔
میری بچی وہ انسان جن کی سوچ کا محور و مقصد فقط انکی اپنی ذات ہے اور انکی ذات سے کسی دوسرے کو کوئی فیض نہیں ملتا بھلا ایسی بے فیض زندگی میری بیٹی کا خواب ہو سکتی ہے ؟؟
کیا میری وہی بیٹی جو ہررات مجھ سے جگنو کی کہانی سنا کرتی تھی اور لہک لہک کے شعر پڑھا کرتی تھی
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
وہ مجھ سے ایک دن یہ بھی پوچھ سکتی ہے کہ ماں ! سب اپنے لیے جیتے ہیں کیوں نہ ہم بھی انکے رنگ میں رنگ جائیں ۔ ہم ان سے دور ہو کر اکیلے ہوئے جاتے ہیں ۔
میری بچی بھلا شاہین بھی زاغوں کے غول سے دوری اور تنہائی پہ دکھی اور پریشان ہوا کرتا ہے ؟؟
وہ تو ہے ہی خلوت پسند ۔ کہ اسے اپنی جہانوں کے دریافت سے فرصت نہیں اسے اپنے لیے طیب رزق بھی ڈھونڈنا ہے ۔ جو اسکی پروازمیں کوتاہی نہ آنے دے ۔ وہ جانتا ہے کہ جس روز اس کے رزق کے دانے میں فرق آئے گا اس روز سے اسکی پرواز کی بلندی میں فرق ضرور آئے گا ۔
میری بچی ! جانتی ہو " طیب " کیا ہے ؟؟
اللہ نے اپنے نبیوں ' عوام الناس اور مومنین سے الگ الگ خطاب کر کے کہا کہ وہ طیب کھائیں ۔ ہم کہتے ہیں طیب پاک ہے ۔ پاک کیسے ہے ؟؟
میری بچی طیب رزق وہ ہے جو خوش ذائقہ ہو ' خوشبودار ہو ' خوش رنگ ہو اور حلال طریقے سے کمایا گیا ہو ۔
کیا یہ ممکن ہے کہ تمھارا نوالہ نجاست میں پڑا ملے اور تم اسے اٹھا کے اسلیے منہ میں ڈال لو کہ اکثریت ایسا کر رہی ہے ؟؟
میری بچی اسی اکثریت نے ایک دن دجال کا پیروکار بن جانا ہے کیا تب بھی تم اسی اکثریت کے گروہ میں شامل ہوناچاہو گی یا وہ تنہا شخص بننے کی آرزو کروگی کہ دجال جس کا سر اسلیے کاٹ دے گا کہ وہ اقرار کرے گا کہ میرا رب فقط اللہ ہے ؟؟
فلاح کا حصول کیوں ضروری ہے میری جان ؟
کیوں کہ فلاح پانے والے سخت کوشی و سخت جانی کو زندگی کا حصول جان کے طیب کو بدن کا جزو بناتے ہیں ۔
میری بچی !
ہے شباب اپنے لہُو کی آگ میں جلنے کا نام
سخت کوشی سے ہے تلخِ زندگانی انگبیں
میری پیاری ! یہ جو دنیا کے مالز ' شاپنگ گھر گاڑی بنگلے ہیں یہ نہایت معمولی قیمت کے ہیں ۔ یہ شاہینوں کےشایان شان نہیں ۔ شاہین کے لیے اس سے بڑھ کر کا وعدہ ہے ۔ اور اس نے اسی اعلیٰ اور بہترین محلات کے لیے جد و جہد کرنی ہے ۔ دنیا کی ساٹھ سال کی زندگی کو ایک انسان اینٹ گارے کا گھر بنانے کی خاطر کولہو کے بیل کی طرح جتا رہتا ہے ۔ اور جو زندگی ابداً ابدا ہے اسکے گھر کا کیا ؟؟
کیا میری بچی ان محلات کی آرزو نہیں رکھتی ؟؟
میری سہیلیوں کی تعداد ہمیشہ کم رہی کیونکہ وہ بھی مجھے پسند نہیں کیا کرتی تھیں ۔ لیکن جس دن میں نے زاغوں کی صحبت کو حسرت سے دیکھنا چھوڑ دیا اور پرواز پہ توجہ مرکوز کی تو آسمان کی بلندی میں اڑتےشاہینوں سے ملاقات نے مجھے خوشی اوراطمینان سے سرشار کر دیا ۔
ارتکاز کیا ہے ؟ فوکس کی ضرورت کیوں در پیش ہوتی ہے زندگی رہی میری بیٹی تو ضرور تمھیں بتانا ہے ۔
میں جانتی ہوں یہ سب باتیں ابھی تمھیں مشکل اور عجیب لگیں گی لیکن جب بھی تاریکی بڑھے گی یہ سب لفظ بڑھ کر تمھارا ہاتھ تھام لیں گے ۔
آج میرے والد زندہ نہیں لیکن انکے الفاظ زندہ ہیں میری جان ۔
اپنے ناناابو کو دعاؤں میں یادرکھنا۔ تعلیم پہ توجہ دو اور اپنے والدین کی مغفرت کی دعا کیا کرو
اللہ تمھارے دل کو مقصد پہ فوکس کرناسکھا دے آمین ۔
فقط
تمھاری اماں ۔
سمیرا امام
امامیات (مکاتیب) ( خط نمبر۵)
میری پیاری !
سلامتی و فضل ہمیشہ تم پہ نازل ہو ۔
کبھی کبھار اپنی ہی اولاد کو وہ سب ضروری باتیں جو انکی زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہوتی ہیں ' بتاتے ہوئے انسان خود ان تمام تجربات کو جن سے وہ خود گزر چکا ہوتا ہے از سر نو یاد کرتے ہوئے تھکن سے چور ہو جاتا ہے ۔
انسانوں میں مختلف قسم کے انسان ہوتے ہیں ۔ کچھ ایسے جنہیں خود اپنی ذات پہ کسی قسم کا کوئی قابو (کنٹرول) نہیں ہوتا ۔ اور انکی ڈوریں ہمیشہ دوسروں کے ہاتھ میں رہتی ہیں ۔ وہ نہ تو اپنے دل و دماغ کو کسی ایک نکتے پہ یکجا کر پاتے ہیں نہ ہی دل یا دماغ دونوں میں سے کسی ایک کی سن لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔
اور کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں اپنی ذات پہ قابو پانے کا بہترین ہنر آتا ہے ۔ ایسے افراد کی شخصیات مکمل اور کمپوز ہوتی ہیں ۔
بچپن میں آپ سب بچے اکثر ایک کھیل کھیلا کرتے تھے ۔ ایک سادہ صفحہ لے کر اسکے بالکل وسط میں ایک نکتہ ڈالتے اور پھر سب وقت نوٹ کرتے کہ کس نے کتنی دیر تک اس نکتے پہ نظریں جمائے رکھیں ۔ جو بچہ زیادہ دیر تک نگاہوں کے ارتکاز کو ٹوٹنے نہیں دیتا تھا وہ ہی فاتح کہلاتا ۔
ایسے کھیلوں کو دماغ پہ کنٹرول حاصل کرنے والے کھیل تصور کیا جاتا تھا ۔
ارتکاز ہی وہ واحد اصول ہے میری بچی جس کی مستقل مشق سے آپ دل و دماغ دونوں کو ایک نکتے پہ یکجا کرکے مطلوبہ اہداف حاصل کر سکتے ہیں ۔
لیکن یہ ارتکاز حاصل کیسے کیا جائے گا ؟
میری پیاری بیٹی میں نے تم سے کہا تھا کہ زندگی میں فلاح بے حد ضروری ہے ۔ اور فلاح مشقت کے بعد ملنے والی نشاط انگیز کامیابی ہے ۔
میری شہزادی ! آج میں تمھیں ایک کہانی سناؤنگی ۔
گو میں بہت پڑھی لکھی خاتون نہیں لیکن تمھاری ماں ہونے کی حیثیت سے اپنی پیاری بچی کو چند ایسی کہانیاں ضرورسنانا چاہتی ہوں جنہوں نے زندگی کے سفر میں میری مٹھی میں وہ جگنو تھما دیے کہ جب اندھیرا بہت بڑھ جائے تو میں مٹھی کھول کے جگنوؤں کی روشنی سے دل بہلا سکوں۔ اور تاریکی کی بجائے وہ جگنو میری توجہ کا مرکز رہیں ۔
تو کہانی کا آغاز ہوتا ہے دنیا کے سب سے پیارے شخص سے ۔ جن کا تعلق بہترین خاندان سے تھا ۔ لیکن یتیمی و یسیری سے بھر پور بچپن گزارا ۔
اور جب اللہ نے دنیا کے اس سب سے پیارے انسان کو نبوت دی تو اُنکے گنتی کے چند ساتھی جنہوں نے انکی حقانیت کو تسلیم کیا وہ زمانے والوں کے ہاتھوں شدید تکالیف سے دوچار ہوئے ۔
پیاری بچی یہ تکلیف سہنے والے معاشرے میں خود کو بالکل ویسے ہی تنہا اور اکیلا محسوس کرتے تھے جیسے تم خود کو کرتی ہو ۔ ان لوگوں کے درمیان جو دنیا کی حُب میں مبتلا تھے ۔ جنہیں دنیا کی جاہ و حشمت ' دولت وحکمرانی عزیز تھی اور ان ہی سب چیزوں کو وہ زندگی کا مطمع نظر خیال کرتے تھے ۔ ان سب کے بیچ وہ ان سے مختلف اور اکیلے تھے ۔
ان لوگوں میں وہ چند گنے چنے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو نہ تو دولت رکھتے تھے نہ ہی سردار تھے نہ ان سب چیزوں کی محبت میں اللہ کے رسول کی اتباع کر رہے تھے وہ بھی مصائب زمانہ سے گھبرا جایا کرتے ۔
رؤسائے کفار انھیں حقارت کی نظر سے دیکھا کرتے ۔
وہ دُکھی ہوجاتے تب اللہ نے ان پیارے اصحاب کو خوش خبری دی ۔
اللہ کیسی عظیم ہستی ہے میری بچی جس نے انسانوں کے جذبات کا کیسا خیال رکھا کہ جب انھیں ضرورت تھی کہ کہیں وہ خود کو کمتر نہ سمجھنے لگیں تب اللہ نے انکا مورال بلند کر ڈالا
اور ان کو پیغام دیا ۔ کہ یہ کفار کی جاہ و حشمت یہ کامیابی نہیں ہے ۔ یہ " فلاح " نہیں ۔
بلکہ فلاح پانےوالے تو کوئی اور ہیں ۔
بھلا وہ فلاح پانے والے کون ہونگے میری بچی ؟؟ وہ تمھاری نظر میں کون ہو سکتے ہیں ؟ اور کن کوہوناچاہیے ؟
میں چاہتی ہوں جب میں تمھیں ان اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فلاح کی کہانی سناؤں تو اس سے پہلے میں تمھارا نظریہ جان لوں ۔
میری پیاری بیٹی کی نظر میں فلاح کیا ہے ؟
اور میرے رب نے کن کو فلاح پانے والے قرار دیا ؟
تھوڑے کو بہت اور تار کو خط جانو ۔ جواب جلد دینے کی کوشش کیا کرو پیاری ۔ اماں کو بیٹی کے خط کا انتظار رہتا ہے ۔
اللہ تمھیں فلاح پانے والوں میں سے کر دے آمین ۔
فقط تمھاری اماں
سمیرا امام
امامیات ( مکاتیب ) چھٹا خط
خط بنام والدہ (۲)
( فلاح کا حصول اور مشکلات )
اماں جان السلام علیکم !!
آپکا خط ملے ایک لمبا عرصہ بیت گیا ۔ آپ نے جو سوالات میرے سامنے رکھے ان سوالات کے جوابات نے میری روحانیت کو ایک عجیب سی کشمکش کا شکار کر دیا ۔ آپ نے پوچھا کہ فلاح پانے والے میری نظر میں کون ہیں ؟
مجھے آپکی سنائی گئی سبھی کہانیاں یاد آکے رہ گئیں اماں !
لیکن اسباق یاد کرنا الگ بات ہے اور ان پہ عمل پیرا ہونا الگ
ہر فردِ واحد زندگی کے اپنے سفر سے گزرتا ہے اور ہر ایک کی زندگی کے چیلنجز الگ ہوتے ہیں ۔
فلاح ! کامیابی ۔۔۔
اللہ نے کہا
مومن فلاح پا گئے ۔۔۔۔ بھلا کون سے مومن؟
وہ جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں ۔
وہ جو لغو سے اعراض برتتے ہیں ۔
وہ جو زکات ادا کرتے ہیں
اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔
یہی ہیں نا فلاح پانے والے اماں ؟؟
پھر تو میں شاید کبھی بھی فلاح پانے والوں میں سے نہیں ہو سکتی اماں ۔
میں تو پہلی شرط پہ ہی ناکام ہوگئی ۔ نماز قائم ہی نہیں ہو پاتی اماں تو خشوع کیسے آئے ؟؟
پتا ہے اماں ! کل ہی کی بات ہے میں اور حنیفہ مینٹل ڈس آرڈرز پہ مباحثہ کر رہے تھے ۔ حنیفہ نے کہا کہ کیا کبھی دل اور دماغ دونوں بیک وقت سرور کی کیفیت میں پائے جاتے ہیں ؟؟
اور وہ کونسا ایسا لمحہ ہوتا ہے جب انسان ecstacy کی حالت میں خود کو مخمور محسوس کرتا ہے اور اسکے دل و دماغ کا بوجھ چھٹ جاتا ہے ۔ اور وہ خود کو ہوا میں تیرتا محسوس کرتا ہے ۔
مجھے اسکا سوال سمجھنے کے لیے کچھ وقت لگا ۔
اس نے مجھے سے کہا ایسا فقط تب ممکن ہے جب انسان ڈرگز لیتا ہو ۔ لوگ نشہ فقط اس لیے کرتے ہیں کہ وہ سرور کی اس کیفیت کو پا لینا چاہتے ہیں اور feel free والی کیفیت سے گزرنے کے لیے وہ الکحل یا کسی بھی قسم کے نشے کا سہارا لیتے ہیں ۔
یہ نشہ اور بھی بہت سی چیزوں میں پایا جاتا ہے جیسے مرد عورت کا تعلق ' پیسے کو خرچ کرنے کی عیاشی ' کسی بھی انسان کی محبت میں مبتلا ہو کے اسکے ساتھ کے حصول کی خواہش ۔
لیکن حنیفہ کیا بغیر کسی بھی قسم کے نشے کی لت کے ہم اس سرور کی کیفیت سے نہیں گزر سکتے ؟؟
میرے اس سوال پہ اس نے مجھ سے ہی استفسار کیا اماں کہ کیا مجھے ان چیزوں سے دوری پہ رہ کے کبھی دل و دماغ کے اس سرور کی کیفیت سے سامنا ہوا ؟
اور مجھے اپنی کیفیات یاد تھیں ۔ وہی کیفیات جب انسان سمجھتا ہے کہ اس ے معراج کی منزل پا لی ۔ وہ آسمان کی بلندیوں کو چھو آیا ۔ مجھ جیسے لوگ جنھیں تھوڑے پہ قناعت کرنا نہیں آتا اماں بلندی سے کم کسی شے پہ راضی ہو ہی نہیں پاتے ۔
ایسی ہی کیفیت جس کا حنیفہ نے تذکرہ کیا کہ دل و دماغ دونوں ہوا میں ڈولنے لگتے ہیں ۔ecstacy کی کیفیت چھا جاتی ہے اور دل پہ ایسی سکینت کا نزول ہوتا ہے کہ انسان کو لگتا ہے دنیا میں غم نام کی کوئی شے نہیں ہے ۔ بس سرور ہی سرور ہے ۔
اور یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب نماز مومن کی معراج بن جاتی ہے ۔ جب یکسوئی اور خشوع و خضوع کی وہ کیفیت حاصل ہو جاتی ہے ۔
ایسی لذت جیسے آپ اللہ سے ملاقات کر کے لوٹے ہوں ۔
دل جیسے نور اور روشنی سے بھر کر دماغ کو روشن کر دیتا ہے ۔
اور حنیفہ نے بھنویں اچکا کے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
یار تم مولوی لوگ ساری عمر کنویں کے مینڈک ہی رہتے ہو ۔
اور اماں مجھے اپنا آپ کنویں کے مینڈک ہی لگا ایک ایسی لڑکی کے سامنے جو بلند افکار کی باتیں کیا کرتی تھی ۔ جو ہر موضوع پہ بولنے کی صلاحیت سے مالامال تھی اسکے سامنے مجھے یوں لگا جیسے ہم ہر جگہ بس دینداری کے پردے میں اپنی احساس کمتری کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
ہمیں لگتا ہے کہ یہ لوگ جو دنیاوی طور پہ اتنے بہترین اتنے مکمل ہوتے ہیں ہم سے انکی یہ کامیابی دیکھی نہیں جاتی تو ہم حسد کا شکار ہو کے انھیں جہنم کے ڈراوے دیا کرتے ہیں ۔
میں اسی احساس کمتری کے زیرِ اثر شاید حنیفہ کی ڈرگز والی اصطلاح کو مان لیتی اماں ۔ لیکن آپ نے کہیں سے آکے ہاتھ تھام لیا تھا ۔ مجھے وہ کہانیاں یاد آگئی تھیں اماں اور مجھے اپنی ان کیفیات کا بھی ادراک تھا کہ جب اللہ نے نمازوں میں وہ لطف دیا کہ دل دنیا سے بے نیاز ہوا اور میں نے ecstacy کی اس کیفیت کو پورے طور پہ محسوس کیا تھا تو حنیفہ میری کیفیات کو کیسے جھٹلا سکتی ہے ۔ کیا وہ سرور کی اس منزل سے گزری ہے ؟؟
میں نے اس سے یہ سوال پوچھ ڈالا ۔
حنیفہ تم نے کبھی ڈرگز لی ہیں ؟؟
نہیں یار ۔ لیکن میں لینا چاہتی ہوں ۔ میں اس joy کو محسوس کرنا چاہتی ہوں جب آپ worldly worries سے بہت دور ہوتے ہیں ۔
جب آپ خود کو بادلوں پہ تیرتا محسوس کرتے ہیں ؟؟
حنیفہ کیا تم نے کبھی نماز پڑھی ہے ؟؟ خشوع و خضوع سے ؟؟
اوہ کم آن ۔۔
اگر ایک تجربہ زندگی میں کیا ہی نہیں تو کیے بغیر کسی بھی تجربے کو کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے حنیفہ ؟؟
تجربہ تو میں نے ڈرگز اور الکحل کا بھی نہیں کیا لیکن میں اسے مان رہی ہوں ۔
ایک چیز کو بغیر پرکھے اور جانے مان لینا اور ایک چیز کو بغیر جانے اور پرکھے جھٹلا دینا ان دونوں رویوں کی وجہ کیا ہو سکتی ہے ؟؟ کیا تعصب ؟؟ عقیدہ ؟؟ نظریہ ؟؟
اماں حنیفہ میرے سوال پہ خاموش ہو گئی ۔ لیکن اس نے مجھ سے کہا ہے کہ میں خشوع وخضوع کو ڈیفائن کروں ۔
کیسے اماں ؟؟ جب کہ خضوع و خشوع کی نمازیں زندگی میں ایک یا دو ہی رہی ہونگی ۔ جب کہ ڈرگز تو روزمرہ کی بنیاد پہ مل سکتی ہے ؟؟
میں جانتی ہوں نماز پڑھنا فرض ہے ۔ فرض ڈیوٹی ہے جسے آپ کسی حال میں نہیں چھوڑ سکتے ۔ جیسے آپ اپنا دفتر جانانہیں چھوڑتے اپنا کاروبار نہیں چھوڑتے ۔ اپنے تمام ضروری کام نہیں چھوڑتے ایسے ہی نماز بھی ہے ۔
بس پڑھنی ہے خضوع و خشوع فرض نہیں ہے اماں نماز فرض ہے ۔ لیکن اماں فلاح تو انکے لیے ہے نا جو اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع والے ہوتے ہیں ۔
فلاح کیسے حاصل ہو پھر ؟؟
کیا خضوع و خشوع کی سعادت بزور بازو مل سکتی ہے ؟؟
نہیں اماں ۔۔۔۔ مجھے اپنی نمازوں سے اب وحشت ہونے لگتی ہے ۔
دل دماغ بکھرے ' وحشت کا شکار ہی رہتے ہیں ۔ میں جب خود اس اذیت میں مبتلا ہوِ کہ میری نماز ecstacy کی کیفیت میں مبتلا نہیں کرتی تو میں حنیفہ کو کیسے سمجھا سکتی ہوں ؟؟
زندگی میں ایک آدھ مرتبہ کی نماز کہ جب واقعی دل ہلکا پھلکا ہوجاتا ہے اور دماغ سے تفکرات جھڑ جاتے ہیں کا تجربہ میں کیسے اسکے سامنے وثوق سے بیان کرسکتی ہوں اماں ؟؟
آپکے جواب کی منتظر رہونگی ۔ دعاؤں میں یاد رکھیے ۔
والسلام
آپکی بیٹی ۔
#سمیراامام
۳۰ نومبر ' ۲۰۱۹