امامیات ( کالم 7)

با ادب

محفلین
زندگی کے متعلق میری سوچ بے حد محدود ہے ۔ دراصل مجھے زندگی کی سمجھ کبھی آئی ہی نہیں ۔ جب میں اپنے آس پاس کے لوگوں کو دیکھوں تو مختلف قسم کے کرداروں سے آگاہی ہوتی ہے ۔ بلند خیال ، پست خیال ، اپنے آپ میں مگن رہنے والے ، زندگی سے مطمئن ، زندگی سے غیر مطمئن ۔
مجھے لوگوں کے حالات جاننے ، لوگوں سے ملنے اور لوگوں جیسا بننے کا بے حد شوق ہے ۔ بہت بچپن سے میں ایک متجسس بچی تھی ۔ اگر ٹیلی ویژن کے آگے بیٹھ جاتی تو مجھے ٹیلی ویژن کے رنگا رنگ پروگرامز سے زیادہ لوگوں کے انٹرویوز سننے میں بے حد دلچسپی ہے ۔ چاہے وہ عام شخصیات کا ہو یو خاص کا ۔
دراصل خاص و عام کی منطق میری سمجھ سے باہر ہے ۔ اور سارا فساد ہی اس سمجھ کا ہے ۔ اگر تو کبھی یہ سمجھ دانی کچھ سمجھنے کے قابل ہوتی تو زندگی کے متعلق میرے نظریات بھی واضح اور شفاف ہوتے ۔ چونکہ سمجھ اس قابل ہی نہیں اس لئیے سوچ کا دائرہ محدود رہا ، وسیع نہ ہو پایا ۔
بنیادی طور پہ میں ایک سیدھی سادھی مسلمان ہوں ۔ اسلام سے مجھے بے حد محبت اور دلچسپی ہے ۔ میری بڑی کوشش ہوتی ہے کہ زندگی کو اسلام کے اصولون کے مطابق گزارا جائے ۔ اسلام سے اسی محبت کے نتیجے میں ، میں نے نے شریعہ کا مطالعہ کیا ۔ اور کوئی چھوٹی موٹی ڈگری بھی حاصل کر لی ۔ اب اسلام کا جتنا مطالعہ کیا اسلام سے عقیدت اور محبت گہری ہوتی گئی ۔ اور اسلام کے ہر پہلو کو پڑھ کر میں ضرور سوچتی تھی کہ اسے اپنی زندگی مین نافذ کرنے کی کوشش ضرور کروں ۔
اب لفظ " کوشش" کو مجھ سے بے حد بیر ہے ۔ یہ کوشش کبھی تو کامیاب ہو جاتی ہے اور کبھی یہ کوشش ایسی کشمکش اور ناکامی کا شکار ہو جاتی ہے کہ ہر روز نئے سرے سے اعادہ کرنے کے باوجود بھی کامیابی کا سامنا نہیں ہوتا ۔
چونکہ میں عرض کر چکی ہوں کہ میری سمجھ ناقص ہے اور اسی ناقص سمجھ اور عقل کا فتور ہے کہ میں چیزوں کو ان کی جزئیات کے ساتھ دیکھنے کی عادی نہیں ۔ اور چونکہ خود اس عادت بد میں مبتلا ہوں تو سمجھتی ہوں کہ باقی لوگ بھی ان ہی خصوصیات کے حامل ہوتے ہوں گے ۔ لیکن زندگی کے متعلق ہمارے نظریات اور لوگوں کے نظریات میں خاصا فرق پایا جاتا ہے ۔
اب چونکہ سمجھ دانی کا قصور ہے تو کبھی یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ آیا زندگی کو اپنے نظریات کے متعلق گزارا جائے یا لوگوں کے ۔
زندگی کے دقیق و سنگین مسائل کے حل کے لئیے میں ہمیشہ امام صاحب کی طرف رجوع کرتی ہوں لیکن اس مرتبہ بڑائی کے زعم میں میں نے امام صاحب سے صلاح لینے کی بجائے اپنے علم و تجربے کی روشنی میں جانچنا اور پرکھنا بہتر جانا اور کمال ہو ا کہ منہہ کی کھائی ۔
دراصل شریعت کی ڈگری حاصل کر لینا کوئی بڑی بات نہیں اور مجھ جیسی فاتر العقل خاتون کا ایسی ڈگری کا حصول تو ہر گز بھی کوئی کمال کی بات نہیں ۔
جس طبقئہ اعراف سے میرا تعلق ہے ( چونکہ میرا تعلق طبقئہ اشراف سے نہیں نہ ہی کسی نچلے درجے کے طبقے سے ہے ۔ بے چارہ میرا طبقہ کہیں ان دونوں کے مابین کسی درمیانی کیفیت میں ہی ڈانواں ڈول ہوا پھرتا ہے تو میں نے سوچا طبقئہ اعراف کہنے میں حرج ہی کیا ہے کہ اعراف بھی جنت و دوزخ کے مابین کا ہی کوئی مقام ہے اور مجھے دل سے پسند ہے )
تو اس طبقے میں خواتین پر ناقص العقل ہونے کا پختہ ٹیگ ہے اور مجھے اسے مان لینے میں ہرگز کوئی عار نہیں ۔ اور ایک تو خاتون ، دوسری عقل میں کم تیسرے شریعت کے دو لفظ پڑھی ہوئی اس پہ طرہ اور مستزاد یہ کہ ان دو لفظوں پر بھی عمل پیرا نہین ۔
ایسی خاتون کو معاشرے میں کیا مقام حاصل ہوگا ؟ شیطان کے کان بہرے ہون اللہ کا شکر ہے کہ آج تک کسی مفتی نے فتوی نہیں دے ڈالا کہ ایسی خاتون کو سنگسار کر دیا جائے ورنہ یقین جانئیے سنگسار ہونے میں مجھے بڑی دقت ہوتی ۔
مجبورا اور مارے باندھے احکامات پر عمل کرنا پڑتا کیونکہ دل پر تو قفل ہیں اور قفل کی چابی ڈھونڈنے کی تلاش جاری ہے لیکن تب میری تلاش کا انتظار کرنے کی سکت کسے ہوتی ؟
خواتین کے معاملے میں احکام شاہی پر عمل فورا کروایا جاتا ہے ( گستاخی معاف ! ناقص العقل سمجھ کر لحاظ کیجیئے گا )
ہونا تو یہ چاہیئے کہ شریعت پڑھی خاتون پابند صوم و صلوت ، پردہ دار، نگاہیں نیچی ، با حیا ، خوش رو خوش شکل ، دھیمی آواز میں بات کرنے والی ، آہستہ تبسم فرمانے والی اور اکثر منہ بسورے سنجیدہ رہنے والی خاتون ہونی چاہئیے ۔
ایسی خاتون کا امتیاز ہے کہ جہاں خلاف شریعت بات نظر آئے وہاں ایسی گھوری ڈالیں کہ اگلے کی روح قبض ہو جائے اور اگر روح نہ بھی قبض ہو تو کم از کم اسے اپنے حقیر و بے مایہ ہونے کا احساس تو ضرور ہو جائے ۔
(مرد حضرات ان معاملات کو ہر گز بھی دل پر مت لیں کہ نہ تو میرا ان سے کبھی واسطہ پڑا ہے اور نہ میں ان کے بارے میں کچھ کہنے کی جسارت کر سکتی ہوں ) ۔
مین شریعت پڑھی خاتون ، کچھ مجھ سے زیادہ شریعت پڑھی خواتین کی محفل میں سج سنور کر چلی گئی ۔ پہلے تو انھوں نے سر سے پاوءں تک ناقدانہ انداز میں میرا جائزہ لیا ، بعد از تفصیلی جائزہ تیوریاں چڑھائیں ، بھنویں سکیڑ کر رخ پھیر لیئے ۔ اور براہمنوں کی محفل میں شودر اور کم ذات خاتون اپنے سجنے سنورنے پہ بڑا پچتھائی ۔ میں نے ان سے عرض کیا ۔ پیاری بہنو ! غصہ تھوک دو اور مجھ کم عقل کو نصیحت کرو ۔
فرمانے لگیں عورت کا سنگھار اپنے شوہر کے لئیے ہے ۔ میں نے عرض گزاری لیکن میرا کوئی شوہر نہیں ہے ۔ تو کہنے لگیں تب دل پہ پتھر رکھو ۔ کہا میرے پاس پتھر بھی نہیں ہے ۔
اور پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی ۔ ان کے پاس ہر سائز کے پتھر تھے شاید دل پر رکھنے کے لئیے ہی ہوں گے ۔ لیکن مجھے لگا مجھے مارنے کے لئیے رکھے ہیں ۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے انھوں نے مجھ پہ وہ پتھر ہر گز نہیں برسائے لیکن آئندہ کے لئیے اپنی محافل میں میری موجودگی پر پابندی لگا دی کہ میری موجودگی نقص امن کا باعث بن سکتی ہے ۔ اب کس نقص امن کا ؟ یہ تو میری سمجھ سے باہر ہے کہ آخر میری سمجھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ( آپ تو سمجھدار ہیں نا ! )
اور یہ بھی اللہ کا احسان ہے کہ یہ پابندی نہ تو اعلانیہ تھی نہ ہی تحریری اور نہ تقریری ۔ بس ان کی لرزتی قہر برساتی آنکھوں نے مجھے میری اوقات یاد دلا دی اور میں چونکہ خود بھی شدید ترین احساس کمتری میں مبتلا ہوں کہ میں ایک اچھی دین دار خاتون نہیں اور جہاں اس احساس کمتری کو مزید ہوا ملے وہاں میرے پر جلتے ہیں ۔ اور چاہے وہاں سے گیان ملنے کی کتنی ہی امید کیوں نہ ہو میں آئیندہ وہاں کا رخ اختیار کرنے کا غلطی سے بھی نہیں سوچتی ۔
میری معصوم اور محدود سی دین داری تو فقط اتنی سی ہے کہ کہ ظاہر کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن باطن کی اہمیت بھی مسلم ہے ۔
سرخی غازے پہ تنقید سے زیادہ اگر اخلاق کے معیار پر توجہ دی جائے تو کیا اچھی بات ہو۔ جب اخلاق کے دیگر پہلو سنورنے لگیں گے تو جملہ مسائل خود بہ خود حل ہو جائیں گے ۔
کیا پتہ اخلاقیات کا درس زبان کے بجائے عمل سے دینے سے کسی کی زندگی کی اصلاح کا موجب بن جائے اور کوئی آپ کے نیک اعمال سے تحریک پکڑ کر کلمہ پڑھکر مسلمان ہو جائے اور صدقہ جاریہ کے امیدوار آپ ہی قرار پا جائیں ۔
 

حماد علی

محفلین
سبحان اللہ! آپا واہ بہت خوب بہت عمدہ لکھا۔
آپ کی تحریر پڑھ کے شدت سے احساسِ برتری ہوا کے محترمہ ہم تو ٹھرے مرد ذات :pاب کیا کسی ناقص العقل کو ناقص العقل کہ کر اس کہ ناقص العقل ہونے کا احساس دلاویں;):sneaky::twisted: اب سوچا تو بہت پر اس ناقص العقل کا متضاد ذہن میں نہ آیا سوچا آپ سے پوچھ لیں ۔ ذرا بتائیے نا کے اس ناقص العقل کا متضاد کیا ہوتا ہے؟
(اب اس سوال کا قطاً مطلب یہ نا لیجیے گا کے ہم آپ سے خود کو ذہین فطیر کہلوانا چاہتے ہیں!:mrgreen: کیوں کے مرد ذات اس کا "متضاد کیفیت" لیے ہوگا اور اب ہم بھی تو ایک مرد ذات ہی ٹھرے!:cool:):twisted:
 

حماد علی

محفلین
پیشگی معذرت اگر ہماری بات کچھ نامناسب لگے یا ناگوار گزرے ! بس ایسے ہی تھوڑی سی بکواسات کردی:)(n)
 

با ادب

محفلین
سبحان اللہ! آپا واہ بہت خوب بہت عمدہ لکھا۔
آپ کی تحریر پڑھ کے شدت سے احساسِ برتری ہوا کے محترمہ ہم تو ٹھرے مرد ذات :pاب کیا کسی ناقص العقل کو ناقص العقل کہ کر اس کہ ناقص العقل ہونے کا احساس دلاویں;):sneaky::twisted: اب سوچا تو بہت پر اس ناقص العقل کا متضاد ذہن میں نہ آیا سوچا آپ سے پوچھ لیں ۔ ذرا بتائیے نا کے اس ناقص العقل کا متضاد کیا ہوتا ہے؟
(اب اس سوال کا قطاً مطلب یہ نا لیجیے گا کے ہم آپ سے خود کو ذہین فطیر کہلوانا چاہتے ہیں!:mrgreen: کیوں کے مرد ذات اس کا "متضاد کیفیت" لیے ہوگا اور اب ہم بھی تو ایک مرد ذات ہی ٹھرے!:cool:):twisted:
بیٹا جی اسے طنزیہ پیرائے میں کہا گیا ہے ۔ اگر ہمارے معاشرے کی ناخواندہ آبادی کا جائزہ لیا جائے تو وہاں اس قسم کی آراء خواتین کے بارے میں رکھی جاتی ہے ۔ حالانکہ اس رائے کو ہر گز بھی درست قرار نہیں دیا جا سکتا نہ ہی تمام انسانوں کو چاہے وہ مرد ہوں یا خواتین کو ایک پلڑے میں تولا جا سکتا ہے ۔ اللہ نے ہر انسان کو مختلف خصوصیات اور کردار و نظر سے نوازا ہے ۔ اس لیئے ہر شخص اپنی الگ پہچان اور تشخص رکھتا ہے ۔ معاشرے کی اس سوچ پہ طنز کیا گیا ہے ۔
 

با ادب

محفلین
سبحان اللہ! آپا واہ بہت خوب بہت عمدہ لکھا۔
آپ کی تحریر پڑھ کے شدت سے احساسِ برتری ہوا کے محترمہ ہم تو ٹھرے مرد ذات :pاب کیا کسی ناقص العقل کو ناقص العقل کہ کر اس کہ ناقص العقل ہونے کا احساس دلاویں;):sneaky::twisted: اب سوچا تو بہت پر اس ناقص العقل کا متضاد ذہن میں نہ آیا سوچا آپ سے پوچھ لیں ۔ ذرا بتائیے نا کے اس ناقص العقل کا متضاد کیا ہوتا ہے؟
(اب اس سوال کا قطاً مطلب یہ نا لیجیے گا کے ہم آپ سے خود کو ذہین فطیر کہلوانا چاہتے ہیں!:mrgreen: کیوں کے مرد ذات اس کا "متضاد کیفیت" لیے ہوگا اور اب ہم بھی تو ایک مرد ذات ہی ٹھرے!:cool:):twisted:
متضاد کیفیت کا تو پتہ نہیں لیکن مترادف فاتر العقل ہو سکتا ہے ۔ :LOL:
 

حماد علی

محفلین
بیٹا جی اسے طنزیہ پیرائے میں کہا گیا ہے ۔ اگر ہمارے معاشرے کی ناخواندہ آبادی کا جائزہ لیا جائے تو وہاں اس قسم کی آراء خواتین کے بارے میں رکھی جاتی ہے ۔ حالانکہ اس رائے کو ہر گز بھی درست قرار نہیں دیا جا سکتا نہ ہی تمام انسانوں کو چاہے وہ مرد ہوں یا خواتین کو ایک پلڑے میں تولا جا سکتا ہے ۔ اللہ نے ہر انسان کو مختلف خصوصیات اور کردار و نظر سے نوازا ہے ۔ اس لیئے ہر شخص اپنی الگ پہچان اور تشخص رکھتا ہے ۔ معاشرے کی اس سوچ پہ طنز کیا گیا ہے ۔
سو فیصد آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کے اللہ رب العزت نے ہر انسان میں کچھ نہ کچھ خصوصیات ودیعت کی ہیں اور یہ انسان پر منحصر ہے کے ان خصوصیات کا بیڑا غرق کرتا ہے یہ یا پار لگاتا ہے بہرحال آپ کی بات سمجھ چکا ہوں !
 

حماد علی

محفلین
متضاد کیفیت کا تو پتہ نہیں لیکن مترادف فاتر العقل ہو سکتا ہے ۔ :LOL:
ہاہا ہاہاہاہاہاہاہاہا!
چلیے مترادف سے ہی کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں اب اگر عورت اگر ناقص العقل ہو کر اتنی کامیابیاں حاصل کر سکتی ہے تو یقینن فاتر العقل بھی کائ نا کوئ تیر چلا ہی لے گا!:sneaky::p
 
معاشرتی رویوں میں ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کیا عورت کے لیے کو الگ شریعت نازل ہوئی ہے؟ معاذ اللہ ان کا خدا رسول الگ ہیں؟؟ عورت کے سنگھار اور سرخی میک اپ پراسے گناہ بھی ہو گا اور سزا بھی ملے گی... لیکن مرد اگر یہی کام کرے گا تو اسے کیونکر کچھ نہ کہا جائے گا؟؟؟ انا للہ وانا الیہ راجعون.
 

با ادب

محفلین
معاشرتی رویوں میں ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کیا عورت کے لیے کو الگ شریعت نازل ہوئی ہے؟ معاذ اللہ ان کا خدا رسول الگ ہیں؟؟ عورت کے سنگھار اور سرخی میک اپ پراسے گناہ بھی ہو گا اور سزا بھی ملے گی... لیکن مرد اگر یہی کام کرے گا تو اسے کیونکر کچھ نہ کہا جائے گا؟؟؟ انا للہ وانا الیہ راجعون.
بہت شکریہ بھائی صاحب.
دراصل اس تحریر کو طنزیہ پیرائے میں لکھا گیا ہے. ہر طرف یہی حال نہیں. لیکن وہ لوگ جو نیم حکیم ہوں وہ دعسروں کی جان لے کر ہی ٹلتے ہیں. یہ معاشرے کے اس طبقے کی عکاسی کی گئی ہے جو دین کے سر ورق کو پڑھ کر کچھ باتوں کو لے کے جذباتی ہو جاتے ہیں. یہ واقعہ جو بیان کیا گیا ہے اس میں کسی قسم کی دروغ گوئی کا احتمال نہیں. میں اس شدت پسندی کا نشانہ بنی لیکن یہ کل نہیں میں نے دینی لحاظ سے بہت اعلیٰ پائے کی خواتین میں بھی وقت گزارا. ہمارے ہاں بہت افسوس کا مقام یہ ہے کہ خواتین دینی لحاظ سے اتنی بالغ نظر نہیں. نہ ہی خواتین علماء کی ایک بڑی تعداد موجود ہے. جو چند ہیں ان ےک ہر خاص و عام کی پہنچ نہیں.
دینی تحقیق کے میدان میں آپ کو مرد گنے چنے ملیں گے کجا کہ خواتین.
اگر دیہات کی زندگیوں کو بنظر غائر دیکھا جائے تو وہاں کی خواتین اس معلمہ کے علم سے ہی انکار کر دیتی ہیں جو انکے ذہنی تناظر کے حلئیے پہ پوری نہ اتریں. پتہ نہیں ہم.نے دین کو اتنا دقیانوسی کیوں سمجھ لیا ہے. جو محترمہ ٹوپی والے برقعے میں گرتی پڑتی چار لفظ سیکھتی دکھائی دیں از خود ہم.انھیں کسی مدرسے کی پیداوار خیال.کر بیٹھتے ہیں.
اور مدرسے والیوں کو جدیدئیے جاہلوں کے خانے میں فٹ کر بیٹھتے ہیں. تضاد دونوں طرف پایا جاتا ہے. دین کے میدان میں کام.کرنے کی ضرورت ہے. میری بات کو ہر گز غلط تناظر میں نہ.لیا جئے. میرے دل میں علمائے حق کی بے پناہ عزت ہے
 

با ادب

محفلین
رہی بات مرد اور عورت کی الگ الگ شریعت کی تو یہ بات میری سمجھ سے بھی باہر ہے. جہاں ہمارے گھرانوں میں بچیوں پہ کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے وہیں ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ بچوں پہ بھی نگاہ رکھی جائے. ان کے خیالات وقتاً فوقتاً جانچے جائیں. وہ کن لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں جائزہ لیا جائے.
زنا کی سزا عورت اور مرد کے لئیے ایک ہے. پھر کیوں بیٹے کو غیر محرم سے باتیں کرتا دیکھ کے ہم نگاہ چرا لیتے ہیں جبکہ بیٹی کی زندگی اسی عمل کی بنا پہ دوبھر کر دیتے ہیں. ہم اللہ سے اتنے خائف نہیں جتبے معاشرے سے ہیں.
بیٹے کو بھی سمجھانے کی ضرورت ہی بیٹا غیر محرم سےبات بھی گناہ ہے. اللہ کو ناپسند ہے.
گستاخی معاف لیکن یہی دوغلا پن ہے
 
بہت شکریہ بھائی صاحب.
دراصل اس تحریر کو طنزیہ پیرائے میں لکھا گیا ہے. ہر طرف یہی حال نہیں. لیکن وہ لوگ جو نیم حکیم ہوں وہ دعسروں کی جان لے کر ہی ٹلتے ہیں. یہ معاشرے کے اس طبقے کی عکاسی کی گئی ہے جو دین کے سر ورق کو پڑھ کر کچھ باتوں کو لے کے جذباتی ہو جاتے ہیں. یہ واقعہ جو بیان کیا گیا ہے اس میں کسی قسم کی دروغ گوئی کا احتمال نہیں. میں اس شدت پسندی کا نشانہ بنی لیکن یہ کل نہیں میں نے دینی لحاظ سے بہت اعلیٰ پائے کی خواتین میں بھی وقت گزارا. ہمارے ہاں بہت افسوس کا مقام یہ ہے کہ خواتین دینی لحاظ سے اتنی بالغ نظر نہیں. نہ ہی خواتین علماء کی ایک بڑی تعداد موجود ہے. جو چند ہیں ان ےک ہر خاص و عام کی پہنچ نہیں.
دینی تحقیق کے میدان میں آپ کو مرد گنے چنے ملیں گے کجا کہ خواتین.
اگر دیہات کی زندگیوں کو بنظر غائر دیکھا جائے تو وہاں کی خواتین اس معلمہ کے علم سے ہی انکار کر دیتی ہیں جو انکے ذہنی تناظر کے حلئیے پہ پوری نہ اتریں. پتہ نہیں ہم.نے دین کو اتنا دقیانوسی کیوں سمجھ لیا ہے. جو محترمہ ٹوپی والے برقعے میں گرتی پڑتی چار لفظ سیکھتی دکھائی دیں از خود ہم.انھیں کسی مدرسے کی پیداوار خیال.کر بیٹھتے ہیں.
اور مدرسے والیوں کو جدیدئیے جاہلوں کے خانے میں فٹ کر بیٹھتے ہیں. تضاد دونوں طرف پایا جاتا ہے. دین کے میدان میں کام.کرنے کی ضرورت ہے. میری بات کو ہر گز غلط تناظر میں نہ.لیا جئے. میرے دل میں علمائے حق کی بے پناہ عزت ہے
یہ آپ کی تحریر کا حصہ دوم لگتا ہے. فقیر نے اس متعلق گزارش نہیں کی.
 
رہی بات مرد اور عورت کی الگ الگ شریعت کی تو یہ بات میری سمجھ سے بھی باہر ہے. جہاں ہمارے گھرانوں میں بچیوں پہ کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے وہیں ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ بچوں پہ بھی نگاہ رکھی جائے. ان کے خیالات وقتاً فوقتاً جانچے جائیں. وہ کن لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں جائزہ لیا جائے.
زنا کی سزا عورت اور مرد کے لئیے ایک ہے. پھر کیوں بیٹے کو غیر محرم سے باتیں کرتا دیکھ کے ہم نگاہ چرا لیتے ہیں جبکہ بیٹی کی زندگی اسی عمل کی بنا پہ دوبھر کر دیتے ہیں. ہم اللہ سے اتنے خائف نہیں جتبے معاشرے سے ہیں.
بیٹے کو بھی سمجھانے کی ضرورت ہی بیٹا غیر محرم سےبات بھی گناہ ہے. اللہ کو ناپسند ہے.
گستاخی معاف لیکن یہی دوغلا پن ہے
شاید یہی کہنا چاہا تھا اگر کہہ پایا.
 
Top