با ادب
محفلین
زندگی کے متعلق میری سوچ بے حد محدود ہے ۔ دراصل مجھے زندگی کی سمجھ کبھی آئی ہی نہیں ۔ جب میں اپنے آس پاس کے لوگوں کو دیکھوں تو مختلف قسم کے کرداروں سے آگاہی ہوتی ہے ۔ بلند خیال ، پست خیال ، اپنے آپ میں مگن رہنے والے ، زندگی سے مطمئن ، زندگی سے غیر مطمئن ۔
مجھے لوگوں کے حالات جاننے ، لوگوں سے ملنے اور لوگوں جیسا بننے کا بے حد شوق ہے ۔ بہت بچپن سے میں ایک متجسس بچی تھی ۔ اگر ٹیلی ویژن کے آگے بیٹھ جاتی تو مجھے ٹیلی ویژن کے رنگا رنگ پروگرامز سے زیادہ لوگوں کے انٹرویوز سننے میں بے حد دلچسپی ہے ۔ چاہے وہ عام شخصیات کا ہو یو خاص کا ۔
دراصل خاص و عام کی منطق میری سمجھ سے باہر ہے ۔ اور سارا فساد ہی اس سمجھ کا ہے ۔ اگر تو کبھی یہ سمجھ دانی کچھ سمجھنے کے قابل ہوتی تو زندگی کے متعلق میرے نظریات بھی واضح اور شفاف ہوتے ۔ چونکہ سمجھ اس قابل ہی نہیں اس لئیے سوچ کا دائرہ محدود رہا ، وسیع نہ ہو پایا ۔
بنیادی طور پہ میں ایک سیدھی سادھی مسلمان ہوں ۔ اسلام سے مجھے بے حد محبت اور دلچسپی ہے ۔ میری بڑی کوشش ہوتی ہے کہ زندگی کو اسلام کے اصولون کے مطابق گزارا جائے ۔ اسلام سے اسی محبت کے نتیجے میں ، میں نے نے شریعہ کا مطالعہ کیا ۔ اور کوئی چھوٹی موٹی ڈگری بھی حاصل کر لی ۔ اب اسلام کا جتنا مطالعہ کیا اسلام سے عقیدت اور محبت گہری ہوتی گئی ۔ اور اسلام کے ہر پہلو کو پڑھ کر میں ضرور سوچتی تھی کہ اسے اپنی زندگی مین نافذ کرنے کی کوشش ضرور کروں ۔
اب لفظ " کوشش" کو مجھ سے بے حد بیر ہے ۔ یہ کوشش کبھی تو کامیاب ہو جاتی ہے اور کبھی یہ کوشش ایسی کشمکش اور ناکامی کا شکار ہو جاتی ہے کہ ہر روز نئے سرے سے اعادہ کرنے کے باوجود بھی کامیابی کا سامنا نہیں ہوتا ۔
چونکہ میں عرض کر چکی ہوں کہ میری سمجھ ناقص ہے اور اسی ناقص سمجھ اور عقل کا فتور ہے کہ میں چیزوں کو ان کی جزئیات کے ساتھ دیکھنے کی عادی نہیں ۔ اور چونکہ خود اس عادت بد میں مبتلا ہوں تو سمجھتی ہوں کہ باقی لوگ بھی ان ہی خصوصیات کے حامل ہوتے ہوں گے ۔ لیکن زندگی کے متعلق ہمارے نظریات اور لوگوں کے نظریات میں خاصا فرق پایا جاتا ہے ۔
اب چونکہ سمجھ دانی کا قصور ہے تو کبھی یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ آیا زندگی کو اپنے نظریات کے متعلق گزارا جائے یا لوگوں کے ۔
زندگی کے دقیق و سنگین مسائل کے حل کے لئیے میں ہمیشہ امام صاحب کی طرف رجوع کرتی ہوں لیکن اس مرتبہ بڑائی کے زعم میں میں نے امام صاحب سے صلاح لینے کی بجائے اپنے علم و تجربے کی روشنی میں جانچنا اور پرکھنا بہتر جانا اور کمال ہو ا کہ منہہ کی کھائی ۔
دراصل شریعت کی ڈگری حاصل کر لینا کوئی بڑی بات نہیں اور مجھ جیسی فاتر العقل خاتون کا ایسی ڈگری کا حصول تو ہر گز بھی کوئی کمال کی بات نہیں ۔
جس طبقئہ اعراف سے میرا تعلق ہے ( چونکہ میرا تعلق طبقئہ اشراف سے نہیں نہ ہی کسی نچلے درجے کے طبقے سے ہے ۔ بے چارہ میرا طبقہ کہیں ان دونوں کے مابین کسی درمیانی کیفیت میں ہی ڈانواں ڈول ہوا پھرتا ہے تو میں نے سوچا طبقئہ اعراف کہنے میں حرج ہی کیا ہے کہ اعراف بھی جنت و دوزخ کے مابین کا ہی کوئی مقام ہے اور مجھے دل سے پسند ہے )
تو اس طبقے میں خواتین پر ناقص العقل ہونے کا پختہ ٹیگ ہے اور مجھے اسے مان لینے میں ہرگز کوئی عار نہیں ۔ اور ایک تو خاتون ، دوسری عقل میں کم تیسرے شریعت کے دو لفظ پڑھی ہوئی اس پہ طرہ اور مستزاد یہ کہ ان دو لفظوں پر بھی عمل پیرا نہین ۔
ایسی خاتون کو معاشرے میں کیا مقام حاصل ہوگا ؟ شیطان کے کان بہرے ہون اللہ کا شکر ہے کہ آج تک کسی مفتی نے فتوی نہیں دے ڈالا کہ ایسی خاتون کو سنگسار کر دیا جائے ورنہ یقین جانئیے سنگسار ہونے میں مجھے بڑی دقت ہوتی ۔
مجبورا اور مارے باندھے احکامات پر عمل کرنا پڑتا کیونکہ دل پر تو قفل ہیں اور قفل کی چابی ڈھونڈنے کی تلاش جاری ہے لیکن تب میری تلاش کا انتظار کرنے کی سکت کسے ہوتی ؟
خواتین کے معاملے میں احکام شاہی پر عمل فورا کروایا جاتا ہے ( گستاخی معاف ! ناقص العقل سمجھ کر لحاظ کیجیئے گا )
ہونا تو یہ چاہیئے کہ شریعت پڑھی خاتون پابند صوم و صلوت ، پردہ دار، نگاہیں نیچی ، با حیا ، خوش رو خوش شکل ، دھیمی آواز میں بات کرنے والی ، آہستہ تبسم فرمانے والی اور اکثر منہ بسورے سنجیدہ رہنے والی خاتون ہونی چاہئیے ۔
ایسی خاتون کا امتیاز ہے کہ جہاں خلاف شریعت بات نظر آئے وہاں ایسی گھوری ڈالیں کہ اگلے کی روح قبض ہو جائے اور اگر روح نہ بھی قبض ہو تو کم از کم اسے اپنے حقیر و بے مایہ ہونے کا احساس تو ضرور ہو جائے ۔
(مرد حضرات ان معاملات کو ہر گز بھی دل پر مت لیں کہ نہ تو میرا ان سے کبھی واسطہ پڑا ہے اور نہ میں ان کے بارے میں کچھ کہنے کی جسارت کر سکتی ہوں ) ۔
مین شریعت پڑھی خاتون ، کچھ مجھ سے زیادہ شریعت پڑھی خواتین کی محفل میں سج سنور کر چلی گئی ۔ پہلے تو انھوں نے سر سے پاوءں تک ناقدانہ انداز میں میرا جائزہ لیا ، بعد از تفصیلی جائزہ تیوریاں چڑھائیں ، بھنویں سکیڑ کر رخ پھیر لیئے ۔ اور براہمنوں کی محفل میں شودر اور کم ذات خاتون اپنے سجنے سنورنے پہ بڑا پچتھائی ۔ میں نے ان سے عرض کیا ۔ پیاری بہنو ! غصہ تھوک دو اور مجھ کم عقل کو نصیحت کرو ۔
فرمانے لگیں عورت کا سنگھار اپنے شوہر کے لئیے ہے ۔ میں نے عرض گزاری لیکن میرا کوئی شوہر نہیں ہے ۔ تو کہنے لگیں تب دل پہ پتھر رکھو ۔ کہا میرے پاس پتھر بھی نہیں ہے ۔
اور پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی ۔ ان کے پاس ہر سائز کے پتھر تھے شاید دل پر رکھنے کے لئیے ہی ہوں گے ۔ لیکن مجھے لگا مجھے مارنے کے لئیے رکھے ہیں ۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے انھوں نے مجھ پہ وہ پتھر ہر گز نہیں برسائے لیکن آئندہ کے لئیے اپنی محافل میں میری موجودگی پر پابندی لگا دی کہ میری موجودگی نقص امن کا باعث بن سکتی ہے ۔ اب کس نقص امن کا ؟ یہ تو میری سمجھ سے باہر ہے کہ آخر میری سمجھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ( آپ تو سمجھدار ہیں نا ! )
اور یہ بھی اللہ کا احسان ہے کہ یہ پابندی نہ تو اعلانیہ تھی نہ ہی تحریری اور نہ تقریری ۔ بس ان کی لرزتی قہر برساتی آنکھوں نے مجھے میری اوقات یاد دلا دی اور میں چونکہ خود بھی شدید ترین احساس کمتری میں مبتلا ہوں کہ میں ایک اچھی دین دار خاتون نہیں اور جہاں اس احساس کمتری کو مزید ہوا ملے وہاں میرے پر جلتے ہیں ۔ اور چاہے وہاں سے گیان ملنے کی کتنی ہی امید کیوں نہ ہو میں آئیندہ وہاں کا رخ اختیار کرنے کا غلطی سے بھی نہیں سوچتی ۔
میری معصوم اور محدود سی دین داری تو فقط اتنی سی ہے کہ کہ ظاہر کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن باطن کی اہمیت بھی مسلم ہے ۔
سرخی غازے پہ تنقید سے زیادہ اگر اخلاق کے معیار پر توجہ دی جائے تو کیا اچھی بات ہو۔ جب اخلاق کے دیگر پہلو سنورنے لگیں گے تو جملہ مسائل خود بہ خود حل ہو جائیں گے ۔
کیا پتہ اخلاقیات کا درس زبان کے بجائے عمل سے دینے سے کسی کی زندگی کی اصلاح کا موجب بن جائے اور کوئی آپ کے نیک اعمال سے تحریک پکڑ کر کلمہ پڑھکر مسلمان ہو جائے اور صدقہ جاریہ کے امیدوار آپ ہی قرار پا جائیں ۔
مجھے لوگوں کے حالات جاننے ، لوگوں سے ملنے اور لوگوں جیسا بننے کا بے حد شوق ہے ۔ بہت بچپن سے میں ایک متجسس بچی تھی ۔ اگر ٹیلی ویژن کے آگے بیٹھ جاتی تو مجھے ٹیلی ویژن کے رنگا رنگ پروگرامز سے زیادہ لوگوں کے انٹرویوز سننے میں بے حد دلچسپی ہے ۔ چاہے وہ عام شخصیات کا ہو یو خاص کا ۔
دراصل خاص و عام کی منطق میری سمجھ سے باہر ہے ۔ اور سارا فساد ہی اس سمجھ کا ہے ۔ اگر تو کبھی یہ سمجھ دانی کچھ سمجھنے کے قابل ہوتی تو زندگی کے متعلق میرے نظریات بھی واضح اور شفاف ہوتے ۔ چونکہ سمجھ اس قابل ہی نہیں اس لئیے سوچ کا دائرہ محدود رہا ، وسیع نہ ہو پایا ۔
بنیادی طور پہ میں ایک سیدھی سادھی مسلمان ہوں ۔ اسلام سے مجھے بے حد محبت اور دلچسپی ہے ۔ میری بڑی کوشش ہوتی ہے کہ زندگی کو اسلام کے اصولون کے مطابق گزارا جائے ۔ اسلام سے اسی محبت کے نتیجے میں ، میں نے نے شریعہ کا مطالعہ کیا ۔ اور کوئی چھوٹی موٹی ڈگری بھی حاصل کر لی ۔ اب اسلام کا جتنا مطالعہ کیا اسلام سے عقیدت اور محبت گہری ہوتی گئی ۔ اور اسلام کے ہر پہلو کو پڑھ کر میں ضرور سوچتی تھی کہ اسے اپنی زندگی مین نافذ کرنے کی کوشش ضرور کروں ۔
اب لفظ " کوشش" کو مجھ سے بے حد بیر ہے ۔ یہ کوشش کبھی تو کامیاب ہو جاتی ہے اور کبھی یہ کوشش ایسی کشمکش اور ناکامی کا شکار ہو جاتی ہے کہ ہر روز نئے سرے سے اعادہ کرنے کے باوجود بھی کامیابی کا سامنا نہیں ہوتا ۔
چونکہ میں عرض کر چکی ہوں کہ میری سمجھ ناقص ہے اور اسی ناقص سمجھ اور عقل کا فتور ہے کہ میں چیزوں کو ان کی جزئیات کے ساتھ دیکھنے کی عادی نہیں ۔ اور چونکہ خود اس عادت بد میں مبتلا ہوں تو سمجھتی ہوں کہ باقی لوگ بھی ان ہی خصوصیات کے حامل ہوتے ہوں گے ۔ لیکن زندگی کے متعلق ہمارے نظریات اور لوگوں کے نظریات میں خاصا فرق پایا جاتا ہے ۔
اب چونکہ سمجھ دانی کا قصور ہے تو کبھی یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ آیا زندگی کو اپنے نظریات کے متعلق گزارا جائے یا لوگوں کے ۔
زندگی کے دقیق و سنگین مسائل کے حل کے لئیے میں ہمیشہ امام صاحب کی طرف رجوع کرتی ہوں لیکن اس مرتبہ بڑائی کے زعم میں میں نے امام صاحب سے صلاح لینے کی بجائے اپنے علم و تجربے کی روشنی میں جانچنا اور پرکھنا بہتر جانا اور کمال ہو ا کہ منہہ کی کھائی ۔
دراصل شریعت کی ڈگری حاصل کر لینا کوئی بڑی بات نہیں اور مجھ جیسی فاتر العقل خاتون کا ایسی ڈگری کا حصول تو ہر گز بھی کوئی کمال کی بات نہیں ۔
جس طبقئہ اعراف سے میرا تعلق ہے ( چونکہ میرا تعلق طبقئہ اشراف سے نہیں نہ ہی کسی نچلے درجے کے طبقے سے ہے ۔ بے چارہ میرا طبقہ کہیں ان دونوں کے مابین کسی درمیانی کیفیت میں ہی ڈانواں ڈول ہوا پھرتا ہے تو میں نے سوچا طبقئہ اعراف کہنے میں حرج ہی کیا ہے کہ اعراف بھی جنت و دوزخ کے مابین کا ہی کوئی مقام ہے اور مجھے دل سے پسند ہے )
تو اس طبقے میں خواتین پر ناقص العقل ہونے کا پختہ ٹیگ ہے اور مجھے اسے مان لینے میں ہرگز کوئی عار نہیں ۔ اور ایک تو خاتون ، دوسری عقل میں کم تیسرے شریعت کے دو لفظ پڑھی ہوئی اس پہ طرہ اور مستزاد یہ کہ ان دو لفظوں پر بھی عمل پیرا نہین ۔
ایسی خاتون کو معاشرے میں کیا مقام حاصل ہوگا ؟ شیطان کے کان بہرے ہون اللہ کا شکر ہے کہ آج تک کسی مفتی نے فتوی نہیں دے ڈالا کہ ایسی خاتون کو سنگسار کر دیا جائے ورنہ یقین جانئیے سنگسار ہونے میں مجھے بڑی دقت ہوتی ۔
مجبورا اور مارے باندھے احکامات پر عمل کرنا پڑتا کیونکہ دل پر تو قفل ہیں اور قفل کی چابی ڈھونڈنے کی تلاش جاری ہے لیکن تب میری تلاش کا انتظار کرنے کی سکت کسے ہوتی ؟
خواتین کے معاملے میں احکام شاہی پر عمل فورا کروایا جاتا ہے ( گستاخی معاف ! ناقص العقل سمجھ کر لحاظ کیجیئے گا )
ہونا تو یہ چاہیئے کہ شریعت پڑھی خاتون پابند صوم و صلوت ، پردہ دار، نگاہیں نیچی ، با حیا ، خوش رو خوش شکل ، دھیمی آواز میں بات کرنے والی ، آہستہ تبسم فرمانے والی اور اکثر منہ بسورے سنجیدہ رہنے والی خاتون ہونی چاہئیے ۔
ایسی خاتون کا امتیاز ہے کہ جہاں خلاف شریعت بات نظر آئے وہاں ایسی گھوری ڈالیں کہ اگلے کی روح قبض ہو جائے اور اگر روح نہ بھی قبض ہو تو کم از کم اسے اپنے حقیر و بے مایہ ہونے کا احساس تو ضرور ہو جائے ۔
(مرد حضرات ان معاملات کو ہر گز بھی دل پر مت لیں کہ نہ تو میرا ان سے کبھی واسطہ پڑا ہے اور نہ میں ان کے بارے میں کچھ کہنے کی جسارت کر سکتی ہوں ) ۔
مین شریعت پڑھی خاتون ، کچھ مجھ سے زیادہ شریعت پڑھی خواتین کی محفل میں سج سنور کر چلی گئی ۔ پہلے تو انھوں نے سر سے پاوءں تک ناقدانہ انداز میں میرا جائزہ لیا ، بعد از تفصیلی جائزہ تیوریاں چڑھائیں ، بھنویں سکیڑ کر رخ پھیر لیئے ۔ اور براہمنوں کی محفل میں شودر اور کم ذات خاتون اپنے سجنے سنورنے پہ بڑا پچتھائی ۔ میں نے ان سے عرض کیا ۔ پیاری بہنو ! غصہ تھوک دو اور مجھ کم عقل کو نصیحت کرو ۔
فرمانے لگیں عورت کا سنگھار اپنے شوہر کے لئیے ہے ۔ میں نے عرض گزاری لیکن میرا کوئی شوہر نہیں ہے ۔ تو کہنے لگیں تب دل پہ پتھر رکھو ۔ کہا میرے پاس پتھر بھی نہیں ہے ۔
اور پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی ۔ ان کے پاس ہر سائز کے پتھر تھے شاید دل پر رکھنے کے لئیے ہی ہوں گے ۔ لیکن مجھے لگا مجھے مارنے کے لئیے رکھے ہیں ۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے انھوں نے مجھ پہ وہ پتھر ہر گز نہیں برسائے لیکن آئندہ کے لئیے اپنی محافل میں میری موجودگی پر پابندی لگا دی کہ میری موجودگی نقص امن کا باعث بن سکتی ہے ۔ اب کس نقص امن کا ؟ یہ تو میری سمجھ سے باہر ہے کہ آخر میری سمجھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ( آپ تو سمجھدار ہیں نا ! )
اور یہ بھی اللہ کا احسان ہے کہ یہ پابندی نہ تو اعلانیہ تھی نہ ہی تحریری اور نہ تقریری ۔ بس ان کی لرزتی قہر برساتی آنکھوں نے مجھے میری اوقات یاد دلا دی اور میں چونکہ خود بھی شدید ترین احساس کمتری میں مبتلا ہوں کہ میں ایک اچھی دین دار خاتون نہیں اور جہاں اس احساس کمتری کو مزید ہوا ملے وہاں میرے پر جلتے ہیں ۔ اور چاہے وہاں سے گیان ملنے کی کتنی ہی امید کیوں نہ ہو میں آئیندہ وہاں کا رخ اختیار کرنے کا غلطی سے بھی نہیں سوچتی ۔
میری معصوم اور محدود سی دین داری تو فقط اتنی سی ہے کہ کہ ظاہر کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن باطن کی اہمیت بھی مسلم ہے ۔
سرخی غازے پہ تنقید سے زیادہ اگر اخلاق کے معیار پر توجہ دی جائے تو کیا اچھی بات ہو۔ جب اخلاق کے دیگر پہلو سنورنے لگیں گے تو جملہ مسائل خود بہ خود حل ہو جائیں گے ۔
کیا پتہ اخلاقیات کا درس زبان کے بجائے عمل سے دینے سے کسی کی زندگی کی اصلاح کا موجب بن جائے اور کوئی آپ کے نیک اعمال سے تحریک پکڑ کر کلمہ پڑھکر مسلمان ہو جائے اور صدقہ جاریہ کے امیدوار آپ ہی قرار پا جائیں ۔