با ادب
محفلین
تعارف سے ہمارا بھی آج پہلی دفعہ ہی تعارف ہو رہا ہے ۔ اور پہلہ ملاقات کی بے تکلفی چہ معنئی دارد ۔
گو ہمارے تعارف کی کچھ ایسی ضرورت ہم تو نہ محسوس کرتے تھے کہ امامیات کی صورت روز ہماری زندگی کے ایک پہلو کا تعارف ہو جاتا ہے لیکن کچھ احباب بضد ہیں کہ رسم تعارف کی رسم ادا ہونی ضروری ہے ۔
میں اور امامیات ایک ہی سلسے کی ایک ہی کڑی ہیں ۔ اس لئیے کچھ بات اس ہی حوالے سے ہو جائے ۔
امامیات کی داستان میری حیات کی داستان ہے ۔ میں ایک عام سیدھی سادی گھریلو خاتون ۔ جس کی زندگی کی کہانی میں کوئی چاشنی نہیں ۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ زندگی کا یہ بھی ایک رنگ ہے جسے لوگ جان لیں گے اور چونکہ میں موجود ہوں تو اس رنگ کا انکار ممکن نہیں ۔
یہ کہانی ہے ایسی خاتون کی جو متقی نہیں اور یہ کہانی ہے ایک ایسی خاتون کی جو گناہگار بھی نہیں ۔ یہ کہانی ہے ایسی خاتون کی جس کا کہنا ہے
شوق پینے کا مجھ کو زیادہ نہیں
ترک توبہ کا کوئی ارادہ نہیں
یہ دین و دنیا کے مابین ایک کشمکمش میں گرفتار انسان کی بات ہے ۔ جس کا یہ کہنا ہر گز نہیں کہ کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے ۔ بلکہ یہان تو کعبہ و کلیسا دائیں بائیں ہیں کہ ایک قدم کعبہ میں ہو تو دوسرا کلیسا میں جا پڑتا ہے ۔
ایمان کے بچاوء کے لئیے ہر دور میں امام کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اور جو امام کی اتباع کو لازم کر لے بھٹکنے سے بچ جاتا ہے ۔ اور جنھین میری طرح امام سے بھی حجت کی عادت ہو وہ یا تو درست مقام کو پا لیتے ہیں یا تمام عمر کج بحثیوں میں ہی گزر جاتی ہے ۔
میں نے امام صاحب سے کیا سیکھا کیا سیکھنا باقی ہے کیا سیکھ کر عمل کے دائرے کو خالی چھوڑ دیا ۔
یہ باتیں نہ تو فلسفیانہ ہیں نہ صوفیانہ نہ دنیاویانہ ۔ یہ باتیں ایک عام خاتون کی نہایت عام سی باتیں ہیں ۔
جس کے لئیے گناہ کبیرہ کی تعریف یوں بھی ہو سکتی ہے کہ ھاتھ میں تسبیح پکڑے زبان پہ غیبت جاری ہو ۔
جس نے اگر ایک گھنٹہ وقت کا ضیاع کیا تو فکر لا حق ہو گئی کہ بایاں فرشتہ ایک گھنٹہ رجسٹر بھرتا رہا اب ایسا کیا کیا جائے کہ دونوں رجسٹروں کا وزن مساوی ہو جائے ۔
یہ بات اگر کسی کو ماورائی لگے تو جان لیجییے کہ دنیا کی 6 ارب کی آبادی میں ایک ایسی خاتون ہے اور وہ میں ہوں ۔ جو مجھ جیسے ہوں گے وہ مجھے جان لیں گے جن کے انداز جداگانہ ہوں وہ مجھ سے کنارہ کر لیں گے ۔ کہ یہی دستور دنیا ہے
زندگی کی تلخی اور شیرینی دونوں سے انکار نہیں پر مجھے لگتا ہے کہ ہم نے تلخی کو اتنا بیان کر ڈالا کہ امید کی راہ کھوٹی کر دی ۔ تلخی کو بیان ضرور کیا جائے لیکن اسے اعصاب پہ سوار نہ کر لیا جائے ۔ بھوک اور افلاس سے بڑھ کر ظلم اور تلخی نہیں ۔ جس معاشرے میں لوگوں کے پاس اتنی دولت ہے کہ رزق کا ضیاع انھیں عام بات لگتی ہے اسی معاشرے مین کوڑے کے ڈھیر پہ رزق کے دانے چننے والوں کی بھی کمی نہیں ۔ اگر ان کی بھوک کا اتنا رویا رویا جائے کہ وہ قتل و غارت گری چوری وڈاکہ زنی کو اپنا حق سمجھ بیٹھیں وہاں میرے خیال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان دولت مندوں میں یہ احساس پیدا کیا جائے کہ جو فراوانی اللہ نے تمھین عطا کی اس میں دوسروں کا حصہ بھی ہے جس کا تم سے سوال کیا جائے گا تو شاید کچھ مثبت نتائج کی امید بندھے ۔ یہ زندگی کو دیکھنے کا میرا انداز ہے آپ کا اس سے اتفاق ضروری نہیں اور اس کی مخالفت مجھے گوارا نہیں ۔ اختلاف کا حق بہر حال سب کا ہے ۔
مجھے زندگی کے منفی پہلو پہ رونے کی بجائے زندگی کے مثبت پہلو کو دیکھنے کی عادت ہے ۔
موضوعات زندگی تکلیف دہ ہیں ضرور لیکن اس پر ہنسی کا خول چڑھا کہ پیش کر دیتی ہوں کہ جو اہل دل ہیں سوچیں گے ضرور ۔
جنھوں نے مجھ سے تعارف کی درخواست کی تھی اب بھگتیں ۔ کہ
حضرت داغ جہان بیٹھ گئے بیٹھ گئے
اور
جو موضوع شروع کر دیا بس کر دیا ۔ ہاں کسی موضوع پہ میری زبانی رائے لینے سے احتراز برتا جائے کہ بولنا میرے لئیے امر محال ہے ۔ زبان کی تکلیف مجھے ہر گز گوارا نہیں ۔ لکھنے کو دیوان لکھ ڈالیں ۔
اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ اردو محفل والے باھر پھینک آئیں گے تو روز ایک دیوان آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ۔ پر سیانے کہتے ہیں قدر کم کر دیتا ہے روز کا آنا جانا ۔
اب اجازت ۔
تعارف کی مد میں دیوان پیش کرنے پہ معذرت ۔
گو ہمارے تعارف کی کچھ ایسی ضرورت ہم تو نہ محسوس کرتے تھے کہ امامیات کی صورت روز ہماری زندگی کے ایک پہلو کا تعارف ہو جاتا ہے لیکن کچھ احباب بضد ہیں کہ رسم تعارف کی رسم ادا ہونی ضروری ہے ۔
میں اور امامیات ایک ہی سلسے کی ایک ہی کڑی ہیں ۔ اس لئیے کچھ بات اس ہی حوالے سے ہو جائے ۔
امامیات کی داستان میری حیات کی داستان ہے ۔ میں ایک عام سیدھی سادی گھریلو خاتون ۔ جس کی زندگی کی کہانی میں کوئی چاشنی نہیں ۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ زندگی کا یہ بھی ایک رنگ ہے جسے لوگ جان لیں گے اور چونکہ میں موجود ہوں تو اس رنگ کا انکار ممکن نہیں ۔
یہ کہانی ہے ایسی خاتون کی جو متقی نہیں اور یہ کہانی ہے ایک ایسی خاتون کی جو گناہگار بھی نہیں ۔ یہ کہانی ہے ایسی خاتون کی جس کا کہنا ہے
شوق پینے کا مجھ کو زیادہ نہیں
ترک توبہ کا کوئی ارادہ نہیں
یہ دین و دنیا کے مابین ایک کشمکمش میں گرفتار انسان کی بات ہے ۔ جس کا یہ کہنا ہر گز نہیں کہ کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے ۔ بلکہ یہان تو کعبہ و کلیسا دائیں بائیں ہیں کہ ایک قدم کعبہ میں ہو تو دوسرا کلیسا میں جا پڑتا ہے ۔
ایمان کے بچاوء کے لئیے ہر دور میں امام کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اور جو امام کی اتباع کو لازم کر لے بھٹکنے سے بچ جاتا ہے ۔ اور جنھین میری طرح امام سے بھی حجت کی عادت ہو وہ یا تو درست مقام کو پا لیتے ہیں یا تمام عمر کج بحثیوں میں ہی گزر جاتی ہے ۔
میں نے امام صاحب سے کیا سیکھا کیا سیکھنا باقی ہے کیا سیکھ کر عمل کے دائرے کو خالی چھوڑ دیا ۔
یہ باتیں نہ تو فلسفیانہ ہیں نہ صوفیانہ نہ دنیاویانہ ۔ یہ باتیں ایک عام خاتون کی نہایت عام سی باتیں ہیں ۔
جس کے لئیے گناہ کبیرہ کی تعریف یوں بھی ہو سکتی ہے کہ ھاتھ میں تسبیح پکڑے زبان پہ غیبت جاری ہو ۔
جس نے اگر ایک گھنٹہ وقت کا ضیاع کیا تو فکر لا حق ہو گئی کہ بایاں فرشتہ ایک گھنٹہ رجسٹر بھرتا رہا اب ایسا کیا کیا جائے کہ دونوں رجسٹروں کا وزن مساوی ہو جائے ۔
یہ بات اگر کسی کو ماورائی لگے تو جان لیجییے کہ دنیا کی 6 ارب کی آبادی میں ایک ایسی خاتون ہے اور وہ میں ہوں ۔ جو مجھ جیسے ہوں گے وہ مجھے جان لیں گے جن کے انداز جداگانہ ہوں وہ مجھ سے کنارہ کر لیں گے ۔ کہ یہی دستور دنیا ہے
زندگی کی تلخی اور شیرینی دونوں سے انکار نہیں پر مجھے لگتا ہے کہ ہم نے تلخی کو اتنا بیان کر ڈالا کہ امید کی راہ کھوٹی کر دی ۔ تلخی کو بیان ضرور کیا جائے لیکن اسے اعصاب پہ سوار نہ کر لیا جائے ۔ بھوک اور افلاس سے بڑھ کر ظلم اور تلخی نہیں ۔ جس معاشرے میں لوگوں کے پاس اتنی دولت ہے کہ رزق کا ضیاع انھیں عام بات لگتی ہے اسی معاشرے مین کوڑے کے ڈھیر پہ رزق کے دانے چننے والوں کی بھی کمی نہیں ۔ اگر ان کی بھوک کا اتنا رویا رویا جائے کہ وہ قتل و غارت گری چوری وڈاکہ زنی کو اپنا حق سمجھ بیٹھیں وہاں میرے خیال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان دولت مندوں میں یہ احساس پیدا کیا جائے کہ جو فراوانی اللہ نے تمھین عطا کی اس میں دوسروں کا حصہ بھی ہے جس کا تم سے سوال کیا جائے گا تو شاید کچھ مثبت نتائج کی امید بندھے ۔ یہ زندگی کو دیکھنے کا میرا انداز ہے آپ کا اس سے اتفاق ضروری نہیں اور اس کی مخالفت مجھے گوارا نہیں ۔ اختلاف کا حق بہر حال سب کا ہے ۔
مجھے زندگی کے منفی پہلو پہ رونے کی بجائے زندگی کے مثبت پہلو کو دیکھنے کی عادت ہے ۔
موضوعات زندگی تکلیف دہ ہیں ضرور لیکن اس پر ہنسی کا خول چڑھا کہ پیش کر دیتی ہوں کہ جو اہل دل ہیں سوچیں گے ضرور ۔
جنھوں نے مجھ سے تعارف کی درخواست کی تھی اب بھگتیں ۔ کہ
حضرت داغ جہان بیٹھ گئے بیٹھ گئے
اور
جو موضوع شروع کر دیا بس کر دیا ۔ ہاں کسی موضوع پہ میری زبانی رائے لینے سے احتراز برتا جائے کہ بولنا میرے لئیے امر محال ہے ۔ زبان کی تکلیف مجھے ہر گز گوارا نہیں ۔ لکھنے کو دیوان لکھ ڈالیں ۔
اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ اردو محفل والے باھر پھینک آئیں گے تو روز ایک دیوان آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ۔ پر سیانے کہتے ہیں قدر کم کر دیتا ہے روز کا آنا جانا ۔
اب اجازت ۔
تعارف کی مد میں دیوان پیش کرنے پہ معذرت ۔