اماں شیراں ۔۔۔۔۔۔ فرحت پروین

نوید صادق

محفلین
فرحت پروین


اماں ش
یراں
کالی اوڑ ھنی، پھول دار کرتے اور گہرے نیلے تہمد میں ملبوس دہرے بدن کی ڈھلتی عمر کی وہ خاتون بڑ ی متوازن رفتار سے راہ داری میں سے چلتی ہوئی آ رہی تھی۔میں بیرونی گیٹ کے کٹاؤ میں اسے آتا دیکھ کرسوچ رہی تھی کہ اس عورت کے لباس میں تینوں کپڑ ے مختلف رنگ کے ہونے کے باوجود عجیب نہیں لگ رہے کیوں کہ پہننے والی کی چال ڈھال اور انداز میں ایک خاص رکھ رکھاؤ اور وقار ہے ۔
میری نند سلیقہ کا سسرال دیہات سے ہے ۔ میں سمجھ گئی کہ یہ انھی میں سے کوئی ہو گی۔میں نے بڑ ے تپاک سے مودٔب ہو کر سلام کرتے ہوئے اس سے ہاتھ ملایا۔۔ اس نے ہاتھ تو ملا لیا مگر ایک لاتعلقی سے سلام کا جواب دیتے ہوئے میرے آگے آگے چلتی ہوئی عقبی صحن میں چلی گئی۔مجھے اس کا رویہ کچھ عجیب لگا۔میں اندر داخل ہوئی تو فوراً ہی مارے تجسّس کے سلیقہ سے پوچھا:
’’وہ جس نے گیٹ کھولا تھا، وہ کون تھی؟‘‘
’’اماں شیراں ‘‘ اس نے مختصر سا جواب دیا۔
’’تمھاری سسرال میں سے ہے نا؟‘‘
’’نہیں !‘‘
’’پھر۔۔۔؟‘‘
’’گھر کے کام میں مدد کے لیے رکھی ہے ۔‘‘
’’اچھ۔۔۔چھا‘‘ مجھے حیرت ہوئی۔ ’’ویسے ہے بڑ ے رعب داب والی، کام کرنے والی بالکل نہیں لگتی۔ میں نے تو بڑ ی عزت بل کہ عاجزی سے اسے سلام کیا ہے ۔‘‘
’’ وہ ہے بھی ایسی ہی۔‘‘
پھر چائے کے دوران اس نے مجھے اس کی پوری کہانی سنائی کہ۔۔۔
وہ ننکانہ صاحب کے قریب ہی ایک دیہہ(گاؤں ) میں رہتی تھی۔تھوڑ ی سی زمین اور دو چار ڈھور ڈنگروں کے ساتھ چار بیٹے اور بیٹیاں تنگی ترشی سے پل کر جوان بھی ہو گئے اور اپنے اپنے گھروں کے بھی ہو گئے ، سواے سب سے چھوٹی بیٹی کے جس کی شادی کی بات چل رہی تھی۔ میاں اس کی شادی بیٹی سے دُگنی سے بھی کچھ زیادہ عمر کے نکھٹو بھتیجے سے کرنا چاہتا تھا اور اماں شیراں اسے جانتے بوجھتے ہوئے کنوئیں میں پھینکنے پر تیار نہ تھی۔جب کہ اس کے جوڑ کا اچھا رشتہ بھی موجود تھا۔اختلاف بڑ ھتا رہا۔ اور ایک دن اسی جھگڑ ے میں بات کچھ زیادہ ہی بڑ ھ گئی۔ شیراں کے میاں نے اسے دھکا دیتے ہوئے کہا۔’’نکل جا میرے گھر سے ۔‘‘ ’’تمھارے گھر سے نکل جاؤں ؟‘‘ اماں شیراں نے ایک ایک لفظ پر زوردے کر کہا۔ ’’ہاں ، ہاں ۔۔۔ میرے گھر سے نکل جاؤ۔‘‘ اس نے اسی لہجے میں کہا۔
یہ بات شیراں کے دل میں تیر کی طرح جا لگی اور اسے ایسا گہرا گھاؤ لگا کہ وہ تڑ پ اٹھی۔۔۔ تو کیا یہ گھر اس کا نہیں ہے ۔۔۔ وہ گھر جس کے لیے اس نے اپنا خون پسینا ایک کیا۔ کچی عمر کی الھڑ جوانی سے محنت مشقت کرتے ہوئے اپنا آپ بھلا دیا۔ یہاں تک کہ ادھیڑ عمری کی دہلیز پر آ پہنچی۔ اور پھر اسے گوارا نہ ہوا کہ جس گھر کو وہ صرف اپنا گھر سمجھتا ہے ، بے عزتی کے ساتھ رہے ۔
شیراں نے کپڑ وں کا جوڑ ا تک نہ اٹھایا۔پلے تھا ہی کیا۔ پیسے جوڑ جوڑ کر کرائے کا بندوبست کیا اور اسی وقت گھر سے نکل کھڑ ی ہوئی، بغیر یہ سوچے کہ اس کا کوئی اور ٹھکانہ تو ہے نہیں ۔۔۔ کہاں جائے گی۔
اس کی برادری کی ایک عورت لا ہور میں کسی کے گھر کام کرتی تھی۔ شیراں نے سوچا، وہ بھی کسی گھر میں کام کر لے گی۔بس کا ٹکٹ خریدا اور لا ہور آ پہنچی۔بس جہاں رکی، وہاں سے پیدل چلنا شروع کر دیا اور رہائشی آبادی میں جو پہلا گھر نظر آیا اس کی گھنٹی بجا دی۔ یہ اور بات کہ وہ ایک در بند ہونے پر سو در کھولنے والا اس کے بھٹکنے سے بچنے کا انتظام کیے بیٹھا تھا۔اتنی امید تو خود شیراں کو بھی نہیں تھی کہ وہ گھر سے نکل کر سیدھی یوں یہاں آ پہنچے گی جیسے وہ اسی گھر میں آنے کے لیے بس میں سوار ہوئی تھی۔
سلیقہ بھی اپنی طرح کی ایک ہی ہے ۔آج کل کے زمانے میں کوئی بھی بغیر کسی جان پہچان کے کسی کو دہلیز میں قدم نہیں رکھنے دیتا۔ مگر یہ دل کے ہاتھوں مجبور ہر ایک کے کام آنے کی دُھن میں فوراً ہی ہر خطرہ مول لینے کو تیار ہو جاتی ہے ۔بل کہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ بے خطر ہر ایک کی آگ میں کود پڑ تی ہے ۔کئی بار دھوکہ بھی کھایا، نقصان بھی اٹھایا۔ مگر اپنی روش نہ بدلی۔ایک تو شیراں کی شخصیت، دوسرے خود سلیقہ کا مزاج، طبیعت اور پھر ضرورت۔۔۔ سو بڑ ی سہولت سے معاملات طے پا گئے اور شیراں ’’اماں شیراں ‘‘ بن کر ان کی گرہستی میں داخل ہو گئیں ۔
سلیقہ نے بتایا کہ اسے تو گھر بیٹھے نعمت مل گئی ہے ۔ اماں شیراں اپنے کام سے کام رکھتی ہے ۔فارغ ہو تو پچھلے برآمدے میں بیٹھی رہتی ہے ۔ رات کو بھی وہیں سوتی ہے ۔ کبھی اندر لاؤنج میں ٹی وی وغیرہ دیکھنے کو نہیں آ بیٹھتی۔کبھی اپنے ہاتھ سے اٹھا کر نہیں کھایا پیا۔ جو دے دیا کھا لیتی ہے ۔ لالچی بالکل نہیں ہے ، نہ ہی کچھ مانگنے کی عادت ہے ۔ایک جوڑ ے میں آئی تھی، میں نے دو جوڑ ے بنوا دیے ہیں تو بہت منع کرتی رہی کہ ایک ہی بہت ہے ۔ ’’بھئی ایسی رعب داب والی معزز عورت کو کام بتانے کی میری تو ہمت نہ پڑ ے ۔‘‘ ’’پڑ تی تو میری بھی نہ، مگر بتانا ہی نہیں پڑ تا، خود سے کر دیتی ہے ۔ بڑ ی محنتی اور مخلص ہے ۔‘‘
میں اماں شیراں کی شخصیت سے بہت متاثر ہوئی۔ اس کے سامنے مجھے اپنا آپ بہت حقیر ، بہت چھوٹا لگا اور میں بے حد اداس ہو گئی۔
عائلی زندگی کے گزشتہ برسوں میں کئی بار ایسے مواقع آئے تھے جب میری انا کو زبردست ٹھیس پہنچی تھی۔ میرا بھی کیسا کیسا دل نہ چاہا تھا کہ اس گھر کو چھوڑ کر چلی جاؤں ۔ جہاں میری کوئی عزت نہیں مگر رو دھو کر خاموش ہو گئی۔ یہ سوچ کر خود کو تسلی دی کہ میں اس گھر کو جوڑ ے رکھنے کے لیے اولاد کے سکھ کے لیے یہ قربانی دے رہی ہوں ۔لیکن اماں شیراں کی کہانی سن کر مجھے اپنے دل میں اعتراف کرنا پڑ ا کہ گھر اور بچوں کے لیے قربانی کے علاوہ دُور کہیں اندر سے علیحدگی کی صورت میں عملی زندگی کی مشکلات کا ڈر بھی ہوتا تھا۔سو ڈھیٹ بن کر ٹال جاتی اور زندگی پھر معمول کے مطابق چل پڑ تی۔
گھر پہنچ کر بھی بجھی بجھی سی رہی۔یہ ہوتی ہے عزتِ نفس اور یہ ہوتا ہے اپنی ذات پر اعتماد اور خدا پر بھروسہ۔ میرے پاس تو ان تینوں میں سے ایک بھی نہیں ۔وہ تو مالامال ہے ، پرُ اعتماد، مطمئن۔ صحیح معنوں میں مفلس تو میں ہوں ، نہ خود پر بھروسہ، نہ خدا پر۔آرام طلبی نے ڈھیٹ اور بے غیرت بنا دیا ہے ۔اب خود کو دھوکہ دینے کے لیے چاہے اس رویّے کو کوئی بھی اچھا سا نام دیتی رہوں ۔
اکثر یونہی ہوتا ہے جب کم ہمتی اور بزدلی آپ کے خوابوں کے صورت پزیر ہونے میں حائل ہو، ایسے میں اگر آپ وہ تمام خوبیاں کسی شخصیت میں دیکھ لیں جو آپ خود میں دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر آپ اس کا بت بنا کر اپنے ذہن میں سجا لیتے ہیں ۔اماں شیراں بھی میری آئیڈیل بن گئیں ۔
میرا جب بھی اپنی نند کے گھر جانا ہوتا، اماں شیراں سے بڑ ی محبت سے ملتی اور کرید کرید کر اس کی باتیں پوچھتی۔
سلیقہ نے بتایا ’’ میرے کام سے فراغت کے بعد اماں شیراں مقابل والے گھر کا بھی جھاڑ و برتن کرنے لگی۔ میرے پاس پیسے جمع کر رہی ہے ۔ویسے اماں شیراں ہے ذرا عجیب۔‘‘
پھر میرے استفسار پر سلیقہ کی زبانی بتائی ہوئی اماں شیراں کی کہانی سے اس کی شخصیت کا ایک اور پرت کھلا۔
شیراں اپنی چاروں بہوؤں میں سے ثریاں کو بہت عزیز رکھتی تھی۔ ثریاں تھی بھی بہت پیاری۔۔ اونچا لانبا قد، گورا رنگ جو کھلی فضا اور دھوپ چھاؤں میں کام کرتے کرتے مدھم پڑ گیا تھا مگر اس سنہرے رنگ میں کھلتے گلاب جیسی سرخی میں وہ دل کشی تھی کہ نظر پلٹنا بھول جائے ۔موٹی موٹی(چیرویں ) آنکھیں ، ستواں ناک اور بھرے بھرے ہونٹوں والے گلابی دہانے کے اندر موتیوں کی طرح جڑ ے دانت اور سب سے بڑ ھ کر اس کے چہرے پر ایک عاجزی اور بھول پن تھا۔صورت تو اس کی جو تھی، سو تھی مگر سب سے بڑ ھ کر اس کی عادات اور اخلاق تھے ۔پتہ نہیں کس دنیا سے تھی وہ۔ساس کی، سسر کی، نندوں کی، دیورانیوں کی، پاس پڑ وس کی، ہر ایک کی جی جان سے خدمت کر رہی ہے ۔دکھ سکھ میں کام آ رہی ہے ۔دوستی دشمنی، بدلے مقابلے کا اس نے کبھی نہ سوچا۔ اسے دیکھ کر احساس ہوتا تھا کہ اگر انسان نیک نیتی سے کام کرنا چاہے تو کتنا کچھ کر سکتا ہے ۔اس کے ہاتھ میں برکت تھی۔اس کے وقت میں برکت تھی۔ایسی لڑ کی سے کوئی کیسے حسد کرتا۔ سبھی اسے بہت چاہتے اور رحمے کی قسمت پر رشک کرتے ۔
تین چار سال اس کے ہاں بچہ نہ ہوا۔ دیہاتوں میں سال بھر بعد ہی لوگ دوسری شادی پر تیار ہو جاتے ہیں ۔عزیزوں رشتہ داروں نے ادھر اماں شیراں کو اکسایا، ادھر رحمے کو دوسری شادی کے مشورے دینے لگے ۔مگر اماں شیراں نے بڑ ی سختی سے یہ کہہ کر سب کا منہ بند کر دیا۔’’ بچی ہے ابھی، کون سی اس کی عمر نکلی جا رہی ہے اور جو بچہ نہ بھی ہوا تو کون سا رحمے کے مربعے ہیں یا مِلیں فیکٹریاں کھڑ ی ہیں کہ وارث ضرور چاہیے ۔اولاد غریبوں کی تو خوشی ہی ہوتی ہے ، وہ ویسے ہی آپس میں خوش ہیں ۔اللہ نے چاہا اور قسمت میں ہوا تو اولاد بھی ہو جائے گی۔‘‘ ’’کمال ہے کوئی اَن پڑ ھ دیہاتی عورت ایسی اچھی سوچ رکھے ۔ سچ ہے عقل و دانش خدا کی دین ہے ورنہ پڑ ھے لکھے جاہلوں سے تو دنیا بھری پڑ ی ہے ۔‘‘ اماں شیراں کا قد میری نظر میں اور بڑ ھ گیا۔
’’ہاں ، محبت بھی عجب اکسیر ہے ۔ دلوں کو کیسا وسیع اور خالص بنا دیتی ہے ۔اماں شیراں کو بھی ثریاں سے محبت تھی نا۔‘‘ سلیقہ نے اسے دوسرے زاویے سے سوچا۔
اور چار سال بعد ثریاں کی گود میں بیٹا تھا۔ اس سے اگلے سال بیٹی بھی پیدا ہو گئی۔ عادل اور عابدہ کے تین سال بعد پھر بچے کی ولادت میں جانے کیا گڑ بڑ ہوئی کہ بچہ پیٹ کے اندر مر گیا۔ خدا جانے لڑ کا تھا کہ لڑ کی۔۔۔ ثریاں کو ہسپتال لے جانے کی تیاری کر رہے تھے کہ اس نے دم دے دیا۔
رحما جوان ہی تھا مگر اماں شیراں نے اس کی شادی نہ ہونے دی۔ کہتی ہے میں مرغی کے بچوں میں بلی کیوں چھوڑ نے دیتی۔سوتیلی ماں باپ کو بھی سوتیلا کر دیتی ہے ۔ اپنی عادی اور عابو کی ماں میں ہوں اور باپ صرف انھی کا باپ رہے گا۔پوتے کو پڑ ھا رہی ہے ۔ کہتی ہے ۔’’ کچھ ہی برسوں کی بات ہے ، عادل جوان ہو جائے گا تو بہو خود ہی آ کر گھر سنبھال لے گی۔‘‘ ’’حد نہیں کرتی اماں شیراں بھی۔‘‘ ’’ہاں ، محبتوں میں اس طرح حد سے گزرنے کا ظرف بھی کسی کسی کا ہوتا ہے ۔‘‘ ’’ اب یہاں اسے انھی کی فکر کھائے رہتی ہے ، کہتی ہے ۔’’ باجی! عابو کو اپنے پاس رکھ لیں ۔ کھانا میں خود پکاتی ہوں ، اوپر کے کام کے لیے وہ خود موجود ہے ۔ میں نے کیا کرنا ہے عابو کو۔۔۔‘‘ کہتی ہے ۔’’ آپ اسے تنخواہ وغیرہ کچھ نہ دیں ، اچھا کھائے پیے گی تو جلدی بڑ ی ہو جائے گی اور میں اس کی شادی کر دوں گی۔میری زندگی کا کیا بھروسہ۔ میری عابو بڑ ی ہشیار ہے ، اسے کھانا پکانا سکھا دینا، آپ کی مدد کرے گی۔‘‘ میں تو چپ رہی۔ بھلا نو دس سال کی بچی کیا کھانا پکانا کرے گی۔‘‘ ’’بلا لو عابو کو، میں رکھ لوں گی۔‘‘ میں نے اماں شیراں کی عقیدت میں کہہ دیا۔ ’’ آپ کیا کریں گی، آپ کے پاس تو پہلے ہی کئی ملازم ہیں ۔‘‘ ’’چلو میرے ذاتی چھوٹے موٹے کام کر دے گی۔‘‘ پھر عابو آ ہی گئی۔ ایسی پیاری صورت کہ نظر نہ ہٹے ۔’’ماں پر گئی ہو گی۔‘‘ میں نے ثریاں کی تعریفیں سن رکھی تھیں ۔ ’’ماں تو اس سے بھی خوبصورت تھی۔‘‘ اماں شیراں بول اُٹھیں ۔ ’’ اس کی آنکھیں رحمے پر چلی گئی ہیں ۔ ثریاں کی تو ایسی کھلی کھلی آنکھیں تھیں کہ اس کی ایک آنکھ میں پورا آدمی سما جائے ۔‘‘ اس انوکھی تعریف پر مجھے ہنسی روکنا مشکل ہو گئی۔
اماں شیراں کو آئے ہوئے تقریباً ایک سال ہو چلا تھا۔ شروع شروع میں تو اس کے بیٹے بیٹیاں ملنے آتے اور اسے واپس گھر چلنے پر اصرار کرتے رہے مگر اماں نہ مانی تو انھوں نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ یوں بھی اسے اچھی طرح رہتے دیکھ کر انھیں اطمینان ہو گیا۔
عابو میرے پاس خوش تھی۔ میں نے اسے پڑ ھانا بھی شروع کر دیا تھا اور بول چال اٹھنے بیٹھنے کی تمیز بھی سکھاتی رہی۔ وہ ہر چیز بڑ ی خوشی سے سیکھتی۔ مگر صرف چھ مہینے بعد ہی میرے میاں کی تین سال کے لیے تُرکی میں پوسٹنگ ہو گئی اور میں عابو کو واپس کر کے چلی گئی۔
بیچ میں ایک ہفتے کے لیے اپنی چھوٹی بہن کی شادی پر آئی تو پتہ چلا کہ اماں شیراں کا میاں فوت ہو گیا ہے مگر اماں شیراں تب بھی نہ گئی، بولی۔’’میرے لیے تو وہ اسی دن مر گیا تھا جس دن میں نے اس کا گھر چھوڑ ا تھا۔‘‘ ’’توبہ! کیسا پتھر دل ہے اس عورت کا۔‘‘ پتہ نہیں کیوں مجھے اچھا نہیں لگا۔
تین سال بعد لوٹی تو گرہستی نئے سرے سے شروع کرنی پڑ ی۔ صفائی وغیرہ کا بھی بہت کام تھا۔ میں نے ایمپلائمنٹ ایکسچینج یعنی اپنی نند کی طرف رجوع کیا۔ اس کے گھر پہنچی تو دیکھا ٹی وی لاؤنج میں کھلتی رنگت اور سنہری بھورے بالوں والی دس گیارہ برس کی لڑ کی نارنجی رنگ کا قیمتی سوٹ پہنے اور اس کی ہم رنگ لپ اسٹک لگائے جھاڑ و لگا رہی تھی۔ لڑ کی کی آنکھیں مبالغے کی حد تک لمبی تھیں اور گول مٹول چہرے پر بڑ ی معصومیت تھی۔
’’کون ہے ؟‘‘ میں نے آنکھ کے اشارے سے سلیقہ سے پوچھا۔ ’’اماں شیراں کی پوتی ہے ۔‘‘ سلیقہ مختصر سا جواب دے کر چائے وغیرہ کا انتظام کرنے کچن میں چلی گئی۔ ’’کیا نام ہے تمھارا؟‘‘ میں نے لڑ کی سے پوچھا۔
’’لڑ کی نے مسکرا کر کندھے ا چکائے ۔’’مجھے نہیں آتا۔‘‘
’’کیا مطلب۔۔ تمھیں اپنا نام نہیں آتا؟‘‘
’’ہاں جی‘‘ اس نے اسی لاپروائی سے جواب دیا اور اپنے کام میں مگن رہی۔
’’اچھا، یہ بتاؤ تم نے لپ اسٹک کیوں لگائی ہے ۔۔۔ بچے لپ اسٹک نہیں لگاتے ۔‘‘
’’میری باجی نے مجھے دی ہے ، اس لیے ۔‘‘
’’کون سی باجی؟‘‘
’’میری باجی، جس کے پاس میں کام کرتی ہوں ۔۔ یہ ساتھ والے گھر میں ۔‘‘
اتنے میں سلیقہ آ گئی۔ میں نے ہنس کر اسے بتایا۔ ’’یہ لڑ کی کہتی ہے ، اسے اپنا نام نہیں آتا۔‘‘
’’ٹھیک کہہ رہی ہے ۔یہ لوگ بڑ ے شوق سے مشکل مشکل نام رکھ لیتے ہیں ۔ پھر انھیں صحیح طرح ادا نہیں کر پاتے ۔ اس کی دادی سے پوچھو تو وہ اس کا نام گفتان بتاتی ہے ۔ ویسے سب اسے گپھو کہتے ہیں اور دراصل اس کا نام شگفتہ ہے ۔‘‘
تب تک گپھو جھاڑ و لگا چکی تھی، اس لیے وہ باہر چلی گئی۔
’’مجھے لگتا ہے یہ کہیں پیچھے سے شاہی خاندان سے ہیں ، آنکھیں دیکھی تھیں اس کی۔‘‘
’’ہو بھی سکتا ہے ، شکار کرتے ہوئے بھٹک کر گاؤں کی طرف آ نکلنے والے کسی بادشاہ ، شہزادے کی نظرِ عنایت کے طفیل۔‘‘ اور وہ کھل کر ہنس دی۔
’’اماں شیراں کو سمجھاؤ۔ ایسی صورت والی الھڑ اور نادان بچی کو کسی کے گھر نہیں چھوڑ نا چاہیے ۔ تم نے سنے نہیں ، سینکڑ وں واقعات۔۔۔ کیا ہوتا ہے ان کے ساتھ۔‘‘
’’ٹھیک ہے ، میں کیا سمجھاؤں ، بچی نہیں ہے اماں شیراں ۔۔ جہاں دیدہ عورت ہے ۔ تم چائے تو پیو۔‘‘
مجھے لگا اسے میری اماں شیراں اور اس کے معاملات میں اتنی دلچسپی اچھی نہیں لگی۔ میں پوری توجہ سے چائے پینے لگی۔اماں شیراں نے برتن اٹھائے ، وہ مجھے بدلی بدلی لگی۔ چہرے کے ٹھہراؤ میں اب ایک سختی سی شامل ہو گئی تھی۔اس کے بدن کی حرکات و سکنات میں سستی مگر چندھی چندھی آنکھوں میں ایک پرتجسس تیزی تھی۔ بڑ ھتی عمر نے اماں شیراں کی شخصیت کا وقار چھین لیا تھا۔
’’اماں شیراں بے چاری بڑ ی تیزی سے ڈھل رہی ہے ۔‘‘ میں نے افسوس کا اظہار کیا، اور اس کے گن گاتی نہ تھکنے والی سلیقہ نے خلافِ توقع بڑ ی بے زاری سے کہا۔’’ کئی بار کہا ہے کہ اماں اب تمھاری صحت اچھی نہیں ، بہت کام کر لیا، اب گھر جاؤ، آرام کرو۔۔۔ مگر اَن سُنا کر کے پھرتی رہتی ہے ۔ اب اٹھا کر پھینکنے سے تو رہی۔‘‘
’’ایسی کیا بات ہو گئی ہے ؟‘‘
’’ اماں شیراں نے پورے شہر میں اپنی نواسیا ں ، پوتیاں پھیلا دی ہیں ۔ دس دس گیارہ گیارہ برس کی بچیاں ۔۔ مگر عمر کہیں رکی رہتی ہے ۔آسودگی کا کھانا پینا ملنے پر وہ ہاتھ پیر نکالے ہیں کہ پوچھو مت۔ صورتیں تو ان کی اچھی ہیں ہی، شہر کی ہوا خوب لگی ہے ۔ہر طرف سے شکایتیں آ رہی ہیں ، مگر اماں شیراں کان لپیٹے بیٹھی ہیں ۔ مصیبت مارے سب کے فون میرے گھر آتے ہیں ۔میں کہتی بھی ہوں کہ میری کوئی ذمہ داری نہیں ، مگر اماں شیراں کی وجہ سے بات کرنی پڑ تی ہے ۔ کئی بار بیگمات خود چلی آتی ہیں ۔بڑ ی کوفت ہوتی ہے ۔ میاں الگ ناراض ہوتے ہیں کہ سارا دن گھر میں اماں شیراں کی پوتیوں ، نواسیوں کی نظر بازیوں کے قصے چلتے رہتے ہیں ، بچوں پر برا اثر پڑ ے گا۔‘‘
میں حیران یہ سب سنتی رہی۔
اتنے میں فون آ گیا۔سلیقہ نے رسمی سلام دعا کے بعد کہا۔ ’’ شکر ہے ، میں نے تو آپ کو پہلے ہی کہہ دیا تھا، میری کوئی ذمہ داری نہیں ۔آپ جانیں اور اماں شیراں جانے ۔۔۔۔۔ لیں اِن سے بات کریں ۔‘‘ اس نے کورڈلیس فون برآمدے میں جا کر اماں کو پکڑ ا دیا۔
’’توبہ، آخر آئی ہوئی ہے اس فری کم بخت کو۔‘‘
’’کون فری؟‘‘ نہ چاہتے ہوئے بھی میرے منہ سے نکل گیا۔
’’اماں کی نواسی۔۔۔ مسز بھٹی کہہ رہی تھیں ، اس کی ماں کو کہو، اسے لے جائے ، مجھے نہیں اسے رکھنا۔ مجھ سے نہیں اس کے پہرے دیے جاتے ۔آفت مچا رکھی ہے اس نے ۔‘‘
’’اچھا، میں چلتی ہوں پھر ذرا کوئی انتظام کرنا کسی صفائی والی کا۔‘‘ اس کا بگڑ ا ہوا موڈ دیکھ کر میں نے جانے کی ٹھانی۔
’’فی الحال تم اماں کو لے جاؤ، کل آ جائے گی تمھاری ملازمہ۔‘‘
’’اتنے میں اماں فون واپس کرنے آ گئیں اور سلیقہ سے بولی۔ ’’پتر! ذرا گفورے دا سیل ملا دے ، اوہنوں کہنا اے ، بیدی نوں گھل دیوے ، آ کے فری نوں لے جاوے ، بیگم نہیں رکھدی اوہنوں ۔‘‘
سلیقہ پہلے ہی غصہ دبائے بیٹھی تھی، اماں کی اس فرمائش پر اس کی پیشانی شکن آلود ہو گئی۔اماں نمبر کی پرچی ہاتھ میں لیے کھڑ ی تھی۔ میں نے پرچی اماں کے ہاتھ سے لے کر کہا۔
’’ چلو، میری طرف سے کر لینا۔‘‘
اور اماں کو لے کر آ گئی۔
میں نے جاتے ہی موبائل فون سے نمبر ملا کر اسے پکڑ ا دیا۔
’’گفورے ! کل سویرے بیدی نوں بھیج دے ، اوہنوں کئیں ، سیما نوں نال لے آوے ۔۔ ایتھے میں وعدہ کیتا ہویا اے کسے نال۔‘‘ ’’ہاں ، بس اوپر دا کم۔‘‘ ’’آہو، لاگے ای اے ۔‘‘ ’’ہجار رپیا تنکھا اے ۔‘‘ ’’بس کل ای بھیج دے ۔‘‘
میں حیران تھی، اس نے فری کا ذکر تک نہ کیا۔
میں نے اماں سے کچن کی صفائی کرنے کو کہا تا کہ کم از کم کھانے پکانے کا تو نظام چل جائے ۔ خاصا کام تھا۔ صفائی کر کے جب اماں جانے لگیں تو بولیں ۔ ’’ذرا پتر، بیگم بھٹی کو تو فون ملا دو۔‘‘ اس نے مجھے نمبر کی پرچی دیتے ہوئے کہا۔ میں نے فون ملا کر دے دیا۔
وہ اسے کہہ رہی تھی۔’’ میں نے فری کے ماں باپ سے بات کی ہے ، وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے فری کی شادی کے دن رکھ لیے ہیں ، بس مہینے ڈیڑ ھ کی بات ہے پتر۔۔۔ تین سال سے تیرے پاس رہ رہی ہے ۔اللہ تیرا بخت سلامت رکھے ، اسے بیٹی کی طرح رخصت کر۔ بے شک سختی کرو، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ۔اس کھوتی کو کہو، ذرا عقل مَتّ کرے ۔۔۔ ڈیڑ ھ مہینے بعد تو اس کی شادی ہونے والی ہے ۔ فکر نہ کرو پتر، میں کل آ کر اسے سمجھا جاؤں گی۔‘‘ ’’اللہ تیرا بھال کرے پتر، تیری مہربانی۔‘‘ اس نے فون واپس کریڈل پر رکھ دیا۔
میں ایک صدمے کی کیفیت میں سُن سی بیٹھی رہ گئی۔
میں نے اس کی چیل کی طرح چمکتی پر تجسس آنکھوں ، لمبی ناک اور جھریوں بھرے سوکھے چہرے میں گم شدہ اپنی آئیڈیل، باوقار اماں شیراں کو ڈھونڈنے کی ناکام کوشش کی۔
وہ غیر متوازن قدموں سے چلتی ہوئی بیرونی دروازے کی طرف بڑ ھ رہی تھی اور مجھے لگا میں اماں شیراں کو نہیں ، اس کے بھوت کو جاتے دیکھ رہی ہوں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرحت پروین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکریہ: ماہنامہ بیاض، لاہور
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
استاد جی کیا خوب فرما گئے ہیں:۔

ہیں کواکب کچھ ، نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
 
Top