امتزاج۔

رشید حسرت

محفلین
درد اور تبسّم کا امتزاج کیا ھو گا
کیا خبر کہ اپنوں کا اب مزاج کیا ھو گا

ھم فقیر لوگوں کو، کس لیئے ستاتے ھو؟
پاؤں میں نہیں پاپوش، سر پہ تاج کیا ھو گا

کاٹتے ھوں جو اپنے ہاتھ سے جڑیں اپنی
اس زمیں پہ اے لوگو، پھر اناج کیا ھوگا

اور کُچھ نہ مانگیں گے اہلِ اقتدار ھم سے
بیٹیاں اُٹھا لیں گے، اور خراج کیا ھو گا

دُور سے پرندوں کے پنکھ جب گِنے جائیں
نزد کے پرندوں کا حشر آج کیا ھو گا

جو کسان سے روٹی چھیننے کی عادی ھو
وہ قیادت کیا ھوگی، اس کا راج کیا ھو گا

دل کو ھو گیا لاحق، دردِ لا دوا حسرتؔ
درس بِن بھلا اس کا اب علاج کیا ھو گا۔

رشید حسرتؔ، کوئٹہ۔
 
Top