امجد علی راجا : زمیں میں آسمانوں میں رہا ہوں

سید زبیر

محفلین
امجد علی راجا کے مجموعہ کلام " اضطراب " سے انتخاب​
زمیں میں آسمانوں میں رہا ہوں​
فرشتوں کے ٹھکانوں میں رہا ہوں​
میں نانی کی کہانی میں تھا شامل​
میں دادی کے فسانوں میں رہا ہوں​
بہا ہوں میں غموں کے آنسوؤں میں​
خوشی کے شادیانوں میں رہا ہوں​
تری چاہت کا بھی مقصود تھا میں​
ترے حیلے بہانوں میں رہا ہوں​
جنہیں گاتے رہے دل کے مارے​
ہمیشہ ان ترانوں میں رہا ہوں​
کبھی مجنوں کبھی فرہاد بن کر​
فسانوں ،داستانوں میں رہا ہوں​
رہا ہوں دوستوں کی محفلوں میں​
میں دشمن کے ٹھکانوں میں رہا ہوں​
زمیں کی تہہ میں بھی موجود تھا میں​
فضاؤں، آسمانوں میں رہا ہوں​
کیا حرفوں میں ، لفظوں میں بسیرا​
اشاروں کی زبانوں میں رہا ہوں​
نئی تہذیب میں بھی ہوں میں شامل​
میں پتھر کے زمانوں میں رہا ہوں​
رہا موج و تلاطم میں بسیرا​
میں مٹی کے مکانوں میں رہا ہوں​
خردمندوں میں مثل ِ عقل ہوں میں​
غریبوں کا پسینہ بن کے ہر دم​
سڑک پر ،کارخانوں میں رہا ہوں​
مدینے کی گلی کی خاک ہوں اب​
میں رندوں کے ٹھکانوں میں رہا ہوں​
برا ہوں یا بھلا 'انسان تو ہوں​
صحیفوں میں ، پورانوں میں رہا ہوں​
رہا خالی نہ کوئی عہد راجا​
ہمیشہ سے زمانوں میں رہا ہوں​

امجد علی راجا​
 

طارق شاہ

محفلین
سید صاحب ! اِس اِنتخاب خُوب کیلئےممنُون ہُوں
راجہ صاحب کے متعلق یہیں کہیں پڑھا تھا کہ اُن کی طبیعت نا ساز ہے
الله کرے اب رُوبصحت ہوں، اور لِکھ رہے ہوں
بہت سی دُعائیں اور نیک خواہشات آپ اور صاحبِ تخلِیق کے لئے
تشکّر ایک بار پھر سے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
غریبوں کا پسینہ بن کے ہر دم​
سڑک پر ،کارخانوں میں رہا ہوں​
واہ کیا خوبصورت کلام ہے۔ امجد بھائی بھی بہت سی داد قبول فرمائیں۔ :)
 
Top