یوسف سلطان
محفلین
السلام علیکم
امرتا پریتم کا اک قول ہے (ماخوذ) کہ مرد نے عورت کے ساتھ صرف سونا ہی سیکھا ہے، جاگنا نہیں۔
ویسے تو پہلے بھی کافی دفعہ یہ تصویر نظروں سے گزر چکی تھی . مگر اس پر میں نے کچھ خاص دھیان نہیں دیا تھا .
کل میں نے جب دیکھا تو سوچا کے پتا کرتے ہیں اس کی کیا حقیقت ہے تو میں نے سرچ کی گوگل پہ تو یہ مراسلہ ملا
یہ مضمون 31 جولائی 2015 کی شام، اپنے چند دوستوں کے ساتھ گفتگو کا نتیجہ ہے۔مجھے کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اس شاندار شام کے آخر میں خود میری سوچ اور فکر کا اک مثبت ارتقا ہوا، اور یہ مضمون میں سید مظہر حسین کے نام کرتا ہوں کہ اس گفتگو کو انہوں نے سنبھالے رکھا، اور فکر کے عنصر کو شامل کیے رکھا۔
امرتا پریتم کا اک قول ہے (ماخوذ) کہ مرد نے عورت کے ساتھ صرف سونا ہی سیکھا ہے، جاگنا نہیں۔ اپنے وقت کی وہ بھی برصغیری معاشرے میں عورت کے وجود کے ساتھ جوڑے گئے جنسی تصورات کی باغی تھیں اورمختلف محافل، ادبی تقریبات اور اپنی تحاریر میں باغیانہ، مگر مہذب کوشش کرتی رہیں کہ عورت کو جنس کے روایتی مردانہ تصور سے اگر آزادی نہ بھی مل سکے تو کم از کم اس سوچ میں کوئی بہتری تو آئے۔ وہ یہ بھی کوشش کرتی رہیں کہ عورت کو “کمزور جنس” اور “صنفِ نازک” کے عمومی تصورات، کہ جن کی بنیاد مرد کی فکری اور عقلی نہیں، بلکہ جسمانی برتری کا اک قبائلی اور تاریخی تصور اور تفاخر شامل ہے، میں سے نکالا جائے۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں بارہا برصغیری معاشرے میں عورت کی جنس، صنف نہیں، کی بنیاد پر بےچارگی اور غلامی کے بارے میں تحریر کیا کہ کیسے مرد، جسے خود اک عورت جنم دیتی ہے، دودھ پلاتی ہے، جس سے اپنے پیدا کیے مرد کا نطفہ حاصل کرتی ہے، اس سے کہیں زیادہ اسکی حفاظت اور نشونما کرتی ہے، مگر خود مرد کے اس صنفی کردار کے دباو¿ سے کبھی باہر نہیں نکل سکتی جو معاشرہ اسے اسکی جسمانی طاقت کی بنیاد پر دان کرتا ہے۔ اور کیا ہی عجب حقیقت ہے کہ خاندان کو مرد کا تحفہ نہ دینے پر خود دوسری عورتوں کے صنفی ظلم کا شکار بھی ہو جاتی ہے۔گویا کلاسیکی اعتبار سے برصغیری معاشرے میں عورت جنس اور صنف کے اک مسلسل کشمکش کے گرداب میں چکر کھا رہی ہے، اور موجودہ “جدید دور” بھی اس گرداب چکر کو ختم نہیں کرپایا، اور عورت کی بطور صنف یہ جدوجہد جاری ہے اور نامعلوم کب تک جاری رہے گی!
جنس اور صنف کے طالبعلم یہ جانتے ہیں کہ جنس کا تعلق وجود اور جسم کی ساخت سے جڑا ہوتا ہے، اور صنف کا تصور، جنس کے معاشرتی کردار سے متصل ہوتا ہے۔ آپ اور میں، کسی ایسے انسان کو مرد نہیں کہیں گے، جو دِکھنے میں عورت جیسا ہو، اور کسی انسان کو عورت نہیں کہیں گے جو مرد جیسا نظر آتا ہو۔ گویا جسم کی ساخت انکی جنسی پہچان سے جڑی ہے، مگر انکے جسم کی ساخت کیا انکی معاشرتی پہچان سے بھی جڑی ہونی چاہیے؟ یہی سوال ہے کہ جس پر امرتا پریتم کا قول صادق آتا ہے کہ مردنے عورت کے ساتھ شاید صرف سونا ہی سیکھا ہے!
عمومی طور پر یہ تاریخی بات کم ہی جانتے ہیں کہ عورت نے زراعت، قبیلے، خاندان اور منظم رہن سہن کی بنیاد رکھی۔ تاریخ کے ارتقا میں مرد نے کسی مقام پر اپنی جسمانی طاقت کا ادراک کیا کہ وہ عورت کی نسبت زیادہ تیز دوڑ سکتا ہے، اس میں دور سے نیزہ یا پتھر مار کر جانوروں کو مارنے کی صلاحیت عورت سے زیادہ ہے اور یہ کہ مشترکہ خوف کے خلاف جڑجانے والے لوگوں، جنہوں نے قبائل کی شکل اختیار کی، کے لئے مضبوط تعمیرات کے لیے پتھر اٹھا سکتا ہے۔ آہستہ آہستہ انسانی معاشرے جو مادرانہ سرپرستی میں شروع ہوئے تھے، وہ پدرانہ سرپرستی میں آگئے اور عورت کا صنفی کردار سمٹا چلا گیا اور اسکے برعکس اس کی جسمانی ساخت کی بنیاد پر اسکا جنسی کردار سامنے آتا چلا گیا۔ اسی جسمانی طاقت کی کمتری کی بنیاد پر وہ قبیلہ، کہ جسکی ابتدا عورت نے ہی کی تھی، اس نے عورت کو وجودی اعتبار سے ”ایک شے بنا دیا“کہ جس کی ملکیت مرد کے ہاتھ تھی۔ اس عمل نے عورت کے معاشرتی کردار کی جڑوں کو کھوکھلا کر ڈالا، اور اسکے جنسی و جسمانی کردار کو اسکی ذات کے سامنے لا کھڑا کیا۔ یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے مگر کچھ فکری بہتری سامنے بہرحال آئی ہے، مگر اس میں مرد کی بہترہوتی ہوئی ارتقائی سوچ سے کچھ زیادہ عورت کی مسلسل اور تاریخی جدوجہد کا ہاتھ ہے۔
جنس کے روایتی تصور میں مرد کو جسمانی برتری حاصل ہے۔ خود تخلیق کے عمل میں اک برتری کا احساس ، مرد کے اس جبلی جذبہ سے جڑا ملتا ہے کہ جس کی تحریک اسے اس قدیم قبائلی تصور سے ملتی ہے جہاں عورت، بطور انسان اور جسم، اسکی پراپرٹی تھی۔ بالکل کسی چوپائے کی مانند، مگر مرد نے عورت کے ساتھ ذاتی عزت وانا، غیرت اور اپنے اک جسمانی فعل کے ساتھ جڑی ہوئی قربت کی بنیاد پر رقابت اور ملکیت کے جذبات بھی جوڑے رکھے، اور رکھے ہوئے ہیں۔ تخلیق کے لازم کردہ قربت کے احساس ،کہ جس میں مرد اپنے تئیں اپنی جسمانی برتری کے دستخط کرتا ہے، وہ اسے عورت کی جنس کے حوالے سے اسکی صنفی کمتری اور (گویا) اپنی صنفی برتری کے خیال و خواب میں رکھتا ہے۔ اپنی برتری کے ان خوابات و خیالات میں رہنے والا مرد اس بات پر شاید ہی کبھی غور کرتا ہے کہ اس کے تخلیقی عمل کے چند لمحات کی ذمہ داری، عورت اپنے وجود اور خون کی قیمت سے ادا کرتی ہے۔ نوماہ تو وہ اس کے نطفے کو گوشت کے لوتھڑے میں ڈھالنے سے لے کر اک انسان کی شکل دے کر، اسے جنم دینے کے عمل کو اک فزیکل پراسس کے طور پر پورا کرتی ہے، اور یہ وہ عمل ہے جسکو مرد اپنی آنکھ سے دیکھ اور ہاتھ سے محسوس کرسکتا ہے۔ مگر ان نومہینوں اور اسکے بعد آنے والی کئی دہائیوں کے تک عورت نہ نظر اور نہ ہی محسوس کیے جانے والی بھی کئی قیمتیں ادا کرتی ہے جسکا مرد کو عموما کوئی زیادہ ادراک نہیں ہوپاتا۔
جنس کے حوالے سے مرد کے تصورات طاقت اور قابو(پاور اینڈ کنٹرول) کرنے کے دائرے میں رہتے ہیں، جبکہ عورت اپنے جنسی کردار کو اک تعلق جوڑنے(ریلیٹ) اور قائم رکھنے کے حوالے سے دیکھتی ہے۔ بطور ضرورت، جنس عام طور پر مرد کے جسمانی جذبات کے زیادہ قریب ہوتی ہے، جبکہ عورت اسے جسم اور نفسیات کی کیفیات کے مرکب کے طور پر دیکھتی اور محسوس کرتی ہے۔ تخلیق کے عمل میں اگر مرد اپنی جسمانی برتری کے حوالے سے کسی خواب و وہم کا شکار ہے تو نفسیاتی کیفیات کے حوالے سے عورت کو بھی یہی حق حاصل ہے۔ مگر وہی کہ جسمانی کیفیات دیکھنے سے معلوم پڑجاتی ہیں جب کہ نفسیاتی کیفیات کے مدوجذر کو جاننے و سمجھنے کے لیے بہرحال کچھ کوشش ضرور کرنا پڑتی ہے۔ مرد اس کوشش کو جنس کے حوالے سے جڑی اپنی ضرورت کے بعد کم ہی اہمیت دیتا نظر آتا ہے، جبکہ عورت اپنی جنسی اور صنفی ساخت کی نفسیات کے حوالے سے اس کو جسم کے پیرائے میں کم ہی دیکھتی ہے۔ یہی مردانہ احساس ، جس میں جنس کے ساتھ جڑا اک برتری کا زعم بھی شامل ہے، مرد کو یہ خیال دیئے رکھتا ہے کہ وہ اس عمل کی نفسیات میں چونکہ طاقتور کی حیثیت سے شامل تھا، لہذا پاور اینڈ کنٹرول کا ترازو اسکے حق میں جھکا ہوا ہے۔ اسی خیال سے وہ عمومی احساسات جنم لیتے ہیں جو عورت کو جسمانی، جنسی، صنفی اور نفسیاتی اعتبار سے اپنی ملکیت میں تصور کرتے ہیں، لہذا عورت اک “آبجیکٹ” کی حیثیت سے انکی دسترس میں ہے اور اسے ویسا کرنا چاہیے جیسا کہ ”میں“چاہتا ہوں اور جیسا میں چاہتا ہوں، ویسا نہ کرنے پر گویا ’مجھے‘ اپنی جسمانی طاقت کی بنیاد پر اس پر تشدد کا حق بھی حاصل ہے۔ لہذا اسی لیے اک اکثریت کے پیمانے پر آپکو مرد ہی عورت کے مونہہ پر تیزاب پھینکتا ملے گا، مرد ہی عورت کی عصمت درازی کرتا ملے گا، مرد ہی عورت کے قربت کے اعتماد کی فلمیں اور تصویریں پھیلاتا ملے گا، مرد ہی روایتی، ثقافتی، معاشرتی اور سماجی حوالوں سے کبھی سوارا کرتا ملے گا، کبھی ونی، کبھی وٹوانا، تو کبھی کاری۔ ان اور ان جیسے دوسرے کاموں پر اک عجب سا جاہلانہ قبائلی فخر کرتا بھی، خیر سے، مرد ہی ملے گا۔
حتی کہ برصغیر کی عام فہم گالیاں، جو نفرت ، غصہ، غیرت اور کراہت میں دی جاتی ہیں، ان میں بھی تمام الفاظ کے حوالہ جات، عورت کے رشتوں اور جسم سے ہی جڑے ملتے ہیں۔ بہن .... سننے کو ملتا ہے، بھائی .... نہیں، مادر .... سننے کو ملتا ہے، پدر ....نہیں، کبھی نہیں! کبھی غور کیا کہ اسکی بھی تو کوئی تاریخ، کوئی وجہ ہوگی؟ اگر نہیں کیا تو جناب، یہ غور آج ہی کیوں نہیں؟
معاشرتی حوالے سے عورت کے جنسی اور صنفی اعتماد کی ذمہ داری آپ پر بھی ہے، مجھ پر بھی۔ بدلتے دور میں یہ اعتماد آپ اور میں اگر شعوری طور پر بحال کریں اور بڑھائیں، تو بہتر، وگرنہ صاحبو، زمانہ بدلنے کےلیے ہی بنا ہے، اور بعد از خود مجبوری میں بدلنا پڑتا ہے، وگرنہ کبھی لاو¿ڈ سپیکر بھی حرام تھا!
امرتا پریتم کا اک قول ہے (ماخوذ) کہ مرد نے عورت کے ساتھ صرف سونا ہی سیکھا ہے، جاگنا نہیں۔
ویسے تو پہلے بھی کافی دفعہ یہ تصویر نظروں سے گزر چکی تھی . مگر اس پر میں نے کچھ خاص دھیان نہیں دیا تھا .
کل میں نے جب دیکھا تو سوچا کے پتا کرتے ہیں اس کی کیا حقیقت ہے تو میں نے سرچ کی گوگل پہ تو یہ مراسلہ ملا
یہ مضمون 31 جولائی 2015 کی شام، اپنے چند دوستوں کے ساتھ گفتگو کا نتیجہ ہے۔مجھے کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اس شاندار شام کے آخر میں خود میری سوچ اور فکر کا اک مثبت ارتقا ہوا، اور یہ مضمون میں سید مظہر حسین کے نام کرتا ہوں کہ اس گفتگو کو انہوں نے سنبھالے رکھا، اور فکر کے عنصر کو شامل کیے رکھا۔
امرتا پریتم کا اک قول ہے (ماخوذ) کہ مرد نے عورت کے ساتھ صرف سونا ہی سیکھا ہے، جاگنا نہیں۔ اپنے وقت کی وہ بھی برصغیری معاشرے میں عورت کے وجود کے ساتھ جوڑے گئے جنسی تصورات کی باغی تھیں اورمختلف محافل، ادبی تقریبات اور اپنی تحاریر میں باغیانہ، مگر مہذب کوشش کرتی رہیں کہ عورت کو جنس کے روایتی مردانہ تصور سے اگر آزادی نہ بھی مل سکے تو کم از کم اس سوچ میں کوئی بہتری تو آئے۔ وہ یہ بھی کوشش کرتی رہیں کہ عورت کو “کمزور جنس” اور “صنفِ نازک” کے عمومی تصورات، کہ جن کی بنیاد مرد کی فکری اور عقلی نہیں، بلکہ جسمانی برتری کا اک قبائلی اور تاریخی تصور اور تفاخر شامل ہے، میں سے نکالا جائے۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں بارہا برصغیری معاشرے میں عورت کی جنس، صنف نہیں، کی بنیاد پر بےچارگی اور غلامی کے بارے میں تحریر کیا کہ کیسے مرد، جسے خود اک عورت جنم دیتی ہے، دودھ پلاتی ہے، جس سے اپنے پیدا کیے مرد کا نطفہ حاصل کرتی ہے، اس سے کہیں زیادہ اسکی حفاظت اور نشونما کرتی ہے، مگر خود مرد کے اس صنفی کردار کے دباو¿ سے کبھی باہر نہیں نکل سکتی جو معاشرہ اسے اسکی جسمانی طاقت کی بنیاد پر دان کرتا ہے۔ اور کیا ہی عجب حقیقت ہے کہ خاندان کو مرد کا تحفہ نہ دینے پر خود دوسری عورتوں کے صنفی ظلم کا شکار بھی ہو جاتی ہے۔گویا کلاسیکی اعتبار سے برصغیری معاشرے میں عورت جنس اور صنف کے اک مسلسل کشمکش کے گرداب میں چکر کھا رہی ہے، اور موجودہ “جدید دور” بھی اس گرداب چکر کو ختم نہیں کرپایا، اور عورت کی بطور صنف یہ جدوجہد جاری ہے اور نامعلوم کب تک جاری رہے گی!
جنس اور صنف کے طالبعلم یہ جانتے ہیں کہ جنس کا تعلق وجود اور جسم کی ساخت سے جڑا ہوتا ہے، اور صنف کا تصور، جنس کے معاشرتی کردار سے متصل ہوتا ہے۔ آپ اور میں، کسی ایسے انسان کو مرد نہیں کہیں گے، جو دِکھنے میں عورت جیسا ہو، اور کسی انسان کو عورت نہیں کہیں گے جو مرد جیسا نظر آتا ہو۔ گویا جسم کی ساخت انکی جنسی پہچان سے جڑی ہے، مگر انکے جسم کی ساخت کیا انکی معاشرتی پہچان سے بھی جڑی ہونی چاہیے؟ یہی سوال ہے کہ جس پر امرتا پریتم کا قول صادق آتا ہے کہ مردنے عورت کے ساتھ شاید صرف سونا ہی سیکھا ہے!
عمومی طور پر یہ تاریخی بات کم ہی جانتے ہیں کہ عورت نے زراعت، قبیلے، خاندان اور منظم رہن سہن کی بنیاد رکھی۔ تاریخ کے ارتقا میں مرد نے کسی مقام پر اپنی جسمانی طاقت کا ادراک کیا کہ وہ عورت کی نسبت زیادہ تیز دوڑ سکتا ہے، اس میں دور سے نیزہ یا پتھر مار کر جانوروں کو مارنے کی صلاحیت عورت سے زیادہ ہے اور یہ کہ مشترکہ خوف کے خلاف جڑجانے والے لوگوں، جنہوں نے قبائل کی شکل اختیار کی، کے لئے مضبوط تعمیرات کے لیے پتھر اٹھا سکتا ہے۔ آہستہ آہستہ انسانی معاشرے جو مادرانہ سرپرستی میں شروع ہوئے تھے، وہ پدرانہ سرپرستی میں آگئے اور عورت کا صنفی کردار سمٹا چلا گیا اور اسکے برعکس اس کی جسمانی ساخت کی بنیاد پر اسکا جنسی کردار سامنے آتا چلا گیا۔ اسی جسمانی طاقت کی کمتری کی بنیاد پر وہ قبیلہ، کہ جسکی ابتدا عورت نے ہی کی تھی، اس نے عورت کو وجودی اعتبار سے ”ایک شے بنا دیا“کہ جس کی ملکیت مرد کے ہاتھ تھی۔ اس عمل نے عورت کے معاشرتی کردار کی جڑوں کو کھوکھلا کر ڈالا، اور اسکے جنسی و جسمانی کردار کو اسکی ذات کے سامنے لا کھڑا کیا۔ یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے مگر کچھ فکری بہتری سامنے بہرحال آئی ہے، مگر اس میں مرد کی بہترہوتی ہوئی ارتقائی سوچ سے کچھ زیادہ عورت کی مسلسل اور تاریخی جدوجہد کا ہاتھ ہے۔
جنس کے روایتی تصور میں مرد کو جسمانی برتری حاصل ہے۔ خود تخلیق کے عمل میں اک برتری کا احساس ، مرد کے اس جبلی جذبہ سے جڑا ملتا ہے کہ جس کی تحریک اسے اس قدیم قبائلی تصور سے ملتی ہے جہاں عورت، بطور انسان اور جسم، اسکی پراپرٹی تھی۔ بالکل کسی چوپائے کی مانند، مگر مرد نے عورت کے ساتھ ذاتی عزت وانا، غیرت اور اپنے اک جسمانی فعل کے ساتھ جڑی ہوئی قربت کی بنیاد پر رقابت اور ملکیت کے جذبات بھی جوڑے رکھے، اور رکھے ہوئے ہیں۔ تخلیق کے لازم کردہ قربت کے احساس ،کہ جس میں مرد اپنے تئیں اپنی جسمانی برتری کے دستخط کرتا ہے، وہ اسے عورت کی جنس کے حوالے سے اسکی صنفی کمتری اور (گویا) اپنی صنفی برتری کے خیال و خواب میں رکھتا ہے۔ اپنی برتری کے ان خوابات و خیالات میں رہنے والا مرد اس بات پر شاید ہی کبھی غور کرتا ہے کہ اس کے تخلیقی عمل کے چند لمحات کی ذمہ داری، عورت اپنے وجود اور خون کی قیمت سے ادا کرتی ہے۔ نوماہ تو وہ اس کے نطفے کو گوشت کے لوتھڑے میں ڈھالنے سے لے کر اک انسان کی شکل دے کر، اسے جنم دینے کے عمل کو اک فزیکل پراسس کے طور پر پورا کرتی ہے، اور یہ وہ عمل ہے جسکو مرد اپنی آنکھ سے دیکھ اور ہاتھ سے محسوس کرسکتا ہے۔ مگر ان نومہینوں اور اسکے بعد آنے والی کئی دہائیوں کے تک عورت نہ نظر اور نہ ہی محسوس کیے جانے والی بھی کئی قیمتیں ادا کرتی ہے جسکا مرد کو عموما کوئی زیادہ ادراک نہیں ہوپاتا۔
جنس کے حوالے سے مرد کے تصورات طاقت اور قابو(پاور اینڈ کنٹرول) کرنے کے دائرے میں رہتے ہیں، جبکہ عورت اپنے جنسی کردار کو اک تعلق جوڑنے(ریلیٹ) اور قائم رکھنے کے حوالے سے دیکھتی ہے۔ بطور ضرورت، جنس عام طور پر مرد کے جسمانی جذبات کے زیادہ قریب ہوتی ہے، جبکہ عورت اسے جسم اور نفسیات کی کیفیات کے مرکب کے طور پر دیکھتی اور محسوس کرتی ہے۔ تخلیق کے عمل میں اگر مرد اپنی جسمانی برتری کے حوالے سے کسی خواب و وہم کا شکار ہے تو نفسیاتی کیفیات کے حوالے سے عورت کو بھی یہی حق حاصل ہے۔ مگر وہی کہ جسمانی کیفیات دیکھنے سے معلوم پڑجاتی ہیں جب کہ نفسیاتی کیفیات کے مدوجذر کو جاننے و سمجھنے کے لیے بہرحال کچھ کوشش ضرور کرنا پڑتی ہے۔ مرد اس کوشش کو جنس کے حوالے سے جڑی اپنی ضرورت کے بعد کم ہی اہمیت دیتا نظر آتا ہے، جبکہ عورت اپنی جنسی اور صنفی ساخت کی نفسیات کے حوالے سے اس کو جسم کے پیرائے میں کم ہی دیکھتی ہے۔ یہی مردانہ احساس ، جس میں جنس کے ساتھ جڑا اک برتری کا زعم بھی شامل ہے، مرد کو یہ خیال دیئے رکھتا ہے کہ وہ اس عمل کی نفسیات میں چونکہ طاقتور کی حیثیت سے شامل تھا، لہذا پاور اینڈ کنٹرول کا ترازو اسکے حق میں جھکا ہوا ہے۔ اسی خیال سے وہ عمومی احساسات جنم لیتے ہیں جو عورت کو جسمانی، جنسی، صنفی اور نفسیاتی اعتبار سے اپنی ملکیت میں تصور کرتے ہیں، لہذا عورت اک “آبجیکٹ” کی حیثیت سے انکی دسترس میں ہے اور اسے ویسا کرنا چاہیے جیسا کہ ”میں“چاہتا ہوں اور جیسا میں چاہتا ہوں، ویسا نہ کرنے پر گویا ’مجھے‘ اپنی جسمانی طاقت کی بنیاد پر اس پر تشدد کا حق بھی حاصل ہے۔ لہذا اسی لیے اک اکثریت کے پیمانے پر آپکو مرد ہی عورت کے مونہہ پر تیزاب پھینکتا ملے گا، مرد ہی عورت کی عصمت درازی کرتا ملے گا، مرد ہی عورت کے قربت کے اعتماد کی فلمیں اور تصویریں پھیلاتا ملے گا، مرد ہی روایتی، ثقافتی، معاشرتی اور سماجی حوالوں سے کبھی سوارا کرتا ملے گا، کبھی ونی، کبھی وٹوانا، تو کبھی کاری۔ ان اور ان جیسے دوسرے کاموں پر اک عجب سا جاہلانہ قبائلی فخر کرتا بھی، خیر سے، مرد ہی ملے گا۔
حتی کہ برصغیر کی عام فہم گالیاں، جو نفرت ، غصہ، غیرت اور کراہت میں دی جاتی ہیں، ان میں بھی تمام الفاظ کے حوالہ جات، عورت کے رشتوں اور جسم سے ہی جڑے ملتے ہیں۔ بہن .... سننے کو ملتا ہے، بھائی .... نہیں، مادر .... سننے کو ملتا ہے، پدر ....نہیں، کبھی نہیں! کبھی غور کیا کہ اسکی بھی تو کوئی تاریخ، کوئی وجہ ہوگی؟ اگر نہیں کیا تو جناب، یہ غور آج ہی کیوں نہیں؟
معاشرتی حوالے سے عورت کے جنسی اور صنفی اعتماد کی ذمہ داری آپ پر بھی ہے، مجھ پر بھی۔ بدلتے دور میں یہ اعتماد آپ اور میں اگر شعوری طور پر بحال کریں اور بڑھائیں، تو بہتر، وگرنہ صاحبو، زمانہ بدلنے کےلیے ہی بنا ہے، اور بعد از خود مجبوری میں بدلنا پڑتا ہے، وگرنہ کبھی لاو¿ڈ سپیکر بھی حرام تھا!