امریکہ اور خدا کی نصرت

ساقی۔

محفلین
امریکہ اور خدا کی نصرت
تحریر...روف عامر پپا
.رافغانستان کو تخت و تارج کرنے اور قریہ قریہ شہر شہر کے درودیوار پر اپنی بربریت کے خونی نشان نقش کرنے والے امریکی فوجوں کو ایک طرف طالبان کی سرفروشانہ جدوجہد نے مایوس کررکھا ہے تو دوسری جانب نیٹو کے گیدڑوں کو طالبان کی روحانی قوت نے ڈھیر کردیا ہے۔انہیں کوئی راہ نہیں بجھائی دیتی کہ کیا کیا جائے۔امریکی ویب سائیٹ www.haunted new jersy.com/media نے اپنی رپورٹ میں افغانستان کے صوبے بامیان کے پہاڑوں کے ساتھ موجود امریکی بیس کیمپ میں کام کرنے والے فوجیوں کی دردناکی کی کہانیاں شائع کرتے ہوئے طالبان کی روحانی فورس کے نام کی اصطلاح استعمال کرکے دنیا کو ششدر کردیا ہے جو امریکیوں کے لئے لمحہ فکریہ اور درس عبرت ہے۔ اس کہانی کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ غزنی سے بامیان کے درمیان شروع ہونے والے پہاڑی سلسلے سے پہلے امریکی افواج کا ایک اپریشنل ہیڈکورٹر ہے جسے فوب غزنی کہا جاتا ہے۔ہیڈکورٹر کے سامنے ہویدا بڑے پہاڑوں نے امریکیوں کی زندگی اجیرن کررکھی ہے کیونکہ یہاں ایسے قدرتی سانحے منصفہ شہود پر اتے ہیں کہ امریکی سائنسدان دنگ رہ جاتے ہیں۔ امریکی سائنسدان ابھی تک متجسس بنے ہوئے ان واقعات کی کوئی توجیہہ تو پیش نہ کرسکے لیکن امریکی فلمسازوں نے وہاں رونما ہونے والے تحیر انگیز واقعات کی روشنی میں انہیں(طالبان کی روحانی فورس) کا نام الاٹ کر کے ایک فلم بھی بناڈالی گو کہ اس فلم کی نمائش شروع نہیں ہوئی لیکن obgitiveنامی اس فلم نے بحث و مباحث کے کئی در کھول دئیے ہیں کہ اخر یہ کیا ہے کہ آبجیٹو کی ریلیز سے پہلے امریکن پیرا شوٹ کے ایک ان لائن جریدے نے بھی اپنی رپورٹ میں تصدیق کی ہے کہ غزنی کے اپریشنل کیمپ میں رونما ہونے والے عجیب و غریب واقعات بھوتوں کی کاروائی ہیں۔لیکن اس نکتے کو سائنسدان مسترد کردیتے ہیں اور نہ ہی اسکی کوئی سائنسی وجہ دریافت کرنے میں کوئی کامیابی سمیٹ سکے ۔ جو اجنبی سائنسی لہروں ایٹمی موجودگی کے سگنلزاور اچانک پیدا ہونے والے مقناطیسی میدان فوب غزنی اور اسکے اطراف میں پھیلے ہوئے پراسر پہاڑوں میں امریکی فوج کے ساتھ تسلسل سے پیش انے والے واقعات و حادثات میں رسید جہنم ہونے والے فوجی جوانوں کے ورثا نے فلم ساز پر مقدمہ دائر کردیا ہے تاکہ فلم کی ریلیز سے کمائی جانیوالی دولت سے انہیں بھی حصہ مل سکے۔غزنی کے ان پہاڑوں نے کئی امریکیوں کی زندگیوں کا چراغ گل کرڈالا۔پہاڑوں کی طرف جانے والے فوجی پراسرار طور پر لاپتہ ہوگئے۔امریکی فوجی ماہرین اور دیگر تفتیشی ماہرین نے اس نقطے پر اتفاق کیا ہے کہ اٹھ سال قبل جنگی قلعہ میں مارے جانیوالے سی ائی اے کے گماشتے جیری بھی طالبان کی روحانی فورس کا شکار بن کر زندگی کی بازی ہار گئے۔ڈینل میرک اور جان ہارٹس فلمی دنیا کے دو بڑے نام ہیں انہوں نے کہا ہے کہ غزنی کی یہ انوکھی و نرالی پہاڑیاں دراصل افغانستان کا( برمودا ٹرائی اینگل )ہے۔یہاں خطرناک قسم کی ریڈیائی لہریں پیدا ہوتی ہیں جو امریکیوں کو نگل جاتی ہیں۔علاوہ ازیں یہاں کبھی کبھار مقناطیسی میدان پل بھر میں ابھرتا ہے۔ایک سال پہلے یہاں کوئی بھی ایسی مقناطیسی لہروں سے لاعلم تھا۔یہاں تعینات امریکن504 پیرا شوٹ رجمنٹ کے جریدے نے اپنی خصوصی رپورٹ میں ان واقعات کی تفصیل بیان کی تھی۔اور پھر ان تجسس امیز رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد فلمی دنیا کے گرووں و ہدایت کاروں نے ایک فلم بنائی۔واقعات تحریر کرنے سے قبل یہ بتانا ضروری ہے کہ امریکی سی ائی اے نے یہاں کچھ اجنبی قسم کی ریڈیائی لہروں اور جوہری مواد کی حرکات و سکنات کا پتہ چلایا تھا۔ایٹمی لہروں کی موجودگی کا پتہ سب سے پہلے سی ائی اے کے اس یونٹ نے تلاش کیا تھا جو سٹیلائٹس کی مدد سے دنیا بھر میں جوہری نقل و حمل کو کنٹرول کرتا ہے۔امریکی م ترجمانوںنے سب سے پہلے القائدہ کو دشنام دیا کہ وہ یہاں ایٹمی ہتھیاروں کے تجربے کرتی ہے۔نائن الیون کے بعد انہی ریڈیائی لہروں کو بنیاد بنا کر القاعدہ کی جوہری سرگرمیوں کے چرچے کئے گئے لیکن سچ تو یہ ہے کہ امریکی ماہرین ان سگنلز کو ٹھیک طرح سے سمجھ نہ پائے اور نہ ہی وہ اسکی وجوہات تلاش کرنے میں بامراد ٹھرے۔امریکیوں کی مغز خوری سے پتہ چلا کہ یہاں زندگی کے کوئی اثار نہیں ہیں۔یاد رہے کہ یہ علاقہ امریکیوں کے لئے کوئی نامعلوم نہ تھا۔افغان روس جنگ میں یہ جگہ مجاہدین اسلام کا محفوظ ترین علاقہ تھا۔غزنی کے اس پہاڑی سلسلے کے راستوں میں تباہ ہونے والے روسی جہازوں کے ڈھانچے۔انسانوں کی ہڈیاں خندقیں اور قبریں اج تک موجود ہیں۔روسی جنگ کے دوران یہاں کارپٹ بمباری کی اور ہزاروں بارودی سرنگیں بچھادیں۔یہاں اطراف و جوانب میں ریگستان پتھریلے پہاڑ اور بے اب و گیاہ صحرا موجود ہیں۔امریکیوں نے یہاں قبضہ جمایا تو انہوں نے القاعدہ کے مجاہدین سے ان پہاڑوں کی پراسراریت کے متعلق تفتیش کی لیکن انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔امریکی فوج نے اس علاقہ پر بمباری سے گریز کی پالیسی اپنائی۔سقوط کابل کے بعد امریکہ نے یہاں ایک بیس کیمپ بنایا.شروع میں یہاں صرف امریکی میرن تھے لیکن بعد میں اتحادی سورماوں اور افغان نیشنل ارمی کے دستے بھی لگائے گئے۔امریکی بیس کی تشکیل سے پہلے یہاں کی ریڈیو ایکٹیوٹی کے متعلق چند افراد کو اگاہی حاصل تھی۔امریکی گوریلے حالات کی سنگینی سے لاعلم تھے.لیکن جب ان ریڈیائی لہروں نے امریکیوں کو نگلا تو واشنگٹن کے تھنک ٹینکس کے ہاتھ پھول گئے ،دماغ سٹھیا گیا اور تمام قابلیت پل بھر میں جام ہوگئی۔ناکامی کے بعد اسے بھوتوں کا کرشمہ کہا اور دوسروں نے روحانی فورس کا نتیجہ اخذ کیا۔یوں تو یہاں کے واقعات کی تفصیل بڑی طویل ہیلیکن کچھ کا تزکرہ ضروری ہے.بیس کیمپ کی حفاظت کرنے والے فوجیوں پر رات کے اوقات میں بچے حملہ کردیتے ہیں۔یہ بچے اچانک نمودار ہوتے ہیں اور اچانک ہی غائب ہوجاتے ہیں ۔ایک ایسا ہی واقعہ اریکی بٹالین504 انفنٹری یونٹ سے تعلق رکھنے والے فوجیوں کارپول جیکسن اور کارپول پینٹر کے ساتھ پیش ایا۔2002 میں دونوں ایک ٹاور پر ڈیوٹی کررہے تھے کہ انہوں نے چند کوس دور ایک لڑکی کو بکریوں کے ساتھ دیکھا۔انہوں نے فوری طور پر اندھیرے میں استعمال کی جانیوالی عینکیں استعمال کیں تو انکی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہ بکریوں سمیت غائب ہوگئی.چند منٹوں بعد وہی لڑکی انکے ساتھ تمام حفاظتی اقدامات کو روند کر انکے ساتھ ٹاور پر موجود تھی۔لڑکی شدید غم و غصے سے چلارہی تھی۔دونوں فوجی دم دبا کر بھاگ گئے۔کیمپ میں کام کرنے والا ریڈار اکثر اوقات جام ہوجاتا ہے جس کو ماہرین نے مقناطیسی لہروں کا شاخسانہ قرار دیا لیکن وہ ایسی مقناطیسی لہروں کی اچانک امد کا کوئی تریا ق ڈھونڈنے میں ناکام ہوئے۔امریکہ کی رجمنٹ 504 کے جریدے۰فورٹ پراگنس) نے اپنی اشاعت میں تسلیم کیا ہے کہ اچانک پیدا ہونے والی لہریں کیمپ کا ریڈیائی رابطہ پل بھر میں جام کردیتی ہیں۔ریڈار کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور زمین پر ایک چیونٹی تک کو تلاش کرلینے والے سٹیلائٹس چشم ذدن میں کام کرنے سے منحرف ہوجاتے ہیں۔جریدے کے مطابق یہاں ڈیوٹی کرنے والے فوجی ڈرے ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں کیونکہ دوچار دن کے وقفے کے بعد انہیں ایسی جان لیوا اور عقل کو دنگ کردینے والی بلاووں سے واسطہ پڑتا ہے۔امریکی ماہرین خوف وحزن کے جال میں جکڑے ہوئے فوجیوں کی شکست خوردہ نفسیات کا علاج کرتے ہیں اور دلاسہ دلاتے ہیں کہ یہ بھوت ہیں۔اس بیس کیمپ پر امریکی میرین کے ہمراہ وقت گزارنے والے امریکی جریدے( فورٹ پراگنس) کے ایڈیٹرkiown marior نے بھی اپنی رپورٹ میں ایسے واقعات کی تصدیق کی ہے۔امریکہ کے جنگی و خونی لشکر نے افغانستان میں لاکھوں بے گناہوں کو بارود کے اتش فشاں میں جلا کر بھسم کردیا۔انہیں شائد معلوم نہیں کہ ایک بے گناہ انسان کا خون ناحق ہمیشہ قاتلوں کا پیچھا کرتا رہتا ہے.قاتل چاہے سزا سے بچ کیوں نہ جائے لیکن اسکے ضمیر میں ہر وقت بے قراری کا طوفان برپا رہتا ہے اور وہ بے قراری و بے چینی کو ساتھ لئے سسک سسک کر ایڑیاں رگڑ کر موت کی وادیوں میں اتر جاتا ہے۔اس پر مستزاد یہ کہ جب ظلم حد سے زیادہ بڑھتا ہے تو پھر فطرت یزداں کی طرف سے اسمانوں سے مدد بھی اترا کرتی ہے.مٹھی بھر طالبان نے نیٹو کے لشکر کو زچ کررکھا ہے۔اور یہی فلسفہ اس سچائی کو بے نقاب کرتا ہے کہ مجاہدین کو خدا کی نصرت و شفقت حاصل ہے۔غزنی کے فوب کیمپ میں رونما ہونے والے واقعات چاہے بھوتوں کی کاروائی ہو یا اسکا کوئی سائنسی تحرک ہو.اسکے متعلق رائے زنی کرنا اسان نہیں لیکن ایک سچ تو یہ بھی ہے کہ تمام واقعات امریکی شکست کی چغلی کھارہے ہیں۔دنیا بھر کے تمام مسلمان اگر خدا کی رسی کو تھام کر یک جان بن جائیں تو دنیا کی تمام بڑی طاقتیں مل کربھی مسلمانوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ مسلمانوں کے پاس ایک ایسا کرشمہ ہے جسے کوئی شکست سے ہمکنار نہیں کرسکتا۔اور وہ ہے خدا کی مدد و نصرت لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم مالک کائنات کے احکامات کو فراموش کرچکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اج مسلمان زلت امیز زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
ہیں۔دنیا بھر کے تمام مسلمان اگر خدا کی رسی کو تھام کر یک جان بن جائیں تو دنیا کی تمام بڑی طاقتیں مل کربھی مسلمانوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ مسلمانوں کے پاس ایک ایسا کرشمہ ہے جسے کوئی شکست سے ہمکنار نہیں کرسکتا۔اور وہ ہے خدا کی مدد و نصرت لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم مالک کائنات کے احکامات کو فراموش کرچکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اج مسلمان زلت امیز زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

یہی تو سمجھنے کی بات ہے لیکن نہیں سمجھ رہے ناں۔
 

جہانزیب

محفلین
جب میں‌ نے کالم پڑھنے کے لئے مذکور ویب سائٹ‌ کا رخ‌ کیا، تو پتہ چلا کہ یہاں‌ ان بھوتوں‌ کے آسیب نے ڈیرا ڈال لیا ہے ۔

 

طالوت

محفلین
اچھی کہانی ہے ، میرا خیال ہے امریکی وہاں سے نکلنے کے جو بہانے ڈھونڈ رہے ہیں ان میں سے ایک !
وسلام
 

زینب

محفلین
پڑھتے پڑھتے انگلش فلم کے سین آنکھوں کے سامنے گھوم گئے۔۔۔۔مزے کی سٹوری ہے
 

طالوت

محفلین
کچھ عرصہ ، جب جہادی تنظیمیں زوروں پر تھیں تو اس قسم کے واقعات واعظوں میں اکثر سنا کرتے تھے ۔۔ جیسے ایک افغان مجاہد نے مٹی لی اور اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور یہ مٹی روسی ٹینک کی جانب پھینکی اور اس میں آگ لگ گئی ، اور روسی بیچارے اس مٹی کے نمونے لے کر تجزئیے کرتے رہے ۔۔

1965 کی جنگ سے متعلق بھی ایسی ہی بے سروپا باتیں مشہور ہیں کہ راوی کے پل پر گرنے والے کئی ایک بم ایک بابا "کیچ" کر لیا کرتے تھے ۔۔ حتٰی کہ یار لوگوں نے تو سیدنا علی کو بھی گھوڑے پر سوار کر کے محاذ پر پہنچا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وسلام
 

arifkarim

معطل
شکریہ طالوت، اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو ہمارا ایمان صرف بھوت پریت پر ایمان تک محدود ہو گیا ہے:)
 

arifkarim

معطل
دنگ رہنے کو بہت کچھ ہے مگر ہم اب تک
علم و تحقیق کو اپنا نہ سکے ہیں پیارے

تحقیق تو ہمارے ملک میں بھی ہو رہی ہے۔ مثلاً فاقہ کشی پر تحقیق کہ کتنے لوگوں کا مرنا ضروری ہے کہ اس سے پہلے اس کیلئے کچھ کرنا ضروری ہوگا۔ بجلی کی غیر فراہمی پر تحقیق کہ کتنے کارخانے بند ہونے کا امکان ہے اگر بجلی میسر نہ آسکے۔ :)
 

طالوت

محفلین
وہ تو ساری دنیا میں ہو رہی ہے ، اس میں ہم کسی قوم یا قبیلے کو قصور وار نہیں ٹھہرا سکتے ، بلکہ اس میں بھی مغربی اقوام ہم سے بہت آگے ہیں ۔۔

وسلام
 

طالوت

محفلین
ایسے مضامین/کہانیوں کی تو بھرمار ہے ۔۔ اور یہ سلسلہ بڑا پرانا ہے ۔۔
اتنا پرانا کہ ذکر کروں تو موضوع کچھ کا کچھ ہو جائے گا ۔۔ عجیب عادتیں ہیں ہم مسلموں کی ، وہی جہالت کے سلسلے جن کے خاتمے کے لیے اسلام آیا تھا ان کو ہم نے مختلف حیلوں بہانوں سے زندہ کر رکھا ہے ۔ اور اگر اس کی مخالفت کرو تو پھر بس ۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وسلام
 

طالوت

محفلین
یہی تو خوبی ہے مجوزہ اسلام کی ، جب چاہو ، جیسے چاہو ، اپنے مطلب کی بات نکالو ، اور "مسلم یا مومن" بن جاؤ ۔۔
وسلام
 
Top