ساقی۔
محفلین
امریکہ کو ان کی ضرورت ہے۔۔۔۔(چوہدری ذبیح اللہ بلگن)
بہت سالوں سے جس وقت اور مرحلے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا تھا بلآخر وہ آن پہنچا ہے ۔امریکی سینیٹر نے کہا تھا کہ امریکہ پاکستان کو چھہ ٹکڑوں میں منقسم کرنا چاہتا ہے ۔ایک غیر سرکاری امریکی تنظیم نے اس سینیٹر کے دعوے پر مہر تصدیق ثبت کرنے کیلئے ایک نقشہ جاری کیا تھا جس کی لکیریں بتا رہی تھیں کہ 2020ء میں پاکستان چھہ ٹکڑوںمیں تقسیم ہو جائے گا ۔پاکستان میں اٹھنے والی دہشت گردی کی حالیہ لہر ،سوات کی سترہ سالہ بچی کو کوڑے لگنے کے مبینہ واقعہ اورامریکہ کے امیگریشن سنٹر پر ہونے والے حملے نے متعدد تشنہ سوالات کو جنم دیا ہے ۔اگرچہ پاکستان میں اس سوال کو پورے زور وشور سے اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا اسلام کسی عورت کو سر عام سزا دینے کی اجازت مرحمت کرتا ہے یا نہیں ۔تاہم راستی یہی ہے کہ یہ ایک ادھورا استفسار ہے جسے میڈیا کے زور اور سول سوسائٹی کے اصرار پر علمائے کرام سے پوچھا جا رہا ہے ۔اس پر ستم یہ ہے کہ بین الاقوامی اور پاکستانی میڈیا نے سوات میں کوڑے مارے جانے کے مبینہ واقعہ کو اس قدر شدت اور تواتر سے موضوع بنایا ہے کہ وطن عزیز کے علمائے کرام دفاعی پوزیشن میں کھڑے ہوکر وضاحتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔جبکہ اس طرز عمل کی شرعی حیثیت کا تعین کرنے سے زیادہ ناگزیر امر یہ ہے کہ اس واقعہ کی صحت پر بات کی جائے ۔آیا اس نوعیت کا واقعہ رونما ہوا بھی ہے یا نہیں ؟۔اس واقعہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ علمائے کرام کو اس نوع کی اسلامی سزاؤں سے متعلق کھل کر بات کرنی چاہئے اگر فی الحقیقت اسلام زانی اور زانیہ کو کوڑے مارنے یا سنگسار کرنے کا حکم دیتا ہے تو اس بابت استدلال پیش کرنے کی ضرورت ہے۔اور اگر اسلام میں ایسے کسی طرز عمل کی گنجائش موجود نہیں تو پھر ایسے واقعات کے ذمہ داروں کی ہر گز تحسین نہیں ہونی چاہئے۔فرض کرلیتے ہیں کہ اسلام نے مرد اور عورت کے غیر شرعی مراسم کی تعزیر کوڑے لگانا مقرر کی ہے تو کیا علمائے کرام این جی اوز اور میڈیا سے خوف زدہ ہو کر اسلامی حدوں سے منحرف ہو جائیں گے؟۔کیا مذہب اسلام کو اپنی تعلیمات طے کرتے ہوئے غیر مسلموںسے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی؟۔اول بات تو یہ ہے کہ تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق سوات کے اس واقعہ کی حقانیت ثابت نہیں ہوسکی ۔ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے نے اس واقعہ میں ملوث جن افراد کا ذکر کیا ہے تحقیق سے یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ وہ تمام کردار فرضی اور جعلی ہیں یہی وجہ ہے کہ اس خبر رساں ادارے نے ہزیمت سے محفوظ رہنے کیلئے اگلے ہی روز اپنی ویب سائٹ سے اس سٹوری کو ہٹا دیا ہے جس میں سوات کے اس واقعہ کو سچ ثابت کرنے کیلئے جھوٹی کہانی اور فرضی کرداروں کا سہارا لیا گیا تھا ۔چیف سیکرٹری سرحد اور کمشنر سوات تمام حکومتی وسائل استعمال کرنے کے بعد بھی اس واقعہ کی سچائی کو ثابت نہیں کر پائے ۔ہم پاکستانیوں کو اس سازش کا ادراک حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ امریکہ کے پاس افغانسان کی جنگ لڑنے کیلئے بہت کم وقت ہے لہذا وہ جلد ازجلد افغانستان کی جنگ کے کمبل سے جان چھڑانا چاہتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اوباما اور اس کے حواریوں نے پاکستان اور افغانستان میں حتمی جنگ لڑنے کی منصوبہ بندی کی ہے ۔بیت اللہ محسود کے نام کی تکراراور میڈیا میں جاری تشہیری مہم اس خدشے کی تصدیق کرتی ہے کہ امریکہ نے پاکستان کیلئے بھی ایک ’’اسامہ بن لادن‘‘تیار کر لیا ہے جسے جواز بنا کر پاکستان کے بندوبستی علاقہ جات میں کاروائیاں کی جائیں گی ۔جناب حضرت بیت اللہ محسود امریکی افواج کو کبھی پشاور میں دکھائی دیں گے اور کبھی کوئٹہ میں ڈرون طیاروں کو خبر ملے گی کہ بیت اللہ ابھی ابھی شہید چوک سے چائے نوش کر کے روانہ ہوئے ہیں۔ ممکن یہی بیت اللہ محسود اس قدر قد آور بنا دیے جائیں کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار بھی ان تک پہنچ جانے کا اندیشہ پیدا ہو جائے ایسے میں امریکہ کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ پاکستانی انتظامیہ سے ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت کیلئے دو ٹوک بات کرے اور مشترکہ تحفظ میں لینے کیلئے عملی اقدامات کرے۔ ایک اسامہ بن لادن جو ہزار قسم کی بیماریوں کا مجموعہ چند فٹ کا انسان ہے اس نے امریکہ کو اس قدر خوف زدہ کر رکھا ہے کہ امریکی انتظامیہ اور عوام اسامہ کے نام سے خوف کھاتے دکھائی دیتے ہیں ۔یہ اسامہ بن لادن ہی تھے جنہوں ہر کٹھن موقعہ پر سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی مدد کی اورا نہیں تنقیدی صورتحال سے نجات دلوائی ۔مڈ ٹرم الیکشن کا معاملہ ہو یا دفاعی بجٹ کی بحث ان اہم کاموں کیلئے جناب اسامہ بن لادن کا ایک آڈیو پیغام ہی کافی ہوا کرتا تھا ۔خدا جانے اسامہ بن لادن زندہ بھی ہیں یا نہیں تاہم پینٹا گون نے انہیں زبردستی’’ زندہ‘‘ رکھا ہوا ہے ۔پینٹا گون میں قائم سنٹر میں آئی ٹی ماہرین دن رات اسامہ بن لادن کی آواز میں ریکارڈنگ کرتے اور اس میں نکھار پیدا کرنے میں جتے رہتے ہیں ۔جیسے ہی انہیں ان پیغامات کی ضرورت پیش آتی ہے منظر عام پر لے آتے ہیں ۔پینٹا گون کے اس آئی ٹی سنٹر میں اسامہ بن لادن ہی نہیں ایمن الضواہری ،للبی ،ملا عمر اور حکمت یار بھی ’’تیار حالت‘‘ میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ کب امریکی حکومت کو کسی ویڈیو یا آڈیو ٹیپ کی ضرورت محسوس ہو اور وہ ان کی خدمت کر سکیں ۔بالکل اسی طرح چند ماہ قبل وہ بیت اللہ محسود جس کی موت کی خبریں بین الاقوامی میڈیا نشر کر چکا ہے اسے پھر سے زندہ کر لیا گیا ہے ۔مجھے یاد ہے بی بی سی نے اپنی ویب سائٹ پر بیت اللہ محسود کی نماز جنازہ کی خبر بھی شائع کی تھی ۔ بعد ازاں ایک تحقیقاتی رپورٹ میں یہ تک بتایا گیا تھا کہ نماز جناز ہ میں کون کون شریک ہوا تھا ۔
اب چونکہ امریکہ کوپاکستان پر حملہ آور ہونے کیلئے ٹھوس جواز کی ضرورت ہے تو ایسے میں بیت اللہ محسود امریکہ کیلئے آیڈیل حیثیت اختیار کئے ہوئے ہیں ۔امریکی انتظامیہ اقوام متحدہ کو یہ باور کرا چکی ہے کہ دنیا میں جس جگہ بھی امریکہ پر حملے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہوگی امریکہ اس جگہ حملے کر نے کا حق رکھتا ہے اور اس کیلئے اسے اقوام متحدہ کی پیشگی اجازت کی بھی ضرورت نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ افغانستان اور پاکستان کیلئے اوباما کے خصوصی ایلچی ہالبروک نے گزشتہ دنوں کوئٹہ کو ملا عمر کا ٹھکانہ قرار دیا تھا ۔جبکہ مائیکل مولن نے تو یہاں تک کہا ہے کہ دہشت گرد پاکستان میں بیٹھ کر امریکہ پر حملہ آور ہونے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ ان حالات میں امریکہ پاکستان کیلئے ایک نئے ’’اسامہ بن لادن ‘‘کو تیار نہ کرتا تو اور کیا کرتا ۔گمان غالب ہے کہ امریکہ ابھی کچھ روز مزید اپنے خلاف ہونے والی کاروائیوں کو بیت اللہ محسود کی کاروائیاں تسلیم کرنے سے انکار کرے گا جبکہ بعد ازاں یہی بیت اللہ محسود امریکہ کا سب سے بڑا حریف قرار پائے گا جس کی تلاش کیلئے امریکہ کوپاکستان کے کونے کونے تک رسائی درکار ہوگی ۔کیا مضحکہ خیز صورتحال ہے کہ امریکہ جونیلے آسمان سے کہیں آگے جا کر مریخ اور چاند تک ہو آیا ہے ،جو زمین کی تہہ میں پوشیدہ ہزاروں فٹ گہری معدنیات دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اسے امریکہ کو انتہائی مطلوب چالیس افراد کی فہرست میں لگانے کیلئے بیت اللہ محسود کی تصویر تک میسر نہیں آئی ۔اہلیان پاکستان کو اندازہ لگا لینا چاہئے کہ جو امریکہ بیت اللہ محسود کی تصویر حاصل نہیں کر سکا وہ زندہ یا مردہ بیت اللہ محسود کو کیونکر حاصل کر سکے گا ۔لہذا مسقتبل کی نقشہ گری بتا رہی ہے کہ اسامہ بن لادن کی طرح بیت اللہ محسود بھی ایک سراب کی حیثیت اختیار کر جائے گا اور اس وقت تک منظر عام پر نہیں آئے گا جب تک امریکہ اس خطے سے اپنے مفادات کے حصول میں کامیاب نہیں ہو جاتا اور یا پھر اس سے نبر د آزاما قوتیں اسے ناکوں چنے چبوا کر بھاگنے پر مجبور نہیں کر دیتیں ۔
بہت سالوں سے جس وقت اور مرحلے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا تھا بلآخر وہ آن پہنچا ہے ۔امریکی سینیٹر نے کہا تھا کہ امریکہ پاکستان کو چھہ ٹکڑوں میں منقسم کرنا چاہتا ہے ۔ایک غیر سرکاری امریکی تنظیم نے اس سینیٹر کے دعوے پر مہر تصدیق ثبت کرنے کیلئے ایک نقشہ جاری کیا تھا جس کی لکیریں بتا رہی تھیں کہ 2020ء میں پاکستان چھہ ٹکڑوںمیں تقسیم ہو جائے گا ۔پاکستان میں اٹھنے والی دہشت گردی کی حالیہ لہر ،سوات کی سترہ سالہ بچی کو کوڑے لگنے کے مبینہ واقعہ اورامریکہ کے امیگریشن سنٹر پر ہونے والے حملے نے متعدد تشنہ سوالات کو جنم دیا ہے ۔اگرچہ پاکستان میں اس سوال کو پورے زور وشور سے اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا اسلام کسی عورت کو سر عام سزا دینے کی اجازت مرحمت کرتا ہے یا نہیں ۔تاہم راستی یہی ہے کہ یہ ایک ادھورا استفسار ہے جسے میڈیا کے زور اور سول سوسائٹی کے اصرار پر علمائے کرام سے پوچھا جا رہا ہے ۔اس پر ستم یہ ہے کہ بین الاقوامی اور پاکستانی میڈیا نے سوات میں کوڑے مارے جانے کے مبینہ واقعہ کو اس قدر شدت اور تواتر سے موضوع بنایا ہے کہ وطن عزیز کے علمائے کرام دفاعی پوزیشن میں کھڑے ہوکر وضاحتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔جبکہ اس طرز عمل کی شرعی حیثیت کا تعین کرنے سے زیادہ ناگزیر امر یہ ہے کہ اس واقعہ کی صحت پر بات کی جائے ۔آیا اس نوعیت کا واقعہ رونما ہوا بھی ہے یا نہیں ؟۔اس واقعہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ علمائے کرام کو اس نوع کی اسلامی سزاؤں سے متعلق کھل کر بات کرنی چاہئے اگر فی الحقیقت اسلام زانی اور زانیہ کو کوڑے مارنے یا سنگسار کرنے کا حکم دیتا ہے تو اس بابت استدلال پیش کرنے کی ضرورت ہے۔اور اگر اسلام میں ایسے کسی طرز عمل کی گنجائش موجود نہیں تو پھر ایسے واقعات کے ذمہ داروں کی ہر گز تحسین نہیں ہونی چاہئے۔فرض کرلیتے ہیں کہ اسلام نے مرد اور عورت کے غیر شرعی مراسم کی تعزیر کوڑے لگانا مقرر کی ہے تو کیا علمائے کرام این جی اوز اور میڈیا سے خوف زدہ ہو کر اسلامی حدوں سے منحرف ہو جائیں گے؟۔کیا مذہب اسلام کو اپنی تعلیمات طے کرتے ہوئے غیر مسلموںسے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی؟۔اول بات تو یہ ہے کہ تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق سوات کے اس واقعہ کی حقانیت ثابت نہیں ہوسکی ۔ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے نے اس واقعہ میں ملوث جن افراد کا ذکر کیا ہے تحقیق سے یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ وہ تمام کردار فرضی اور جعلی ہیں یہی وجہ ہے کہ اس خبر رساں ادارے نے ہزیمت سے محفوظ رہنے کیلئے اگلے ہی روز اپنی ویب سائٹ سے اس سٹوری کو ہٹا دیا ہے جس میں سوات کے اس واقعہ کو سچ ثابت کرنے کیلئے جھوٹی کہانی اور فرضی کرداروں کا سہارا لیا گیا تھا ۔چیف سیکرٹری سرحد اور کمشنر سوات تمام حکومتی وسائل استعمال کرنے کے بعد بھی اس واقعہ کی سچائی کو ثابت نہیں کر پائے ۔ہم پاکستانیوں کو اس سازش کا ادراک حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ امریکہ کے پاس افغانسان کی جنگ لڑنے کیلئے بہت کم وقت ہے لہذا وہ جلد ازجلد افغانستان کی جنگ کے کمبل سے جان چھڑانا چاہتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اوباما اور اس کے حواریوں نے پاکستان اور افغانستان میں حتمی جنگ لڑنے کی منصوبہ بندی کی ہے ۔بیت اللہ محسود کے نام کی تکراراور میڈیا میں جاری تشہیری مہم اس خدشے کی تصدیق کرتی ہے کہ امریکہ نے پاکستان کیلئے بھی ایک ’’اسامہ بن لادن‘‘تیار کر لیا ہے جسے جواز بنا کر پاکستان کے بندوبستی علاقہ جات میں کاروائیاں کی جائیں گی ۔جناب حضرت بیت اللہ محسود امریکی افواج کو کبھی پشاور میں دکھائی دیں گے اور کبھی کوئٹہ میں ڈرون طیاروں کو خبر ملے گی کہ بیت اللہ ابھی ابھی شہید چوک سے چائے نوش کر کے روانہ ہوئے ہیں۔ ممکن یہی بیت اللہ محسود اس قدر قد آور بنا دیے جائیں کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار بھی ان تک پہنچ جانے کا اندیشہ پیدا ہو جائے ایسے میں امریکہ کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ پاکستانی انتظامیہ سے ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت کیلئے دو ٹوک بات کرے اور مشترکہ تحفظ میں لینے کیلئے عملی اقدامات کرے۔ ایک اسامہ بن لادن جو ہزار قسم کی بیماریوں کا مجموعہ چند فٹ کا انسان ہے اس نے امریکہ کو اس قدر خوف زدہ کر رکھا ہے کہ امریکی انتظامیہ اور عوام اسامہ کے نام سے خوف کھاتے دکھائی دیتے ہیں ۔یہ اسامہ بن لادن ہی تھے جنہوں ہر کٹھن موقعہ پر سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی مدد کی اورا نہیں تنقیدی صورتحال سے نجات دلوائی ۔مڈ ٹرم الیکشن کا معاملہ ہو یا دفاعی بجٹ کی بحث ان اہم کاموں کیلئے جناب اسامہ بن لادن کا ایک آڈیو پیغام ہی کافی ہوا کرتا تھا ۔خدا جانے اسامہ بن لادن زندہ بھی ہیں یا نہیں تاہم پینٹا گون نے انہیں زبردستی’’ زندہ‘‘ رکھا ہوا ہے ۔پینٹا گون میں قائم سنٹر میں آئی ٹی ماہرین دن رات اسامہ بن لادن کی آواز میں ریکارڈنگ کرتے اور اس میں نکھار پیدا کرنے میں جتے رہتے ہیں ۔جیسے ہی انہیں ان پیغامات کی ضرورت پیش آتی ہے منظر عام پر لے آتے ہیں ۔پینٹا گون کے اس آئی ٹی سنٹر میں اسامہ بن لادن ہی نہیں ایمن الضواہری ،للبی ،ملا عمر اور حکمت یار بھی ’’تیار حالت‘‘ میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ کب امریکی حکومت کو کسی ویڈیو یا آڈیو ٹیپ کی ضرورت محسوس ہو اور وہ ان کی خدمت کر سکیں ۔بالکل اسی طرح چند ماہ قبل وہ بیت اللہ محسود جس کی موت کی خبریں بین الاقوامی میڈیا نشر کر چکا ہے اسے پھر سے زندہ کر لیا گیا ہے ۔مجھے یاد ہے بی بی سی نے اپنی ویب سائٹ پر بیت اللہ محسود کی نماز جنازہ کی خبر بھی شائع کی تھی ۔ بعد ازاں ایک تحقیقاتی رپورٹ میں یہ تک بتایا گیا تھا کہ نماز جناز ہ میں کون کون شریک ہوا تھا ۔
اب چونکہ امریکہ کوپاکستان پر حملہ آور ہونے کیلئے ٹھوس جواز کی ضرورت ہے تو ایسے میں بیت اللہ محسود امریکہ کیلئے آیڈیل حیثیت اختیار کئے ہوئے ہیں ۔امریکی انتظامیہ اقوام متحدہ کو یہ باور کرا چکی ہے کہ دنیا میں جس جگہ بھی امریکہ پر حملے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہوگی امریکہ اس جگہ حملے کر نے کا حق رکھتا ہے اور اس کیلئے اسے اقوام متحدہ کی پیشگی اجازت کی بھی ضرورت نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ افغانستان اور پاکستان کیلئے اوباما کے خصوصی ایلچی ہالبروک نے گزشتہ دنوں کوئٹہ کو ملا عمر کا ٹھکانہ قرار دیا تھا ۔جبکہ مائیکل مولن نے تو یہاں تک کہا ہے کہ دہشت گرد پاکستان میں بیٹھ کر امریکہ پر حملہ آور ہونے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ ان حالات میں امریکہ پاکستان کیلئے ایک نئے ’’اسامہ بن لادن ‘‘کو تیار نہ کرتا تو اور کیا کرتا ۔گمان غالب ہے کہ امریکہ ابھی کچھ روز مزید اپنے خلاف ہونے والی کاروائیوں کو بیت اللہ محسود کی کاروائیاں تسلیم کرنے سے انکار کرے گا جبکہ بعد ازاں یہی بیت اللہ محسود امریکہ کا سب سے بڑا حریف قرار پائے گا جس کی تلاش کیلئے امریکہ کوپاکستان کے کونے کونے تک رسائی درکار ہوگی ۔کیا مضحکہ خیز صورتحال ہے کہ امریکہ جونیلے آسمان سے کہیں آگے جا کر مریخ اور چاند تک ہو آیا ہے ،جو زمین کی تہہ میں پوشیدہ ہزاروں فٹ گہری معدنیات دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اسے امریکہ کو انتہائی مطلوب چالیس افراد کی فہرست میں لگانے کیلئے بیت اللہ محسود کی تصویر تک میسر نہیں آئی ۔اہلیان پاکستان کو اندازہ لگا لینا چاہئے کہ جو امریکہ بیت اللہ محسود کی تصویر حاصل نہیں کر سکا وہ زندہ یا مردہ بیت اللہ محسود کو کیونکر حاصل کر سکے گا ۔لہذا مسقتبل کی نقشہ گری بتا رہی ہے کہ اسامہ بن لادن کی طرح بیت اللہ محسود بھی ایک سراب کی حیثیت اختیار کر جائے گا اور اس وقت تک منظر عام پر نہیں آئے گا جب تک امریکہ اس خطے سے اپنے مفادات کے حصول میں کامیاب نہیں ہو جاتا اور یا پھر اس سے نبر د آزاما قوتیں اسے ناکوں چنے چبوا کر بھاگنے پر مجبور نہیں کر دیتیں ۔