امریکہ کی سیاست کا بھونچال

جاسم محمد

محفلین
امریکہ اور چین کے مابین جنگ ناگزیر ہو چکی ہے؟
جوناتھن بیلدفاعی نامہ نگار، بی بی سی نیوز
_106169641_a9e6e581-2dce-4a83-86c6-3b2d13687c1c.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
کچھ عرصہ پہلے تک چین کی ترقی کو بے ضرر کہا جاتا تھا۔ خیال تھا کہ معاشی ترقی چین کو اپنے سیاسی نظام میں تبدیلی پر مجبور کرے گی اور اس کا آمرانہ نظام لبرل نظام میں بدل جائے گا اور چین ایک ذمہ دار عالمی حصہ دار بن جائے گا۔

لیکن اب دن بدن چین کو ایک خطرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور ایسے خدشات بڑھ رہے ہیں کہ امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی دونوں طاقتوں کے درمیان ایک ایسی جنگ کی صورت میں بدل سکتی ہے جس کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔

امریکہ میں ایک ایسے ماڈل کا ذکر ہو رہا ہے جو یونانی تاریخ دان توسیڈائڈز کے نام کی مناسبت سے اسے ’تو سیڈائڈز ٹریپ‘ کہا جا رہا ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے انٹرنیشنل افیئرز کے پروفیسر گراہم ایلیسن کی کتاب’ ڈیسٹنڈ فار وار: کین امریکہ اینڈ چائنا آوئڈ ٹوسیڈائڈز ٹریپ‘(Destined For War: Can America and China Avoid Thucydides Trap؟) ایک ایسی کتاب کی شکل دھار چکی ہے جو ہر پالیسی ساز، ماہر تعلیم اور صحافی کو ضرور پڑھنی چاہیے۔

پروفیسر گراہم نے مجھے بتایا کہ توسیڈائڈز ٹریپ ا ایک ایسے خطرناک عمل کا نام ہے جس میں ایک پرانی طاقت یہ خطرہ محسوس کرتی ہے کہ ابھرتی ہوئی طاقت اس کی جگہ لے لے گی۔

قدیم یونان میں جب سپارٹا کو ایتھنز سے خطرہ محسوس ہوا تو جنگ ہوئی۔ انیسویں صدی میں برطانیہ کو جرمنی سے خطرہ محسوس ہوا، اور آج چین امریکہ کو چیلنج کر رہا ہے۔

_106169636_28bbdf2d-c46a-438f-8f5f-35fa694093e4.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionمیری کتاب سفارت کاری کے بارے میں ہے قسمت کے لکھے کے بارے نہیں ہے: پروفیسر ایلیسن
پروفیسر ایلیسن نے پانچ سو برس کی تاریخ کو چھان کر سولہ ایسی مثالوں کی نشاندہی کی ہے جس میں ابھرتی ہوئی طاقتوں نے پہلے سے موجود طاقت کا سامنا کیا اور سولہ میں سے بارہ کا نتیجہ جنگ کی صورت میں نکلا۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ اور چین کی رقابت عالمی تعلقات کا ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے۔

تو کیا امریکہ اور چین توسیڈائڈز ٹریپ سے بچ سکتے ہیں یا یہ محض ایک علمی بحث ہے؟ یہ توسیڈائڈز ٹریپ بہت تیزی سے ایک تجزیاتی زاویہ بنتا جا رہا ہے جس کے ذریعے امریکہ اور چین کے تعلقات کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔

یقیناً ہر کوئی اس نظریے سے متفق نہیں ہے۔

چین کے مشہور نیول ماہر اور پیکنگ یونیورسٹی کے انسٹیوٹ آف آوشن ریسرچ کے پروفیسر ہو بو نے بتایا کہ طاقت کے موجودہ توازن میں توسیڈائڈز ٹریپ کی تھیوری قابل یقین نہیں ہے۔

پروفیسر ہو بو کہتے ہیں کہ چین کی ترقی اچھی ہے لیکن اس کی موجودہ طاقت کا امریکی طاقت سے کوئی موازنہ ہی نہیں ہے اور چین زیادہ سے زیادہ بحرالکاہل میں کسی حد تک امریکہ کا مقابلہ کر سکتا ہے۔

_106169637_4ab26866-e9d4-4b7f-bd9f-7df96be36044.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
بحرالکاہل میں دونوں ممالک کا آمنا سامنا دونوں طاقتوں کے مابین جنگ کا باعث بن سکتا ہے۔

امریکہ کے نیول وار کالج کے سٹیرٹیجی پروفیسر اینڈریو ارکسن کا کہنا ہے کہ چین کی موجودہ بحری طاقت کوئی زیادہ متاثر کن نہیں ہے لیکن وہ بہتر ہو رہی ہے۔ چین ایسے جدید جنگی بحری جہاز تیار کر رہا ہے جو یورپی جنگی جہازوں کی صلاحیت کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں چین کی بحری حکمت عملی دن بدن بااعتماد ہوتی جا رہی ہے۔

_106169638_a8761d69-9552-4829-a27b-11c658418733.jpg

تصویر کے کاپی رائٹREUTERS
Image captionچین کی نیوی دن بدن بڑی ہوتی جا رہی ہے
چین کی بحری طاقت امریکہ کو چین سے دور رکھنے کی پالیسی کے گرد گھومتی ہے۔ بیجنگ چاہتا ہے کہ امریکہ کی چین میں مداخلت کو مہنگا بنایا جا سکے۔ مثال کے طور پر چین چاہتا ہے کہ اگر وہ تائیوان میں طاقت کا استعمال کرتا ہے اور امریکہ چینی پانیوں میں گھسنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے احساس ہو کہ اس دراندازی کی اسے بھاری قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔

لیکن امریکہ اور چین کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کا تعلق کچھ شخصیات سے بھی ہے۔

کونسل آن فارن ریلیشنز کی ایشیا سٹڈیز سے تعلق رکھنے والی الزبیتھ اکانومی نے بتایا کہ صدر شی جن پنگ چین کے ایسے لیڈر کے طور پر سامنے آئے ہیں جو عالمی امور میں چین کے بڑے کردار کی خواہش کی علامت ہیں۔ الزبیتھ اکانومی کے مطابق عالمی اداروں کو چینی اقدار کے مطابق ڈھالنے کے حوالے سے صدر شی کی کوششوں کو زیادہ توجہ نہیں ملی ہے۔

_106169639_8b4208e2-fd92-4141-a0da-d8ccf9824aa0.jpg

تصویر کے کاپی رائٹELIZBETH ECONOMY
Image captionالزبتھ اکانومی کے مطابق عالمی اداروں کو چینی اقدار کے مطابق ڈھالنے کے حوالے سے صدر شی کی کوششوں کو زیادہ توجہ نہیں ملی ہے۔
امریکہ بھی اپنی پوزیشن بدل رہا ہے۔ امریکہ چین اور روس کو ایسی طاقتیں تصور کرتا ہے جو اپنے نظریے پر غور کرنے پر تیار ہیں۔ امریکی فوج چین کو اپنا حریف تصور کرتی ہے۔

لیکن امریکہ میں ایک اور رجحان بھی ہے جو ابھی اپنے ابتدائی مرحلے میں ہے۔ واشنگٹن میں کچھ لوگوں نے روس کی طرح، چین کے ساتھ بھی سرد جنگ کی بات کی۔

لیکن امریکہ اور سوویت یونین کے مابین سرد جنگ کے برعکس چین کے ساتھ سرد جنگ کا ایک ایسا پہلو بھی ہے جو سوویت یونین کے ساتھ نہیں تھا۔ چین اور امریکہ کی معیشتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں جس سے سرد جنگ کی ایک نئی جہت سامنے آتی ہے اور وہ ہے ٹیکنالوجی کے سیکٹر میں برتری۔

امریکہ اور چین کے مابین ہواوے ٹیلی کمیونیکیشن کا تنازعہ اس کی واضح نشاندہی کرتا ہے۔ امریکہ ہواوے ٹیکنالوجی کو اپنے کمیونیکشن نیٹ ورک میں استعمال ہونے پر پابندیاں عائد کر رہا ہے اور اپنے اتحادیوں پر بھی دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ بھی ایسا ہی کریں۔

امریکہ کی ہواوے ٹیکنالوجی کے ساتھ اس کا تنازعہ اس امریکی سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ چین کے ٹیکنالوجی سیکڑ کو اپنے انٹیلیکچؤل پراپرٹی رائٹس اور رازوں کی چوری کے تناظر میں دیکھتا ہے۔

_106169640_d6961b92-5b5b-463d-b5a3-6f99891509ea.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionکچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صدر شی جن پنگ اپنے منصوبوں پر عمل پیرا ہونے میں کامیاب ہوں گے
ہواوے کمپنی کا تنازعہ اس سوچ کا مظہر ہے کہ چین بہت جلد ٹیکنالوجی سیکٹر میں غلبہ حاصل کرلے گا جس پر آنے والے وقتوں میں دنیا کی خوشحالی کا انحصار ہو گا۔

یہ سوچ کہ چین اگلے عشرے میں ایک غالب عالمی طاقت بننے کے لیے کوشاں ہے، اس کا انحصار چینی ترقی کی رفتار پر ہے۔

اس طرح کے اشارے ہیں کہ چونکہ آمریت کے سیاسی نظام کو برقرار رکھتے ہوئے اس کی معاشی ترقی شاید ڈگمگا جائے۔ اگر چین کی معاشی ترقی سست ہو جائے تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صدر شی جن پنگ اپنے منصوبوں پر عمل پیرا ہونے میں کامیاب ہوں گے جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ اس سے صدر شی کی حکمرانی کے قانونی جواز پر سوال اٹھیں گے جس پر قابو پانے کے لیے وہ قوم پرستی کے جذبات کو ابھارنے یا عالمی سطح پر زیادہ جارحانہ انداز اپنا سکتے ہیں۔

امریکہ اور چین کی رقابت حقیقی ہے اور یہ ختم نہیں ہو گی۔ کوئی ایک تزویراتی غلطی بہت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

دونوں ممالک ایک تزویراتی دورائے پر کھڑے ہیں۔ یا تو دونوں کو ایک دوسرے کے خدشات کو دور کرنے کا طریقہ ڈھونڈنا ہو گا ورنہ دونوں ملک معاندانہ تعلقات کی جانب بڑھیں گے۔

یہاں تو سیڈائڈز ٹریپ واپس آ جاتا ہے۔ لیکن پروفیسر ایلیسن اس بات پر زور دیتے ہیں کہ توسیڈائڈز ٹریپ میں پھنسنا قسمت میں لکھا ہوا نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی کتاب سفارت کاری کے بارے میں ہے قسمت کے بارے میں نہیں ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ڈیموکریٹک امیدوار برنی سینڈرز صدارت کی ریس سے باہر
Bernie Sanders Drops Out of 2020 Democratic Race for President

زیک اب کیا ڈیموکریٹک پارٹی سے اگلا صدر بن پائے گا؟
برنی سینڈرز تو جیت رہے تھے، پھر مسئلہ کیا ہوا؟
  • ایک گھنٹہ پہلے
_111748299_tv060987978.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGetty Images

گذشتہ بدھ کو امریکی صدارتی امیدوار برنی سینڈرز نے اپنی انتخابی مہم یہ کہہ کر معطل کر دی کہ انھیں ڈیموکریٹک پارٹی کی اپنی نامزدگی کا کوئی عملی راستہ نہیں نظر آ رہا۔

مگر حقیقی طور پر ان کی انتخابی مہم کو ناقابلِ تلافی نقصان کئی ہفتے پہلے اس وقت ہوا جب وہ مشیگن اور میزوری کی ریاستوں میں پرائمریز ہار گئے۔

اس کے بعد ڈیموکریٹک پارٹی کا پرائمری سیزن ویسے ہی مشکلات میں پڑ گیا کیونکہ کورونا وائرس کی وجہ سے جلسے متاثر ہونے لگے اور کچھ ریاستوں کو پرائمری انتخاب ملتوی کرنے پڑے۔

اسی وقت ہی شاید برنی سینڈرز کے سخت ترین عقیدت مندوں کے علاوہ سب کو ہی سمجھ آ گئی تھی کہ اب ان کے پاس کوئی واپسی کا راستہ نہیں بچا۔

ان ریاستوں میں شکست نے اس مہم کی کمر توڑ دی تھی اور کورونا وائرس کی وجہ سے شاید ناگزیر کو تھوڑی دیر کے لیے ملتوی کر دیا۔

حقیقت سامنے آنے لگی
_111748303_tv060987970.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGetty Images

مارچ کے اوائل میں فلوریڈا کے شہر سینٹ پیٹرز برگ کے کوریگن پب میں سینڈرز کی انتخابی مہم کے لیے کام کرنے والے کچھ کارکن میشیگن اور میزوری کے نتائج دیکھنے کے جمع ہوئے۔

ان انتخابات کی اہمیت کا انھیں خوب اندازہ تھا۔ ان کی ریاست فلوریڈا میں پرائمری انتخابات اگلے ہفتے ہونے تھے اور اگر مڈ ویسٹ کے خطے میں جہاں برنی سینڈرز نے 2016 میں کافی کامیابیاں حاصل کی تھیں، اگر وہاں وہ نہ جیت سکا تو فلوریڈا میں تو ان کا کوئی امکان نہیں جہاں 2016 میں انھیں مار پٹی تھی۔

کوریگن پب کا کمرہ کافی کھلا تھا مگر ذرا خالی ہی تھا۔ برنی کی حمایت میں ایک بینر ٹی وی سے لٹک رہا تھا۔ سکرین پر ووٹوں کے اعداد و شمار آ رہے تھے۔ ماحول ایک جنازے جیسا تھا۔

اس رات کو لوگوں کی حوصلہ افزائی کے لیے برنی کی اپنی تقریر بھی نہیں ہونی تھی۔ اوہائیو میں ایک جلسہ ہونا تھا مگر کورونا کی وجہ سے اسے منسوخ کر دیا گیا تھا اور وہ اپنی ریاست ورمونٹ چلے گئے تھے۔

27 سالہ جرمی ڈولن اس کیفے کے مالک ہیں اور برنی سینڈرز کا حامی ہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ اپنے ان دوستوں سے کیا کہے گا جو کہ سینڈرز کی مہم کے لیے کام کر رہے تھے۔

‘اگر آپ کامیاب نہ بھی ہوں، آپ پھر بھی طاقتور ہیں۔ اور جو خیالات آپ رکھتے ہیں وہ امریکہ بھر میں مقبول ہیں۔ آپ کو کامیابی نہ بھی ملے تو بھی آپ ان کا لڑنا روک نہیں سکتے۔‘

اسی دن میں پہلے قریبی یونیورسٹی آف ساؤتھ فلوریڈا میں کچھ حامی قدرے کم نظریاتی انداز میں چیزوں کو دیکھ رہے تھے اور وہ برنی سینڈرز کے ڈیموکریٹک حریف پر زیادہ تنقید کر رہے تھے۔

ریچل ویٹسمن کہتی ہیں ‘اگر ہم پائیدار ترقی پسند مستقبل چاہتے ہیں تو برنی سینڈرز ہی واحد راستہ ہے۔ جو بائڈن کے اپنی دہانت کھونے کے علاوہ ان کی سیاست کسی طور فیصلہ کن نہیں ہے۔ وہ ہمیں اسی دور میں لے جانا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے ٹرمپ منتخب ہوا تھا۔ ‘

کم از کم یہ تو اچھی بات ہے!
_111748955_gettyimages-1198187287.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGetty Images

اگرچہ برنی سینڈرز کی 2020 کی انتخابی مہم بھی 2016 کی طرح ناکام رہی ہے مگر اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس بار بہت سی چیزیں اچھی ہوئیں۔

2016 میں ان کی بڑی کمزور سی تنظیم تھی، اور بہت چھوٹے سے بجٹ پر وہ کام کر رہے تھے اور انھیں جو بھی مقبولیت ملی صرف تب جا کر ملی جب پیسے آنا شروع ہوگئے۔

اس بار ان کی تنظیم کے انتظامی ڈھانچے کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ بہت سے رضاکارانہ اور پیشہ وارانہ لوگ ان کے لیے کام کر رہے تھے اور ان کے مالی وسائل اس قدر تھے کہ وہ ہر ریاست میں لڑ سکتے تھے۔

سنہ 2020 کی انتخابی مہم کے لیے برنی سینڈرز نے مجموعی طور پر 181 ملین ڈالر اکھٹے کیے جن میں سے زیادہ تر ان افراد کی جانب سے تھے جنھوںں نے 200 ڈالر سے کم عطیات دیے تھے۔ ان کے مقابلے میں جو بائڈن نے 88 ملین جمع کیے جن میں سے زیادہ تر بڑی بڑی ڈونیشنز تھیں۔

سینڈرز کی انتخابی مہم کی ایک اور خاص بات ان کی نوجوان ووٹروں میں مقبولیت تھی۔ جن ریاستوں میں وہ بائڈن سے بڑے پیمانے پر بھی ہارے ان ریاستوں میں بھی سینڈرز نے 30 سال سے کم عمر کے ووٹرز میں زیادہ ووٹ لیے۔

ریچل اس بارے میں کہتی ہیں کہ ‘سیاستدان بوڑھے لوگ ہوتے ہیں۔ لیکن مستقبل تو ہمارا داؤ پر ہے۔ میرے خیال میں نوجوان تنگ آ چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ہمیں ایک ترقی پسند مستقبل چاہیے۔‘

برنی سینڈرز کی حمایت کرنے والوں میں لاطینی امریکی کمیونٹی کے لوگ بھی تھے۔ نیواڈا اور کیلیفورنیا کی ریاستوں میں سینڈرز کی کامیابی میں ان کا اہم کردار تھا۔ ان دونوں ریاستیں میں وہ 2016 میں ہلری کلنٹن سے ہارے تھے۔

نوجوان لاطینی ووٹرز انھیں پیار سے `تیو برنی‘ یعنی انکل برنی پکارتے تھے۔

_111748963_gettyimages-951769160.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGetty Images

فلوریڈا میں نتائج دیکھتے ہویے ایک رضاکار جیکی ایزز کہتی ہیں کہ ’لاطینی لوگوں کو برنی اس لیے پسند ہیں کیونکہ ان کی کہانی میں ایسے بہت سے عنصر ہیں جو لاطینی امریکی کمیونٹی کے لیے اہم ہیں۔

وہ ایک ایسی تاریکینِ وطن کی فیملی سے تھے جو کہ بنیادی چیزیں جیسے کہ گھر کا کارپٹ اور پردے خرید نہیں سکتے تھے۔‘

اور پھر کچھ برے پس منطر کی باتیں ہیں جن کا ذکر برنی نے اپنی مہم کے ورثے کے طور پر کیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ عمر کے لحاظ سے مباحصہ جیت گئے ہیں۔ ا

نھوں نے نظریاتی بحث میں بھی کامیابی کا اعلان کیا جس کی مثال کے طور پر انھوں نے یونیورسل ہیلتھ کیئر، ماحولیاتی تبدیلی، اور مفت کالج کی تجاویز کا ذکر کیا جو کہ اب مرکزی دھارے میں زیرِ غور آنے لگے ہیں۔

جس دن برنی سینڈرز نے اپنی مہم ختم کی اس دن مصنف اور تجزیہ کار نوم چونسکی نے ڈیموکریسی ناؤ کے ریڈیو پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اب یہ کہا جا رہا ہے کہ سینڈرز کی مہم ناکام رہی مگر ایسا نہیں ہے۔ ‘وہ انتہائی کامیاب رہی۔ اس نے میدان میں بحث اور مباحثے کو مکمل طور پر تبدیل کر کے رکھ دیا۔‘

مگر مسئلہ یہ تھا، جس کا برنی سینڈرز نے خود اعتراف کیا، کہ وہ `الیکٹیبلیٹی‘ یعنی منتخب ہونے کی صلاحیت کے حوالے سے لڑائی ہار رہے تھے۔ اور الیکٹیبلیٹی یا الیکٹیبلیٹی کا تاثر اس مرتبہ ڈیموکریٹک ووٹرز کے لیے انتہائی اہم تھا۔

_111748959_tv060987973.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGetty Images

خطرےکی گھنٹی

سیڈر ریپڈز نامی شہر میں فروری کی ایک ٹھنڈی صبح کو جیمز ہُڈ، اپنی بیوی، اور دو نوجوان بچوں کے ساتھ آئیوا کاکس سے قبل برنی سینڈرز کے ایک جلسے میں تقریر سننے کے لیے کھڑے تھے۔

ڈیون پورٹ سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ وکیل جیمز کا کہنا تھا کہ وہ اس امیدوار کو سننا چاہتے ہیں مگر اسے ووٹ نہیں دیں گے۔ ان کے خیال میں سینڈرز بہت بوڑھے تھے اور بہت زیادہ لوگوں کو منقسم کر دیتے تھے۔

’اس ملک میں بہت سے لوگوں کے لیے برنی کو ووٹ دینا مشکل ہوگا۔ ذاتی طور پر وہ مجھے پسند ہیں اور میرے خیال میں ان کی کارکردگی بھی ٹھیک ہوگی۔ مگر میں سوچتا ہوں کہ اگر ان کی کوئی پالیسی معتدل نوعیت کی ہوتیں تو شاید وہ کامیاب ہو جاتے بجائے اس کے کہ آپ کالج مقف کر دیں۔‘

جمیز کہتے ہیں کہ میرے جیسے ووٹرز کی برنی سینڈرز کو ضرورت ہے اگر وہ 2020 میں 2016 کے برعکس کامیاب ہونا چاہتے ہیں۔ اور وہ کہتے ہیں کہ انھیں 2016 میں بھی برنی پسند تھے۔ اس دفعہ تو انھوں نے اپنے گھر پر برنی کا سائن بھی لگایا تھا۔ مگر آخر میں انھوں نے ہلری کلنٹن کو ووٹ دیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ وہ زیادہ محفوظ امیدوار تھیں۔

مگر چار سال بعد بھی برنی نے اپنے موقف تبدیل نہیں کیے تھے۔

اس سب کے باوجود سینڈرز ڈیموکریٹک امیدوار بننے کے بہت قریب آگئے۔ آئیوا کاکس جس میں بہت بدنظامی رہی اور ایک ہفتے تاخیر سے نتائج کا اعلان کیا گیا، پھر بھی ان کے سب سے زیادہ ووٹ تھے۔

_111748961_tv060987979.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGetty Images

نیو ہیمپشائر میں انھوں نے ایک چھوٹے مارجن سے پیٹ بوٹیجج کو ہرایا اور پھر نیواڈا میں تو انھوں نے میدان مار لیا جہاں انھوں نے جو بائڈن کو 26 فیصد ووٹوں سے ہرایا۔

مگر آخر میں یہ شاید ان یہی ان کی انتخابی مہم کا اونچا ترین پوائنٹ تھا۔

نیواڈا میں جیت کی شام انھوں نے کہا تھا کہ ’ہم لوگوں کو متحد کر رہے ہیں۔ نیواڈا میں ہم نے مختلف عمر والوں اور مختلف نسل والوں کا ایک اتحاد بنایا ہے جو کہ نہ صرف نیواڈا بلکہ اس پورے ملک میں کامیاب ہوگا۔‘

مگر ایسا ہو نہ سکا۔

اس کے بجائے ان کی ٹکر ایک ابھرتے ہوئے جو بائڈن سے ہوئی جنھوں نے حیران کن حد تک بڑی کامیابی اگلے ہی ہفتے جنوبی کیرولائنا میں لی۔ اور سابق صدر کی بڑی عمر کے اور سیاہ فام ووٹرز میں سپورٹ ملک کے جنوبی حصے میں واضح رہی اور انھوں نے سپر ٹیوز ڈے کو 14 میں سے 10 پرائمریز میں کامیابی حاصل کی۔

اور اس طرح برنی سینڈرز کا لیڈر کا درجہ چلا گیا۔

اب آگے کیا ہوگا؟
_111748301_tv060987974.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGetty Images

بدھ کو اپنی انتخابی مہم ختم کرنے کا اعلان برنی سینڈرز نے ایک مثبت نوٹ پر کیا۔ انھوں نے کہا کہ اگرچہ ان کی انتخابی مہم ختم ہو رہی ہے ان کی تحریک جاری رہے گی۔

‘اگرچہ اب شاید ہمارا راستہ قدرے سست ہوگا، مگر ہم اس ملک کو بدل کر رہیں گے، اور دنیا بھر میں ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر دنیا کو بدل دیں گے۔‘

گذشتہ پانچ سالوں میں برنی سینڈرز نے بالکل ہوا میں ایک تحریک نکال کھڑی کی ہے۔

اپریل 2015 میں جب انھوں نے اپنی صدارتی انتخابی مہم کا اعلان کیا تھا تو وہاں بہت تھوڑے سے صحافی پریس کانفرنس میں شریک ہوئے تھے۔

آج وہ امریکہ کے طاقتور ترین رہنمائوں میں سے ایک ہیں۔ ان کا شمار براک اوباما، نینسی پلوسی، بل کلنٹن جیسے لوگوں میں ہوگا۔ اور انھوں نے یہ اثر و رسوخ کسی عہدے سے نہیں حاصل کیا، بلکہ ان لوگوں کی وجہ سے حاصل کیا جن کو وہ مخاطب کرتے ہیں۔

78 سالہ سینڈرز اپنے سیاسی کیریئر کے عروج پر ہیں۔ اور ایسا تو بہت مشکل ہے کہ وہ دوبارہ صدارتی امیدوار بنیں گے۔ سوال یہ ہے کہ جو تحریک انھوں نے شروع کی ہے، اس کی قیادت اب کون کرے گا؟

فاروق سرور خان سید ذیشان
 

فرخ منظور

لائبریرین
تین عظیم دماغ اس وقت پوری دنیا کو لیڈ کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں اور جس قسم کی وہ حماقتیں کرتے ہیں ان کی حماقتیں دیکھ کر ان کے چننے والوں اور ان کی حمایت کرنے والوں پر حیرت ہوتی ہے۔ وہ تین عظیم دماغ ہیں۔ ٹرمپ، عمران اور مودی
 

جاسم محمد

محفلین
تین عظیم دماغ اس وقت پوری دنیا کو لیڈ کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں اور جس قسم کی وہ حماقتیں کرتے ہیں ان کی حماقتیں دیکھ کر ان کے چننے والوں اور ان کی حمایت کرنے والوں پر حیرت ہوتی ہے۔ وہ تین عظیم دماغ ہیں۔ ٹرمپ، عمران اور مودی
تاریخ کی ستم ظریفی دیکھئے کہ ایک عالمی وائرس نے عین اسی وقت حملہ کیا جب یہ تین عظیم دماغ زیر اقتدار تھے۔ :)
 
Top