علی خان
محفلین
پاکستان میں انٹرنیٹ کی ہیکنگ کا تو شاید سب کو معلوم ہے اور بڑی تعداد میں نوجوان ایسا شغل کے طور پر اکثر کرتے بھی رہتے ہیں، پھر خود سرکاری سطح پر بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو دیگر ممالک میں ریاستی سطح پر ہیکنگ کرتے اور کرواتے ہیں۔
لیکن میرا رابطہ ٹوئٹر پر گزشتہ دنوں کراچی کے ایک ایسے نوجوان سے ہوا جو اپنے آپ کو ہیکٹاوسٹ (hacktavist) کہتا ہے، یعنی ہیکنگ کا ماہر ایسا شخص جو عام لوگوں کے مفاد میں اور حکومتوں کے غیرقانونی اقدامات کے خلاف ہیکنگ کرتا ہے۔
شناخت نہ بتانے کی شرط پر اس نے ہمارے سامنے اپنا دعویٰ سچ کر دکھایا کہ وہ کسی بھی ہوٹل کے وائی فائی کا کنٹرول حاصل کر کے اس سے منسلک تمام کمپوٹروں اور سمارٹ فونوں تک پہنچ سکتا ہے۔ اس ہیکٹاوسٹ نے بتایا کہ نائن الیون کے بعد پاکستان میں اس نگرانی اور جاسوسی کے نظام کا استعمال کافی بڑھا ہے۔
’امریکہ اور برطانیہ نے انٹرنیٹ پر نظر رکھنا شروع کی تاکہ شدت پسندوں کے رابطوں پر نظر رکھ سکیں۔ اسے سنجیدگی سے لیا جانے لگا۔ چیٹ رومز میں باتیں ہو رہی تھیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں کہ کیا پاکستان میں یہ نگرانی ہو رہی ہے، تو ان کا کہنا تھا: ’مجھے حیرت ہوگی اگر ایسا نہیں ہو رہا ہوگا۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ نہیں ہو رہی ہوگی۔ اس کے ثبوت موجود ہیں۔ ہم نے خود اسے کئی مرتبہ دیکھا ہے۔ حکومت آپ کی جاسوسی کرتی ہے۔ امریکی صحافی ڈینیل پرل کے اغوا میں اس کا استعمال کافی کیا گیا۔‘
دنیا بھر میں جہاں امریکہ کی جانب سے انٹرنیٹ کے ذریعے جاسوسی کا چرچا ہے وہیں پاکستان میں بھی اس کی موجودگی کے اشارے ملے ہیں۔ اس بابت گذشتہ دنوں کینیڈا کی ٹورنٹو یونیورسٹی کے ایک تحقیقی گروپ نے پاکستان میں بھی انٹرنیٹ کے ذریعے نگرانی کے اس نظام کی موجودگی کا انکشاف کیا ہے۔
’مشتری ہوشیار باش‘ طرز کا یہ پیغام یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے ’دی سٹیزن لیب‘ نامی تحقیقی گروپ نے اپنی ایک رپورٹ ’فار دئیر آئیز اونلی: ڈیجٹل سپائینگ کی کمرشلائزیشن‘ میں کی ہے۔ اس رپورٹ نے پاکستان میں بھی فن فشر نامی نظام کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سرور پایا۔ یہ سافٹ ویئر ایک برطانوی کمپنی گیما گروپ تیار کرتی ہے جو کسی ریمورٹ کنٹرول کے ذریعے کمپیوٹر کا کنٹرول حاصل کر کے دستاویزات کاپی کر سکتا ہے، سکائپ کالز سن سکتا ہے اور ہر ٹائپ کیے ہوئے لفظ کا لاگ حاصل کر سکتا ہے۔
دی سٹیزن لیب کا الزام ہے کہ یہ نظام پاکستان میں سرکاری کمپنی پی ٹی سی ایل میں پایا گیا ہے۔ اس بابت کمپنی کے اہلکاروں سے رابطے کے باوجود جواب موصول نہیں ہو سکا ہے۔
ہم نے انٹرنیٹ پر رازداری کے لیے سرگرم تنظیم ’بولو بھی‘ کی ڈائریکٹر ثنا سلیم سے پوچھا کہ ٹورانٹو یونیورسٹی کی یہ رپورٹ آخر کتنی مصدقہ ہو سکتی ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ اس تحقیق میں ثبوت کے ساتھ بات کی گئی ہے اور جب وہ رپورٹ جاری کرتے ہیں تو یہ بھی ساتھ بتاتے ہیں کہ یہ تحقیق کس طرح سے کی گئی: ’یہ ادارہ 2008 سے کام کر رہا ہے اور یہ کوئی سرکاری یا کارپورِٹ فنڈنگ نہیں لیتا لہٰذا اسے ایک آزاد ادارہ تصور کیا جاتا ہے۔‘
فن فشر نامی اس نظام کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ کسی ادارے یا شخص کے بارے میں معلومات اکٹھی کر سکتا ہے: ’یہ نظام آپ کے ونڈوز، میک اور لینکس سسٹم، بلیک بیری اور اینڈروئڈ فونز پر لگایا جا سکتا ہے۔ یہ آپ کو ای میل میں بھیجا جائے گا، یہ کمپیوٹر کے پاس ورڈ لے لیتا ہے۔‘
لیکن ان کا الزام تھا کہ پاکستان میں یہ پی ٹی سی ایل کے ہاں پایا گیا ہے: ’یہ نظام کوئی کمپنی نہیں حاصل کر سکتی، اسے حکومت ہی لے سکتی ہے۔ ہم نے حکومت سے اور پی ٹی سی ایل سے دریافت کیا ہے کہ ملک میں ایسا کوئی قانون نہیں جو صحافیوں، سیاستدانوں یا کسی شخص کو اس سے بچا سکے تو ایسے میں اس کا استعمال کیوں کر ہو رہا ہے۔‘
ثنا کا اصرار تھا کہ اگر حکومت نے یہ نظام نہیں حاصل کیا تو پھر وہ معلوم کرے کہ اسے کون استعمال کر رہا ہے۔
سابق پارلیمان کی رکن اور عوامی نیشنل پارٹی کی رہنما بشریٰ گوہر نے پارلیمان میں اپنی ٹیلیفون ٹیپنگ کا الزام عائد کیا تھا۔ انہوں نے گذشتہ برس حکومت پاکستان کی جانب سے انٹرنیٹ پر فلٹرنگ کا نظام لگانے کے فیصلے کی بھی شدید مخالفت کی تھی۔
اس نظام کے نصب کیے جانے کے بارے میں آج تک حکومت نے باضابطہ طور پر اس کو روکنے کا کوئی اعلان تو نہیں کیا ہے لیکن بشریٰ گوہر کہتی ہیں اس وقت اسے موخر کر دیا گیا تھا: ’اسے مکمل روکنے کی بات نہیں کی گئی۔ ہم نے مطالبہ کیا تھا کہ تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ایسا کوئی فیصلہ کیا جائے۔‘
بشریٰ کا کہنا ہے کہ جاسوسی انٹرنیٹ کی آزادی کے خلاف اقدام ہے:’دہشت گرد تو انٹرنیٹ اور ٹیلی فون سب کچھ آزادی سے استعمال کر رہے ہیں، مسئلہ عام شہریوں اور سیاستدانوں کا ہے کہ ان کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے، انہیں بلیک میل کیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے حکومت کی جانب سے اس پر مکمل وضاحت کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم وہ اقرار کرتی ہیں کہ سابق پارلیمان نے آخر میں فیر ٹرائل بل بھی مختصر بحث کے بعد جلد بازی میں منظور کر دیا جس میں ای میل اور ٹیلی فون کو بطور ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے۔ بعض تنظیمیں اس کی بعض شقوں کو بھی حقوقِ انسانی کی خلاف ورزی قرار دیتی ہیں۔
اسلام آباد کے ایک انٹرنیٹ کیفے میں کسی نجی کمپنی کا ڈیٹا اپ لوڈ کرنے والے پارٹ ٹائم ملازم عامر جاوید نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس قسم کی جاسوسی سے لاعلمی کا اظہار کیا:’یہ تو کافی تشویش کی بات ہے کہ لوگوں کا ڈیٹا بغیر کسی وجہ کے دوسرے لوگ دیکھ سکیں گے۔ آپ کو اس کا علم ہی نہ ہو تو یہ تو ٹھیک نہیں۔ یہ کسی کو حق نہیں پہنچتا۔ حکومت کو چاہیے کہ اس کے بارے میں بتائے۔‘
کہیں سی آئی اے کے سابق ملازم ایڈورڈ سنوڈن اس نگرانی کا بھانڈا پھوڑ رہے ہیں تو کہیں خود صدر براک اوباما ای میل اور ٹیلی فون نگرانی کا دفاع کر رہے ہیں۔ ایسے نگرانی کے نظام کی موجودگی کی اطلاعات تو ہیں، سرکاری تصدیق ابھی تک نہیں ہے۔ کیا پاکستانی حکومت اس بابت کچھ وضاحت کرے گی؟
خبر کا لنک:
لیکن میرا رابطہ ٹوئٹر پر گزشتہ دنوں کراچی کے ایک ایسے نوجوان سے ہوا جو اپنے آپ کو ہیکٹاوسٹ (hacktavist) کہتا ہے، یعنی ہیکنگ کا ماہر ایسا شخص جو عام لوگوں کے مفاد میں اور حکومتوں کے غیرقانونی اقدامات کے خلاف ہیکنگ کرتا ہے۔
شناخت نہ بتانے کی شرط پر اس نے ہمارے سامنے اپنا دعویٰ سچ کر دکھایا کہ وہ کسی بھی ہوٹل کے وائی فائی کا کنٹرول حاصل کر کے اس سے منسلک تمام کمپوٹروں اور سمارٹ فونوں تک پہنچ سکتا ہے۔ اس ہیکٹاوسٹ نے بتایا کہ نائن الیون کے بعد پاکستان میں اس نگرانی اور جاسوسی کے نظام کا استعمال کافی بڑھا ہے۔
’امریکہ اور برطانیہ نے انٹرنیٹ پر نظر رکھنا شروع کی تاکہ شدت پسندوں کے رابطوں پر نظر رکھ سکیں۔ اسے سنجیدگی سے لیا جانے لگا۔ چیٹ رومز میں باتیں ہو رہی تھیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں کہ کیا پاکستان میں یہ نگرانی ہو رہی ہے، تو ان کا کہنا تھا: ’مجھے حیرت ہوگی اگر ایسا نہیں ہو رہا ہوگا۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ نہیں ہو رہی ہوگی۔ اس کے ثبوت موجود ہیں۔ ہم نے خود اسے کئی مرتبہ دیکھا ہے۔ حکومت آپ کی جاسوسی کرتی ہے۔ امریکی صحافی ڈینیل پرل کے اغوا میں اس کا استعمال کافی کیا گیا۔‘
دنیا بھر میں جہاں امریکہ کی جانب سے انٹرنیٹ کے ذریعے جاسوسی کا چرچا ہے وہیں پاکستان میں بھی اس کی موجودگی کے اشارے ملے ہیں۔ اس بابت گذشتہ دنوں کینیڈا کی ٹورنٹو یونیورسٹی کے ایک تحقیقی گروپ نے پاکستان میں بھی انٹرنیٹ کے ذریعے نگرانی کے اس نظام کی موجودگی کا انکشاف کیا ہے۔
’مشتری ہوشیار باش‘ طرز کا یہ پیغام یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے ’دی سٹیزن لیب‘ نامی تحقیقی گروپ نے اپنی ایک رپورٹ ’فار دئیر آئیز اونلی: ڈیجٹل سپائینگ کی کمرشلائزیشن‘ میں کی ہے۔ اس رپورٹ نے پاکستان میں بھی فن فشر نامی نظام کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سرور پایا۔ یہ سافٹ ویئر ایک برطانوی کمپنی گیما گروپ تیار کرتی ہے جو کسی ریمورٹ کنٹرول کے ذریعے کمپیوٹر کا کنٹرول حاصل کر کے دستاویزات کاپی کر سکتا ہے، سکائپ کالز سن سکتا ہے اور ہر ٹائپ کیے ہوئے لفظ کا لاگ حاصل کر سکتا ہے۔
دی سٹیزن لیب کا الزام ہے کہ یہ نظام پاکستان میں سرکاری کمپنی پی ٹی سی ایل میں پایا گیا ہے۔ اس بابت کمپنی کے اہلکاروں سے رابطے کے باوجود جواب موصول نہیں ہو سکا ہے۔
ہم نے انٹرنیٹ پر رازداری کے لیے سرگرم تنظیم ’بولو بھی‘ کی ڈائریکٹر ثنا سلیم سے پوچھا کہ ٹورانٹو یونیورسٹی کی یہ رپورٹ آخر کتنی مصدقہ ہو سکتی ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ اس تحقیق میں ثبوت کے ساتھ بات کی گئی ہے اور جب وہ رپورٹ جاری کرتے ہیں تو یہ بھی ساتھ بتاتے ہیں کہ یہ تحقیق کس طرح سے کی گئی: ’یہ ادارہ 2008 سے کام کر رہا ہے اور یہ کوئی سرکاری یا کارپورِٹ فنڈنگ نہیں لیتا لہٰذا اسے ایک آزاد ادارہ تصور کیا جاتا ہے۔‘
فن فشر نامی اس نظام کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ کسی ادارے یا شخص کے بارے میں معلومات اکٹھی کر سکتا ہے: ’یہ نظام آپ کے ونڈوز، میک اور لینکس سسٹم، بلیک بیری اور اینڈروئڈ فونز پر لگایا جا سکتا ہے۔ یہ آپ کو ای میل میں بھیجا جائے گا، یہ کمپیوٹر کے پاس ورڈ لے لیتا ہے۔‘
لیکن ان کا الزام تھا کہ پاکستان میں یہ پی ٹی سی ایل کے ہاں پایا گیا ہے: ’یہ نظام کوئی کمپنی نہیں حاصل کر سکتی، اسے حکومت ہی لے سکتی ہے۔ ہم نے حکومت سے اور پی ٹی سی ایل سے دریافت کیا ہے کہ ملک میں ایسا کوئی قانون نہیں جو صحافیوں، سیاستدانوں یا کسی شخص کو اس سے بچا سکے تو ایسے میں اس کا استعمال کیوں کر ہو رہا ہے۔‘
ثنا کا اصرار تھا کہ اگر حکومت نے یہ نظام نہیں حاصل کیا تو پھر وہ معلوم کرے کہ اسے کون استعمال کر رہا ہے۔
سابق پارلیمان کی رکن اور عوامی نیشنل پارٹی کی رہنما بشریٰ گوہر نے پارلیمان میں اپنی ٹیلیفون ٹیپنگ کا الزام عائد کیا تھا۔ انہوں نے گذشتہ برس حکومت پاکستان کی جانب سے انٹرنیٹ پر فلٹرنگ کا نظام لگانے کے فیصلے کی بھی شدید مخالفت کی تھی۔
اس نظام کے نصب کیے جانے کے بارے میں آج تک حکومت نے باضابطہ طور پر اس کو روکنے کا کوئی اعلان تو نہیں کیا ہے لیکن بشریٰ گوہر کہتی ہیں اس وقت اسے موخر کر دیا گیا تھا: ’اسے مکمل روکنے کی بات نہیں کی گئی۔ ہم نے مطالبہ کیا تھا کہ تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ایسا کوئی فیصلہ کیا جائے۔‘
بشریٰ کا کہنا ہے کہ جاسوسی انٹرنیٹ کی آزادی کے خلاف اقدام ہے:’دہشت گرد تو انٹرنیٹ اور ٹیلی فون سب کچھ آزادی سے استعمال کر رہے ہیں، مسئلہ عام شہریوں اور سیاستدانوں کا ہے کہ ان کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے، انہیں بلیک میل کیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے حکومت کی جانب سے اس پر مکمل وضاحت کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم وہ اقرار کرتی ہیں کہ سابق پارلیمان نے آخر میں فیر ٹرائل بل بھی مختصر بحث کے بعد جلد بازی میں منظور کر دیا جس میں ای میل اور ٹیلی فون کو بطور ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے۔ بعض تنظیمیں اس کی بعض شقوں کو بھی حقوقِ انسانی کی خلاف ورزی قرار دیتی ہیں۔
اسلام آباد کے ایک انٹرنیٹ کیفے میں کسی نجی کمپنی کا ڈیٹا اپ لوڈ کرنے والے پارٹ ٹائم ملازم عامر جاوید نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس قسم کی جاسوسی سے لاعلمی کا اظہار کیا:’یہ تو کافی تشویش کی بات ہے کہ لوگوں کا ڈیٹا بغیر کسی وجہ کے دوسرے لوگ دیکھ سکیں گے۔ آپ کو اس کا علم ہی نہ ہو تو یہ تو ٹھیک نہیں۔ یہ کسی کو حق نہیں پہنچتا۔ حکومت کو چاہیے کہ اس کے بارے میں بتائے۔‘
کہیں سی آئی اے کے سابق ملازم ایڈورڈ سنوڈن اس نگرانی کا بھانڈا پھوڑ رہے ہیں تو کہیں خود صدر براک اوباما ای میل اور ٹیلی فون نگرانی کا دفاع کر رہے ہیں۔ ایسے نگرانی کے نظام کی موجودگی کی اطلاعات تو ہیں، سرکاری تصدیق ابھی تک نہیں ہے۔ کیا پاکستانی حکومت اس بابت کچھ وضاحت کرے گی؟
خبر کا لنک: