امریکی انصاف

شعیب صفدر

محفلین
سنا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کو سزا سنا دی گئی ہے ہے اُسے امریکی میرین پر قاقلانہ حملہ کرنے کے جرم میں‌سزا سنائی گئی اس کے علاوہ دیگر چھ جرائم میں‌ بھی مجرم تھرایا گیا ہے۔
ایک عورت یعنی قیدی نمبر 650 کے امریکی قید میں‌ہونے کا انکشاف ایک پریس کانفرنس میں‌نومسلم صحافی Yvonne Ridley نے اپنی 6 جولائی 2008 کو کیا جس میں‌انہوں‌نے وعویٰ‌کیا کہ یہ گرے لیڈی چار سال سے امریکیوں‌کی قید میں‌ ہے ربط جبکہ زار کے افشاء‌ ہونے پر امریکیوں‌نے 17 جولائی 2008 کی تاریخ‌کو ڈرامائی کہانی کے ذریعے اس کی گرفتاری دیکھائی یعنی کہ 11 دن بعد باحثیت وکیل میں‌یہ سمجھتا ہو کہ صرف یہ ایک فیکٹ ایسا ہے جو گرفتاری کو مشکوک ہی نہیں‌ بلکہ باقاعدہ جعلی قرار دینے کے لئے کافی ہے اور فطری انصاف کی رو سے اگر گرفتاری جعلی ہو تو الزام بھی جھوٹے تصور ہوں‌گے خاص‌کر جبکہ وہ الزام خاص طور پر مجموعی طور پر گرفتاری کے بعد کے واقعات پر مشتمل ہوں۔
آپ کی رائے کیا ہے؟‌کیسا لگا یہ انصاف آپ کو؟‌ سابقہ ملکی روایات کے مطابق صرف مذمت ہی ناں‌ یا وہ بھی نہیں؟
 

اظہرالحق

محفلین
ایک علامت ہے سب "پکے اور سچے" مسلمانوں کے لئے جو صرف بے گناہوں کے خون سے اپنی پیاس بجھا رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابھی تو ہماری پہلی بیٹی ہے ، پہلی ماں ہے اور پہلی بہن ہے ۔ ۔ ۔ ۔ آگے کتنی ہی عافیہ ایسے ہی انصاف کی بھینٹ چڑھنے والی ہیں

مگر ہمیں کیا ۔ ۔۔ ۔ ۔ ہم اپنے آپ کو ہی اڑا سکتے ہیں‌ ۔ ۔ ۔ ۔ کل سینہ کوبی ہو گی ۔ ۔ ۔ ہم ماتم کریں گے مگر غیرت مندی صرف از صرف اپنے آپ تک محدود رکھیں گے ۔ ۔ ۔ ۔ کیونکہ

غیرت جسے کہتے تھے وہ تو گئی اغیار میں
کھو چکے ہیں آپ اپنا ، اناؤں کے سنسار میں

اللہ ہم پر کیسے رحمت کرے گا ۔ ۔ ۔ پتہ نہیں‌ ۔ ۔ ۔ ۔۔ پتہ نہیں‌ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

زیک

مسافر
باحثیت وکیل میں‌یہ سمجھتا ہو کہ صرف یہ ایک فیکٹ ایسا ہے جو گرفتاری کو مشکوک ہی نہیں‌ بلکہ باقاعدہ جعلی قرار دینے کے لئے کافی ہے اور فطری انصاف کی رو سے اگر گرفتاری جعلی ہو تو الزام بھی جھوٹے تصور ہوں‌گے خاص‌کر جبکہ وہ الزام خاص طور پر مجموعی طور پر گرفتاری کے بعد کے واقعات پر مشتمل ہوں۔

یہ بھی خیال رہے کہ میری معلومات کے مطابق عافیہ کے وکلاء نے یہ معاملہ عدالت میں نہیں اٹھایا۔
 

dxbgraphics

محفلین
سننے میں‌آیا ہے کہ امریکہ مستقبل میں پانچ حصوں میں تقسیم ہوجائے گا۔ کوئی اس کے بارے میں بتا سکتا ہے۔
 

وجی

لائبریرین
امریکی ایسی غلطیاں کئی بار کرچکا ہے صدام حسین کی گرفتاری کا ڈرامہ آپ کو شاید یاد ہو
 

dxbgraphics

محفلین
امریکی عدالت نے ڈاکٹر عافیہ کومجرم قراردیدیا۔غیرقانونی طریقے سے پاکستان سے لیجایا گیا

یہ تھا امریکہ کا انصاف ۔ صرف الزام کی بنیاد پر ۔

news-01.gif


news-13.gif
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ڈاکٹر عافيہ کيس کے حوالے سے ميں بہت سے پاکستانی فورمز اور بلاگز پر پوسٹ کيے جانے والے پيغامات سے آگاہ ہوں۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ اس کيس کے حوالے سے پاکستانيوں ميں شديد جذبات پائے جاتے ہيں اور ان جذبات کا اظہار مختلف فورمز پر ان کی رائے سے عياں ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ بہت سے پاکستانيوں کو اس عدالتی فيصلے سے مايوسی ہوئ ہے اور اس کا اظہار واشنگٹن ميں پاکستانی سفارت خانے سے جاری بيان ميں بھی کيا گيا ہے۔

ليکن اہم بات يہ ہے کہ کسی بھی منصفانہ عدالتی نظام کی بنيادی اساس يہ اصول ہے کہ تمام تر فيصلے جذبات، نظريات اور عوامی رائے سے قطع نظر شواہد اور قانون کی روشنی ميں کيے جائيں۔ اس ضمن ميں يہ واضح رہے کہ ڈاکٹر عافيہ کا کيس کوئ ميڈيا ٹرائيل نہيں بلکہ ايک قانونی مقدمہ تھا جس کا فيصلہ عدالت ميں پيش کيے جانے والے شواہد، دونوں جانب کے وکلاء کی جانب سے ديے جانے والے دلائل اور گواہوں کے ساتھ جرح کی بنياد پر کيا گيا ہے۔ امريکی حکومت کا فيصلہ سازی کے عمل سے کوئ تعلق نہيں تھا۔ امريکی حکومت کا جج اور جيوری پر کوئ کنٹرول نہيں تھا۔ حقیقت يہ ہے کہ ماضی میں ايسی کئ مثاليں ملتی ہيں جب اہم اور سينير امريکی حکومتی عہديداروں کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے خلاف فيصلے بھی سنائے گئے۔ اگر امريکی حکومت خود اپنے اہلکاروں کے مقدمات میں کبھی بھی انصاف کے نظام پر اثرانداز نہں ہو سکی تو يہ دليل غير منطقی ہے کہ اس کيس ميں ديے جانے والے فيصلے کے حوالے سے امريکی حکومت نے اپنا کوئ اثر ورسوخ استعمال کيا ہے۔

ڈاکٹر عافيہ کے وکيلوں کے پاس اب بھی اس فيصلے کے خلاف اپيل کرنے کا آپشن موجود ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

dxbgraphics

محفلین
ڈاکٹر عافيہ کيس کے حوالے سے ميں بہت سے پاکستانی فورمز اور بلاگز پر پوسٹ کيے جانے والے پيغامات سے آگاہ ہوں۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ اس کيس کے حوالے سے پاکستانيوں ميں شديد جذبات پائے جاتے ہيں اور ان جذبات کا اظہار مختلف فورمز پر ان کی رائے سے عياں ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ بہت سے پاکستانيوں کو اس عدالتی فيصلے سے مايوسی ہوئ ہے اور اس کا اظہار واشنگٹن ميں پاکستانی سفارت خانے سے جاری بيان ميں بھی کيا گيا ہے۔

ليکن اہم بات يہ ہے کہ کسی بھی منصفانہ عدالتی نظام کی بنيادی اساس يہ اصول ہے کہ تمام تر فيصلے جذبات، نظريات اور عوامی رائے سے قطع نظر شواہد اور قانون کی روشنی ميں کيے جائيں۔ اس ضمن ميں يہ واضح رہے کہ ڈاکٹر عافيہ کا کيس کوئ ميڈيا ٹرائيل نہيں بلکہ ايک قانونی مقدمہ تھا جس کا فيصلہ عدالت ميں پيش کيے جانے والے شواہد، دونوں جانب کے وکلاء کی جانب سے ديے جانے والے دلائل اور گواہوں کے ساتھ جرح کی بنياد پر کيا گيا ہے۔ امريکی حکومت کا فيصلہ سازی کے عمل سے کوئ تعلق نہيں تھا۔ امريکی حکومت کا جج اور جيوری پر کوئ کنٹرول نہيں تھا۔ حقیقت يہ ہے کہ ماضی میں ايسی کئ مثاليں ملتی ہيں جب اہم اور سينير امريکی حکومتی عہديداروں کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے خلاف فيصلے بھی سنائے گئے۔ اگر امريکی حکومت خود اپنے اہلکاروں کے مقدمات میں کبھی بھی انصاف کے نظام پر اثرانداز نہں ہو سکی تو يہ دليل غير منطقی ہے کہ اس کيس ميں ديے جانے والے فيصلے کے حوالے سے امريکی حکومت نے اپنا کوئ اثر ورسوخ استعمال کيا ہے۔

ڈاکٹر عافيہ کے وکيلوں کے پاس اب بھی اس فيصلے کے خلاف اپيل کرنے کا آپشن موجود ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

جھوٹ کی بھی ایک حد ہوتی ہے فواد۔
ڈاکٹر عافیہ کو محض الزامات کی بنیاد پر قصور وار ٹہرایا گیا ہے۔ ذرا اپنے نیوز چینل بھی دیکھ لو۔ ہمارے چینل تو آپ کے خلاف ہیں آپ کے مطابق۔
 

dxbgraphics

محفلین
کہ اس کيس ميں ديے جانے والے فيصلے کے حوالے سے امريکی حکومت نے اپنا کوئ اثر ورسوخ استعمال کيا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

امریکی حکومت تو کٹ پتلی ہے فری میسنز ۔ زیانسٹ کی۔ اور جیوری میں شامل یہودیوں کے کہنے پر ہی فیصلہ موخر کیا گیا۔

اگر ان کے خلاف ثبوت تھے تو عدالت میں پیش کیوں نہیں کئے گئے۔
 

عسکری

معطل
کیا ڈاکر عافیہ امریکی نیشنل ہیں؟ اگر ہاں تو پاکستانی گورمنٹ کچھ نہین کر سکتی ۔کل ایک امریکی سے بات ہوئی اس نے یہ نکات اٹھائے اگر وہ امریکی شہریت رکھتی ہیں تو پاکستان کو حکومت ایک امریکی اور امریکن حکومت کے معاملات میں دخل نہیں دے سکتی؟۔ یہ ایک سوال تھا دوستو؟۔
 

خورشیدآزاد

محفلین
میں نے کل جب یہ خبر بی بی سی اردو پر دیکھی تو افسوس بھی ہوا اور حیرانگی بھی۔ افسوس اس لیے کہ ایک انتہائی تعلیم یافتہ اور باصلاحیت قوم کی بیٹی یہ کن راہوں پر چل نکلی۔ اور حیرانگی امریکنوں کی بیوقوفی پر ہوئی کہ ان کے پاس ایک طرح سے قانونی لحاظ سے ٹھوس شوائد موجود تھے لیکن پھر نا جانے کیوں عافیہ صدیقی پر پاکستان میں مقدمہ نہیں چلایا گیا اور اسے امریکہ لے گئے۔

میں نے بی بی سی اردو کے حسن مجتبیٰ صاحب کی اس مقدمے پر پوری ریپورٹنگ پڑھی ہے اور میں اسی ریپورٹنگ کے اقتباسات یہاں پیش کررہا ہوں، ان اقتباسات سے کہیں کہیں شک وشبہات نے بھی جنم لیا ہے جنہوں نے بلا شبہ استغاثہ کے کیس پر برا اثر ڈالا ہے۔

مندرجہ ذیل تمام اقتباسات بی بی سی اردو سے لیے گئے ہیں

جمعہ۔ء, 15 جنوری :
فغانستان میں امریکی سکیورٹی و حکومتی اہلکاروں پر قاتلانہ حملے کے الزام میں نیویارک میں قید پاکستانی خاتون سائنسدان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مقدمے کی باقائدہ سماعت کیلیے نیویارک کی ایک وفاقی عدالت نے سولہ رکنی جیوری کا انتخاب مکمل کرلیا ہے۔

جج جاننا چاہتےتھے کہ آیا ان کا کوئي عزیز گيارہ ستمبر کے حملوں سے اگر متاثر ہوا تھا اور وہ کس قدر مقدمے پر اثر ڈال سکتا ہے اور یہ بھی کہ دوران سماعت ان کے سامنے یہ بھی آئے گا کہ مبینہ طور پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے ایسی تحریریں لکھی ہیں جو استغاثہ کے مطابق یہودی مخالف اور صیہونی مخالف ہیں تو کیا ان کے سامنے ایسی مبینہ معلومات یا مبینہ مواد مقدمے پر اثر انداز ہوگا جس سے ان سے نا انصافی متوقع ہو؟

جج بریمین نے سب کے فرداً فرداً نام لے کر ان سے ایسے سوالات کیے جن کا جواب تمام ممکنہ اراکین نے نفی میں دیا۔ جیوری کے ممکنہ اراکین کو مخاطب کرتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے کہا کہ ’نہ میں امریکہ کے خلاف ہوں اور نہ ہی میں نیویارک تباہ کرنا چاہتی ہوں بلکہ میں امن چاہتی ہوں۔ آپ لوگ جاکر امریکہ کے صدر سے کہیں کہ میں طالبان اور پاکستان کے درمیاں ایک گھنٹے کے اندر امن قائم کروا سکتی ہوں۔‘

جج نے جیوری کے انتخاب کے لیے ممکنہ ارکین سے ان کی تعلیمی سطح، روزگار، ذاتی حالات و مشاغل اور کتاب اور جرائد اور آن لائن یا ہارڈ کاپی میں کتابیں پڑ ھنے کے بارے میں بھی سوالات کیے۔

منتخب سولہ جیوری اراکین پر جج نے واضح کیا کہ مجرم ثابت نہ کیے جانے تک ڈاکٹر عافیہ صدیقی بیگناہ تصور کی جائيں گي۔ نیز یہ بھی کہ فوجداری مقدمے میں بیگناہ ثابت کرنے کی ذمہ داری مدعاعلیہ پر نہیں بلکہ اسے مجرم ثابت کرنے کی تمام ذمہ داری حکومت یا استغاثہ پر ہوتی ہے۔

بدھ, 20 جنوری,:
پہلے روز اس میں امریکی حکومت کی طرف سے تین گواہ پیش ہوئے ہیں جبکہ جیوری کے سامنے استغاثہ نے اپنا کیس کسی بھی شک سے باہر ثابت کرنے کی جبکہ عافیہ صدیقی کے دفاع کے وکلاء نے عافیہ کےخلاف مقدمے کو ’حقیقی شکوک کی بنیاد پر باطل ثابت کرنے کے دعوے کیے ہیں۔ استغاثہ نے عداالت میں کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ہاتھوں مبینہ طور استعمال کی جانے والی ایم فور رائيفل پر انکی انگلیوں کے نشانات یا فنگر پرنٹس اور رائفل سے مبینہ طور چلائي جانے والی گولیوں کے خول وہ نہیں پیش کرسکیں گے۔

استغاثہ اوپیننگ اسٹیٹمینٹ‘
عدالت میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کےخلاف امریکی حکومت کے مقدمے کی باقائدہ سماعت شروع ہونے پر سب سے پہلے استغاثہ کی وکیل نے امریکی حکومت کی طرف سے مقدمہ میں اپنی ’اوپیننگ اسٹیٹمینٹ‘ دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر اٹھارہ جولائي دو ہزار آٹھ پر افغانستان کے صوبے غزنی میں افغان نیشنل پولیس کمپائونڈ کی عمارت کی دوسری منزل کے ایک کمرے میں امریکی فوجی، حکومتی اور امریکی حکومت کے لیے کام کرنے والے افراد پر ایم فور رائفل سے گولی چلاکر امریکییوں کو مبینہ طور قتل کرنے کی کوشش کے سات الزامات ہیں اور استغاثہ دوران مقدمہ انکے خلاف امریکی فوج کے سپشل سروسز، میرین کور، اور ایف بی آئی کے اس وقت کے افغنستان میں تعینات گواہ اور متعلقہ گواہی اور دستاویزات لاکر عدالت میں عافیہ صدیقی کے خلاف امریکی حکومت کے الزامات مناسب شک سے ماورا ثابت کرے گي۔

استغاثہ نے کہا کہ وہ عدالت میں ڈاکٹر عافیہ کے ایم فور رائفل پر انگلیوں کے نشانات یا فنگر پرنٹس اور مبینہ رائفل کی گولیوں کے خول بطور گواہی نہیں لاسکيں گے۔ استغاثے کے مطابق وہ ایسی گواہی پیش نہ کرسکنے کی وجوہات دوران مقدمہ عدالت میں ظاہر کریں گے۔

استغاثہ نے ڈاکٹر عافیہ کے خلاف پینتیس سو صفحات پر مشمتل دستاویزات پر مبنی گواہی کا دعوی کیہ ہے جن میں اسکا الزام یہ بھی ہے کہ انکی گرفتاری کےوقت انکی تحویل سے ایسے دستاویزات بر آمد ہوئے تھے جن میں نیویارک سمیت امریکی عماراتیں، اہم تنصیبات پر مبینہ حملوں اور ڈرٹی بم اور کیمائي اور حیاتیاتی ہھتیار کے بنانے کے بارے میں، اردو اور پشتوں زبانوں میں مبینہ معلومات تھیں۔ تا ہم استغاثہ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خلاف موجودہ مقدمے میں دہشت گرد تنظیموں سے انکے مبینہ تعلق کے الزمات شامل نہیں کیے ہیں۔

دفاع کی طرف سے اوپیننگ اسٹیٹمینٹ‘
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے دفاع کے وکلاء کی ٹیم کے رکن چارلس سوئفٹ نے دفاع کی طرف سے مقدمہ شروع ہونے کے بیان یا اوپیننگ سٹیٹمینٹ میں کہا کہ ڈاکٹر عافیہ کے مقدمے کے کئي ورژن یا کہانیاں بتائي جاتی ہیں جبکہ انکے مقدمے کا ورژن فقط ایک ہے جو کہ غزنی کے افغان نیشنل پولیس کے صدر دفاتر کے ایک کمرے سے شروع ہوتا ہے اور ایک کمرے میں ہی ختم ہوتا ہے۔ انہوں نے جیوری کے سامنے دعوی کیا کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کے خلاف حکومت کی طرف سے قائم کیے گئے مقدمے کو حقیقی شکوک کی بنیاد پر باطل ثابت کریں گے۔

ڈاکٹر عافیہ کے خلاف استغاثہ کی طرف سے مقدمے میں غزنی میں مبینہ الزامات والے واقعے کے دوران تعینات امریکی فوج کا افسر کیپٹن رابرٹ سنائيڈن جونئر جنکا دعوی تھا کہ انہوں نےڈاکٹر عافیہ صدیقی کی مبینہ ایم فور رائفل سے فائرنگ کے جواب میں اپنے نائن ایم ایم پستول سے فائر کرے انکو زخمی کیا تھا، امریکی سیکورٹی سابقہ اہلکار اور حال میں امریکی سیکورٹی کا اہلکار جان تھیرڈ کرافٹ اور مبینہ واقعہ کے وقت غزنی میں افغان پولیس ہیڈ کوارٹر غزنی میں موجود ایف بی آئي ایجنٹ جان جفیرسن عرف جے جے نے عدالت میں پیش ہو کر نقشوں، تصاویر اور ڈای گرامز اور گئي صفحات کے استغاثہ کی طرف سے دستاویزات کی مدد سے گواہی ریکارڈ کرائی۔

ان میں سے پہلے دو گواہوں پر دفاع کے وکلاء نے جرح کی اور تیسرے گواہ ایف بی آئي ایجنٹ کا بیان جاری تھا کہ عدالت کا وقت ختم ہونے پر کارروائي بدھ کی صبح تک ملتوی کردی گئي۔ استغاثہ کے تینوں گواہوں کی گواہی کا لب لباب یہی تھا کہ وہ مبینہ طور سترہ جولائي دو ہزار آٹھ کو غزنی کے گورنر ڈاکٹر عثمان کی رہائش گاہ کے قریب مشکوک حالات میں گھومتے خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ایک چھوٹے بچے کے ہمراہ گرفتار ہوجانے اور انکی تحویل سے مبینہ طورامریکی کے خلاف دہشتگردی کے مبینہ منصوبوں کے متعلق دستاویزات برآمد ہونے کی اطلاعات سن کر ان سے پوچھ گچھ کرنے اور انکی تحویل امریکہ کو دینے کی درخواست لے کر افغان حکام کے پاس غزنی میں افغان نیشنل پولیس ہیڈ کوارٹر گئے تھے کہ مبینہ طور دوسری منزل کے کمرے میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے ایم فور رائفیل جیسے جنگي ہتھیکار سے گولی چلادی۔

استغاثہ کی طرف سے پیش ہونے والے پہلے دو گواہوں پر دفاع کے وکلاء نے زبردست جرح کی جس میں مبینہ جوابی فائرنگ کرنے والے فوجی افسر کے پہلے بیان اور انکے بعد میں اسپیشل سروسز گروپ کے وارنٹ افسر کی کارگردگي پر تشویش کے اظہار جیسے فرق، سابقہ سیکورٹی اہلکار کے غزنی کے گورنر سے مبینہ قریبی تعلقات، اور یہ کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خلاف واقعہ کے بعد تحریری بیان مبینہ ایف بی آئي کی ایما پر دیا گيا جیسے نکات دفاع نے اٹھائے۔

جمعہ۔ء, 22 جنوری
امریکی سکیورٹی اہلکاروں پر قاتلانہ حملے کے الزام میں امریکہ میں قید پاکستانی خاتون سائنسدان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیخلاف مقدمے کی باقاعدہ سماعت کے دوران استغاثہ مبینہ آلہ جرم ایم فور رائفل پر عافیہ صدیقی کی انگلیوں کے نشانات سمیت فورینزک شواہد پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔

عافیہ صدیقی کے وکلائے صفائی نے امریکی حکومت کی طرف سے پیش کیے گئے گواہوں پر دوران جرح عافیہ کے مقدمے کو ’امریکی کہانی‘ بتایا ہے اور یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کیخلاف مقدمہ بقول عافیہ کے وکلاء کے، امریکی فوجیوں اور ان کے افغان اتحادیوں کے درمیاں ’فرینڈلی فائر‘ کو چھپانے کے لیے بنایا گیا ہے۔

تاہم استغاثہ نے کہا ہے کہ ’ڈاکٹر عافیہ کے خلاف مقدمہ نہ امریکی کہانی ہے اور نہ افغان کہانی ہے بلکہ محض ایک ہی اسٹوری ہے‘۔

دورانِ جرح دفاع کے وکلاء نے ڈاکٹر عافیہ کیخلاف مقدمے میں بتائے جانے والے مبینہ آلہ جرم یعنی ایم فور رائفل پر ڈاکٹر عافیہ کے انگلیوں کے نشانات نہ ملنے کے بارے میں ایف بی آئی کے ماہر نے بتایا کہ ایف بی آئي کی لیبارٹری میں تمام تر تکنیکی طریقہ کار اور مطلوبہ کیمیکلز استعمال کرنے کے باوجود وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی انگلیوں کے نشانات نہیں ڈھونڈ سکے جبکہ دوران جرح ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے وکلاء کا موقف تھا کہ ان کی موکلہ نے مبینہ رائفل کو چھوا تک نہیں۔

ایک موقع پر دورانِ جرح ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے دفاع کی وکیل ایلین شارپ نے ایف بی آئی کے ماہر کے بیان پر طنزیہ کہا کہ ’وہ رائفل جسے ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے اٹھایا تھا پر انگلیوں کے نشانات گرم موسم میں تحلیل ہو گئے‘۔ دوران جرح ایف بی آئی کی ماہر گواہ اور جسمانی سائنسدان فائیف نے اپنا بیان دہرایا کہ ’اگرچہ رائفل پر انگلی کا ’فریکشن رج‘ کا ذرہ ملا ہے لیکن ایسا کوئی طریقہ نہیں کہ یہ کہا جاسکے کہ وہ نشان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا ہے‘۔

استغاثہ نے عدالت میں اس ایم فور رائفل جسے ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے مبینہ طور پر اٹھارہ جولائی دو ہزار آٹھ کو غزنی میں امریکی سکیورٹی اہلکاروں پر قاتلانہ حملے میں استعمال کیا تھا ثبوت کے طور پیش کی۔

افغانستان میں امریکی اڈے بگرام پر متعین سابق ایف بی آئی اسپیشل ایجنٹ کرلی گورڈن نے عدالت میں غزنی میں افغان نیشنل پولیس کے ہیڈ کوارٹر میں اس کمرے کی دیوراوں اور چھت کی کھدائي سے حاصل کیا ہوا ملبہ، امریکی فوجی افسر کی طرف سے مبینہ جوابی فائرنگ میں استعمال کیا ہوا نائن ایم ایم پستول، واقعے میں وہ پردہ جس کے پیچھے سے مبینہ طور پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے فائرنگ کی، قالین کے ٹکڑے، جائے وقوعہ کی دیوراوں سمیت افغان نیشنل صدر دفاتر کی عمارت کی تصاویر اور کمرے کی وڈیو او غزنی شہر کی تصاویر گواہی کے طور پر پیش کیں۔

تاہم حکومتی گواہ اسپیشل ایجنٹ کرلی گورڈن نے دوران جرح دفاع کے وکلاء کو بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیخلاف وہ کسی بھی قسم کی فورینزک گواہی اور ڈی این اے پیش نہیں کر سکے۔تاہم انہوں نے دفاع کی وکیل ڈان کارڈی کے ان سوالات کو درست تسلیم نہیں کیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خلاف مقدمہ اصل میں غزنی میں امریکی فوجوں اور اس کے افغان اتحادیوں کے درمیاں ’فرینڈلی فائر‘ کو کور کرنے کی مبینہ کوشش ہے اور امریکی حکومت ڈاکٹر عافیہ کیخلاف دنیا کو ’امریکی کہانی‘ پر ہی اعتبار کروانے پر تلی ہوئی ہے۔

ہفتہ, 23 جنوری:
جمعہ کو نیویارک کی وفاقی عدالت یو ایس ڈسٹرکٹ کورٹ میں سخت سکیورٹی انتظامات میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خلاف امریکی حکومت کے قائم مقدمے کی باقائدہ سماعت چوتھے روز شروع ہوئی تو جج رچرڈ برمین نے ایک بار پھر جیوری اراکین پر واضح کیا کہ ان کے سامنے مقدمے میں ڈاکٹر عافیہ کے خلاف الزمات کیمیائي اور حیاتیاتی جنگ اور دہشت گردی کے نہیں بلکہ اقدام قتل اور اس کی کوشش کے ہیں۔

مقدمے کی سماعت شروع ہوئي تو استغاثہ نے حکومتی گواہ کے طور وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئي کے ورجینیا میں لیبارٹری میں آتشی اسلحے کے معائنہ کار اور ماہر کارلو جے روزاٹی کو گواہی کے لیے پیش کیا۔

معائنہ کار نے مقدمے میں حکومت کی طرف سے پیش کی گئی ایم فور رائفل کے بارے میں جیوری کو بتایا کہ ایف بی آئي کی لیبارٹری میں حکومت کی جانب سے انہیں معائنے کے لیے بھیجی گئي رائفل اور غزنی میں جائے وقوع والے کمرے میں پردے جس کے پیچھے سے مبینہ طور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ایم فور رائفل سے فائر کرنے کا الزام ہے، کمرے کی دیواروں کے ملبے اور قالین کے ٹکڑے کے تکنیکی اور کیمیائي طریقوں سے معائنے میں ایم فور رائفل سے آتشی اسلحہ ڈسچارج یا خارج ہونے کے شواہد نہیں مل سکے۔

معائنہ کار نے کہا کہ انہیں ایسی کوئي گواہی نہیں ملی کہ ایم فور رائفل سے فائر کیا گیا تھا۔ انہوں نے تکنیکی زبان میں جیوری کو بتایا کہ مبینہ ایم فور رائفل سے جی پی آر (گن پاؤڈر ریزیڈیو) اور جی ایس آر (گن شاٹ ریزیڈیو) کے متعلق کوئي شواہد نہیں مل سکے۔البتہ گواہ نے جیوری کو بتایا کہ ایم نائین پستول سے فائر کی گئی گولی کا خول ملا ہے۔

یاد رہے کہ امریکی حکومت کا ڈاکٹر عافیہ کے خلاف فوجداری مقدمے میں موقف یہ ہے کہ انوں نے امریکی فوجی افسر کی ہی ایم فور رائفل سے امریکی سکیورٹی اہلکاروں پر مبینہ فائرنگ کی جس پر وہاں موجود امریکی فوجی افسر نے اپنی ایم نائین پستول سے جوابی فائر کیا تھا جس سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی زخمی ہوئیں تھیں۔

جمعہ کو ایف بی آئي کے معائنہ کار سے دوران جرح ڈاکٹر عافیہ کے وکیل چارلس سوئفٹ، جو کہ خود بھی امریکی بحری فوج میں رہ چکے ہیں، نے جب سوال کیا کہ کیا ان کے (حکومتی گواہ) دماغ میں ایسا کوئي شک ہے کہ نائین ایم ایم پستول سے فائر نہیں کیا گیا تو گواہ کا جواب نفی میں تھا۔

وکیلِ صفائی نے جب حکومتی گواہ سے سوال کیا کہ کیا ان کے ذہن میں شک ہے کہ ایم فور رائفل سے فائر کیا گیا تھا، جس کے جواب میں گواہ نے کہا کہ وہ نہیں کہہ سکتے کہ فائر کیا گيا تھا کہ نہیں۔

اس سے قبل معروف امریکی یونیورسٹی کے رجسٹرار پروفیسر ہووی نے حکومتی گواہ کے طور پیش ہوکر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی امریکہ میں تعلیم کے بارے میں ان کی اسناد پیش کیں۔ برائنڈن یونیورسٹی کے رجسٹرار نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے امریکہ میں تعلیم کی اسناد کی نقول کی تصدیق کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے برائنڈن یونیورسٹی سے سنہ انیس سو اٹھانوے میں نیورو سائنس میں ماسٹر اور دو ہزار ایک میں پی ایچ ڈی کی تھی۔

منگل, 26 جنوری:
امریکی فوج کے ایک چیف وارنٹ افسر نے پیر کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خلاف مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت میں گواہی دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے عافیہ صدیقی کو اپنے پستول سے اس وقت فائر کرکے زخمی کیا تھا جب وہ ان کی رائفل ان پر اور کمرے میں موجود افراد پر تانے ہوئے تھیں۔

اس پر کمرہ عدالت میں موجود ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ ان پر فائرنگ انہوں نے نہیں بلکہ ایک اور افسر کیپٹن سنائيڈر نے کی تھی اور وہ کیوں ان کا الزام اپنے سر لے رہے ہیں؟

یاد رہے کہ ڈاکٹر عافیہ کے خلاف افغانستان کے صوبہ غزنی میں امریکی سکیورٹی اہلکاروں پر مبینہ طور قاتلانہ حملے میں جس رائفل سے فائر کے الزمات لگائے گئے ہیں وہ مبینہ ایم فور رائفل انہی چیف ورانٹ افسر کی بتائي جاتی ہے۔

مقدمے میں امریکی حکومت کا یہ بھی موقف ہے کہ مذکورہ چیف وارنٹ آفسر نے اپنے نائن ایم ایم پستول سے عافیہ صدیقی پر جوابی فائر کیے تھے جس سے وہ زخمی ہوئي تھیں۔ چیف وارنٹ افسر نے کمرہ عدالت میں مبینہ ایم فور رائفل اور نائن ایم پستول سے اپنی اور ڈاکٹر عافیہ کی پوزیشن کا فرضی مظاہرہ بھی کیا۔

دوران وقفہ جج اپنے دفتر میں جیوری کے سولہ اراکین کو انفرادی طور طلب کرتے رہے۔ وقفہ کے بعد کمرہ عدالت میں جج نے بتایا کہ جیوری کے دو راکین کو فارغ کردیا گیا ہے کیونکہ ان سے سامعین میں سے کسی نے رابطہ کیا تھا۔ وقفہ ختم ہونے پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پھر کمرہ عدالت میں لایا گیا۔

گواہ چيف سکیورٹی افسر پر دفاع کے وکیل چارلس سوئفٹ نے جرح کے دوران جب یہ پوچھا کہ انہوں نے اپنی گواہی میں تو یہ کہا ہے کہ واقعے والے دن اٹھارہ جولائي دو ہزار آٹھ کو انہوں نے جب دیکھا کہ عافیہ صدیقی انکی (چيف وارنٹ افسر کی ) ایم فور رائفل انکی اور کمرے میں موجود افراد کی طرف تانے کھڑی ہے تو انہوں نے اپنے پستول سے فائر کیے۔ لیکن واقعے کے بعد انہوں نے اپنی حلفیہ آپریشنل رپورٹ میں اور کچھ دن بعد ایف بی آئي کو اپنے بیان میں یہ کہا تھا کہ جب خاتون (عافیہ صدیقی) انکے پاؤں کے پاس پڑي انکی رائفل کو پکڑنے لگي تو انہوں نے ان پر اپنے نائن ایم ایم پستول سے فائر کردیا۔ دفاع کے وکیل کیطرف سے ایسے بیانات عدالت میں دکھائے جانے پر گواہ چیف وارنٹ افسر نے مانا کہ انہوں نے اس وقت ایسے بیانات دیے تھے۔ اس پر پھر عدالت میں موجود ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے عدالت کی کارروائي کے دوران گواہ سے براہ راست مخاطب ہوتے کہا کہ ان پر گولی کیپٹن سنائیڈر نے چلائي تھی جس پر جج نے وفاقی مارشلز کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو کمرہ عدالت سے نکال لے جانے کو کہا۔

یاد رہے کہ اس سے قبل اپنی گواہی کے دوران امریکی فوج کے افسر کیپٹن سنائیڈر کہہ چکے ہیں کہ جسطرح چیف وارنٹ افسر نے غزنی میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی تحقیقات والے مشن کو برتا اس پر نہ فقط انہوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا بلکہ انہوں نے چیف وارنٹ افسر کو دیئے جانے والے سلور میڈل پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

جب دفاع کے وکیل نے چیف وارنٹ افسر سے پوچھا کہ واقعے کے بعد کیا ان سے کیپٹن سنائیڈر خفا تھے تو انہوں نے کہا کہ 'ہوسکتے ہیں۔لیکن مجھے نہیں معلوم'۔

پیر کے روز عدالت میں ڈاکٹر عافیہ کے افغانستان میں مبینہ طور زخمی ہونے پر فوری طبی امداد پہنچانے والی امریکی فوج کی خاتون میڈک (میڈیکل کارکن) بھی حکومت کی طرف سے گواہ کے طور پر پیش ہوئي اور کہا کہ انہوں نے عافیہ کو ان پر بندوق تانے دیکھا تھا اور چیف وارنٹ افسر نے مبینہ طور عافیہ فائر کیے تھے جس سے انکے پیٹ کے دائيں طرف زخم پہنچا تھا جس کا انہوں نے علاج کیا تھا۔ دوران جرح انہوں نے کہا کہ انہیں ڈاکٹر عافیہ کے خلاف غصہ تھا کیونکہ اس پر انہوں نے گولی چلائی تھی اور پھر بھی امریکی انکا علاج کر رہے تھے۔

بدھ, 27 جنوری:
نیو یارک کی ایک وفاقی عدالت نے استغاثہ کیطرف ڈاکٹر عافیہ کی کمرہ عدالت میں موجودگي کو روکنے کی درخواست کو مسترد کردیا۔

ادھر نیویارک کی مقامی میڈیا نے گزشتہ دن عدالتی کارروائي کے حوالے سے کہا ہے کہ جیوری اراکین میں سے دو اس لیے الگ ہوگئے تھے کہ عدالتی کارروائي سننے والے سامعین میں سے ایک شخص نے ان کی طرف اپنے ہاتھوں سے مبینہ طور پر دھمکی آمیز اشارے کیے تھے، جسکی وجہ سے سے وہ سمجھتے تھے کہ وہ مقدمے میں انصاف نہیں کر سکیں گے۔ مقامی میڈیا کی اسی رپورٹوں کے مطابق مبینہ شخص کو جو کہ اپنے ہاتھوں سے دو جیوری اراکین کو بندوق کا اشارہ کرتا پایا گیا تھا حراست میں لیے جانے کے بعد رہا کردیا گیا تھا۔

ادھر حکومت کی طرف سے استغاثہ نے افغانستان میں مبینہ واقعے کے آئینی گواہ کے طور پرایف بی آئي آے کے اسپیشل ایجنٹ ایرک میگران کی گواہی منگل کے روز بھی جاری رکھی اور انہوں نے اپنی گواہی کے دوران بتایا کہ ہوسکتا ہے کہ افغان اہلکاروں نے افغان نیشنل پولیس کے صدر دفاتر غزنی میں مبینہ واقعہ ایک 'سیٹ اپ' یا سازش ہو۔ ایف بی آئی کے اسپیشل ایجنٹ نے کہا کہ واقعے کے بعد افغان نیشنل پولیس کے اہلکاروں کے ہتھیار انکی طرف (کمپائونڈ میں موجود امریکییوں کیطرف) سیدھے ہوئے تھے اور وہ بہت غصے میں دکھائي دیتے تھے۔

استغاثہ نے منگل کے روز ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیخلاف امریکی حکومت کی طرف سے ایجنٹ ایرک میگران سمیت پانچ گواہ پیش کیے جن میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی سکیورٹی اہلکاروں پر مبینہ طور قاتلانہ حملے کے الزام میں باقاعدہ افغانستان سے گرفتار کرکے ایف بی آئي کے خاص طیارے کے ذریعے نیویارک لے آنیوالی ایف بی آئي کی اسپیشل ایجنٹ مہتاب سید، امریکی فوج کےباوردی سارجنٹ فرسٹ کلاس کوک سارجنٹ ولیمز افغانستان میں متعین امریکی فوج کے مترجم احمد جاوید امین بھی شامل تھے۔

دوران جرح امریکی فوج کے سارجنٹ کوک نے کہا اسپیشل میڈک کارٹ مبینہ واقعے والے دن مبینہ کمرے میں نہیں بلکہ کمرے کے باہر انکے پیچھے موجود تھیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ دن اپنی گواہی کے دوران اسپیشل میڈک نے کہا تھا کہ وہ واقعے کے وقت کمرے میں موجود تھیں او ر انہوں نےڈاکٹر عافیہ صدیقی کو فوری طبی امداد دینے کے بعد اسٹریچر پر لائي تھیں جبکہ گواہ سارجنٹ ولیمز نے منگل کے روز اپنے بیان میں کہا کہ اسپیشل میڈک واقعے کے وقت کمرے میں نہیں بلکہ کمرے سے باہر انکے پیچھے کھڑی تھیں۔

ادھر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خاندان کی طرف سے ترجمان وکیل ٹینا فوسٹر نے عدالت کی عمارت کے باہر میڈیا سے بریفنگ میں کہا کہ ڈاکٹر عافیہ کے مقدمے میں دفاع کی گواہی کے دوران ان کی مبینہ طور پانچ سال خفیہ جیل میں رکھے جانے یا گمشدگي کا معاملہ نہیں اٹھایا جائے گا۔

افغان نیشنل پولیس کے ایک سابق عملدار نے اپنی گواہی میں کہا ہے کہ گرفتاری کے وقت عافیہ صدیقی کے قبضے سے نہ تو تخریبی یا دہشتگردی سے متعلق مواد بر آمد ہوا تھا اور نہ ہی انہوں نے امریکہ کے خلاف نفرت انگيز باتیں کی تھیں۔

جمعرات, 28 جنوری
ڈاکٹر عافیہ پر افغانستان میں امریکی سکیورٹی اہلکاروں پر مبینہ قاتلانہ حملے کے مقدمے کی سماعت کے دوران اپنی ویڈیوگواہی میں افغان نیشنل پولیس کے سابق عملدار عبدالقدیر نے یہ بھی بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ہر نقل و حرکت پر بھی افغان اہلکاروں کی نظر تھی اور یہ بھی کہ کمرے میں امریکی فوجیوں کی آمد کے بعد جب ایک امریکی فوجی افسر کمرے میں پردے کے پیچھے ڈاکٹر عافیہ والے حصے کی طرف گیا تو انہوں نےگولی چلنے کی آواز سنی۔

کمرہ عدالت میں جیوری کو دکھائي جانیوالی دفاع کے طرف سے وڈیو میں گواہ اور افغان پولیس کے عملدار نے اپنی گواہی میں بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ نےگرفتاری کے بعد تھانے سے فرار ہونے کی بھی کوشش کی تھی۔ انہوں نے گرفتاری کے وقت اپنا نام صالحہ بتایا تھا اور کہا تھا کہ انہیں امریکہ کے حوالے نہ کیا جائے۔ گواہ نے یہ بھی کہا کہ اپنے ایک بیٹے کے ہمراہ غزنی کی مسجد سے گرفتاری کی جانے والی عافیہ صدیقی کی تحویل سے ان کے کپڑے، جوتے، میک اپ کا سامان اور پاکستانی فوج کے متعلق ایک جریدہ برآمد ہوا تھا۔

انہوں نے حکومتی وکیل کی جرح کے دوران بتایا کہ ’عافیہ صدیقی کے اللہ اکبر پکارنے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ کہتی تھیں کہ میں امریکہ سے نفرت کرتی ہوں‘۔

میٹرلاجی اور فزکس کے ماہر بل ٹوبن نے دفاع کی طرف سے عدالت میں اپنی گواہی کے دوران کہا کہ تحقیقات اور آزمائش کے نتیجے میں وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ استغاثہ کی کہانی کے برعکس غزنی میں کمرے کی دیوار پر موجود سوراخ ایم فور رائفل کی فائرنگ سے نہیں ہوئے ہیں انہوں نے کہا کہ تجربوں کی بنیاد پر وہ کہہ سکتے ہیں کہ مقدمے میں بتائي گئي دیوار پر ایم فور کی مبینہ نشان ایم فور کی گولیوں سے نہیں بنے اور نہ ہی چوبیس فٹ کی حد میں چلائے گئے اتنی بڑي ولاسٹی کے ہتھیار کے جی ایس آر (گن شاٹ ریزیڈیو) اور جی پی آر یا اس کے ذرے غائب ہو سکتے ہیں۔

جمعہ۔ء, 29 جنوری
ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے امریکی عدالت میں اپنے دفاع میں گواہی دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے امریکی سکیورٹی اہلکاروں پر گولی نہیں چلائي تھی بلکہ زندگی میں انہوں نے رائفل پہلی بار عدالت میں پیش ہوتے وقت دیکھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کو خفیہ جیل میں قید رکھا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ خفیہ جیل میں واپس بھیجے جانے کے خوف میں وہ افغانستان کے شہر غزنی میں جیل کے کمرے میں جب پردے کے پیچھے سے آنے والے امریکیوں کو دیکھنے کے لیے آگے بڑہیں تو ان میں سے ایک شخص نے کہا ’وہ کھلی ہے‘ اور دوسرے نے مجھ پر فائر کردیا۔

انہوں نے کہا کہ انہیں لگنے والی تین گولیوں سے ایک سے زائد زخم پہنچے لیکن ان زخموں کے علاوہ انہیں سر سے ایڑیوں تک کئي زخم پہنچائے گئے تھے اور بگرام میں قید کے دوران ان پر انتہائي جذباتی اور نفسیاتی ٹارچر کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے خاص طور پر ایک ایف بی آئي اے ایجنٹ کا امریکی عدالت میں نام لیتے ہوئے کہا کہ ’مسٹر بروس‘ نے بگرام میں ان پر ’پیورلی اموشنل سائکولوجیکل ٹارچر‘ کیا تھا۔



ہفتہ, 30 جنوری
جمعہ کی صبح نیویارک کی وفاقی عدالت میں جج رچرڈ برمین کی سربراہی میں جیوری کے سامنے استغاثہ کے وکلاء نے میساچوسٹس ریاست میں ہتھیاروں کی نشانہ بازی کے ایک کلب برین ٹری رائفل اینڈ پسٹل کلب میں ہھتیاروں کے انسٹرکٹر گیری وولورتھ کو پیش کیا۔

گیری وولورتھ نے اپنے بیان میں کہا کہ انیس سو اکانوے میں میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی یا ایم آئی ٹی میں اپنے زمانہ طالب علمی کے دوران ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے پستول چلانے کی تربیت حاصل کی تھی۔

جب دفاع کی وکیل نے حکومتی گواہ گن انسٹرکٹر سے پوچھا کہ انہوں نے عافیہ صدیقی کو انیس برس بعد بھی کیسے یاد رکھا ہوا ہے اور شناخت کرلیا تو گن انسٹرکٹر نے کہا کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کو ان کے سر پر ڈھانپے والے رومال یا ہیڈ گئير سے پہچانے۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کمرہ عدالت میں موجود نہیں تھیں اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی دفاع کی وکیل کے ایک سوال کے جواب میں گواہ گن انسٹرکٹر نے کہا کہ ایک ہفتہ قبل ان کے پاس ایف بی آئی والے عافیہ صدیقی کی تصویر لےکر آئے تھے جسے دیکھ کر انہوں نے ان کو پہچان لیا۔

جب دفاع کی وکیل ایلین شارپ نے، جن کا بھی تعلق میساچوسٹس ریاست سے ہے گواہ گن انسٹرکٹر سے پوچھا کہ ڈاکٹر عافیہ نے پستول چلانے کی تربیت کی فیس ادا کی ہوگی اور انہوں نے ان کا ریکارڈ رکھا ہوگا تو حکومتی گواہ نے ایسے سوالات کے جواب نفی میں دئیے۔

استغاثہ نے ایف بی آئی کے ایجنٹ بروس کیمرمین کو گواہی کےلیے عدالت میں پیش کیا جس کےلیے گزشتہ روز عدالت میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے اپنی گواہی کے دوران کہا تھا ان کی بگرام میں تحویل کے دوران ایجنٹ بروس نے ان پر زبردست نفسیاتی تشدد کیا تھا۔

ایجنٹ بروس کیمرمین نے جیوری کے سامنے اپنی گواہی کے دوران بتایا کہ بگرام کے ہسپتال میں ڈاکٹر عافیہ کےساتھ انہوں نے ضابطوں کے مطابق سلوک کیا تھا۔ جب ان سے ڈاکٹر عافیہ کے دفاع کی وکیل ایلین شارپ نے پوچھا کہ کیا دوران استعمال باتھ روم کا دروازہ کھلا رکھنے کی ہدایات بھی قوانین کے مطابق تھیں تو ایجنٹ بروس نے کہا ’ہاں باتھ روم کا دروازہ کھلا رکھنا بھی ریگيولشنز ميں ہے۔‘

ایف بی آئی ایجنٹ نے اپنی گواہی کےدوران استغاثہ کے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ بگرام میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے ان کو بتایا تھا کہ انہوں نے غزنی میں امریکی فوجیوں پر رائفل اٹھائي تھی کیونکہ وہ ڈری ہوئي تھی اور وہاں سے فرار ہونا چاہتی تھیں۔ بقول ایجنٹ بروس ،ڈاکٹر عافیہ کے ایسے اقرار کے بارے میں انہوں نے اپنے حکام یا سپروائزرز کو آگاہ کیا تھا۔ ایجنٹ بروس نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مبینہ الفاظ دہرائے ’کہ میں نے امریکیوں کو ڈرانے کےلیے بندوق اٹھائي تھی کہ وہ بھاگ جائيں۔‘

تاہم ڈاکٹر عافیہ کے دفاع کی ایک وکیل ایلین شارپ نے جب ایف بی آئی ایجنٹ بروس سے دوران جرح سوال کیا کہ انہوں نے اپنی رپورٹ میں تو ڈاکٹر عافیہ کے امریکی فوجیوں پر رائفل اٹھانے والے بیان کا ذکر کیا ہے لیکن ان کے نوٹس میں یہ بات شامل نہیں تو ایجنٹ بروس نے کہا کہ انہیں نوٹس میں ایسے ذکر نہ کرنے کا یاد نہیں۔

اس پر دفاعی وکیل ایلین شارپ نے جب ایجنٹ بروس کیمرمین کو ان کے لیے ہوئے نوٹس دکھائے تو انہوں نے اعتراف کیا کہ نوٹس میں انہوں نے ڈاکٹر عافیہ کے ایسے بیان کہ انہوں نے امریکی فوجیوں پر رائفل اٹھائي تھی کو شامل نہیں کیا تھا۔

اس سے قبل افغانستان میں افغان نیشینل پولیس کے ایک افسر کی افغانستان جاکر استغاثہ اور دفاع کے وکلا کی طرف سے لی گئي گواہی کی وڈیو پیش کی گئي۔

وڈیو میں غزنی کے سابق پولیس افسر بشیر نے جو مبینہ واقعے کے وقت غزنی میں تعینات تھے اپنی گواہی میں کہا کہ غزنی میں افغان نیشنل پولیس ہیڈ کوارٹر میں جائے وقوع والے کمرے میں مبینہ پردے کے پیچھے امریکی گئے تھے اور جس کے بعد انھوں نے تین فائر ہونے کی آوازیں سنی۔

گواہ بشیر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کمرے میں گولیوں کے تین خول یا بلٹ کیس ملے تھے جو رائفل کی گولیوں کے تھے۔

یاد رہے کہ مبینہ کمرے سے گولیوں کے خول ملنے کی گواہی پہلی بار سامنے آئي ہے جبکہ اس سے قبل استغاثہ کے تمام گواہوں نے بھی مبینہ رائفل ایم فور کی گولیوں کی جائے وقوع سے ملنے کے امکانات کو رد کیا ہے جبکہ دفاع کے ماہر گواہوں نے سرے سے ہی ایم فور رائفل فائر ہونے پر بھی کئي سوالات اٹھائے ہیں۔

تاہم گواہ اور افغان نیشنل پولیس کے سابق عملدار بشیر نے اپنی گواہی میں کہا کہ انہوں نے مبینہ وقوع کے وقت انہوں نے عافیہ صدیقی کے ہاتھ میں رائفل نہیں دیکھی تھی۔ انہوں نے کہا کہ گرفتاری کے وقت عافیہ بہت ہی غصے میں تھیں اور وہ کہتی تھیں کہ انہیں امریکہ کے حوالے مت کیا جائے۔ انہوں نے دفاع کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ عافیہ صدیقی ان کی تحویل سے فرار ہونا چاہتی تھیں۔
 

خورشیدآزاد

محفلین
یہ کیا ہے؟؟؟ :eek::confused::confused::confused:

فرد جرم پڑھنے کے بعد یا تو میں انتہائی سادہ اور بیوقوف ہوں جس کو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ اس فرد جرم کے بل بوتے پر عافیہ صدیقی کا کیس عدالت تک پہنچا کیسے، یا جس نے یہ فرد جرم عائد کی ہیں اور معذرت کے ساتھ جس کی عدالت میں یہ فرد جرم صدیقی پر عائد کی گئی ہے اور وہ جیوری جس کے سامنے یہ فرد جرمپڑھی گئی وہ سب انتہائی بیوقوف ہیں۔

On or about the evening of July 17, 2008, officers of the Ghazni Province Afghanistan National Police
("ANP") discovered a Pakistani woman, later identified as SIDDIQUI, along with a teenage boy, outside the Ghazni governor's compound. ANP officers questioned SIDDIQUI in the local dialects of Dari and Pashtu. SIDDIQUI did not respond and appeared to speak only Urdu, indicating that she was a foreigner.

Regarding SIDDIQUI as suspicious, ANP officers searched her handbag and found numerous documents describing the creation of explosives, chemical weapons, and other weapons involving biological material and radiological agents. SIDDIQUI's papers included descriptions of various landmarks in the United States, including in New York City. In addition, among SIDDIQUI's personal effects were documents detailing United States military assets, excerpts from the Anarchist's Arsenal, and a one gigabyte (1 gb) digital media storage device (thumb drive).


اس کے مطابق 17 جولائی 2008 شام کوعافیہ صدیقی جس کے ہینڈ‌بیگ میں وافر مقدار میں کاغذات تھے جو دھماکہ خیز اور کیمیائی ہتھیار ، اور دیگر ہتھیار جس میں بائیلوجیکل اور راڈئیولوجیکل اشیاء استعمال ہوتی ہیں کے طریقےشامل تھے اور اس کے علاوہ بھی اس کے بیگ میں کئی امریکی مشہور مقامات کی معلوت اور امریکی فوجی اثاثہ جات کی معلومات وغیرہ تھیں ایک لڑکے کے ہمراہ غزنی گورنراحاطہ تک پہنچ گئیں تاکہ افغان پولیس اسے گرفتار کرسکے اورافغان پولیس یہ تمام چیزیں ان سےبرآمدکرکے اسے کراچی صحیح سلامت پہنچادے ۔ شاباشے بھئی شاباشے ۔۔۔۔زار شم تانا :rollingonthefloor::notworthy:

SIDDIQUI was also in possession of numerous chemical substances in gel and liquid form that were sealed in bottles and glass jars.

اورہاں اس کے علاوہ بھی اس کے ہنڈ بیگ میں وافر مقدار میں کیمیائی مادہ بوتلوں میں موجود تھا۔۔۔۔ہاں بھئی وہ بالکل تیار ہوکر آئی تھی تاکہ کسی قسم کا شک و شبہ اسے مشکوک ثابت کرنے میں نہ رہے۔:eek:

[ENG]a. On or about July 18, 2008, a party of United States personnel, including two FBI special agents, a United States Army Warrant Officer (the "Warrant Officer"), a United States Army Captain (the "Captain"), and United States military interpreters, arrived at the Afghan facility where AAFIA SIDDIQUI, the defendant, was being held.
b. The personnel entered a second floor meeting room. A yellow curtain was stretched across the length of that room, concealing a portion of it from sight. None of the United States personnel were aware that SIDDIQUI was being held, unsecured, behind the curtain.
c. The Warrant Officer took a seat with a solid wall behind him and the curtain to his right. The Warrant Officer placed his United States Army M-4 rifle on the floor to his right next to the curtain, near his right foot. The weapon was loaded, but was on safe.

d. Shortly after the meeting began, the Captain heard a woman's voice yell from the vicinity of the curtain. The Captain turned to the noise and saw SIDDIQUI in the portion of the room behind the curtain, which was now drawn slightly back. SIDDIQUI was holding the Warrant Officer's rifle and pointing it directly at the Captain.
e. The Captain heard SIDDIQUI say in English, "May the blood of [unintelligible] be directly on your [unintelligible, possibly head or hands]." The Captain saw an
3
interpreter ("Interpreter 1"), who was seated closest to SIDDIQUI, lunge at SIDDIQUI and push the rifle away as SIDDIQUI pulled the trigger.[/ENG]


یہ بات کسی بھی طرح اور پوری کوشش کرنے کے باوجود حلق سے نہیں اتر رہی کہ کیسے پانچ افراد میں سے کسی نے بھی صدیقی کا ان کے قریب آنے، ان کے قدموں میں سے بندوق اٹھانے اور اس کا سیفٹی لاک کھولنے کی آواز نہیں سنی حالانکہ وہ سب ایک ہی کمرے میں تھے؟؟ اور یہ بھی یاد رہے کہ ان میں سے دو ایف بی آئی سپیشل ایجنٹ اوردو فوجی آفیسر تھے جس کو میرے خیال میں ہر وقت الرٹ رہنے کی خاص تربیت دی جاتی ہے۔۔۔۔۔یہ کیسے ہوسکتا ہے؟؟؟؟؟
 
ش

شوکت کریم

مہمان
ایک علامت ہے سب "پکے اور سچے" مسلمانوں کے لئے جو صرف بے گناہوں کے خون سے اپنی پیاس بجھا رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابھی تو ہماری پہلی بیٹی ہے ، پہلی ماں ہے اور پہلی بہن ہے ۔ ۔ ۔ ۔ آگے کتنی ہی عافیہ ایسے ہی انصاف کی بھینٹ چڑھنے والی ہیں

مگر ہمیں کیا ۔ ۔۔ ۔ ۔ ہم اپنے آپ کو ہی اڑا سکتے ہیں‌ ۔ ۔ ۔ ۔ کل سینہ کوبی ہو گی ۔ ۔ ۔ ہم ماتم کریں گے مگر غیرت مندی صرف از صرف اپنے آپ تک محدود رکھیں گے ۔ ۔ ۔ ۔ کیونکہ

غیرت جسے کہتے تھے وہ تو گئی اغیار میں
کھو چکے ہیں آپ اپنا ، اناؤں کے سنسار میں

اللہ ہم پر کیسے رحمت کرے گا ۔ ۔ ۔ پتہ نہیں‌ ۔ ۔ ۔ ۔۔ پتہ نہیں‌ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جب قوم کے مائی باپ اور محافظ خود ڈھونڈ ڈھونڈ کر اور جہاز بھر بھر کر اپنے ہی بیٹوں اور بیٹیوں کو اغیار کے پیش کریں اور انعام میں ڈالر اور عیاشی پائیں تو پھر اغیار سے گلہ کس بات کا۔ ۔۔۔۔ ۔۔ ۔۔ اور مزے کی بات یہ کہ ہم لوگ پھر انہی لوگوں کو منتخب کریں گے اور انہیں محافظوں کو اپنے خون پسینے کی کمائی ٹیکسوں‌ کی صورت میں بھی دیں گے کہ جو اپی ہی بہنوں‌اور بیٹیوں کو غیروں کے پاؤں‌ میں ڈالتے رہیں‌گے۔
 
Top