یوسف-2
محفلین
امریکی انصاف اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتا۔
ایک عمر رسیدہ راہبہ میکن رانس کو امریکہ انصاف نے تین سال قید کی سزا سنا دی ہے۔ اس کا جرم تھا کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ایک جوہری عمارت کی دیوار کے پاس جا پہنچی اور اس پر بچوں کے دودھ کی ایسی بوتلیں نقش کر دیں جن میں دودھ کے بجائے خون بھرا تھا۔ 84سالہ کیتھولک راہبہ نے کہا میں جیل جا کر خوش ہوں گی۔
راہبہ دنیا بھر کے ان عوام کی نمائندہ ہے جو ایٹم بم ہی نہیں‘ ہر قسم کے بم کے خلاف ہیں۔ بم انسانی تاریخ کی دردناک لیکن ایسی ایجاد ہے جس کے بغیر تہذیب کا سفر شاید نہیں کیاجا سکتا تھا۔ ’’تہذیب‘‘ کے عروج کے لئے یہ بم ہی کافی تھے‘ پھر یہ ایٹم بم جانے کیوں ایجاد کئے گئے۔
امریکہ دنیا کا سب سے طاقتور اور دولت مند ملک ہے۔ اس کی اکیڈیمیوں میں سے اتنے پڑھے لکھے نکلتے ہیں کہ باقی ساری دنیا کے ملکوں سے نہیں نکلتے لیکن ان پڑھے لکھوں کو شاید امریکہ کے محکمہ دفاع یا وائٹ ہاؤس میں داخلے کی اجازت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس سپر پاور نے غیر ضروری طور پر 5ہزار سے زیادہ ایٹمی بموں کا ذخیرہ کر رکھا ہے۔
5ہزار ایٹم بم۔ ان میں کچھ تو چھوٹے یعنی ٹیکٹیکل ہتھیار ہوں گے جو چھوٹے میدان جنگ میں موثر کارروائی کے لئے چلائے جاتے ہیں۔ جیسے کہ عراق اور افغانستان میں کئے گئے۔ لیکن انہیں نکال دیا جائے تو بھی بڑے ایٹمی بموں کی تعداد کئی ہزار ہے۔ اور یہ بڑے ایٹمی ہتھیار ان ایٹم بموں سے کئی گنا بڑے ہیں جو ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر برسائے گئے۔
دنیا میں سارے ملکوں کی گنتی مل ملا کر200بنتی ہے۔ کچھ ان میں بڑے ہیں زیادہ تر چھوٹے۔ اوسطاً ہر ملک کو برباد کرنے کے لئے ایک دو بڑے ایٹم بم کافی ہیں۔ یعنی ساری دنیا کے لئے دو نہیں تو تین اور تین نہیں تو چار سو ایٹم بم کافی ہیں اور یہ بات تو ویسے ہی محال ہے کہ کوئی ایسا وقت بھی آسکتا ہے جب امریکہ ہر ملک کے ساتھ جنگ کر رہا ہوگا اور جیت کے لئے اسے ہر ملک کے ہر بڑے شہر میں ایٹم بم گرانا پڑے گا۔
پھر اتنے ہزاروں ایٹم بم بنانا اور ان کا ذخیرہ کرناعقل کی بات ہے یا بے عقلی کی۔ اسی ایک ماجرے سے کیا یہ شک نہیں پڑتا کہ امریکہ کی اسٹیبلشمنٹ دنیا کی سب سے ظالم مشینری ہونے کے ساتھ ساتھ سب سے بڑی جہالت منڈی بھی ہے۔ ایک ایٹم بم پر کروڑوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ ہزاروں ایٹم بم بنانے پر امریکہ نے کتنے کھرب ڈالر خرچ کئے ہوں گے۔ جہالت میں برطانیہ کا بھی کوئی ثانی نہیں ہے۔ عالمی سیاست میں اب وہ تین میں گنا جاتا ہے نہ تیرہ میں‘ نہ وہ کوئی جنگ لڑنے کے قابل رہا ہے لیکن آنکھوں میں عالمی طاقت بننے کے خواب بدستور سجا رکھے ہیں اور ’’موقع ملنے ‘‘ کے انتظار میں اس نے بھی125ایٹم بم اپنے اسلحہ خانے میں ذخیرہ کر رکھے ہیں۔ آنے والے دور میں تو اسے شاید روایتی فوج کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔ یہی حال روس کا ہے۔ اس کے ایٹمی بموں کی گنتی ہزاروں میں ہے اسے امریکہ کی طرح ’’تعلیم یافتہ ہونے کا طعنہ نہیں دیا جا سکتا۔اگرچہ اس نے عالمی سطح کے چند ادیب ضرور پیدا کئے ہیں لیکن مجموعی طور پراس کا مزاج اور ماحول یا جوج ماجوج کا ہے۔ بہرحال امریکہ ہو یا روس‘ ایٹم بم بنانے اور جوڑنے کی جہالت میں دونوں کا کوئی مقابلہ نہیں۔ (تحریر:عبداللہ طارق سہیل، روزنامہ نئی دنیا لاہور 23 فروری2014ء)