Fawad – Digital Outreach Team – US State Department
ستمبر 11 2001 کے واقعے کے بعد امريکہ ميں ايسے کئ افراد گرفتار کيے گئے تھے جو يا تو القائدہ کو مدد فراہم کرنے ميں ملوث تھے يا امریکہ ميں دہشت گردی کی مزيد کاروائيوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ اس ضمن ميں مسلم امريکی قائدين نے حکومتی اہلکاروں کے ساتھ بھرپور تعاون کيا تھا تا کہ ان دہشت گردوں کو روکا جا سکے جو اپنے فلسفے سے نوجوانوں کو اپنی صفوں ميں شامل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ يہ تعداد بہت کم ہے ليکن مسلم کميونٹی کے قائدين اور امريکی اہلکار اس بات پر متفق ہيں کہ يہ دہشت گرد بحرحال موجود ہيں اور اپنی کميونٹی اور امريکہ کے ليے ايک خطرہ ہيں۔
کسی بھی حکومت کی سب سے اولين ترجيح اس کے مکينوں کے ليے تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے۔ اس ضمن ميں امريکی حکومت ہر ضروری احتياط اور قدم اٹھا رہی ہے تاکہ امريکہ کی سرزمين پر مزيد کسی حملے کو روکا جا سکے۔ يہاں يہ بات بھی ياد رہے کہ دہشت گردوں نے دنيا کے بے شمار ممالک بالخصوص مسلم ممالک ميں کاروائياں کی ہيں اور ان ممالک کی حکومتوں نے بھی اپنے عوام کی حفاظت کے ليے ضروری اقدامات کيے ہيں۔ مثال کے طور پر کچھ حاليہ ميڈيا رپورٹس کے مطابق سعودی حکومت نے حال ہی ميں کچھ مساجد کے امام کو خطبات دينے سے روک ديا کيونکہ حکومت کے مطابق وہ انتہا پسند رجحانات کو فروغ دے رہے تھے۔ صرف يہی نہيں بلکہ سعودی عرب سميت بہت سے مسلم ممالک ميں ہزاروں کی تعداد ميں افراد کو دہشت گردی کے شعبے ميں گرفتار کيا گيا ہے۔ ميرے خيال ميں آپ اس بات سے اتفاق کريں گے کہ ان حکومتوں کو مسلم مخالف قرار دينا مشکل ہے۔ ان حکومتوں کی جانب سے ممکنہ دہشت گردوں کو ٹارگٹ کيا گيا ہے۔ امريکی حکومت بھی اپنے عوام کو اسی قسم کے کرداروں سے محفوظ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
يہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ امريکی حکومت کی جانب سے سيکورٹی کے ضمن ميں کيے جانے والے تمام اقدامات امريکی قوانين اور آئين ميں درج انسانی حقوق کی شقوں سے مشروط ہیں۔
جيسا کہ ميں نے پہلے بھی بارہا کہا ہے کہ امريکہ ميں مسلمانوں کی ايک بڑی تعداد معاشرے کا اہم حصہ ہيں اور پرامن زندگی گزارتے ہیں۔ اگر کچھ افراد ايسا نہيں چاہتے تو ان کے ساتھ بالکل وہی سلوک ہو گا جو امريکہ ميں کسی بھی قانون شکن کے ساتھ ہوتا ہے۔ امريکی بحيثيت مجموعی اس امر سے واقف ہيں کہ چند لوگوں کے اعمال مسلمانوں کی اکثريت کی ترجمانی نہيں کرتے۔
يہاں پر يہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ امريکی اس حقيت کو بھی سمجھتے ہيں کہ تمام مذاہب ميں انتہا پسند موجود ہوتے ہيں جو مذہب کی تعليمات کو مسخ کر کے نفرت اور جنگ کے ليے جواز پيدا کرتے ہيں۔ کيا يہ حقيقت نہيں ہے کہ کلو کليس کلين ايک عيسائ تنظيم ہونے کی دعويدار تھی۔ جب اس تنظيم کی شرانگيز تقارير کے سبب معاشرے ميں بدامنی پھيلی تو ان جرائم میں مرتکب افراد کے خلاف بھی کاروائ کی گئ۔ اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ امريکہ عيسائيوں کے خلاف ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov