امریکی صدر ٹرمپ کا مشرق وسطٰی میں قیام امن کے منصوے کا اعلان

جاسم محمد

محفلین
امریکی صدر ٹرمپ کا مشرق وسطٰی میں قیام امن کے منصوے کا اعلان
  • ایک گھنٹہ پہلے
_110678099_ea4fcbcd-0601-43d9-a2fc-4222b8a83a12.jpg
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

مشرق وسطیٰ کے لیے صدر ٹرمپ کے امن منصوبے میں فلسطینی ریاست کے قیام کی بات کی گئی ہے مگر ساتھ ہی اسرائیلی نوآبادیوں کو تسلیم کرنے کا اشارہ بھی دیا گیا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطٰی میں قیام امن کے لیے اپنا منصوبہ پیش کر دیا ہے جس میں یروشلم کو اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت رکھنے کا عہد شامل ہے۔ ان کے پیش کردہ اس منصوبے کا طویل عرصے سے انتظار کیا جا رہا تھا۔

انھوں نے اپنے منصوبے کو 'حقیقت پسندانہ دو ریاستی' حل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلیوں یا فلسطینوں کو اپنے گھروں سے بے دخل نہیں کیا جائے گا۔وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیراعظم نینتن یاہو کے شانہ بشانہ کھڑے صدر ٹرمپ نے کہا کہ 'ہوسکتا ہے کہ ان کا پیش کر دہ منصوبہ فلسطینیوں کے لیے آخری موقع ہو۔'

فلسطینی اس منصوبے کی پہلے سے افشا ہونے والے تجاویز کو پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں۔

منصوبے کے خد و خال کو صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے مسودے کی شکل دی تھی اور اسے انتہائی رازداری میں رکھا گیا تھا۔

بعض مبصرین اسے 'ڈیل آف دا سینچری' یعنی اس صدی کا سب سے بڑا منصوبہ قرار دے رہے ہیں جس کا مقصد دنیا کے سب سے طویل تنازع کا حل تلاش کرنا ہے۔

اسرائیل نے ان تجاویز پر امریکہ کا شکریہ ادا کیا ہے، تاہم فلسطین انھیں متعصب قرار دے کر پہلے ہی مسترد کر چکا ہے۔

منگل کے روز غزہ کی پٹی میں ہزاروں فلسطینیوں نے احتجاج کیا، جبکہ مقبوضہ غرب اردن میں اسرائیل نے اضافی فوج تعینات کر رکھی تھی۔

پیر کو واشنگٹن میں صدر ٹرمپ سے مذاکرات کے بعد اسرائیلی وزیراعظم بینیامن نیتن یاہو نے انھیں سراہتے ہوئے انھیں 'وائٹ ہاؤس میں اسرائیل کا بہترین دوست' قرار دیا تھا۔

انھوں نے کہا تھا کہ 'منصوبہ اس صدی کا ایسا موقع ہے جسے ہم ضائع نہیں کریں گے۔'

اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو بدھ کے روز ماسکو جائیں گے جہاں وہ روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ان تجاویز پر بات کریں گے۔

اسرائیلی حزب اختلاف کے راہنما بینی گانٹز نے، جنھوں نے پیر کے روز صدر ٹرمپ سے ملاقات کی تھی، اس منصوبے کو 'ایک اہم اور تاریخی سنگِ میل' قرار دیا تھا۔

فلسطینی رہنماؤں نے یہ کہہ کر منصوبے کو پہلے ہی مسترد کر دیا تھا کہ یہ غرب اردن پر اسرائیلی حاکمیت کو مستقل طور پر مسلط کرنے کے مترادف ہے۔

اتوار کو جاری کیے گئے بیان میں فلسطینی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ 'امریکی انتظامیہ کو ایک بھی ایسا فلسطینی نہیں ملے گا جو اس منصوبے کی حمایت کرے۔ ٹرمپ کا منصوبہ فلسطینی جد و جہد کو ختم کرنے کی اس صدی کی سب سے بڑی سازش ہے۔'

فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس نے منگل کو رات گئے فلسطینی قیادت کا اجلاس طلب کیا ہے۔

_110683917_8a9da799-39c8-49dd-aa94-549b4f35bde1.jpg
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionرملہ میں صدر ٹرمپ کے ممکنہ امن منصوبے کے خلاف فلسطینیوں کا احتجاج

فلسطینیوں نے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ دسمبر 2017 میں اس وقت روابط ختم کر لیے تھے جب صدر ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے تل ابیب سے اپنا سفارتخانہ وہاں منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اس کے بعد امریکہ نے فلسطینیوں کے لیے دو طرفہ امداد اور فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کو دی جانے والی امداد بند کر دی تھی۔

گزشتہ سال نومبر میں امریکی وزیرخارجہ نے غرب اردن میں یہودی بستیوں کو بین الاقوامی قانون کے خلاف قرار دینے کے چار عشروں پر محیط امریکی موقف سے ہٹنے کا اعلان کیا تھا۔

صدر ٹرمپ کے منصوبے پر غور کے لیے عرب لیگ کا اجلاس سینچر کے روز طلب کیا گیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ٹرمپ کی چالبازی، اسرائیل فلسطین تنازع کا ’دو ریاستی‘ منصوبہ پیش کردیا
ویب ڈیسک بدھ 29 جنوری 2020
1969298-trumpmain-1580238334-201-640x480.jpg

صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجامن نتن یاہو نے متنازعہ فلسطین اسرائیل امن معاہدہ پیش کردیا ہے (فوٹو: فائل)

واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینیوں سے کسی قسم کی مشاورت کے بغیر اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجامن نتن یاہو سے دو سالہ مذاکرات کے بعد مشرقِ وسطیٰ اور فلسطین سے متعلق اپنا منصوبہ پیش کردیا جسے ’’ڈیل آف دی سینچری‘‘ کا نام بھی دیا گیا ہے۔

وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیرِ اعظم کے ساتھ صدر ٹرمپ نے یہ منصوبہ پیش کیا جس کی تفصیلات سے بھی قبل فلسطینی مسترد کرچکے ہیں کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ یہ منصوبہ ہر حال میں اسرائیل کے مفاد میں پیش کیا جائے گا جبکہ نیتن یاہو نے اسے تاریخ سازی کا ایک موقع قرار دیا ہے جس کے تحت اسرائیلی سرحدوں کا حتمی تعین کیا جاسکے گا۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’امن منصوبہ دونوں فریقین کے لیے مفید ہے اور فلسطین اور اسرائیل کے لیے ایک مضبوط راہ دکھاتا ہے، منصوبے کے تحت فلسطین دارالحکومت مشرقی یروشلم ہوگا‘۔

صدر ٹرمپ نے بتایا کہ گزشتہ 70 برس میں اس ضمن میں بہت کم پیش رفت ہوسکی، فلسطینیوں کے پاس تاریخی موقع ہے کہ وہ اپنی آزاد ریاست حاصل کرسکیں گے اور اسرائیل کے خطرات بھی کم ہوں گے۔

یروشلم اسرائیلی دارالحکومت رہے گا

اس موقع پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ یروشلم اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت رہے گا جبکہ نتن یاہو نے اس اعلان کے بعد صدر ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس میں رہنے والے اسرائیل کے سب سے بڑے دوست کا خطاب بھی دیا ہے۔ انہوں نے فلسطینیوں سے کہا کہ وہ اسرائیل کو یہودی مملکت کے طور پر تسلیم کریں۔

palestine-1580238354.jpg


غزہ میں احتجاج

غزہ کی پٹی میں ہزاروں افراد نے اس فیصلے کے خلاف شدید احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں کا رخ کیا۔ انہوں نے صدر ٹرمپ اور نتن یاہو کی تصاویر کو آگ لگائی اور بینروں کے ذریعے یہ پیغام پہنچایا کہ ’فلسطین برائے فروخت‘ نہیں۔

اس اعلان کے بعد الفتح سے تعلق رکھنے والے فلسطینی صدر محمود عباس سے شدید اختلافات رکھنے والی تنظیم حماس نے بھی صدر کے بیان کی تائید کی ۔ حماس نے یہ بھی کہا کہ وہ تمام فلسطینی فریقین سے وسیع تر گفتگو کے منصوبے کی تائید بھی کرتے ہیں۔

یہ فلسطینی مزاحمت کے خاتمے کا منصوبہ ہے، وزیر اعظم محمد اشتیہ

فلسطینی وزیرِ اعظم محمد اشتیہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ صدر ٹرمپ کا منصوبہ فلسطینی مزاحمت اور مقصد کے خاتمے کا ایک منصوبہ ہے جسے ہم مسترد کرتے ہیں کیونکہ یہ بین الاقوامی قوانین کے خلاف اور فلسطینیوں کے حقوق چھیننے کے مترادف ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینیوں کو خطرہ ہے کہ اس حل کو قبول کرنے سے مقبوضہ مشرقی یروشلم، مقبوضہ مغربی کنارے اور دس سال سے محصور غزہ کی بطور آزاد ریاست کی امیدیں دم توڑ جائیں گی، فلسطینی رہنماؤں کو واشنگٹن میں مذاکرات کے لیے نہیں بلایا گیا اور ان کے بغیر کوئی منصوبہ کارآمد نہیں ہوگا۔

دریں اثنا دوسری جانب عرب لیگ نے اس مسئلے پر ہفتے کو ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ٹرمپ کے امن منصوبے کو ہزار بار مسترد کرتے ہیں، فلسطینی صدر
ویب ڈیسک بدھ 29 جنوری 2020
1969845-palestinepresidentmehmoodabbas-1580276060-192-640x480.jpg

فلسطینی صدر نے عالمی برادری سے بھی منصوبے کو مسترد کرنے کا مطالبہ کیا۔

غزہ: فلسطینی صدر نے امریکی صدر کا مشرق وسطیٰ کے لیے امن منصوبہ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس ڈیل کو ایک ہزار بار مسترد کرتے ہیں۔

غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق فلسطینی صدر محمود عباس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے پیش کردہ امن منصوبے کے رد عمل میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کے حقوق پر کوئی سودے بازی نہیں ہو گی، یہ ڈیل سازش ہے جو کامیاب نہیں ہو گی اور ہم اس ڈیل کو ایک ہزار بار مسترد کرتے ہیں۔

فلسطینی صدر کا کہنا تھا کہ اگر مقبوضہ بیت المقدس فلسطینی ریاست کا دارالحکومت نہیں تو ہم اسے کیسے قبول کریں گے، امریکی صدر اور اسرائیلی وزیراعظم سے کہتا ہوں مقبوضہ بیت المقدس اور فلسطینوں کے حقوق برائے فروخت نہیں۔ انہوں نے عالمی برادری سے بھی اس منصوبے کو مسترد کرنے کا مطالبہ کیا۔

فلسطینیوں کی جانب سے اس فیصلے کو پہلے ہی مسترد کردیا گیا تھا اور غزہ پٹی میں ہزاروں افراد نے فیصلے کے خلاف شدید احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں کا رخ کیا۔ مظاہرین نے صدر ٹرمپ اور نتن یاہو کی تصاویر کو آگ لگائی اور بینروں کے ذریعے یہ پیغام پہنچایا کہ ’فلسطین برائے فروخت‘ نہیں۔

دوسری جانب امریکی صدر کے اس منصوبے کے خلاف فلسطینی تنظیمیں، لبریشن آرگنائزیشن، حماس اور اسلامی جہاد متحد ہوگئے ہیں۔

واضح رہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں فلسطین اور اسرائیل امن منصوبے کا اعلان کیا جسے ’’ ڈیل آف دی سینچری‘‘ کا نام دیا گیا اور اس میں ٹرمپ نے کہا کہ مقبوضہ بیت المقدس اسرائیل کا دارالحکومت ہی رہے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
سعودی عرب نے ٹرمپ امن منصوبے کو خوش آئند قرار دیدیا
ویب ڈیسک بدھ 29 جنوری 2020
1970338-shahsalman-1580309861-190-640x480.jpg

شاہ سلمان نے فلسطین اور اسرائیل کے براہ راست مذاکرات کو حوصلہ افزا قرار دیا، فوٹو : فائل

ریاض: سعودی عرب نے ’مشرق وسطیٰ ڈیل‘ کے حوالے سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کاوشوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کی سربراہی میں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن مذاکرات حوصلہ افزا پیشرفت ہیں۔

عرب میڈیا کے مطابق سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے امریکی صدر کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع کے خاتمے کے لیے امن منصوبہ ’ ڈیل آف سینچری‘ پیش کرنے اور فریقین کے درمیان امریکی سرپرستی میں مذاکرات کو حوصلہ افزا قرار دیتے ہوئے صدر ٹرمپ کی کاوشوں کو سراہا ہے۔

یہ خبر پڑھیں : ٹرمپ کی چالبازی، اسرائیل فلسطین تنازع کا ’دو ریاستی‘ منصوبہ پیش کردیا

سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اس حوالے سے فلسطین کے صدر محمود عباس سے ٹیلی فونک گفتگو میں مسئلہ فلسطین پر پوری حمایت کا یقین دلاتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب فلسطین پر اپنے اصولی موقف سے پیچھے نہیں ہٹے گا اور فلسطینیوں کے حق کے لیے آواز اُٹھاتا رہے گا تاہم اسرائیل اور فلسطین کے درمیان براہ راست مذاکرات پر بھی زور دیا۔

یہ خبر بھی پڑھیں : ٹرمپ کے امن منصوبے کو ہزار بار مسترد کرتے ہیں، فلسطینی صدر

وزرات خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سعودی فرمانروا نے ڈیل کے حوالے سے امریکی صدر کی کاوشوں کو سراہا ہے اور مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے کی جانے والی تمام مثبت اور جامع کاوشوں کی حمایت کا یقین دلایا ہے۔

واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے واشنگٹن میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے ملاقات میں مشرق وسطیٰ امن منصوبہ پیش کیا جس میں اسرائیل اور فلسطین کو دو الگ ریاست بنا کر پیش کیا گیا ہے، مقبوضہ بیت المقدس اور ابو دیس بالترتیب دارالخلافہ ہوں گے جب کہ عارضی سرحد کو مستقل سرحد تسلیم کرلیا جائے گا اور 4 سال تک نئی آبادکاری بھی نہیں ہو سکے گی۔
 

عدنان عمر

محفلین
صدر ٹرمپ کا فلسطین پلان، اوسلو اکارڈ کو دفن کر نے کا سامان
6فروری2020
افتخار گیلانی


ناروے کی سمندری حدود میں جب 1979 میں پیٹرولیم کے ذخائر نکالنے کا کام شروع ہوا، تو یورپ و امریکہ کے متعدد عیسائی اور یہودی اداروں نے اوسلو حکومت پر دباؤ بنایا، کہ یہ تیل اسرائیل کو ارزاں نرخ پر یا مفت مہیا کرایا جائے۔ ان کی دلیل تھی، چونکہ تیل کی دولت سے مالامال عرب ممالک اسرائیل کو تیل فراہم نہیں کرتے ہیں اور ایران میں مغرب نواز رضا شاہ پہلوی حکومت کا تختہ پلٹنے سے انرجی کی فراہمی اور زیادہ مشکل ہوگئی ہے، اس لیے ناروے کو اپنے وسائل یہودی ریاست کی بقا کے لیے وقف کردینا چاہیے۔ ناروے کی 150رکنی پارلیمان میں اس وقت 87 اراکین فرینڈز آف اسرائیل تنظیم کے سرگرم رکن تھے۔

مگر کوئی فیصلہ کرنے سے قبل ناروے کے وزیر اعظم اوڈوار نورڈلی نے فلسطین لیبریشن آرگنائزیشن یعنی پی ایل او کے راہنماؤں اور عرب ممالک کا موقف جاننے کی خواہش ظاہر کی۔ بیشتر عرب ممالک نے اسرائیل کو انرجی مہیا کروانے کی پر زور مخالفت کی۔ ان کی دلیل تھی کہ اس کے بعد اسرائیل اور بھی زیادہ شیر ہو جائے گا اور امن مساعی مزید دشوار ہو جائےگی۔ مگر پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات نے ناروے کے وزیر اعظم کو بتایا کہ:

چاہے آپ اسرائیل کو تیل فراہم کریں یا نہ کریں، وہ یہ تیل حاصل کرکے ہی رہےگا۔ براہ راست نہ سہی بالواسطہ؛ دنیا میں کئی ملک اور افراد ہیں جو یہ خرید کر اسرائیل کو سپلائی کریں گے۔ لہذا بہتر ہے کہ ناروے اسرائیل کے ساتھ اپنی خیر سگالی کا خاطر خواہ فائدہ اٹھا کر فلسطینی قیادت اور اسرائیل کے درمیان پس پردہ مذاکرات کا سلسلہ شروع کروا کے ثالث کا کردار نبھائے۔

ناروے کی کاوشوں کی صورت میں 14 سال بعد اوسلو اکارڈ وجود میں آیا۔ جس کی رو سے فریقین نے ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے دو ریاستی فارمولہ پر مہر لگائی۔ یاسر عرفات کو فلسطینی اتھارٹی کا سربراہ تسلیم کیا گیا اور مغربی کنارہ اور غزہ کی پٹی ان کے حوالے کی گئی۔ فلسطین کو مکمل ریاست کا درجہ دینے، سرحدوں کا تعین، سکیورٹی، ریفیوجی ایشو اور القدس یا یروشلم شہر کے مستقبل کے بارے میں فریقین نے مزید بات چیت کے لیے حامی بھر لی۔ اندازہ تھا کہ اس دوران اعتماد ساز ی کے اقدامات، ملاقاتوں کے سلسلہ اور پھر فلسطینیوں اور عام یہودی آباد کاروں کے درمیان رابطے سے ایک اعتماد کی فضا قائم ہو جائے گی، جس سے پیچیدہ مسائل کے حل کی گنجائش نکل آئےگی۔

اسرائیل نے مکمل فلسطینی ریاست کے قیام اور ریفوجیوں کی واپسی کے معاملے میں اڑچنیں پیدا کرکے اوسلو اکارڈ کی پہلے ہی روح نکال ہی دی تھی، مگر اب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے فلسطین کے حوالے سے جو روڈ میپ جاری کیا ہے، اس نے تو اوسلو اکارڈ کو مکمل طور پر دفن کر دیا ہے۔ اوسلو اکارڈ میں تو ایک فلسطینی ریاست قائم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا، مگر ٹرمپ کے پلان جس کو ”ڈیل آف سنچری“ کا نام دیا جا رہا ہے میں بتایا گیا ہے کہ فلسطین، جو کہ اب صرف مغربی کنارہ اور غزہ پر مشتمل ہوگا، مکمل ریاست کے بجائے اسرائیل کی زیر نگرانی اب محض ایک Protectorate کی شکل میں ہوگا، جس کی سیکورٹی اور دیگر امور اسرائیل طے کرےگا۔ نئی فلسطینی حکومت فوج نہیں رکھ سکے گی، مگر ایک پولیس فورس تشکیل دے سکے گی۔ اس کی سرحدوں کی حفاظت اسرائیل کی ذمہ داریوں میں شامل ہوگی۔

یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ غزہ سے فلسطینوں کا مکمل انخلاء کر کے ان کو صحرائے سینا میں بسایا جائےگا اور غزہ کا علاقہ مکمل طور پر اسرائیل کے حوالے کیا جائےگا۔ 1993میں اوسلو میں اسرائیلی اور فلسطینی قیادت کے درمیان طے پائے گئے سمجھوتہ میں ایک فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ جس سے 4 ملین کی آبادی کو دو خطوں مشرق میں غزہ اور اردن کی سرحد سے متصل مغربی کنارہ میں تقسیم کیا گیا تھا۔ نسبتاً وسیع مغربی کنارہ کا انتظام الفتح کی قیادت والے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن یعنی پی ایل او کے پاس ہے، وہیں غزہ میں اسلامک گروپ حماس بر سر اقتدار ہے۔ جہان پی ایل او اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے، حماس یہودی ریاست کے وجود سے انکاری ہے۔ چونکہ مغربی کنارہ اور غزہ کے درمیان کوئی زمینی رابطہ نہیں ہے، اس لیے امریکی صدر کے مطابق ان کو منسلک کرنے کے لیے اسرائیلی علاقوں سے 30 میٹر اوپر ایک 100 کلومیٹر طویل فلائی اوور بنایا جائے گا۔ مغربی کنارہ میں جو تقریباً 15یہودی علاقے ایک طرح سے زمینی جزیروں کی صورت ہیں، ان کو اسرائیل کے ساتھ منسلک کرنے کےلیے مخصوص شاہراہیں تعمیر کی جائیں گی۔

ایک سال قبل دہلی کے دورہ پر آئے ایک یہودی عالم ڈیوڈ روزن نے مجھے بتایا تھا کہ سابق امریکی صدر بارک اوبامہ جس خاکہ کو تیار کرنے میں ناکام ہو گئے تھے، ٹرمپ، سعودی عرب و دیگر عرب ممالک کے تعاون سے فلسطین کے حتمی حل کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ ایئر لینڈ کے چیف ربی ڈیوڈ روزن اسرائیل کی چیف ربائیٹ یعنی مذہبی امورکے رکن ہیں اور امریکی جیوش کونسل (اے جے سی) کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں امن مساعی اور خصوصاً اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان بیک چینل تعلقات کے حوالے سے وہ خاصے سرگرم ہیں۔ وہ سابق سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ کی ایما پر قائم کنگ عبدالعزیز انٹرنیشنل سینٹر فار انٹر ریلیجنز اینڈ کلچر ڈائیلاگ کے بورڈ ممبر بھی ہیں۔

مشر ق وسطیٰ میں تین عوامل اس وقت اسرائیل کو امن مساعی کے لیے مجبور کر رہے ہیں۔ وہ یہ ہیں کہ تمام تر جارحانہ کارروائیوں کے باوجود یہودیوں اور اسرائیلی حکام کو ادراک ہو گیا ہے کہ وہ ناقابل تسخیر نہیں ہیں۔ ویسے تو اس کا اندازہ 1973 کی جنگ مصر اور بعد میں 2006 میں جنگ لبنان کے موقع پر ہی ہوگیا تھا، مگر حالیہ کچھ عرصے سے یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے۔ اس لیے دنیا بھر کے یہودی چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ تاریخ کا پہیہ کوئی اور رخ اختیار کرے، اسرائیل کی سرحدوں کا تعین کر کے، پڑوسی ممالک سے اس کا وجود تسلیم کرایا جائے۔

یہودی عالم کا کہنا تھا کہ توسیع پسندی اب کسی بھی صورت میں اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہے۔ فوجی اعتبار سے اسرائیل چاہے تو سرحدوں کو وسیع کرنے کی قوت رکھتا ہے، مگر مقبوضہ علاقوں کی آبادی کو بھی پھر ملک میں شامل کرنا پڑے گا، جس سے ظاہر ہے کہ یہودیوں کے اقلیت میں تبدیل ہونے کا خدشہ لاحق ہوگا۔ دنیا بھر میں یہودی محض ایک کروڑ ہیں، جن میں 60 لاکھ کے قریب اسرائیل میں رہتے ہیں۔ اس لیے فلسطینیوں سے زیادہ اسرائیلیوں کے لیے بھی اپنی بقا کے لیے سرحدوں کا تعین کرنا ضروری ہے۔ دوسرا اسرائیلی علاقوں میں مسلمانوں کی افزائش نسل یہودیوں سے کئی گنا زیا دہ ہے۔ 1967 میں عرب، اسرائیل کی آبادی کا 14فیصد تھے، جو اب لگ بھگ 22 فیصد ہو چکے ہیں۔ یہ وہ مسلمان ہیں جنہوں نے اسرائیل کی شہریت تسلیم کی ہوئی ہے اور اسرائیلی-عرب کہلاتے ہیں۔

تیسرا اہم سبب یہ ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے مشرقی ساحل پر حالیہ کچھ عرصے سے تیل اور گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہو رہے ہیں۔ کہاں وہ اسرائیل، جہاں پانی اور تیل کا فقدان تھا، وہ اب خطے میں عرب ممالک کو پیچھے چھوڑ کر انرجی کا مرکز بننے والا ہے۔ اس لیے وہ اب کسی بھی صورت میں امن کو یقینی بنانے کے ساتھ پوری سمندری حدود پر کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔ حیفہ کے پاس سمندر سے صاف پانی کشید کرنے کا دنیا کا سب سے بڑا پلانٹ لگا کر پانی کے معاملے میں پہلے ہی اسرائیل اس تک خود کفالت اختیار کر چکا ہے کہ وہ اب اردن کو بھی پانی سپلائی کرتا ہے۔ اسرائیل نے اب اردن اور مصر کو گیس کی ترسیل شروع کر دی ہے۔ اس وقت مصر کو اسرائیل سے 85 ملین کیوبک میٹر گیس فراہم ہورہی ہے جس سے اسرائیل سالانہ 19.5 بلین ڈالر کماتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے بس چند سال قبل تک اسرائیل، مصر سے تیل و گیس خریدتا تھا۔ حیفہ سے 100 کلومیٹر دور سمندر میں تامار اور لیویاتھان کے مقام پر اسرائیل نے گیس کے وسیع ذخائر دریافت کئے ہیں۔

بحیرہ روم میں دیگر مقامات پر بھی انرجی کے ذخائر موجود ہیں جن پر بظاہر فلسطینیوں کا بھی دعویٰ ہے۔ اس سمندر کا 90 فیصد اقتصادی زون اسرائیل کی تحویل میں ہے۔ لیویاتھان کے مقام پر ہی21 ٹریلین کیوبک فٹ کے گیس کے ذخائر موجود ہیں، جو اگلے 40 سال تک اسرائیل کی اپنی ضروریات کے لیے کافی ہیں۔ پچھلے ماہ یونان کے دارلحکومت ایتھنز میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے 6 بلین ڈالر لاگت کی ایسٹ میڈ پائپ لائن بچھانے کے معاہدہ پر دستخط کئے، جو اسرائیل سے قبرص ہوتے ہوئے یونان اور اٹلی اور دیگر ممالک کو گیس کی ترسیل کرے گی۔ اس پائپ لائن سے یورپ کی انرجی کی 10فیصد ضروریات پوری ہونے کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔

مگر صدر ٹرمپ اور ان کے معاونین کی طرف سے فلسطینی مسئلہ کا جو فارمولہ منظر عام پر آیا ہے، اس سے شاید ہی امن کی امید بندھ سکتی ہے۔ خدشہ ہے کہ یہ اس خطے کے لیے مزید پیچیدگیاں پیدا نہ کردے۔ اس کے مطابق فلسطینی مہاجرین کی اپنے گھروں کی واپسی کا معاملہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائےگا۔ 181صفحات کے اس پلان میں عرب ممالک سے اپنی مرضی سے ہجرت کرنے والے یہودیوں اور بزور طاقت بے گھر ہوئے فلسطینی ریفوجیوں کو ایک ہی پلڑے میں رکھا گیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اگر اسرائیل عرب ممالک سے آئے یہودی پناہ گزینوں کو اپنے یہاں ضم کرسکتا ہے تو عرب ممالک کو بھی فلسطینیوں کو مکمل شہریت دے کر پناہ گزینوں کے باب کو بند کر دینا چاہیے۔ دنیا بھر میں اس وقت 70 لاکھ فلسطینی مختلف ممالک میں وطن واپسی کی راہ دیکھ رہے ہیں۔

فارمولہ میں عرب ممالک سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ سات دہائی قبل جو یہودی ان کے ممالک سے ہجرت کر کے اسرائیل میں بس گئے ہیں، ان کو پیچھے چھوڑی ہوئی جائیدادوں کا معاوضہ دے دیا جائے۔ اسرائیل سے تاہم یہ مطالبہ نہیں کیا گیا ہے کہ وہ بھی ان فلسطینی پناہ گزینوں کو ہرجانہ دے، جن کو اس نے اپنی جائیدادوں سے زبردستی بے دخل کردیا ہے۔ یہی ڈنڈی قیدیوں کی رہائی کے سلسلے میں بھی اپنائی گئی ہے۔ فلسطینی مزاحمتی گروپوں کو بلا شرط اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنا ہوگا۔ مگر اسرائیلی تحویل میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے لیے شرطوں کی ایک لمبی فہرست درج کی گئی ہے۔ قتل، اقدام قتل، دہشت گردی، اسرائیلی شہریوں، فوج یا اس کے سیکورٹی دستوں پر حملوں میں ملوث فلسطینیوں کو کسی بھی صورت میں رہائی نہیں ملے گی۔ آخر میں اسرائیلی حکام کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی صوابدید پر فلسطینی قیدیوں کو رہا کرسکتے ہیں۔

اس پلان کی رو سے القدس یا یروشلم شہر کو تقسیم نہیں کیا جائے گا، بلکہ اس کا مکمل کنٹرول اسرائیل کے پاس ہی رہےگا۔ شہر میں مکینوں کو اختیار ہوگا کہ وہ اسرائیل یا فلسطین کے شہری ہوں گے۔ الاقصیٰ حرم پر جوں کی توں پوزیشن برقرار رہےگی، یعنی یہ بدستور اردن کے اوقاف کی زیر نگرانی رہےگا۔ ویسے سعودی عرب اس کے کنٹرول کا متمنی تھا، تاکہ ریاض میں موجود فرمانروا سبھی تین حرمین یعنی مکہ، مدینہ و مسجد اقصیٰ کے متولی یا خادم قرار پائیں۔ اسرائیل مسجد اقصیٰ کے تہہ خانہ تک رسائی کا خواہشمند ہے۔ جس کے لیے اس نے مغربی سرے پر کھدائی بھی کی ہے، تاکہ وہاں تک پہنچنے کےلیے مسجدکی دیواروں کے نیچے سے ایک ٹنل بنا سکے۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ تہہ خانہ میں ہی معبد سلیمانی کے کھنڈرات یا قبلہ اول موجود ہے۔ شہر کی میونسپل حدود کے باہر کفر عقاب اور سہانات کے علاقوں کو مشرقی یروشلم یا القدس کا نام دیکر اس کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کیا جائے گا۔

غزہ کے راستے اسرائیل اور مصر کی سرحدیں نقل و حمل و تجارت کے لیے کھول دی جائیں گی۔ اسرائیلی بندر گاہیں حیفہ اور اشدود کو فلسطینوں کے لئے کھولا جائے گا۔ بحیرہ میت یعنی ڈیڈ سی جو مغربی کنارہ کے علاقے میں شامل ہے، اس کے وسائل پر اسرائیل اور اردن کا کنٹرول رہےگا۔ اسرائیل دنیا بھر میں ڈیڈ سی پروڈکٹس برآمد کرتا ہے۔ بحیرہ میت میں کان کنی اور اس کے پروڈکٹس کو جلد کی حفاظت وغیرہ کی دوائیوں کے بطور استعمال کرنے کی دریافت کا سہرا ایک پاکستانی نژاد یہودی کے سر ہے، جو کراچی سے اسرائیل منتقل ہو گیا تھا۔

اس پوری روداد کے بعد بھی بتایا گیا ہے کہ یہ پلان تبھی عمل میں لایا جائے گا، جب حالات اسرائیل کے موافق ہوں گے اور فلسطینی اگلے چار سالو ں تک تمام شرائط پر عمل درآمد کر کے اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنائیں گے۔ اس کے بعد اسرائیل دیگر امور پر قدم اٹھائے گا۔ فلسطینی حکام کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے کہ ان کو حماس اور دیگر تمام مزاحمتی گروپوں کو غیر مسلح کرنا ہوگا۔ اردن اور مغربی کنارہ کی سرحد کے تین چیک پوسٹ فلسطینی حکام کے حوالے کئے جائیں گے۔ اس پورے معاہدہ میں ترکی کے رول کا کوئی ذکر نہیں ہے، جس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں القدس یا یروشلم کو اسرائیلی دارلحکومت قرار دیے جانے کے فیصلہ کے خلاف ووٹ دلوانے میں قائدانہ کردار ادا کر کے امریکہ کے فیصلے کی سینہ تان کرمخالفت کی تھی۔چند برس قبل دوحہ میں راقم کو مقتدر فلسطینی لیڈر خالد مشعل سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ تو دو ریاستی فارمولے کو رد کرتے ہیں اور اسرائیل کے وجود سے ہی انکاری ہیں، تو مفاہمت کیسے ہو؟ انہوں نے کہا:

حماس کا رویہ کسی بھی طرح امن مساعی میں رکاوٹ نہیں ہے۔ یاسر عرفات اور محمود عباس نے تو اسرائیل کو تسلیم کیا، مگر ان کے ساتھ کیا سلوک ہوا۔ تحریک میں شارٹ کٹ کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے استقامت ضروری ہے۔ اپنے آپ کو مضبوط بنانا اور زیادہ سے زیادہ حلیف بنانا تحریک کی کامیابی کے لئے ضروری ہے۔ تاریخ کا پہیہ سست ہی سہی مگر گھومتا رہتا ہے۔
مگر اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ:

حماس 2006 کے نیشنل فلسطین اکارڈ پر کار بند ہے، جس کی رو سے وہ دیگر گروپوں کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔
اس فارمولہ میں فلسطینی علاقوں میں غربت و افلاس سے نپٹنے کے لیے 50 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا بھی ذکر ہے۔ اس سرمایہ کاری کے بدلے اگر فلسطینی اتھارٹی کو گیس کے ذخائر اور بحیرہ میت کے وسائل کا کنٹرول دیا جاتا تو اس صدقہ سے کئی گنا بہتر ہوتا۔ خیر صدر ٹرمپ کی اس خود ساختہ ڈیل آف سنچری نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ کمزور اور طاقت ور کے درمیان کوئی معاہدہ ہو ہی نہیں سکتا۔ فلسطینی لیڈروں، عرب و دیگر اسلامی ممالک کے لیے لازم ہے کہ اتحاد کا راستہ اختیار کرکے سیاسی لحاظ سے طاقت ور اور مستحکم بننے پر زور دے کر تاریخ میں اپنے آپ کو سرخ رو کروائیں، ورنہ تاریخ کے بے رحم اوراق ان کو کبھی نہیں بخشیں گے۔
 
Top