جاسم محمد
محفلین
امریکی صدر ٹرمپ کا مشرق وسطٰی میں قیام امن کے منصوے کا اعلان
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
مشرق وسطیٰ کے لیے صدر ٹرمپ کے امن منصوبے میں فلسطینی ریاست کے قیام کی بات کی گئی ہے مگر ساتھ ہی اسرائیلی نوآبادیوں کو تسلیم کرنے کا اشارہ بھی دیا گیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطٰی میں قیام امن کے لیے اپنا منصوبہ پیش کر دیا ہے جس میں یروشلم کو اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت رکھنے کا عہد شامل ہے۔ ان کے پیش کردہ اس منصوبے کا طویل عرصے سے انتظار کیا جا رہا تھا۔
انھوں نے اپنے منصوبے کو 'حقیقت پسندانہ دو ریاستی' حل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلیوں یا فلسطینوں کو اپنے گھروں سے بے دخل نہیں کیا جائے گا۔وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیراعظم نینتن یاہو کے شانہ بشانہ کھڑے صدر ٹرمپ نے کہا کہ 'ہوسکتا ہے کہ ان کا پیش کر دہ منصوبہ فلسطینیوں کے لیے آخری موقع ہو۔'
فلسطینی اس منصوبے کی پہلے سے افشا ہونے والے تجاویز کو پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں۔
منصوبے کے خد و خال کو صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے مسودے کی شکل دی تھی اور اسے انتہائی رازداری میں رکھا گیا تھا۔
بعض مبصرین اسے 'ڈیل آف دا سینچری' یعنی اس صدی کا سب سے بڑا منصوبہ قرار دے رہے ہیں جس کا مقصد دنیا کے سب سے طویل تنازع کا حل تلاش کرنا ہے۔
اسرائیل نے ان تجاویز پر امریکہ کا شکریہ ادا کیا ہے، تاہم فلسطین انھیں متعصب قرار دے کر پہلے ہی مسترد کر چکا ہے۔
منگل کے روز غزہ کی پٹی میں ہزاروں فلسطینیوں نے احتجاج کیا، جبکہ مقبوضہ غرب اردن میں اسرائیل نے اضافی فوج تعینات کر رکھی تھی۔
پیر کو واشنگٹن میں صدر ٹرمپ سے مذاکرات کے بعد اسرائیلی وزیراعظم بینیامن نیتن یاہو نے انھیں سراہتے ہوئے انھیں 'وائٹ ہاؤس میں اسرائیل کا بہترین دوست' قرار دیا تھا۔
انھوں نے کہا تھا کہ 'منصوبہ اس صدی کا ایسا موقع ہے جسے ہم ضائع نہیں کریں گے۔'
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو بدھ کے روز ماسکو جائیں گے جہاں وہ روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ان تجاویز پر بات کریں گے۔
اسرائیلی حزب اختلاف کے راہنما بینی گانٹز نے، جنھوں نے پیر کے روز صدر ٹرمپ سے ملاقات کی تھی، اس منصوبے کو 'ایک اہم اور تاریخی سنگِ میل' قرار دیا تھا۔
فلسطینی رہنماؤں نے یہ کہہ کر منصوبے کو پہلے ہی مسترد کر دیا تھا کہ یہ غرب اردن پر اسرائیلی حاکمیت کو مستقل طور پر مسلط کرنے کے مترادف ہے۔
اتوار کو جاری کیے گئے بیان میں فلسطینی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ 'امریکی انتظامیہ کو ایک بھی ایسا فلسطینی نہیں ملے گا جو اس منصوبے کی حمایت کرے۔ ٹرمپ کا منصوبہ فلسطینی جد و جہد کو ختم کرنے کی اس صدی کی سب سے بڑی سازش ہے۔'
فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس نے منگل کو رات گئے فلسطینی قیادت کا اجلاس طلب کیا ہے۔
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionرملہ میں صدر ٹرمپ کے ممکنہ امن منصوبے کے خلاف فلسطینیوں کا احتجاج
فلسطینیوں نے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ دسمبر 2017 میں اس وقت روابط ختم کر لیے تھے جب صدر ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے تل ابیب سے اپنا سفارتخانہ وہاں منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس کے بعد امریکہ نے فلسطینیوں کے لیے دو طرفہ امداد اور فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کو دی جانے والی امداد بند کر دی تھی۔
گزشتہ سال نومبر میں امریکی وزیرخارجہ نے غرب اردن میں یہودی بستیوں کو بین الاقوامی قانون کے خلاف قرار دینے کے چار عشروں پر محیط امریکی موقف سے ہٹنے کا اعلان کیا تھا۔
صدر ٹرمپ کے منصوبے پر غور کے لیے عرب لیگ کا اجلاس سینچر کے روز طلب کیا گیا ہے۔
- ایک گھنٹہ پہلے
مشرق وسطیٰ کے لیے صدر ٹرمپ کے امن منصوبے میں فلسطینی ریاست کے قیام کی بات کی گئی ہے مگر ساتھ ہی اسرائیلی نوآبادیوں کو تسلیم کرنے کا اشارہ بھی دیا گیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطٰی میں قیام امن کے لیے اپنا منصوبہ پیش کر دیا ہے جس میں یروشلم کو اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت رکھنے کا عہد شامل ہے۔ ان کے پیش کردہ اس منصوبے کا طویل عرصے سے انتظار کیا جا رہا تھا۔
انھوں نے اپنے منصوبے کو 'حقیقت پسندانہ دو ریاستی' حل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلیوں یا فلسطینوں کو اپنے گھروں سے بے دخل نہیں کیا جائے گا۔وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیراعظم نینتن یاہو کے شانہ بشانہ کھڑے صدر ٹرمپ نے کہا کہ 'ہوسکتا ہے کہ ان کا پیش کر دہ منصوبہ فلسطینیوں کے لیے آخری موقع ہو۔'
فلسطینی اس منصوبے کی پہلے سے افشا ہونے والے تجاویز کو پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں۔
منصوبے کے خد و خال کو صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے مسودے کی شکل دی تھی اور اسے انتہائی رازداری میں رکھا گیا تھا۔
بعض مبصرین اسے 'ڈیل آف دا سینچری' یعنی اس صدی کا سب سے بڑا منصوبہ قرار دے رہے ہیں جس کا مقصد دنیا کے سب سے طویل تنازع کا حل تلاش کرنا ہے۔
اسرائیل نے ان تجاویز پر امریکہ کا شکریہ ادا کیا ہے، تاہم فلسطین انھیں متعصب قرار دے کر پہلے ہی مسترد کر چکا ہے۔
منگل کے روز غزہ کی پٹی میں ہزاروں فلسطینیوں نے احتجاج کیا، جبکہ مقبوضہ غرب اردن میں اسرائیل نے اضافی فوج تعینات کر رکھی تھی۔
پیر کو واشنگٹن میں صدر ٹرمپ سے مذاکرات کے بعد اسرائیلی وزیراعظم بینیامن نیتن یاہو نے انھیں سراہتے ہوئے انھیں 'وائٹ ہاؤس میں اسرائیل کا بہترین دوست' قرار دیا تھا۔
انھوں نے کہا تھا کہ 'منصوبہ اس صدی کا ایسا موقع ہے جسے ہم ضائع نہیں کریں گے۔'
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو بدھ کے روز ماسکو جائیں گے جہاں وہ روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ان تجاویز پر بات کریں گے۔
اسرائیلی حزب اختلاف کے راہنما بینی گانٹز نے، جنھوں نے پیر کے روز صدر ٹرمپ سے ملاقات کی تھی، اس منصوبے کو 'ایک اہم اور تاریخی سنگِ میل' قرار دیا تھا۔
فلسطینی رہنماؤں نے یہ کہہ کر منصوبے کو پہلے ہی مسترد کر دیا تھا کہ یہ غرب اردن پر اسرائیلی حاکمیت کو مستقل طور پر مسلط کرنے کے مترادف ہے۔
اتوار کو جاری کیے گئے بیان میں فلسطینی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ 'امریکی انتظامیہ کو ایک بھی ایسا فلسطینی نہیں ملے گا جو اس منصوبے کی حمایت کرے۔ ٹرمپ کا منصوبہ فلسطینی جد و جہد کو ختم کرنے کی اس صدی کی سب سے بڑی سازش ہے۔'
فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس نے منگل کو رات گئے فلسطینی قیادت کا اجلاس طلب کیا ہے۔
Image captionرملہ میں صدر ٹرمپ کے ممکنہ امن منصوبے کے خلاف فلسطینیوں کا احتجاج
فلسطینیوں نے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ دسمبر 2017 میں اس وقت روابط ختم کر لیے تھے جب صدر ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے تل ابیب سے اپنا سفارتخانہ وہاں منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس کے بعد امریکہ نے فلسطینیوں کے لیے دو طرفہ امداد اور فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کو دی جانے والی امداد بند کر دی تھی۔
گزشتہ سال نومبر میں امریکی وزیرخارجہ نے غرب اردن میں یہودی بستیوں کو بین الاقوامی قانون کے خلاف قرار دینے کے چار عشروں پر محیط امریکی موقف سے ہٹنے کا اعلان کیا تھا۔
صدر ٹرمپ کے منصوبے پر غور کے لیے عرب لیگ کا اجلاس سینچر کے روز طلب کیا گیا ہے۔