امریکی صدر ٹرومین اور سعودی فرماں روا شاہ عبدالعزیزکی تاریخی خط و کتابت

ٹرومین
دیری کے لیے معذرت یہ تھا وہ جو میں آپکی خدمت عالیہ میں پیش کرنا چاہتا تھا۔۔۔


امریکی صدر ٹرومین اور سعودی فرماں روا شاہ عبدالعزیزکی
تاریخی خط و کتابت​
مالیر کوٹلہ بھارت کے دینی جریدہ ماہنامہ (دارالسلام) نے نومبر 2001ء کے شمارے میں مملکت سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز آل سعود کے نام امریکہ کے صدر ہیری ٹرومین کے 10 فروری 1948ء کے تحریر کردہ ایک خط اور ملک عبدالعزیز آل سعود کی طرف سے اس کےجواب کا اردو ترجمہ شائع کیا ہے ۔اس سے قارئین بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ افغانستان ، کشمیر ، فلسطین کے حوالہ سے امریکہ جو کردار اب ادا کر رہا ہے ، وہ کسی حادثہ کا نتیجہ نہیں بلکہ بہت پہلے سے طے شدہ پالیسی اور پروگرام کا ایک تسلسل ہے اور اس امر کا بھی جائزہ لیا جا سکتا ہے کہ ہمارے مسلم حکمران امریکہ کے ان عزائم اور پروگرام کے بخوبی واقف ہونے کے باوجود ابھی تک زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کر پائے اور انہوں نے عالم اسلام کے وسائل اور دولت امریکہ کے قدموں پر ڈھیر کر کے ذاتی ،خاندانی اور طبقاتی سطح پرمفادات حاصل کرنے کے سوا عالم اسلام ارو ملت اسلامیہ کے مفاد کے لیے کسی مشترکہ منصوبہ بندی اور پیش رفت کی آج تک ضرورت محسوس نہیں کی۔۔۔(ادارہ)​

صدر ٹرومین کی جانب سے شاہ عبدالعزیز کے نام خط
حضور جلالت ملک عبدالعزیز آل سعود ،فرماں روائے مملکت سعودی عرب​
قابل قدر بادشاہ!
جیساکہ آپ بخوبی واقف ہیں کہ ہمارے ملک باہمی طور پر ایسی دیرینہ محبت اور مودت کے تعلقات میں مربوط ہیں جس کی بنیاد عدل وانصاف ،آزادی ،عالمی سطح پر امن وسلامتی کے قیام کی رغبت اور ساری انسانیت کی بھلائی پر قائم ہے ،نیز ہماری باہمی اقتصادی مصلحتوں نے ان تعلقات کو اس وقت مزید مضبوط اور گہرا بنا دیا جب آپ نے اپنے ملک سعودی عرب میں دریافت کیے جانے والے تیل کے کنوؤں سے تیل نکالنے کا معاہدہ ہمارے لک کی کمپنیوں سے کیا۔اس طرح ہمیں تیل نکالنے والے وسیع و عریض پلانٹ قائم کرنے کے مواقعے دستیاب ہوئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اب ہمارے تعلقات اس قدر مضبوط ہو چکے ہیں کہ دونوں میں کسی ایک ملک میں ہونے والے ہر خوشگوار و نا خوشگوار واقعہ کی صدائے بازگشت دوسرے ملک میں سنائی دیتی ہے۔ ویسے بھی ہمارے نزدیک مشرق وسطیٰ میں امن و سلامتی کا قیام نہایت اہم حیثیت رکھتا ہے۔ اس علاقے سے آپ کا ملک دینی،تاریخی اور لسانی بنیادوں پر جڑا ہوا ہے۔ اس علاقے کے تمام ملکوں کو عرب لیگ جیسے ادارے نے باہم مربوط کر رکھاہے۔ چونکہ عرب لیگ اور ساری عرب قوم کے دلوں آپ کےملک کا ایک اونچا مقام ہے لہذا میں نے یہ مناسب سمجھا کہ عالمی سلامتی اور ایک ستائی ہوئی مظلوم قوم کے نام پر آپ سے مدد طلب کروں تاکہ آپ مقدس سرزمین پر اس کے باشندوں عرب اور یہود کے درمیان برپا خانہ جنگی کو روکنے میں اپنا اثرو رسوخ استعمال کر سکیں اور عرب قوم کو اپنے ہم وطن یہودیوں کے ساتھ مصالحت پر آمادہ کر لیں۔ ہٹلر کے دور میں یہودیوں نے جو عذاب جھیلے ، کیا وہ ان کے لیے کافی نہیں کہ اب بھی وہ ستائے جائیں ؟ آپ ہر گز نہیں چاہیں گے کہ یہودی اب بھی عذاب و تکلیف میں گرفتار رہیں چہ چائیکہ آپ ان عربوں کا ساتھ دیں جو اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرارداد (جو ارض مقدس کو دونوں قوموں کے درمیان تقسیم کرنے کے متعلق ہے )کو کھلم کھلا چیلنج کر رہے ہیں۔ عربوں کا یہ انداز اقوام متحدہ میں شامل تمام ملکوں کے خلاف جس میں سرفہرست آپ کا ملک آتا ہے ،سرکشی اور زیادتی کے مترادف ہے ۔
جس بات کا مجھے ڈر ہے ، وہ یہ کہ کہیں مختلف ممالک متحدہ طور پر ان بغاوت کرنے والوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرنے پر درست کرنے کے لیے ان پر فوج کشی نہ کر دیں جس سے آپ کی قوم کی ہزاروں جانوں کے تلف ہو جانے کا خدشہ ہے ۔یقیناً یہ امر ہمارے لیے بھی اور آپکے لیے بھی باعث رنج و تکلیف ہو گا۔ میں اس امر کو مخفی نہیں رکھنا چاہتا کہ اگر حالات اسی طرح رہے تو یہ چیز ہمارے خوشگوار تعلقات کو متاثر کر سکتی ہے جس سے ہمارے مشترکہ مفادات بڑے نقصان سے دوچار ہو سکتے ہیں کیونکہ امریکی قوم مظلوم یہودیوں کے لیے اپنے اندر عطف و کرم کا شدید جذبہ رکھتی ہے ۔ان یہودیوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو جوں کا توں قبول کرلیا ہے جبکہ یہ قرارداد ان کے تمام مطالب کی تکمیل بھی نہیں کر رہی لہذا عرب قوم کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کریں اور یہودی قوم سے اس معاملے میں پیچھے رہ جائیں ۔
جلالۃ الملک ! تاریخ آپ کا انتظار کر رہی ہے تاکہ آپ کا نام اس انداز میں رقم کیا جائے کہ شاہ عبدالعزیز وہ بادشاہ ہے جنہوں نے اپنی حکمت عملی اور اثرو رسوخ کے ذریعے اراضی مقدسہ میں امن وسلامتی کو قائم کرنے میں مرکزی کردار اداکیا۔ لہذا اپنی قوم کے لوگوں کو عالمی بائیکاٹ کی تکالیف سے بچا لیجئے اور مجبور مظلوم اسرائیلی قوم کو سکھ کا سانس لینے کا موقعہ فراہم کیجئے ۔
میری جانب سے سلام ، نیک تمنائیں اور پیشگی پر خلوص شکریہ​
آپ کا مخلص
ہیری ٹرومین​

ملک عبدالعزیز آل سعود کی جانب سے جواب
شاہی محل ، ریاض
10 ربیع الثانی 1367ھ
عزت مآب جناب ہیری ٹرومین، صدر ریاست ہائے متحدہ امریکہ
معزز صدر !
آپ کا 10 فروری کو تحریر کردہ مکتوب موصول ہوا۔ آپ نے میرے متعلق محبت اور الفت کے جو جملے اپنے خط میں تحریر کیے ہیں ،ان پر میں آپ کا شکر گزار ہوں مگر اس بات کی صراحت ضروری سمجھتا ہوں ( کیونکہ صراحت اور کھری بات کرنا ہمارے آداب میں شامل ہے )کہ جوں جوں میں آپ کے خط کی عبارت سنتا رہا، اسی طرح میری حیرت و استعجاب میں اضافہ ہوتا رہا کہ آپ نے کس طرح یہودی قوم کے باطل کو حق ثابت کرنے کی کوشش میں ، مجھ جیسے عربی بادشاہ کے بارے میں یوں بدگمانی کر لی ، جس کی عرب اور اسلام کے ساتھ وابستگی اور اخلاص کو آپ اچھی طرح جانتے ہیں اور آپ نے یہ تصور کرلیا کہ میں اپنی قوم کے حق کے مقابلے میں یہودیوں کے ساتھ ان کے باطل پر تعاون کروں گا۔ہمارے دلوں میں فلسطین کا ایک مقام ہے ۔ اس کی وضاحت میں ایک مثال سے کروں گا۔
اگر کوئی ملک ٖآپ کی اسٹیٹ پر قبضہ کرلے اور اس کے دروازے دنیا کے مختلف حصوں سے آنے والوں کے لیے کھول دے تاکہ وہ اس کو اپنا ملک بناکر اس میں مقیم ہو جائیں اور جب امریکی عوام اس جبری قبضے کو ختم کرنے کی غرض سے اٹھ کھڑے ہوں اور ہم آپ سے دوستی اور سلامتی کے نام پر اس معاملہ میں مدد کے خواہاں ہوجائیں اور کہیں کہ امریکی قوم کے نزدیک آپ اپنے مقام اور اثر ورسوخ کو استعمال کرکے امریکی قوم کو غیر ملکیوں کے ساتھ مقابلہ کرنے سے روکیں تاکہ اجنبی قوم اپنا ملک قائم کر سکے اس طرح تاریخ بھی آپ صدر ٹرومین کو اپنے روشن صفحات میں امریکہ میں اپنی حکمت اور نفوذ کے ذریعے امن قائم کرنے والا کہے ، اس وقت آپ کے دل میں ہمارے اس مطالبہ کا کیا رد عمل ہوگا؟
جناب صدر ! عرب قوم میں میرے جس مقام و مرتبہ کا ذکر آپ نے کیا ہے ، مجھے وہ مقام محض عرب اور اسلام سے شدید دلی وابستگی کے نتیجے میں حاصل ہوا ہے ۔لہذا آپ مجھ سے ایسی بات کا مطالبہ کیسے کر سکتے ہیں جو کسی ذمہ دار عرب کے لیے ناممکن ہے اور پھر فلسطین میں جاری جنگ کوئی داخلی جنگ نہیں جیسا کہ آپ کا خیال ہے بلکہ یہ اس کے اصل حق دار عرب قوم اور ان صیہونی جنگجوؤں کے درمیان جاری لڑائی ہے جو فلسطینیوں کی چاہت کے علی الرغم عالمی سلامتی کے قیام کا دعویٰ کرنے والے چند ایک ملکوں کی مدد سے اپنا قبضہ جمانے کی کوشش میں ہیں۔ نیز فلسطین کو تقسیم کرنے کی منظور کردہ قرارداد جس کو مختلف ملکوں سے منظور کروانے میں آپ کا رول نمایاں رہا ہے ، محض ظلم و نا انصافی پر مبنی ایسی قرارداد ہے جس کو ابتدا سے ہی تمام عرب ملکوں نے نیز ان ملکوں نے بھی رد کردیا جو حق کا ساتھ دے رہے ہیں۔ لہذا حالیہ نتائج کے ذمہ دار عرب نہیں جس پر آپ ہمیں محتاط رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں ۔
میں اپنے ان مسلمان بھائیوں کے لیے انتہائی محبت اور شفقت کے جذبات رکھتا ہوں جو فلسطین میں صیہونی حملہ آوروں کے خلاف اپنے وطن کا دفاع کرتے ہوئے نذرانہ شہادت پیش کر رہے ہیں کیونکہ ہم عرب لوگ اس کو ایسا شرف سمجھتے ہیں جو ہمارے لیے قابل فخر ہے ۔ ہم کسی بھی قیمت پر ان فلسطینی بھائیوں کی تائید سے دست بردار نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ صیہونی حملہ آوروں کے خوابوں کو چکنا چور نہ کردیں۔جہاں تک آپ نے باہمی اقتصادی مصلحتوں کا ذکر کیا ہے جن سے میرا اور آپ کا ملک جڑا ہے ، تو یاد رکھیے یہ اقتصادی مفادات میرے نزدیک پرکاہ کی بھي حیثیت نہیں رکھتے ۔میں ان اقتصادی مفادات کو قربان کر سکتا ہوں مگر مجھے یہ منظور نہیں کہ اس کے بدلے فلسطین کی ایک بالشت زمین بھی مجرم یہودیوں کے ہاتھ فروخت کردوں۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر گواہ ہے کہ میں تیل کے ان کنوؤں کو بند کرسکتا ہوں ۔ تیل کے یہ کنوئیں اللہ تعالیٰ کی وہ نعمتیں ہیں جو اس نے آج ہم پر جاری فرمائی ہیں لہذا ہم ان کو کبھی عذاب الہی میں تبدیل نہیں کرنا چاہتے ۔میں اس سے قبل کئی دفعہ ساری دنیا پر یہ بات واضح کر دی ہے کہ میں أپنے تمام بیٹوں سمیت فلسطین کے لیے لڑنے مرنے پر تیار ہوں۔پھر اس کے باوجود میرے لیے تیل کے یہ کنوئیں میری اپنی جان اور میری اولاد سے کیسے عزیز تر ہو سکتے ہیں ؟
قرآن مجید کہ جس پر ہمارا ایمان ہے ، جو ہماری زندگی ہے اور جس پر ہم اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں ، اس کتاب نے تورات او رانجیل کی طرح یہود قوم پر لعنت کی ہے ۔ یہی قرآن مجید ہم پر اس امر کو فرض قرار دیتا ہے کہ ہم اپنی جانوں اور مالوں کے ذریعے سے اس مقدس سرزمین کو یہودی دخل اندازی اور تسلط سے روکیں جس میں کوئی اور راستہ نہیں۔ اگر امریکی عیسائیوں اور ان کے دیگر حواریوں کے دینی عقیدہ کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ یہودیوں کو ان کے ناپاک قدموں کے ذریعے مقدس سرزمین کو ناپاک کرنے کی راہ ہموار کر سکتے ہیں تو ہمارے دل بھی آج اس ایمان سے معمور ہیں جس کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اس سرزمین کو یہودیوں سے پاک صاف کر دیں۔
جس قسم کے الفت اور محبت اور جانب دارانہ تعلقات آپ کی حکومت نے یہودیوں سے استوار کیے ہیں اور اس کے مقابلے میں عرب کے ساتھ دشمنی کا اظہار کیا ہے ، یہی ایک بات کافی ہے کہ ہم آپ کے ساتھ خیر سگالی کے تعلقات کو منقطع کر دیتے ہیں ، امریکی کمپنیوں کے ہمارے ساتھ کیے گئے تمام معاہدوں کو منسوخ قرار دے دیتے ہیں لیکن ہم نے جلد بازی سے کام لینا مناسب نہیں سمجھاکہ ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ آپ کا ملک فلسطین کے موقف پر نظرثانی کرے گا اور باطل کی تائید سے کنارہ کش ہوکر واضح حق کا ساتھ دےگا۔ ہم اس معاملے میں آپ پر کوئی دباؤ نہیں ڈالنا چاہتے، نہ اسکے لیے تجارتی تعلقات کو ذریعہ بنانا چاہتے ہیں کیونکہ ہم عربی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حق کو بذریعہ حق غالب کیا جا ئے نہ کہ ان یہودیوں کی طرح جو رشوت دے کر مختلف ملکوں کو اپنی تائید پر ابھارنےکی کوشش کرتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود جب ہمیں اس بات کا یقین ہو جائے کہ حق کو کیوں پامال کیا جارہا ہے تو ہم اس کے تحفظ کے لیے ہر وہ وسیلہ اختیار کریں گے جو اسمیں مؤثر ثابت ہو گا۔ خصوصاً عرب لیگ قومیت اور اسکے حقوق کی حفاظت کے لیے جو بھی تجویز منظورکرے گی ، ہم اسکی تائید میں ہوں گے۔
یقیناً یہ بات میرے لیے باعث مسرت ہے کہ جو امریکی ہمارے ملک میں مقیم ہیں ، وہ ہمارے مہمان ہیں ۔جب تک وہ ہماری سرزمین میں ہیں ، انہیں ہماری جانب سے کوئی شکایت یا تکلیف نہیں ہوگی۔ آپ اس بات کا اطمنا ن رکھیں۔سب سے زیادہ اگر انکو کوئی تکلیف پہنچ سکتی ہےتو یہی کہ ہمارے ملک میں انکے قیام کی مدت مختصر کرکے پوری عزت و اکرام کے ساتھ ان کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے ان کے ملک امریکہ واپس بجھوادیں۔
اخیر میں صاحب صدر ! میں آپکو یاد دلاتا چلوں کہ جن تجارتی اشیاء کی بنیاد پر ہمارے مابین اقتصادی تعلقات قائم ہیں ، یہ وہ مال ہے کہ دنیا کی مارکیٹ میں اس کے فروخت کرنے والے بہت کم ہیں لیکن اس کے خریدنے والے بہت زیادہ ۔
صاحب صدر ! میری نیک تمنائیں اور آداب قبول فرمائیں ۔​
مخلص عبدالعزیز آل سعود
ملک المملکتہ العر بیتہ السعودیۃ​
 

ٹرومین

محفلین
ٹرومین
دیری کے لیے معذرت یہ تھا وہ جو میں آپکی خدمت عالیہ میں پیش کرنا چاہتا تھا۔۔۔


امریکی صدر ٹرومین اور سعودی فرماں روا شاہ عبدالعزیزکی
تاریخی خط و کتابت​
مالیر کوٹلہ بھارت کے دینی جریدہ ماہنامہ (دارالسلام) نے نومبر 2001ء کے شمارے میں مملکت سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز آل سعود کے نام امریکہ کے صدر ہیری ٹرومین کے 10 فروری 1948ء کے تحریر کردہ ایک خط اور ملک عبدالعزیز آل سعود کی طرف سے اس کےجواب کا اردو ترجمہ شائع کیا ہے ۔اس سے قارئین بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ افغانستان ، کشمیر ، فلسطین کے حوالہ سے امریکہ جو کردار اب ادا کر رہا ہے ، وہ کسی حادثہ کا نتیجہ نہیں بلکہ بہت پہلے سے طے شدہ پالیسی اور پروگرام کا ایک تسلسل ہے اور اس امر کا بھی جائزہ لیا جا سکتا ہے کہ ہمارے مسلم حکمران امریکہ کے ان عزائم اور پروگرام کے بخوبی واقف ہونے کے باوجود ابھی تک زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کر پائے اور انہوں نے عالم اسلام کے وسائل اور دولت امریکہ کے قدموں پر ڈھیر کر کے ذاتی ،خاندانی اور طبقاتی سطح پرمفادات حاصل کرنے کے سوا عالم اسلام ارو ملت اسلامیہ کے مفاد کے لیے کسی مشترکہ منصوبہ بندی اور پیش رفت کی آج تک ضرورت محسوس نہیں کی۔۔۔(ادارہ)​

صدر ٹرومین کی جانب سے شاہ عبدالعزیز کے نام خط
حضور جلالت ملک عبدالعزیز آل سعود ،فرماں روائے مملکت سعودی عرب​
قابل قدر بادشاہ!
جیساکہ آپ بخوبی واقف ہیں کہ ہمارے ملک باہمی طور پر ایسی دیرینہ محبت اور مودت کے تعلقات میں مربوط ہیں جس کی بنیاد عدل وانصاف ،آزادی ،عالمی سطح پر امن وسلامتی کے قیام کی رغبت اور ساری انسانیت کی بھلائی پر قائم ہے ،نیز ہماری باہمی اقتصادی مصلحتوں نے ان تعلقات کو اس وقت مزید مضبوط اور گہرا بنا دیا جب آپ نے اپنے ملک سعودی عرب میں دریافت کیے جانے والے تیل کے کنوؤں سے تیل نکالنے کا معاہدہ ہمارے لک کی کمپنیوں سے کیا۔اس طرح ہمیں تیل نکالنے والے وسیع و عریض پلانٹ قائم کرنے کے مواقعے دستیاب ہوئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اب ہمارے تعلقات اس قدر مضبوط ہو چکے ہیں کہ دونوں میں کسی ایک ملک میں ہونے والے ہر خوشگوار و نا خوشگوار واقعہ کی صدائے بازگشت دوسرے ملک میں سنائی دیتی ہے۔ ویسے بھی ہمارے نزدیک مشرق وسطیٰ میں امن و سلامتی کا قیام نہایت اہم حیثیت رکھتا ہے۔ اس علاقے سے آپ کا ملک دینی،تاریخی اور لسانی بنیادوں پر جڑا ہوا ہے۔ اس علاقے کے تمام ملکوں کو عرب لیگ جیسے ادارے نے باہم مربوط کر رکھاہے۔ چونکہ عرب لیگ اور ساری عرب قوم کے دلوں آپ کےملک کا ایک اونچا مقام ہے لہذا میں نے یہ مناسب سمجھا کہ عالمی سلامتی اور ایک ستائی ہوئی مظلوم قوم کے نام پر آپ سے مدد طلب کروں تاکہ آپ مقدس سرزمین پر اس کے باشندوں عرب اور یہود کے درمیان برپا خانہ جنگی کو روکنے میں اپنا اثرو رسوخ استعمال کر سکیں اور عرب قوم کو اپنے ہم وطن یہودیوں کے ساتھ مصالحت پر آمادہ کر لیں۔ ہٹلر کے دور میں یہودیوں نے جو عذاب جھیلے ، کیا وہ ان کے لیے کافی نہیں کہ اب بھی وہ ستائے جائیں ؟ آپ ہر گز نہیں چاہیں گے کہ یہودی اب بھی عذاب و تکلیف میں گرفتار رہیں چہ چائیکہ آپ ان عربوں کا ساتھ دیں جو اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرارداد (جو ارض مقدس کو دونوں قوموں کے درمیان تقسیم کرنے کے متعلق ہے )کو کھلم کھلا چیلنج کر رہے ہیں۔ عربوں کا یہ انداز اقوام متحدہ میں شامل تمام ملکوں کے خلاف جس میں سرفہرست آپ کا ملک آتا ہے ،سرکشی اور زیادتی کے مترادف ہے ۔
جس بات کا مجھے ڈر ہے ، وہ یہ کہ کہیں مختلف ممالک متحدہ طور پر ان بغاوت کرنے والوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرنے پر درست کرنے کے لیے ان پر فوج کشی نہ کر دیں جس سے آپ کی قوم کی ہزاروں جانوں کے تلف ہو جانے کا خدشہ ہے ۔یقیناً یہ امر ہمارے لیے بھی اور آپکے لیے بھی باعث رنج و تکلیف ہو گا۔ میں اس امر کو مخفی نہیں رکھنا چاہتا کہ اگر حالات اسی طرح رہے تو یہ چیز ہمارے خوشگوار تعلقات کو متاثر کر سکتی ہے جس سے ہمارے مشترکہ مفادات بڑے نقصان سے دوچار ہو سکتے ہیں کیونکہ امریکی قوم مظلوم یہودیوں کے لیے اپنے اندر عطف و کرم کا شدید جذبہ رکھتی ہے ۔ان یہودیوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو جوں کا توں قبول کرلیا ہے جبکہ یہ قرارداد ان کے تمام مطالب کی تکمیل بھی نہیں کر رہی لہذا عرب قوم کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کریں اور یہودی قوم سے اس معاملے میں پیچھے رہ جائیں ۔
جلالۃ الملک ! تاریخ آپ کا انتظار کر رہی ہے تاکہ آپ کا نام اس انداز میں رقم کیا جائے کہ شاہ عبدالعزیز وہ بادشاہ ہے جنہوں نے اپنی حکمت عملی اور اثرو رسوخ کے ذریعے اراضی مقدسہ میں امن وسلامتی کو قائم کرنے میں مرکزی کردار اداکیا۔ لہذا اپنی قوم کے لوگوں کو عالمی بائیکاٹ کی تکالیف سے بچا لیجئے اور مجبور مظلوم اسرائیلی قوم کو سکھ کا سانس لینے کا موقعہ فراہم کیجئے ۔
میری جانب سے سلام ، نیک تمنائیں اور پیشگی پر خلوص شکریہ​
آپ کا مخلص
ہیری ٹرومین​

ملک عبدالعزیز آل سعود کی جانب سے جواب
شاہی محل ، ریاض
10 ربیع الثانی 1367ھ
عزت مآب جناب ہیری ٹرومین، صدر ریاست ہائے متحدہ امریکہ
معزز صدر !
آپ کا 10 فروری کو تحریر کردہ مکتوب موصول ہوا۔ آپ نے میرے متعلق محبت اور الفت کے جو جملے اپنے خط میں تحریر کیے ہیں ،ان پر میں آپ کا شکر گزار ہوں مگر اس بات کی صراحت ضروری سمجھتا ہوں ( کیونکہ صراحت اور کھری بات کرنا ہمارے آداب میں شامل ہے )کہ جوں جوں میں آپ کے خط کی عبارت سنتا رہا، اسی طرح میری حیرت و استعجاب میں اضافہ ہوتا رہا کہ آپ نے کس طرح یہودی قوم کے باطل کو حق ثابت کرنے کی کوشش میں ، مجھ جیسے عربی بادشاہ کے بارے میں یوں بدگمانی کر لی ، جس کی عرب اور اسلام کے ساتھ وابستگی اور اخلاص کو آپ اچھی طرح جانتے ہیں اور آپ نے یہ تصور کرلیا کہ میں اپنی قوم کے حق کے مقابلے میں یہودیوں کے ساتھ ان کے باطل پر تعاون کروں گا۔ہمارے دلوں میں فلسطین کا ایک مقام ہے ۔ اس کی وضاحت میں ایک مثال سے کروں گا۔
اگر کوئی ملک ٖآپ کی اسٹیٹ پر قبضہ کرلے اور اس کے دروازے دنیا کے مختلف حصوں سے آنے والوں کے لیے کھول دے تاکہ وہ اس کو اپنا ملک بناکر اس میں مقیم ہو جائیں اور جب امریکی عوام اس جبری قبضے کو ختم کرنے کی غرض سے اٹھ کھڑے ہوں اور ہم آپ سے دوستی اور سلامتی کے نام پر اس معاملہ میں مدد کے خواہاں ہوجائیں اور کہیں کہ امریکی قوم کے نزدیک آپ اپنے مقام اور اثر ورسوخ کو استعمال کرکے امریکی قوم کو غیر ملکیوں کے ساتھ مقابلہ کرنے سے روکیں تاکہ اجنبی قوم اپنا ملک قائم کر سکے اس طرح تاریخ بھی آپ صدر ٹرومین کو اپنے روشن صفحات میں امریکہ میں اپنی حکمت اور نفوذ کے ذریعے امن قائم کرنے والا کہے ، اس وقت آپ کے دل میں ہمارے اس مطالبہ کا کیا رد عمل ہوگا؟
جناب صدر ! عرب قوم میں میرے جس مقام و مرتبہ کا ذکر آپ نے کیا ہے ، مجھے وہ مقام محض عرب اور اسلام سے شدید دلی وابستگی کے نتیجے میں حاصل ہوا ہے ۔لہذا آپ مجھ سے ایسی بات کا مطالبہ کیسے کر سکتے ہیں جو کسی ذمہ دار عرب کے لیے ناممکن ہے اور پھر فلسطین میں جاری جنگ کوئی داخلی جنگ نہیں جیسا کہ آپ کا خیال ہے بلکہ یہ اس کے اصل حق دار عرب قوم اور ان صیہونی جنگجوؤں کے درمیان جاری لڑائی ہے جو فلسطینیوں کی چاہت کے علی الرغم عالمی سلامتی کے قیام کا دعویٰ کرنے والے چند ایک ملکوں کی مدد سے اپنا قبضہ جمانے کی کوشش میں ہیں۔ نیز فلسطین کو تقسیم کرنے کی منظور کردہ قرارداد جس کو مختلف ملکوں سے منظور کروانے میں آپ کا رول نمایاں رہا ہے ، محض ظلم و نا انصافی پر مبنی ایسی قرارداد ہے جس کو ابتدا سے ہی تمام عرب ملکوں نے نیز ان ملکوں نے بھی رد کردیا جو حق کا ساتھ دے رہے ہیں۔ لہذا حالیہ نتائج کے ذمہ دار عرب نہیں جس پر آپ ہمیں محتاط رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں ۔
میں اپنے ان مسلمان بھائیوں کے لیے انتہائی محبت اور شفقت کے جذبات رکھتا ہوں جو فلسطین میں صیہونی حملہ آوروں کے خلاف اپنے وطن کا دفاع کرتے ہوئے نذرانہ شہادت پیش کر رہے ہیں کیونکہ ہم عرب لوگ اس کو ایسا شرف سمجھتے ہیں جو ہمارے لیے قابل فخر ہے ۔ ہم کسی بھی قیمت پر ان فلسطینی بھائیوں کی تائید سے دست بردار نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ صیہونی حملہ آوروں کے خوابوں کو چکنا چور نہ کردیں۔جہاں تک آپ نے باہمی اقتصادی مصلحتوں کا ذکر کیا ہے جن سے میرا اور آپ کا ملک جڑا ہے ، تو یاد رکھیے یہ اقتصادی مفادات میرے نزدیک پرکاہ کی بھي حیثیت نہیں رکھتے ۔میں ان اقتصادی مفادات کو قربان کر سکتا ہوں مگر مجھے یہ منظور نہیں کہ اس کے بدلے فلسطین کی ایک بالشت زمین بھی مجرم یہودیوں کے ہاتھ فروخت کردوں۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر گواہ ہے کہ میں تیل کے ان کنوؤں کو بند کرسکتا ہوں ۔ تیل کے یہ کنوئیں اللہ تعالیٰ کی وہ نعمتیں ہیں جو اس نے آج ہم پر جاری فرمائی ہیں لہذا ہم ان کو کبھی عذاب الہی میں تبدیل نہیں کرنا چاہتے ۔میں اس سے قبل کئی دفعہ ساری دنیا پر یہ بات واضح کر دی ہے کہ میں أپنے تمام بیٹوں سمیت فلسطین کے لیے لڑنے مرنے پر تیار ہوں۔پھر اس کے باوجود میرے لیے تیل کے یہ کنوئیں میری اپنی جان اور میری اولاد سے کیسے عزیز تر ہو سکتے ہیں ؟
قرآن مجید کہ جس پر ہمارا ایمان ہے ، جو ہماری زندگی ہے اور جس پر ہم اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں ، اس کتاب نے تورات او رانجیل کی طرح یہود قوم پر لعنت کی ہے ۔ یہی قرآن مجید ہم پر اس امر کو فرض قرار دیتا ہے کہ ہم اپنی جانوں اور مالوں کے ذریعے سے اس مقدس سرزمین کو یہودی دخل اندازی اور تسلط سے روکیں جس میں کوئی اور راستہ نہیں۔ اگر امریکی عیسائیوں اور ان کے دیگر حواریوں کے دینی عقیدہ کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ یہودیوں کو ان کے ناپاک قدموں کے ذریعے مقدس سرزمین کو ناپاک کرنے کی راہ ہموار کر سکتے ہیں تو ہمارے دل بھی آج اس ایمان سے معمور ہیں جس کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اس سرزمین کو یہودیوں سے پاک صاف کر دیں۔
جس قسم کے الفت اور محبت اور جانب دارانہ تعلقات آپ کی حکومت نے یہودیوں سے استوار کیے ہیں اور اس کے مقابلے میں عرب کے ساتھ دشمنی کا اظہار کیا ہے ، یہی ایک بات کافی ہے کہ ہم آپ کے ساتھ خیر سگالی کے تعلقات کو منقطع کر دیتے ہیں ، امریکی کمپنیوں کے ہمارے ساتھ کیے گئے تمام معاہدوں کو منسوخ قرار دے دیتے ہیں لیکن ہم نے جلد بازی سے کام لینا مناسب نہیں سمجھاکہ ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ آپ کا ملک فلسطین کے موقف پر نظرثانی کرے گا اور باطل کی تائید سے کنارہ کش ہوکر واضح حق کا ساتھ دےگا۔ ہم اس معاملے میں آپ پر کوئی دباؤ نہیں ڈالنا چاہتے، نہ اسکے لیے تجارتی تعلقات کو ذریعہ بنانا چاہتے ہیں کیونکہ ہم عربی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حق کو بذریعہ حق غالب کیا جا ئے نہ کہ ان یہودیوں کی طرح جو رشوت دے کر مختلف ملکوں کو اپنی تائید پر ابھارنےکی کوشش کرتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود جب ہمیں اس بات کا یقین ہو جائے کہ حق کو کیوں پامال کیا جارہا ہے تو ہم اس کے تحفظ کے لیے ہر وہ وسیلہ اختیار کریں گے جو اسمیں مؤثر ثابت ہو گا۔ خصوصاً عرب لیگ قومیت اور اسکے حقوق کی حفاظت کے لیے جو بھی تجویز منظورکرے گی ، ہم اسکی تائید میں ہوں گے۔
یقیناً یہ بات میرے لیے باعث مسرت ہے کہ جو امریکی ہمارے ملک میں مقیم ہیں ، وہ ہمارے مہمان ہیں ۔جب تک وہ ہماری سرزمین میں ہیں ، انہیں ہماری جانب سے کوئی شکایت یا تکلیف نہیں ہوگی۔ آپ اس بات کا اطمنا ن رکھیں۔سب سے زیادہ اگر انکو کوئی تکلیف پہنچ سکتی ہےتو یہی کہ ہمارے ملک میں انکے قیام کی مدت مختصر کرکے پوری عزت و اکرام کے ساتھ ان کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے ان کے ملک امریکہ واپس بجھوادیں۔
اخیر میں صاحب صدر ! میں آپکو یاد دلاتا چلوں کہ جن تجارتی اشیاء کی بنیاد پر ہمارے مابین اقتصادی تعلقات قائم ہیں ، یہ وہ مال ہے کہ دنیا کی مارکیٹ میں اس کے فروخت کرنے والے بہت کم ہیں لیکن اس کے خریدنے والے بہت زیادہ ۔
صاحب صدر ! میری نیک تمنائیں اور آداب قبول فرمائیں ۔​
مخلص عبدالعزیز آل سعود
ملک المملکتہ العر بیتہ السعودیۃ​
غزنوی صاحب! بلاشبہ ایک انتہائی تاریخی خط وکتابت شئیر کی ہے۔ پہلی بار امریکہ کو ایسا جرأت مندانہ جواب دیکھنے کو ملا۔ پڑھ کر طبیعت خوش ہوگئی۔:)
پس پردہ امریکی سازشوں کو محفل پر بے نقاب کرنے پر آپ مبارک باد کے مستحق ہیں۔:)
اللہ آپ کو خوش رکھے اور تمام عالم اسلام کو اغیار کی سازشوں سے محفوط ومامون فرمائے۔ آمین
 
غزنوی صاحب! بلاشبہ ایک انتہائی تاریخی خط وکتابت شئیر کی ہے۔ پہلی بار امریکہ کو ایسا جرأت مندانہ جواب دیکھنے کو ملا۔ پڑھ کر طبیعت خوش ہوگئی۔:)
پس پردہ امریکی سازشوں کو محفل پر بے نقاب کرنے پر آپ مبارک باد کے مستحق ہیں۔:)
اللہ آپ کو خوش رکھے اور تمام عالم اسلام کو اغیار کی سازشوں سے محفوط ومامون فرمائے۔ آمین
مشکور۔۔۔خوش رہیں۔۔۔سلامت رہیں۔۔
اللہ آپ کو خوش رکھے اور تمام عالم اسلام کو اغیار کی سازشوں سے محفوط ومامون فرمائے
آمین
 

ٹرومین

محفلین
میں اپنے ان مسلمان بھائیوں کے لیے انتہائی محبت اور شفقت کے جذبات رکھتا ہوں جو فلسطین میں صیہونی حملہ آوروں کے خلاف اپنے وطن کا دفاع کرتے ہوئے نذرانہ شہادت پیش کر رہے ہیں کیونکہ ہم عرب لوگ اس کو ایسا شرف سمجھتے ہیں جو ہمارے لیے قابل فخر ہے ۔ ہم کسی بھی قیمت پر ان فلسطینی بھائیوں کی تائید سے دست بردار نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ صیہونی حملہ آوروں کے خوابوں کو چکنا چور نہ کردیں۔
میں اس سے قبل کئی دفعہ ساری دنیا پر یہ بات واضح کر دی ہے کہ میں أپنے تمام بیٹوں سمیت فلسطین کے لیے لڑنے مرنے پر تیار ہوں۔پھر اس کے باوجود میرے لیے تیل کے یہ کنوئیں میری اپنی جان اور میری اولاد سے کیسے عزیز تر ہو سکتے ہیں؟
مخلص عبدالعزیز آل سعود
ملک المملکتہ العر بیتہ السعودیۃ
محفل کے ٹرومین کے بھی یہی جذبات ہیں۔:)
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
اخیر میں صاحب صدر ! میں آپکو یاد دلاتا چلوں کہ جن تجارتی اشیاء کی بنیاد پر ہمارے مابین اقتصادی تعلقات قائم ہیں ، یہ وہ مال ہے کہ دنیا کی مارکیٹ میں اس کے فروخت کرنے والے بہت کم ہیں لیکن اس کے خریدنے والے بہت زیادہ ۔
سارے مکالمے کا نچوڑ تو یہ تیل ہی ہے۔
 
یہود نسل ہے یا مذہب !
یہودی ۔۔۔دراصل یعقوب علیہ السلام کے بیٹے یہودا سے منسوب ہیں ۔۔۔اسکی اولاد ہیں۔۔۔۔اور باپ سے جو اولاد ہوتی ہے وہ نسل ہی کہلاتی ہے ۔۔۔جس طرح عرب مذہب نہیں قوم ہے۔۔۔اسی طرح یہود بھی قوم ہے ۔۔۔۔۔لیکن ایک بات ہے یہودیت مذہب بھی ہے ۔۔۔لیکن عربیت مذہب نہیں ہے ۔۔۔
یہ میری اپنی رائے ہے جس کے غلط ہونے کا بھي امکان ہے ۔۔۔
 
سارے مکالمے کا نچوڑ تو یہ تیل ہی ہے۔
صاحب یہ تو انکا منہ توڑنے کے لیے تھا کہ جس چیز کو تم لوگ سمجھتے ہوکہ ہم نہیں لیں گے تو کوئی اور بھی نہیں لے گا یہ بھول جاؤ۔۔۔تیل مسئلہ نہیں تھا۔۔۔مسئلہ باطل کی حمایت کا تھا اور حق کو دبانے کا تھا۔۔۔۔جس سے شاہ نے انکار کر دیا۔۔
 
یہودی ہمیشہ سے ایک قوم شمار کئے جاتے رہے ہیں۔ بنی اسرائیل سے لیکر آج تک یہودی ایک قوم بھی ہیں اور مذہب بھی۔
صیہونی پراپیگنڈا۔
یہ وہ تشہیر ہے جو یہود چانکیائی اصول پر چلتے ہوئے کرتے آ رہے ہیں کہ اتنا زیادہ جھوٹ بولو کہ وہ سچ لگنے لگ جائے۔
یہود میں تین بڑی نسلیں موجود ہیں ۔ قازار، ہسپانوی اورعرب۔ اصل یہود صرف عرب تھے باقی دونوں نسلیں بہت بعد میں یہودی ہوئیں لیکن بدقسمتی سے اب سب سے زیادہ تعداد قازاریوں کی ہے اور انھی کا اسرائیل پر کنٹرول ہے۔
 
صیہونی پراپیگنڈا۔
یہ وہ تشہیر ہے جو یہود چانکیائی اصول پر چلتے ہوئے کرتے آ رہے ہیں کہ اتنا زیادہ جھوٹ بولو کہ وہ سچ لگنے لگ جائے۔
یہود میں تین بڑی نسلیں موجود ہیں ۔ قازار، ہسپانوی اورعرب۔ اصل یہود صرف عرب تھے باقی دونوں نسلیں بہت بعد میں یہودی ہوئیں لیکن بدقسمتی سے اب سب سے زیادہ تعداد قازاریوں کی ہے اور انھی کا اسرائیل پر کنٹرول ہے۔
آپکی معلومات بڑی وسیع ہیں ۔۔۔۔کیا انکے متلق کوئی خاص کتابچہ ہے ؟؟؟
 

arifkarim

معطل
صیہونی پراپیگنڈا۔
یہ وہ تشہیر ہے جو یہود چانکیائی اصول پر چلتے ہوئے کرتے آ رہے ہیں کہ اتنا زیادہ جھوٹ بولو کہ وہ سچ لگنے لگ جائے۔
یہود میں تین بڑی نسلیں موجود ہیں ۔ قازار، ہسپانوی اورعرب۔ اصل یہود صرف عرب تھے باقی دونوں نسلیں بہت بعد میں یہودی ہوئیں لیکن بدقسمتی سے اب سب سے زیادہ تعداد قازاریوں کی ہے اور انھی کا اسرائیل پر کنٹرول ہے۔
قازاری، ہسپانوی اور مشرق وسطیٰ کے یہودی مختلف ڈی این اے ٹیسٹس میں دیگر مقامی آبادیو ں کی نسبت ایک دوسرے سے زیادہ قریب پائے گئے ہیں۔ یہودیوں کی آبائی زبان عبرانی ہے، اسکا عربوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔ آج بھی مملکت خداداد اسرائیل میں جدید عبرانی ہی بولی جاتی ہے، عربی نہیں۔
439_2012_1235_Fig2_HTML.jpg
 
Top