اجمل خان
محفلین
امن و امان بمقابلہ اسلامی عقائد
امن و امان اللہ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے۔
لیکن آج وطنِ عزیز میں اور قریب ہر مسلم ملک میں امن و امان کا جو مسٔلہ ہے‘ دہشت گردی و خون خرابہ جو عام ہے وہ کس کا پیدا کردہ ہے ؟ کیا یہود گُس آئیے ہیں یا نصرانی و ہنود نے یہ انارکی پھیلا رکھی ہے ؟ اگر یہ ان کی سازشوں کا نتیجہ ہے تو بھی اِن سازشوں میں ملوث ہونے والے کوئی غیر تو نہیں، مسلمان ہی ہیں۔
یہ کون ہیں جو مسلم ملک کے مسلم معاشرے میں فساد برپا کر رہے ہیں‘ دہشت گردی پھیلا رہے ہیں اور مسلمانوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کر رہے ہیں ؟
یہ کون ہیں جو مسجدوں‘ مندروں‘ چرچوں‘ اسکولوں‘ بازاروں‘ چوراہوں وغیرہ پہ خود کش حملہ و دھماکہ کرکے آنِ واحد میں سیکڑوں مسلمانوں کی جان لے لیتے ہیں ؟
یہ کون ہیں جو اپنے ہی لوگوں کوٹارگیٹ کلنگ پہ مامور کیا ہوا ہے اور یہ کون ہیں جو اُن کے اشاروں پہ ٹارگیٹ کلنگ کرتے پھرتے ہیں ؟
یہ کون ہیں جو نئی نسل کے ہاتھوں میں آتش گیر اسلحہ تھما کر دہشت گردی کیلئے انہیں ملک کے گلی کوچوں میں آوارہ کتوں کی طرح چھوڑ دیا ہے ؟
یہ کون ہیں جو کلاشنکوف ‘ پستول، دستی بم وغیرہ لئے پھرتے ہیں اور آنِ واحد میں بچہ بوڑھا جوان کسی بھی مسلمان کو ان کے عزیزوں کے سامنے بھُون ڈالتے ہیں ؟
یہ کون ہیں جو بنکوں‘ دوکانوں و مکانوں میں دن دھاڑے ڈاکہ ڈالتے ہیں اور مزاحمت کرنے ولوں کو قتل کر دیتے ہیں ؟
یہ کون ہیں جو گلی کوچوں‘ سڑکوں پہ و چوراہوں میں دن دھاڑے لوگوں کو لُوٹتے ہیں اور ذرا سی مزاحمت کرنے پر انہیں بے دریغ قتل کر دیتے ہیں ؟
یہ کون ہیں جو بسوں پہ لوگوں کے موبائل فون اور پرس چھینتے ہیں اور مزاحمت کرنے والوں کو بھری بس میں گولی مار دیتے ہیں ؟
یہ کون لوگ ہیں جو اپنی ماں بہن ہونے کے باوجود دوسروں کی ماں بہن بہو بیٹیوں کو سر راہ چھیڑتے ہیں اور ان کی عزت تارتار کرتے ہیں‘ جوان بھائی اور بوڑے باپ کے سامنے جوان بہن و بیٹی کی ریپ / عصمت دری کرنے سے نہیں چُوکتے ؟
یہ کون لوگ ہیں جو اپنی نفس کو آسودہ کرنے کے لیے ہر طرح کی کرپشن میں ملوث ہیں، رشوت خوری، چوری، ڈکیتی، شراب نوشی، بے حیائی، فحاشی، زناکاری، بدکاری وغیرہ وہ کون سی برائی ہے جو یہ لوگ نہیں کرتے ؟
عجب بات ہے۔
یہ یہود و نصاریٰ یا ہنود نہیں ہیں۔ یہ باہر سے آنے والے ہمارے دشمن نہیں ہیں۔ یہ سب باہر سے پل بڑھ کر‘ باہر سے ٹرینگ لے کر ہمارے ملک میں دہشت گردی کرنے نہیں آئے۔ یہ اپنے ملک کے ہی لوگ ہیں۔
افسوس کہ
یہ سب بھی مسلمان ہیں‘
یہ سب ہی مسلم ملک میں مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہونے والے مسلم گھرانے اور مسلم معاشرے میں پروان چڑھنے والے مسلمان ہیں۔
کیا ان سب کو اسلام کی بنیادی عقائد توحید‘ رسالت و آخرت کے بارے میں نہیں بتایا گیا ؟
جی اصل مسٔلہ ہی یہی ہے۔
مسلم ملک و معاشرے اور گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود آج مسلمانوں کی اکثریت کو اسلامی تعلیمات کا صحیح علم نہیں اور نہ ہی ان میں ایمان و عقیدہ کی پختگی ہے‘ نہ ہی انہیں اللہ کا خوف ہے‘ نہ ہی ان کا آخرت پر ایمان ہے اور نہ ہی یہ رسول ﷺ کو ماننے و اتباع کرنے والے ہیں۔
یہ پیدا تو فطرت اسلام پہ ہوئے تھے۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’ ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اس کو یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں۔‘‘
آج مسلمانوں میں بھی یہی ہے۔ پاک دل لے کر فطرت اسلام پر پیدا ہونے والے بچے کو اس کے والدین شرک و بدعت والا ماحول دیکر اللہ کی نافرمانیوں میں مبتلا کرکے اُس کو فطرت اسلام سے دور کر دیتے ہیں۔
یوں آج کے مسلم ملک‘ معاشرے و گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود اکثریت شرک ہی میں مبتلا ہیں۔
اور آج اِس اُمت میں جو سب سے بڑا فساد ہے وہ شرک و بدعات کا فساد ہے۔
جب شرک و بدعات کا فساد آتا ہے تو اس میں دوسرے سارے فسادات خود بخود سر اٹھا لیتے ہیں‘ یقین نہیں تو اقوامِ عالم کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے، نوح علیہ السلام کی قوم میں میں بُت پرستی کی ابتداء سے لیکر آج تک جو بھی قوم شرک میں مبتلا ہوئی انہیں دیگر سارے فسادات نے جکڑ لیا۔
آج اسلام کی بنیادی عقائد توحید‘ رسالت و آخرت سے ناآشنا مسلمانوں میں نہ ہی اللہ کا خوف ہے اور نہ ہی آخرت میں اُس جبار و قہار کی پکڑ کا کوئی ڈر ہے تو ایسے لوگ دنیا میں فساد ہی مچائیں گے، جسے ہم ہر مسلم ملک میں دیکھ رہے ہیں کہ فساد ہی فساد ہے اور امن و امان مفقود ہے۔
حل کیا ہے۔
فسادات کیسے ختم ہوں‘ امن و امان کیسے قائم ہو۔
مسلم ملک و معاشرے میں دہشت گردی نہ ہو‘ مسلمان فساد میں نہ پڑیں‘ مسلمان مسلمان کا خون نہ بہائیں، ایسا کیسے ممکن ہو۔
ان تمام فسادات کا‘ ان تمام برائیوں کا‘ امن و امان بحال کرنے کا حل ایک ہی ہے اور وہ ہے ایمان و عقائد کی درستگی۔ لوگوں میں اسلام کی بنیادی عقائد توحید‘ رسالت و آخرت کی پختگی کے بغیر امن و امان کا قیام ممکن نہیں۔
جب ہمارے عقائد درست ہوں گے تو ہمیں ایمان کی پختگی نصیب ہو گی اور ہمارے دلوں میں اپنے رب کریم کی اہمیت ہوگی ‘ اپنے رب کریم کی محبت ہوگی اور اپنے رب کریم کا خوف ہوگا اور ہم اپنے رب کریم کی نافرمانیوں سے بچتے ہوئے اللہ کی زمین میں کوئی فساد برپا نہیں کریں گے اور ہمارے معاشرے میں امن قائم ہوگا۔
فسادات ختم کرنے اور امن و امان قائم کرنے کیلئے اتنا یقین ہی کافی ہے کہ اللہ سمیع‘ علیم و بصیر ہے۔
کیا ہم سب نہیں جانتے کہ
إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
بے شک الله سننے والا جاننے والا ہے۔
إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
بیشک اللہ دلوں کی (پوشیدہ) باتوں کو خوب جاننے والا ہے۔
إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
بےشک اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے ۔
إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ
بے شک الله سب کچھ جاننے والا خبردار ہے ۔
بے شک الله سننے والا جاننے والا ہے۔
إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
بیشک اللہ دلوں کی (پوشیدہ) باتوں کو خوب جاننے والا ہے۔
إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
بےشک اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے ۔
إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ
بے شک الله سب کچھ جاننے والا خبردار ہے ۔
إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ ﴿١٢﴾ سورة البروج
یقیناً تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے۔
یقیناً تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے۔
جس کا یقین ہوگا کہ موت کے بعد اسے دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور اس کے اچھے برے اعمال کا حساب لیا جائے گا اور پھر جنت یا جہنم میں ایک ہمیشہ کی زندگی ہے اور جسے دنیا میں عذاب میں مبتلا اپنے جیسے دوسرے بندوں کو دیکھ کر دنیا سے ہزاروں لاکھوں گنا زیادہ بھیانک جہنم کی عذاب کا احساس ہو جائے اور جس کے دل میں اللہ کی سب سے بڑی نعمت جنت کو حاصل کرنے کا شوق پیدا ہو جائے، کیا وہ اپنے رب کی نافرمانی کرتے ہوئے دنیا میں فساد برپا کرے گا یا امن و امان کا مسٔلہ پیدا کرنے کی کبھی سوچے گا ؟
اور جب عقیدۂ رسالت کا علم ہوگا اور اس بات پرپختہ ایمان و یقین ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ و سلم کی سچی پیروی کئیے بغیر نہ ہی ہماری دنیا ہی سنور سکتی ہے اور نہ ہم آخرت میں سرخرو ہو سکتے ہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلیہ و سلم سے سچی محبت پیدا ہوگی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلیہ و سلم کا اتباع کرنا آسان ہوگا پھرہم بدعات کو چھوڑ کر سنت نبوی صلی اللہ علیہ و آلیہ و سلم کی پیروی کرنے والے ہو جائیں گے۔ جب ہمیں معلوم ہوگا کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلیہ و سلم نے ہنسی مذاق میں اپنے ساتھی کو پریشان کرنے والے سے فرمایا :
’’ ایک مسلمان کیلئے حلال نہیں کہ وہ دوسرے مسلمان کو مضطرب کرے۔‘‘
’’ کسی آدمی کیلئے حلال نہیں کہ وہ ایک مسلمان کو پریشان کرے۔‘‘
مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں اور اسے مومن بھی اسی وجہ سے کہا جا تا ہے کہ وہ امن پسند اور امن دینے والا ہو تا ہے ۔
پیغمبر امن و سلامتی نے فرمایا:
جس آدمی نے اپنے مسلمان بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ کیا اس پر اﷲ تعالیٰ کے فرشتے لعنت کرتے ہیں جب تک وہ باز نہیں آتا اس پر لعنت ہوتی رہتی ہے ۔
لہذا آپ ﷺ کو ماننے والا‘ آپ ﷺ پر جا ن نچھاور کرنے والا ‘ آپ ﷺ کی اتباع کرنے والا اور آپ ﷺ تعلیمات کوجاننے اور عمل کرنے والا
مسلمان مسلمان کو کیوں کرپریشان کرے گا ؟
مسلمان مسلمان کو کیوں کر قتل کرے گا ؟
مسلمان مسلمان کا چین و سکون کیوں غارت کرے گا ؟
مسلمان مسلمان کا مال ناجائز کیوں ہڑپ کرے گاِ ؟
مسلمان مسلمان کی بہن بہو بیٹی کی عزت کیوں تار تار کرے گا ؟
مسلمان کرپشن ‘ بد عنوانی و رشوت خوری کیوں کرے گا ؟
مسلمان چوری، ڈکیتی ‘ قتل و غارت گری کیوں کرے گا ؟
مسلمان بے حیائی‘ فحاشی، زناکاری، بدکاری وغیرہ کا کام کیوں کر کرے گا ؟
مسلمان مسلمان کو کیوں کر قتل کرے گا ؟
مسلمان مسلمان کا چین و سکون کیوں غارت کرے گا ؟
مسلمان مسلمان کا مال ناجائز کیوں ہڑپ کرے گاِ ؟
مسلمان مسلمان کی بہن بہو بیٹی کی عزت کیوں تار تار کرے گا ؟
مسلمان کرپشن ‘ بد عنوانی و رشوت خوری کیوں کرے گا ؟
مسلمان چوری، ڈکیتی ‘ قتل و غارت گری کیوں کرے گا ؟
مسلمان بے حیائی‘ فحاشی، زناکاری، بدکاری وغیرہ کا کام کیوں کر کرے گا ؟
اور جب اسے معلوم ہوگا کہ رسو ل صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مومن وہ ہے جس کے شر سے لوگ محفوظ رہیں۔
تو مسلمان کسی بھی غیر مسلم کو نقصاں پہنچانے یا قتل کرنے کی کیوں سوچے گا۔
ایسا تب ہی ممکن ہے جب ہمارے عقائد درست ہو جائیں ‘ ہمارا ایمان و یقین پختہ ہو جائے‘ ہم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجائیں‘ اللہ کے فرمانبردار اور نبی صلی اللہ علیہ و آلیہ و سلم کے اطاعت گزار بن جائیں اور ہم مسلمان بن کر جینے والے اور مسلمان بن کر مرنے والے بن جائیں۔
آج دنیا کی ترقی یافتہ مغربی ممالک میں جدید ترین کیمرے ‘ سینسر و راڈار اور تمام جدید ترین وصائل سے مالامال پولس اور سیکوریٹی اہل کاروں کی مدد سے فسادات ختم کرنے کی سعی کے باوجود وہاں بھی ایسا نہیں کہ ایک اکیلی عورت دور دراز کا سفر کرے اور اسے سوائے اللہ کے خوف کے اور کوئی خوف نہ ہو جب کہ اسلام محض عقائد کی درستگی کی بنیاد پر ایسا امن و امان والا معاشرہ قائم کرکے ثابت کر چکا ہے۔
صحیح بخاری میں عدیؓ بن حاتم کی روایت سے ہے کہ حضورؐ نے فرمایاکہ
’’ بہت جلد امن کا ایسا دوربھی آنے والاہے جب کجاوے میں ایک اکیلی خاتون حیرہ (اعراق ‘ بہت دوردراز علاقہ) سے کعبہ کے طواف کے لئے سفرکرے گی اورمکہ پہنچ کرکعبے کاطواف کرے گی مگراُسے سوائے اللہ کے خوف کے اورکوئی خوف نہ ہوگا۔( عدی کہتے ہیں کہ بعد میں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ ایک اکیلی عورت حیرہ سے آتی ہے ، کعبہ کاطواف کرتی ہے اوراللہ کے سوا اس کوکسی کاڈرنہیں ہوتا) ۔‘‘ (صحیح بخاری کتاب المناقب حدیث نمبر3595)۔
ماضی کی طرح آج بھی اسلام کی ہی بنیاد پرملک و ملت اور ہر شہر و بستی میں ایسا امن و امان قائم ہو سکتا ہے کہ ایک اکیلی عورت کو بھی سوائے اللہ کے کسی کا ڈر و خوف نہ ہوگا لیکن اس کیلئے ضروری ہے عقیدے کی اصلاح اور ایمان کی پختگی۔قوموں کی تاریخ میں ہمیشہ سے سنت اﷲ یہ رہی ہے جب بھی زمین پہ فسادات عروج پہ پہنچی‘ اللہ رب العزت نے ابنیاء علیہ السلاۃ و السلام کے ذریعے اپنے بندوں کی عقیدے کی اصلاح کروایا۔ سیرت طیبہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے شروعات میں عقیدے کی اصلاح کوہی اپنی محنت اور کاوشوں کا مرکز بنایا۔ قرآن مجید میں بھی زیادہ تر مضامین عقائد سے متعلق ہیں۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اب کسی نبی کو نہیں بھیجے گا‘ اب یہ کام امت محمدیہ ﷺ کو ہی کرنا ہے۔
لہذا ضروری ہے کہ ہم اپنی عقیدے کی اصلاح سے معاشرے کی اصلاح کریں۔....
آخری تدوین: