ندیم جاویدعثمانی
محفلین
امن -۲
امّاں کُچھ کھانے کو دے دو
دیکھو اب یہ پیٹ بھی میرا
کمر سے میری جا لگا ہے
ماں کی آنکھ سے ٹپکے آنسو
خاک میں مل کے خاک تھے آنسو
ابھی دیتی ہوں، ابھی کُچھ دیتی ہوں کی
گردان کرتی وہ گونگی آنکھیں
دلاسے کے لفظوں میں لِپٹے
جھوٹی تسیلیاں دیتے وہ آنسو
دھڑ دھڑ دروازہ بجتا ہے
بچّہ اُٹھ کر جاتا ہے
دروازے پر کُچھ مُحلے والے
ہمراہ اُن کے اک چاول کی بوری
دیکھ کے
بچّہ خوشی سے چلایا
اماں ۔ اماں جلدی باہرآکر دیکھو
کسی خدا کے بندے نے
ہمارے لئیے چاول بھیجھے ہیں!
ماں نے گھبرا کر بوری کو دیکھا
بچّے کو پیچھے ہٹاتے ہوئے بولی
اس بوری میں گر چاول ہیں
چاولوں سے کب خوں بہتا ہے؟
پھر کپکپاتے مُردہ ہاتھوں نے
جیسے ہی بوری کو کھولا
چھوٹے چھوٹے گوشت کے ٹکڑے
اُس بوری سے جھانک رہے تھے
تھوڑی دیر بعد جب وہ
اپنی مُردہ ممتا کے ہمراہ
گوشت کے ان ٹکڑوں کو
یوں بھیٹی جوڑ رہی تھی
جیسے ہر ٹکڑا زندہ ہوجائے گا
اُس کے بچّے کا چہرہ
جیسے پھر سے بن جائے گا
اُس کو پھر محسوس ہوا یوں
جیسے گوشت کا ہراک ٹکڑا
اُس سے یہ بول رہا ہو
’اماں تُم بھی حدکرتی ہو
کراچی میں رہ کر ڈرتی ہو‘
’ندیم جاوید عُثمانی‘
امّاں کُچھ کھانے کو دے دو
دیکھو اب یہ پیٹ بھی میرا
کمر سے میری جا لگا ہے
ماں کی آنکھ سے ٹپکے آنسو
خاک میں مل کے خاک تھے آنسو
ابھی دیتی ہوں، ابھی کُچھ دیتی ہوں کی
گردان کرتی وہ گونگی آنکھیں
دلاسے کے لفظوں میں لِپٹے
جھوٹی تسیلیاں دیتے وہ آنسو
دھڑ دھڑ دروازہ بجتا ہے
بچّہ اُٹھ کر جاتا ہے
دروازے پر کُچھ مُحلے والے
ہمراہ اُن کے اک چاول کی بوری
دیکھ کے
بچّہ خوشی سے چلایا
اماں ۔ اماں جلدی باہرآکر دیکھو
کسی خدا کے بندے نے
ہمارے لئیے چاول بھیجھے ہیں!
ماں نے گھبرا کر بوری کو دیکھا
بچّے کو پیچھے ہٹاتے ہوئے بولی
اس بوری میں گر چاول ہیں
چاولوں سے کب خوں بہتا ہے؟
پھر کپکپاتے مُردہ ہاتھوں نے
جیسے ہی بوری کو کھولا
چھوٹے چھوٹے گوشت کے ٹکڑے
اُس بوری سے جھانک رہے تھے
تھوڑی دیر بعد جب وہ
اپنی مُردہ ممتا کے ہمراہ
گوشت کے ان ٹکڑوں کو
یوں بھیٹی جوڑ رہی تھی
جیسے ہر ٹکڑا زندہ ہوجائے گا
اُس کے بچّے کا چہرہ
جیسے پھر سے بن جائے گا
اُس کو پھر محسوس ہوا یوں
جیسے گوشت کا ہراک ٹکڑا
اُس سے یہ بول رہا ہو
’اماں تُم بھی حدکرتی ہو
کراچی میں رہ کر ڈرتی ہو‘
’ندیم جاوید عُثمانی‘