مغزل
محفلین
غزل
امیدِ عاقبتِ کار کے برابر ہے
یہ اک درخت کہ دیوار کے برابر ہے
زیادہ دور نہیں امن و جنگ آپس میں
یہ فاصلہ تری تلوار کے برابر ہے
تجھے خبر نہیں یہ ایک بار کا انکار
ہزار بار کے اقرار کے برابر ہے
کھلی ہے اور کوئی گاہک ادھر نہیں آتا
دکانِ خواب کہ بازار کے برابر ہے
ہو اس کے بعد زمانوں کا کیا حساب کتاب
جب ایک لمحہ لگاتار کے برابر ہے
میں اس لیے بھی زباں کھولتا نہیں کہ ابھی
سکوت ہی یہاں اظہار کے برابر ہے
ہوں اتنا بے سروساماں کہ اس دفعہ مجھ کو
یہ برگِ سبز بھی اشجار کے برابر ہے
مجھے پسند ہے جی جان سے یہ عیبِ سخن
جہاں جہاں میرے معیار کے برابر ہے
وہی پسینہ پسینہ ہوں رات دن کہ ظفر
ہوا یہاں میری رفتار کے برابر ہے
ظفر اقبال
امیدِ عاقبتِ کار کے برابر ہے
یہ اک درخت کہ دیوار کے برابر ہے
زیادہ دور نہیں امن و جنگ آپس میں
یہ فاصلہ تری تلوار کے برابر ہے
تجھے خبر نہیں یہ ایک بار کا انکار
ہزار بار کے اقرار کے برابر ہے
کھلی ہے اور کوئی گاہک ادھر نہیں آتا
دکانِ خواب کہ بازار کے برابر ہے
ہو اس کے بعد زمانوں کا کیا حساب کتاب
جب ایک لمحہ لگاتار کے برابر ہے
میں اس لیے بھی زباں کھولتا نہیں کہ ابھی
سکوت ہی یہاں اظہار کے برابر ہے
ہوں اتنا بے سروساماں کہ اس دفعہ مجھ کو
یہ برگِ سبز بھی اشجار کے برابر ہے
مجھے پسند ہے جی جان سے یہ عیبِ سخن
جہاں جہاں میرے معیار کے برابر ہے
وہی پسینہ پسینہ ہوں رات دن کہ ظفر
ہوا یہاں میری رفتار کے برابر ہے
ظفر اقبال