امید ابھی باقی ہے سرحد کے دونوں پار

محمد علم اللہ اصلاحی
ایک ایسے دور میں جب سرحد کے دونوں طرف نفرت کی آندھی چل رہی ہو اس وقت اگر امن کے پیروکار دونوں ملکوں میں آواز اٹھاتے ہیں تو یہ قابل تعریف ہے۔ پاکستان میں سربجیت کے قتل کے بعد جس طرح سے ہندوستان میں ماحول زہریلا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس میں میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا بہت ہی خراب رول ادا کر رہا ہو ایسے میں پاکستان کے اہم اخبار جہاں اس مسئلہ پر حکومت پاکستان کے رویہ کی تنقید کر رہے ہیں وہیں ہندوستان میں بھی امن کی آواز کمزور نہیں پڑی ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مار کنڈے کاٹجو نے بھی انسانی بنیاد پر جموں جیل میں حملے میں زخمی ثنا ءاللہ کو پاکستان بھیجنے کی اپیل حکومت سے کی ہے۔

پاکستان کے اہم اخبار دی ایکسپریس ٹربیون نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ صرف یہ کافی نہیں ہے کہ یہ پتہ لگایا جائے کہ سربجیت پر جیل میں حملہ کن لوگوں نے کیا بلکہ ان جیل حکام سے سختی سے نمٹا جانا چاہیے جن کے اوپر تحفظ کی ذمہ داری تھی ۔اخبار لکھتا ہے کہ سربجیت کی حفاظت کی ذمہ داری پاکستان کی تھی۔ اس کے خاندان نے پاکستان سے انصاف مانگا تھا۔ پنجاب کے قائم مقاموزیر اعلی نجم سیٹھی نے معاملے کی عدالتی جانچ کے احکامات دیئے ہیں۔ یہ ابھی نہیں کہا جا سکتا کہ یہ حملہ بائی پلان تھا یا نہیں۔

اخبار لکھتا ہے کہ یہ شدید تشویش ہے کہ ایک ہندوستانی قیدی جس کاوکیل مستقل اس کی جان کو شدید خطرہ ہونے کے بارے میں حکومت کو بتاتا رہا، اس کو پاکستانی جیل میں قیمہ بنانے کی حد تک پیٹا گیا۔ یہ جیل حکام کی شدید صریح مجرمانہ غفلت ہے۔ اخبار زور دے کر لکھتا ہے کہ حکومت پاکستان کو اس بات کا جواب دینا ہی ہوگا کہ سربجیت کی جان کو شدید خطرہ ہونے کی اس کے وکیل کی وارننگ کے بعد پاکستان کی حکومت نے اس کی حفاظت کے لیے کیا اقدامات اختیار کئے؟

اخبار لکھتا ہے کہ اس واقعہ نے نہ صرف سربجیت کی ایک قیدی کے طور پر حقوق کی خلاف ورزی کی گئی بلکہ جیل حکام کی طرف سے برتی گئی سنگین خامی نے پاکستانی جیلوں کی صورت حال کو اجاگر کر دیا ہے۔اخبار کہتا ہے کہ ان پولیس افسران کے خلاف سخت سے سخت ایکشن لیا جانا چاہئے جن کے اوپر سربجیت کی حفاظت کی ذمہ داری تھی۔

اس واقعہ کو ہند و پاک تعلقات میں دراڑ ڈالنے والا بتاتے ہوئے اخبار لکھتا ہے کہ امید کی جانی چاہئے کہ اس واقعہ سے پیدا سفارتی تنازعہ کو حل کرنے کے لیے پاکستان کی حکومت ایک منصفانہ جانچ کرائے گی۔ویسے بھی اس واقعے نے پاکستان کی ساکھ کو بین الاقوامی سطح پر بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ اخبار زور دے کر لکھتا ہےہندوستان سمیت اپنے تمام پڑوسی ملکوں سے بہتر اور ملنسار تعلق قائم رکھنا پاکستان کے ہی مفاد میں ہے۔ سربجیت کی موت کے سانحہ کو آسانی سے روکا جا سکتا تھا۔ اخبار کہتا ہے کہ اس واقعہ کی غیر جانبدارانہ جانچ ہونی چاہیے اور مجرم حکام کوسزا دی جانی چاہیے۔

سوال یہ ہے کہ کیاہندوستانی میڈیا سے بھی ایسی ہی سمجھداری اور سنجیدگی کی امید کی جا سکتی ہے۔ افسوس ہے کہ اس کا جواب فی الحال نہ میں ہی ہے۔اسی طرح پاکستان کے معروف صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن بینا سرور نے بھی مسلسل ٹوئٹر پر اس مسئلے پر پاکستانی حکومت کی تنقید کی اور انتہا پسندوں کو کرارے جواب بھی دیے۔ انہوں نے کہا کہ بے شک جب قانون اپنا کام کرتا ہے تب اول انصاف ہونا ہی نہیں چاہیے بلکہ یہ ہوتا ہوا دکھائی بھی دینا چاہیے۔

ہندوستان میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے بھی جموں جیل میں حملے میں زخمی ثناءاللہ کو پاکستان بھیجنے کی پاک حکومت کا مطالبہ انسانی بنیاد پر قبول کرنے کی اپیل حکومت سے کی ہے۔انھوں نےہندوستان اور پاکستان دونوں کی حکومتوں سے فوری طور پر ایک کمیٹی قائم کرنے کی اپیل کی ہے جو دونوں ممالک میں قید ایسے قیدیوں جنہیں مشتبہ یا ناکافی ثبوتوں یاکمفیشن (اعتراف) کی بنیاد پر مجرم ٹھہرایا گیا ہو، کی جلد رہائی کا پروانہ حاصل کر سکیں ۔

جسٹس کاٹجو کہتے ہیں کہ بہت سے لوگوں کو مبینہ اعتراف کی بنیاد پر مجرم ٹھہرایا گیا ہے اور ہر کوئی جانتا ہے کہ ہمارے ممالک میں ایسے اعترافات کیسے لیے جاتے ہیں (تھرڈ ڈگری ٹارچرکے ذریعہ)۔ اس لئے سزا کے لیے ان (کمفیشن) پر انحصار مکمل طور پر غلط ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے دوسرے ممالک کے شہریوں کے بارے میں تشویش کرتے وقت لوگ تعصبات سے شکار ہو جاتے ہیں۔ اب وقت ان تعصبات کی دیوار کو گرا دینے کا آ گیا ہے ۔ورنہ یہ تعصب بڑے ظلم کا سبب بنے گی جیسا کہ ڈاکٹر خلیل چشتی اور سربجیت سنگھ اس کا شکار بنے۔

سینئر صحافی جگموہن پھٹےلا کہتے ہیں -”سو فیصد صحیح ہیں صحافی ،سربجیت بینس اور میرے دیگر بہت سارے دوست۔ثنا ءاللہ پر ہوئے حملے کو ہم سربجیت پر ہوئے حملے کا بدلہ کہہ کر خارج نہیں کر سکتے۔ ہمیں مان ہی لینا پڑے گا کہ انسانی حقوق کے معاملے میں ہم بھی کچھ کم جاہل نہیں ہیں۔ غم اگر سربجیت کا ہے تو دکھ ثنا ءاللہ کا بھی ہونا چاہیے۔ ذمہ دونوں حکومتوں اور دونوں عوام کی ہے۔ عوام کی سطح پر بیداری کی شعلہ جلتی رہنی چاہیے۔ سونا نہیں ہے کیونکہ ہم سب کے جاگے بغیر سویرا بھی ہونا نہیں ہے۔“

سینئر ادیب موہن چھیتریہ کہتے ہیں”ہندوستان اور پاکستان ان سگے بھائیوں کی طرح ہیں، جو برج کے میلے میں بچھڑ گئے تھے۔ایک سا طرز عمل گواہ ہے۔ اب کوئی سیاستدان نیوٹن کے قوانین (عمل کا رد عمل ) کی پھر سے یاد دلا سکتا ہے۔“

سینئر صحافی اور میڈیا ناقدآنند پردھان کہتے ہیں "انسانی حقوق، جیلوں میں قیدیوں کی بدتر حالت،ایکسٹرا جوڈیشیل قتل، انصاف کے نام پر ناانصافی، یہ تمام کتنے بڑے مسائل ہیں لیکن ہندوستان کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے لیے یہاں سب ٹھیک ہے، پاکستان میں سب برا ہے۔ایسا نہیں کہنا چاہئے‘ کیونکہ اسے ہی کہتے ہیں ادھ قوم پرستی اور اتم مگدھتا"یہی وجوہات ہیں کہ سرحد کے دونوں طرف امید کی شعلے ابھی باقی ہیں۔ انسانیت یوں ہی مر نہیں سکتی۔
 
Top