زھرا علوی
محفلین
آج سے دس سال پہلے کی بات ہے جب میٹرک پاس کیا اور والد صاحب سے کالج میں داخلہ لینے کی اجازت طلب کی تو ان کی جانب سے حکم صادر ہوا کہ اب گھر بیٹھیےاور گھر داری سیکھیے ۔ یہ الفاظ گو بر خلاف توقع نہیں تھے مگر پھر بھی میرے اوسان خطا کرنے کے لیے کافی تھے۔ تمام دنیا لمحہ بھر کو تو تاریک ہوتی ہوئی محسوس ہوئی۔ ' کچھ کرنے، کچھ بننے' کے ان گنت خواب جو میں نے بڑے اہتمام سے اپنے دل کے اندر سجا سجا کر رکھے تھے راکھ کا ڈھیر ہوتے دکھائی دئیے۔
آہستہ آہستہ ہمتیں مجتمع کیں اور دل میں ٹھان لیا کہ اپنی تعلیم ،جو کہ ہمیشہ سے مجھے عزیز از جان رہی ہے، چاہے کچھ بھی ہو ہر حال میں جاری رکھوں گی۔
دو چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے مجھے بے طرح نوازا ہے۔۔ ایک تو خواب دیکھنے کی صلاحیت اور دوسرا ان کو حاصل کرنے کےلیے ہر قسم کے حالات سے مقابلہ کرنے کی ہمت۔ سو انہی کے بل بوتے سیکڑوں بار اپنا کیس والد صاحب کی عدالت میں پیش کیا۔ طرح طرح کے دلائل سے اپنا تعلیم حاصل کرنے کا حق ثابت کرنے کی کوشش کی مگر ایک جملہ ہر دلیل ہر سفارش پر بھاری تھا۔۔۔
"ہمارے خاندان ہمارے علاقے کی روایات لڑکیوں کی تعلیم کی اجازت نہیں دیتیں"۔۔۔
روایات ۔۔۔۔ ویسے مجھے آج تک سمجھ نہیں آیا یہ روایات آتی کہاں سے ہیں کیسے پیدا ہوتی ہیں کیسے اتنی مضبوط ہو جاتی ہیں کہ ہر انسانی جذبہ ان کے سامنے ریت کا ڈھیر ثابت ہوتا ہے۔ انسان کے خواب اس کے حقوق سب بے معنی ہو جاتے ہیں اور یہ سب سے بڑی حقیقت بن کے ایک ناقابل تسخیر دیوار کی شکل اختیار کر لیتیں ہیں۔ ایک ایسی دیوار کہ جو بھی اس سے ٹکرانے کی جرت کرے ریزہ ریزہ بن کے بکھرنا اس کی قسمت ٹھرتی ہے۔۔۔اور یہی جرت میں بھی کر بیٹھی تھی۔
خیر میں بہت خوش قسمت رہی ہوں کہ میرے لیے روایتوں کی یہی روکاوٹ ایک نعمت ہی ثابت ہوئی کیونکہ اسی سے میں نے حرکت، سفر، حیات اور مقصد حیات کے مفہوم سمجھے ہیں۔۔
وقت نے کروٹ لی، کچھ خراج بھی لیے مگر میں بالاخر حصول تعلیم کا حق منوانے میں بفضل خدا تعالیٰ کامیاب رہی۔۔ اور اپنے اس سفر میں بسا اوقات ایسی کامیا بیاں بھی ملیں کہ میرے والدین نے میرے خاندان نے مجھ پر فخر کیا ۔۔۔
میری مثال نے کہیں ان روایات کے طلسم کو ایسی ضرب ضرور لگائی ہے میرے بعد آنے والی میری کچھ بہنوں کے لیے رستہ تھوڑا آسان ہوا ہے۔۔۔۔آج میں اپنے خاندان اپنےعلاقےکی بچییوں کو بڑی بڑی چادروں میں لپٹا میلوں دور کا سفر پیدل طے کر کے سکولوں کو جاتا دیکھتی ہوں تو بہت سکون اور خوشی ملتی ہے اور کہیں کہیں اپنا مقصد حیات پورا ہوتا نظر آتا ہے۔۔۔۔
وہ سفر ہی کیا جو آرام و سکون سے طے ہو جائے۔
روکاوٹیں نا ہوں تو حرکت و قیام میں فرق مٹ جاتا ہے۔۔۔۔
مگر یہ بات میں سمجھ سکتی ہوں وہ چھوٹی چھوٹی معصوم نافذ شریعت کے نام پہ قتل ہونے والی بچییاں نہیں۔۔ وہ جو ریت روایتوں کے سرد جہنم سے نکل کر امید کی کرنوں کی گرمائش کو ابھی پوری طرح محسوس بھی نہ کر پائیں تھیں کہ "شریعت" کا آسیب کبھی تیزاب کی صورت ان کے چہروں پر پڑنے لگا ہے اور کبھی کانچ کے قاتل ٹکڑوں کی صورت انکے شکم پھاڑنے لگا ہے ۔
جنڈ ضلع اٹک پنجاب کی ایک چھوٹی سی تحصیل ہے یہ خوشحال خان خٹک کے مشہور پل جو کہ پنجاپ اور این- ڈپلیو- ایف- پی- کی سرحدوں کو آپس میں ملاتا ہے ،سے چند کلومیٹر دور واقعہ ہے۔
سوات کے بعد اب یہاں بھی شریعت کے نفاذ کا عمل شروع ہو گیا ہے ۔ حسب روایت یہاں بھی عورت سے ہی ،جس پر شریعت سب سے پہلے لاگو ہوتی ہے، عملی آغاز ہوا ہے۔۔۔اب تک آٹھ بچیوں کو سکول کالج جانے کی پاداش میں کانچ کے ٹکڑوں سے زخمی کیا جا چکا ہے۔۔جن میں سے ایک اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی ہے۔۔۔اور مجھے تو یہ سمجھ نہیں آیا کہ ان بچییوں پہ کوئی آزادی و موڈرنزم کا الزام بھی نہیں لگا سکتا کہ وہاں ہر لڑکی باپردہ ہی گھر سے نکلتی ہے تو پھر وہ کس شریعت کی گناہگارٹھری ہیں ؟
آج جب بڑے بھائی نے فون پہ وہاں کی صورت حال سے آگاہ کیا تو اس تشکر کے ساتھ کہ اسکی بہنیں وہاں پر نہیں اس نے تاسف کا اظہار بھی کیا کہ آج سوات والوں کے سروں پر بیتنے والے عذاب کا صحیح معنوں میں اندازا ہواہے۔۔
واقعی آگ جبتک اپنے گھر تک نا پہنچے تو تپش کا احساس نہیں ہوتا ۔۔۔
اور یہ سچ ہے کہ اب یہ آگ ہم سب کےگھروں کی دہلیزوں تک پہنچ چکی ہے۔۔۔۔۔
آہستہ آہستہ ہمتیں مجتمع کیں اور دل میں ٹھان لیا کہ اپنی تعلیم ،جو کہ ہمیشہ سے مجھے عزیز از جان رہی ہے، چاہے کچھ بھی ہو ہر حال میں جاری رکھوں گی۔
دو چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے مجھے بے طرح نوازا ہے۔۔ ایک تو خواب دیکھنے کی صلاحیت اور دوسرا ان کو حاصل کرنے کےلیے ہر قسم کے حالات سے مقابلہ کرنے کی ہمت۔ سو انہی کے بل بوتے سیکڑوں بار اپنا کیس والد صاحب کی عدالت میں پیش کیا۔ طرح طرح کے دلائل سے اپنا تعلیم حاصل کرنے کا حق ثابت کرنے کی کوشش کی مگر ایک جملہ ہر دلیل ہر سفارش پر بھاری تھا۔۔۔
"ہمارے خاندان ہمارے علاقے کی روایات لڑکیوں کی تعلیم کی اجازت نہیں دیتیں"۔۔۔
روایات ۔۔۔۔ ویسے مجھے آج تک سمجھ نہیں آیا یہ روایات آتی کہاں سے ہیں کیسے پیدا ہوتی ہیں کیسے اتنی مضبوط ہو جاتی ہیں کہ ہر انسانی جذبہ ان کے سامنے ریت کا ڈھیر ثابت ہوتا ہے۔ انسان کے خواب اس کے حقوق سب بے معنی ہو جاتے ہیں اور یہ سب سے بڑی حقیقت بن کے ایک ناقابل تسخیر دیوار کی شکل اختیار کر لیتیں ہیں۔ ایک ایسی دیوار کہ جو بھی اس سے ٹکرانے کی جرت کرے ریزہ ریزہ بن کے بکھرنا اس کی قسمت ٹھرتی ہے۔۔۔اور یہی جرت میں بھی کر بیٹھی تھی۔
خیر میں بہت خوش قسمت رہی ہوں کہ میرے لیے روایتوں کی یہی روکاوٹ ایک نعمت ہی ثابت ہوئی کیونکہ اسی سے میں نے حرکت، سفر، حیات اور مقصد حیات کے مفہوم سمجھے ہیں۔۔
وقت نے کروٹ لی، کچھ خراج بھی لیے مگر میں بالاخر حصول تعلیم کا حق منوانے میں بفضل خدا تعالیٰ کامیاب رہی۔۔ اور اپنے اس سفر میں بسا اوقات ایسی کامیا بیاں بھی ملیں کہ میرے والدین نے میرے خاندان نے مجھ پر فخر کیا ۔۔۔
میری مثال نے کہیں ان روایات کے طلسم کو ایسی ضرب ضرور لگائی ہے میرے بعد آنے والی میری کچھ بہنوں کے لیے رستہ تھوڑا آسان ہوا ہے۔۔۔۔آج میں اپنے خاندان اپنےعلاقےکی بچییوں کو بڑی بڑی چادروں میں لپٹا میلوں دور کا سفر پیدل طے کر کے سکولوں کو جاتا دیکھتی ہوں تو بہت سکون اور خوشی ملتی ہے اور کہیں کہیں اپنا مقصد حیات پورا ہوتا نظر آتا ہے۔۔۔۔
وہ سفر ہی کیا جو آرام و سکون سے طے ہو جائے۔
روکاوٹیں نا ہوں تو حرکت و قیام میں فرق مٹ جاتا ہے۔۔۔۔
مگر یہ بات میں سمجھ سکتی ہوں وہ چھوٹی چھوٹی معصوم نافذ شریعت کے نام پہ قتل ہونے والی بچییاں نہیں۔۔ وہ جو ریت روایتوں کے سرد جہنم سے نکل کر امید کی کرنوں کی گرمائش کو ابھی پوری طرح محسوس بھی نہ کر پائیں تھیں کہ "شریعت" کا آسیب کبھی تیزاب کی صورت ان کے چہروں پر پڑنے لگا ہے اور کبھی کانچ کے قاتل ٹکڑوں کی صورت انکے شکم پھاڑنے لگا ہے ۔
جنڈ ضلع اٹک پنجاب کی ایک چھوٹی سی تحصیل ہے یہ خوشحال خان خٹک کے مشہور پل جو کہ پنجاپ اور این- ڈپلیو- ایف- پی- کی سرحدوں کو آپس میں ملاتا ہے ،سے چند کلومیٹر دور واقعہ ہے۔
سوات کے بعد اب یہاں بھی شریعت کے نفاذ کا عمل شروع ہو گیا ہے ۔ حسب روایت یہاں بھی عورت سے ہی ،جس پر شریعت سب سے پہلے لاگو ہوتی ہے، عملی آغاز ہوا ہے۔۔۔اب تک آٹھ بچیوں کو سکول کالج جانے کی پاداش میں کانچ کے ٹکڑوں سے زخمی کیا جا چکا ہے۔۔جن میں سے ایک اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی ہے۔۔۔اور مجھے تو یہ سمجھ نہیں آیا کہ ان بچییوں پہ کوئی آزادی و موڈرنزم کا الزام بھی نہیں لگا سکتا کہ وہاں ہر لڑکی باپردہ ہی گھر سے نکلتی ہے تو پھر وہ کس شریعت کی گناہگارٹھری ہیں ؟
آج جب بڑے بھائی نے فون پہ وہاں کی صورت حال سے آگاہ کیا تو اس تشکر کے ساتھ کہ اسکی بہنیں وہاں پر نہیں اس نے تاسف کا اظہار بھی کیا کہ آج سوات والوں کے سروں پر بیتنے والے عذاب کا صحیح معنوں میں اندازا ہواہے۔۔
واقعی آگ جبتک اپنے گھر تک نا پہنچے تو تپش کا احساس نہیں ہوتا ۔۔۔
اور یہ سچ ہے کہ اب یہ آگ ہم سب کےگھروں کی دہلیزوں تک پہنچ چکی ہے۔۔۔۔۔