منصور آفاق
محفلین
امید کی آخری شمع...دیوار پہ دستک …منصورآفاق
میرے بڑے بھائی ڈاکٹر مشتاق احمدخان لاہور میں ہوتے ہیں کل انہوں نے مجھے ویڈیو کال کی اور خاصی دیر گفتگو کرتے رہے، اس کا کچھ حصہ پیش خدمت ہے۔
”تم کیوں عمران خان کے حق میں لکھتے ہو “۔
”بھائی جان اور کس کے حق میں لکھوں “۔
”شہباز شریف بڑ ے عوامی آدمی ہیں،انہوں نے لاہور کو بدل کر رکھ دیا ہے “۔
”بھائی جان وہ خادمِ اعلی کیوں کہلاتے ہیں۔“
”شاید اس لئے کہ فرمانِ بنوی ہے ”قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے“۔
”مگر یہ تو وہ فرمانِ رسول تھا جس کی وجہ سے خلفائے راشد ین دنوں کا چین اور راتوں کی راحت بھول گئے تھے لوگ آرام کی نیند سورہے ہیں اور امیرالموٴ منین گلیوں میں پھر رہے ہیں کہ کہیں کوئی بے سکون تو نہیں ۔ اس فرمان کاجنابِ شہباز شریف سے کیا تعلق ہے “۔
”بہتری کی ایک کوشش تو ہے “۔
”کیا انہیں خادم کامفہوم معلوم ہے “۔
”وہ بڑے لائق ہیں انہیں کئی زبانیں آتی ہیں“۔
”مگربھائی جان ! سرکارِ رسالت کی وہ بات جس میں قوم مخدوم اور سردار خادم قرار پایا تھا اس کے متعلق شاید وہ کچھ زیادہ نہیں جانتے “۔
”کیوں۔۔وہ کیسے“؟
”جناب، صدیق اکبر نے پہلے خطبہءِ خلافت میں کہا تھا ” جب تک میں خدا اور رسول کے احکام پر چلتا رہوں تم پر میری اطاعت ضروری ہے اور اگر تم دیکھو کہ میں اس راستے سے ہٹ رہا ہوں تو تم تلوار کے زور سے میری کجی دور کرو اور مجھے سیدھے راستے پر لاؤ اگر پھر بھی میں حق کی راہ پر نہ آیا تو میرے لیے ضروری ہوگا کہ خلافت کا کلاہ اتاردوں “۔
”شہباز شریف خدا اور اس کے رسول کے احکامات کے مطابق حکومت کر رہے ہیں“۔
”نہیں بھائی جان !اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق حکومت کرنے والے ایسے نہیں ہوتے ۔ایک بار امیر المومنین حضرت عمر فاروق خطبہ ءِ جمعہ کے لیے کھڑے ہوئے ، انہوں نے ابھی یہ الفاظ کہے تھے(میری بات سنو اور اطاعت کرو) کہ ایک شخص کھڑ ا ہوگیا اس نے کہا (وہ نہ ان کی بات سُننا ہے نہ طاعت کرتا ہے) امیر المومنین نے کہا ” خیریت تو ہے مجھ سے کونسی خطا سر زد ہوئی کہ آپ بات سننے سے اوراطاعت کرنے سے انکار کر رہے ہیں تو اس آدمی نے کہا بیت المال کی طرف سے ہم لوگوں میں جو کپڑا برابر برابر تقسیم ہوا وہ اتنا نہیں تھا کہ ایک آدمی کا کرتا تیار ہوسکے آپ کا قدبھی لمبا ہے اور آپ اس کپڑے کا کرتا پہنے کھڑے ہیں اس کا مطلب ہے کہ آپ نے مساوات کے اصول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے لیے زیادہ کپڑا رکھ لیاتھا “ حضرت عمر نے فرمایا “ اس کا جواب میرا بیٹا دے گا “ امیر المو منین کے فرزند کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا ” امیرا لمومنین بیت المال سے سال میں دو بار کپڑا لیتے ہیں ایک سردیوں کا لباس اور ایک گرمیوں کا لباس پھر سال انہی دولباسوں میں گزارتے ہیں اور انہیں پیوندلگاتے رہتے ہیں میں نے دیکھا ان کے کرتے میں بہت سے پیوند لگے ہوئے تھے میں نے بیت المال سے ملنے والا یہ کپڑا جو میرے حصے میں آیا تھا وہ بھی ان کے حوالے کر دیا اس طرح انہیں دو آدمیوں کا حصہ مل گیا تو یہ کرتا تیار ہوگیا وگرنہ ان کا ذاتی حصہ بھی اتنا ہی تھا جتنا سب لوگوں کے حصہ میںآ یا یہ جواب سُن کر وہ آدمی پھر کھڑا ہوا اور اس نے کہا اب آپ فرمائیں ہم آپ کا فرمان سنیں گے بھی سہی اور اطاعت بھی کریں گے“۔
”تو تم اس روایت کو بنیاد بنا کر یہ کہنا چاہتے ہو کہ ہمیں شہباز شریف کی نہ بات سننی چاہئے نہ حکم ماننا چاہئے ۔عمران خان بھی توپیسے والا آدمی ہیں “۔
”مگرانہوں نے اپنے ماتھے پر خادمِ اعلی کا بورڈ نہیں لگوا رکھا “۔
”تم یونہی شریف لوگوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہو۔ اللہ جسے چاہتا ہے حکومت دیتا ہے“۔
”اللہ سردار کو نہیں عوام کو حکومت دیتا ہے “۔
”کیا مطلب ہے تمہارا “۔
”اللہ کا فرمان ہے کہ جولوگ ایمان لانے کے بعد اعمالِ صالحہ کرتے ہیں اُن سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں زمین میں خلافت عطا کر یگا۔یعنی حکومت کسی ایک شخص کی نہیں تمام عوام کی ہے۔“
”یعنی جمہوریت خدائی نظام ہے “۔
”بے شک ۔جمہوریت کی روح سب سے زیادہ اسلام کے قریب ہے “۔
”وہ جو اقبال کہا نے تھا
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تو لا نہیں کرتے
فارسی زبان میں اس سے بھی سخت الفاظ جمہوریت کی نفی کی ہے۔
گریزاز طرزِ جمہوری غلام پختہ کار ے شو
کہ از مغزِ دو صد خر فکرِ انسانے نمی آید
(جمہوریت کے طرزِ حکومت سے بھاگ اور پختہ کار غلام بن جاکیونکہ دو سوگدھوں کے دماغوں سے ایک انسان کے برابر سوچ برآمد نہیں ہوسکتی)“۔
”علامہ اقبال کے اشعار اپنی جگہ میں اس پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتا ۔ میں اتنا جانتا ہوں کہ جمہوریت پہلی باردنیا کواسلام نے دی ہے “۔
”تم نے پہلے بھی ایک نعتیہ شعر میں یہی کہاہے ۔
سلام اس پر کہ جو جمہوریت کا دین لایاتھا
جو لوگوں کی بھلائی کیلئے لوگوں میں آیا تھا
یہ درست بات نہیں ہے صدیوں پہلے افلاطون نے اپنی کتاب کا نام ہی Republicیعنی جمہوریت رکھا تھا“۔
”بھائی جان آپ غلط فہمی کا شکار ہیں۔جمہوریت کا تصور اسلام سے صدیوں پہلے افلاطون نے نہیں دیا جس کتاب کا آپ نے ذکر کیا ہے اس کا اصل یونانی نامpoliteia ہے جس کا مفہوم آئین کا ہے اس کتاب کا جب انگریزی ترجمہ کیاگیا تو اس کا نامRepublic رکھ دیا گیا۔یہ نام کتاب کے نفسِ مضمون کے بھی خلاف ہے ۔ اس کتاب میں اس بات پر زور دیاگیا ہے کچھ لوگ پیدائشی غلام ہوتے ہیں اور کچھ حکومت کرنے کیلئے پیداہوتے ہیں ۔دنیا میں اسلام ہی نے پہلی بار کہا کہ ہم نے اولاد ِ آدم کو واجب التکریم بنایا ۔کسی عربی کسی عجمی پر کوئی فوقیت نہیں۔بڑائی کی بنیاد صرف تقوی ہے۔اللہ نے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کومعاملات میں لوگوں سے مشورے کا حکم دیا۔اور نظام حکومت کے متعلق واضح طور پر کہہ دیا ”اور ان کے معاملات باہمی مشاورت سے طے ہوں گے“۔
”اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم نے عمران خان کی حمایت ہی کرنی ہے۔
”جی ہاں بھائی جان،بس وہی امید کی آخری شمع ہے“۔
http://jang.com.pk/jang/nov2012-daily/04-11-2012/col15.htm