"امید کی خوشیاں " از تھامس کیمپبیل [1777 - 1844]: اردو تلخیص و ترجمہ ۔سیدہ سارہ ضحیٰ

سید عاطف علی

لائبریرین
The Pleasures of Hope - Thomas Campbell [1777 - 1844]

"امید کی خوشیاں " از تھامس کیمپبیل

خلاصہ:

حصہ اول​

عرصہ دراز سے انسان اپنے جذبات سے الجھتا آیا ہے، اور اس نے سرور و نشاط، درد و غم، بیم و رجا جیسی سیکڑوں کیفیات کی تہہ تک رسائی حاصل کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ نظم و نثر کے وسیع میدان میں بھی یہ احساسات و جذبات جلوہ آرا ہیں۔ اس نظم میں بھی شاعر امید کی کیفیت سے ہم کلام ہیں۔ نظم کے آغاز میں شاعر کہتے ہیں کہ انسان کا دل حسن کی طرف مائل ہوتا ہے، اورحسن کا تعلق فاصلے سے ہوتا ہے: کوئی چیز جتنی دور ہوگی، وہ اپنے پراسرار اور مرموز ہونے کی بنا پر اتنی ہی خوبصورت لگے گی: یہی وجہ ہے کہ انسان کے پاس جو موجود نہیں ہوتا،اسی کی خواہش اس کے دل میں جنم لیتی ہے۔

خوشی کی تلاش میں سرگرداں انسان کے لیے سب سے مہم جذبہ کونسا ہے؟ کیا عقل کے بل بوتے پر وہ اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے؟ نہیں؛ عقل اور منطق سے کہیں زیادہ اہم امید ہے؛ یہی زندگی کو جینے کے قابل بناتی ہے۔ علوم و فنون کی یونانی دیویاں بنی نوع انسان کے زوال کی پرسوز داستان سناتی ہیں کہ اس موقع پر جب ہر مقدس احساس ناپید ہو گیا، تب بھی امید کی دلکش کیفیت نے اس کا ساتھ نہ چھوڑا۔

ایک تنہا، بے یار و مددگار شخص، جس نے اپنی راہ کھودی ہے؛ سمندر کی موجوں کے رحم و کرم پر ہے، عرصے سے کسی انسان کی شکل نہیں دیکھی۔ اے امید! تو ہی اسے دلاسا دیتی ہے کہ وہ ایک بار پھر اپنے گھر جا پائے گا۔ جنگ کے سب سے تاریک، پرخطر لمحے میں سپاہی کا دل تجھے سلامی پیش کرتا ہے، جب دونوں فوجوں کے پرچم لہراتے ہیں اور سپاہی صفیں باندھے کھڑے ہوتے ہیں۔ جب موت کی زمین پرسناٹا طاری ہوتا ہے تو بےخوف جوانوں کو طبل جنگ میں تیراگر جتا نغمہ سنائی دیتاہے۔ جب دریاسالار جان بائرن کا جہاز "ویجر" چلوئے کے جزیرے پر تباہ ہوگیا، تو وہ غریب الوطن ہر صبح اپنی قسمت پر ماتم کرتا۔ غیروں کے ہجوم میں کوئی شناسا چہرہ تلاش کرتا اور اس اجنبی سرزمین میں مارا مارا پھرتا، یہاں تک کہ تیری مدد سے اسے اپنا ہم وطن اور ساتھی مل گیا۔

دیکھ! نیوٹن، فطرت کا عالم، پوری کائنات کا شاہد، ہر تارے کو دیکھتا ہے۔ تو اپنی متعجب آنکھ سے روشنی کی رفتار ماپتی ہے، فرینکلن کے ساتھ بجلی کے اشتعال کو کھوجتی ہے، آسمانوں میں نیا سیارہ ڈھونڈتی ہے۔ لنئس ہر پنچھی کو، ہر آتشی گل کو نیا نام دیتا ہے، جیسے کبھی خدا کے حکم سے جنات عدن میں انہیں نام دیے گئے تھے۔ افلاطون اپنے کورے کاغذ پر عقل و فراست کے زریں قوانین رقم کرتا ہے۔ ڈیلفی کی بلندیوں پر جو درخشاں مینار چمکتے ہیں، جو ندیاں ازلی نور میں بہتی ہیں، وہاں سے بوق اور بربط کی آواز سنائی دیتی ہے۔

اے امید! تجھے طاقت گفتار دی گئی ہے کہ دنیا میں خدا کے احکام پہنچا دے۔ وہ سرد، سنگدل انسان جس نے کبھی کسی اور کا غم نہیں محسوس کیا، اس کے دل کا قفل تیرے ہاتھ سے کھلے گا، اس کی روح نیا جنم لے گی، تیرے تقاضے پر انسان بھائی بھائی بن کر رہنے لگیں گے۔ جب اسرائیل کی قوم تپتے صحرا میں چل رہی تھی، تو حکم یزداں سے ان تنہا راتوں میں امید ہی کی روشنی نے انہیں راہ دکھائی۔

جب گھر کی چاردیواری میں روزمرہ کے مسائل کی فکر پیدا ہوجائے، اس کے مکیں مفلسی کی وادی میں کھو جائیں، تو اے دوراندیش امید! انہیں اپنی مسکراہٹ بخش دے، ان کے غم بھگا دے۔ انہیں بتا، کہ جب یہ سال گزر جائیں گے تو ان کو یوم سبت کا سکون ملے گا۔ دیکھ! ماں اپنے بچے کو سوتا دیکھتی ہے، اسے دعائیں دیتی ہے کہ جو رنج میں نے سہے وہ تجھ پر نہ آئیں، تیری محبت میرے دکھتے دل کا سہارا بن جائے۔ جب میں دنیا سے کوچ کر کے بید کے درخت تلے سو جاؤں، تو تو میری قبر پر آنسو بہائے گا، میری بے چین روح کو تسلی دے گا۔ اور جب بچہ اس کا نام پکارنے کے قابل ہوتا ہے، تو اس کے دل میں حال کی خوشی اور مستقبل کی امید پیدا ہوتی ہے۔ دیکھ وہ آدمی جو فقر کی تنگ و تاریک راہوں پر چلتا ہے، اور پھلتے پھولتے کھیتوں اور ہرے بھرے سبزے کو دیکھ کر سوچتا ہے:" کاش کہ میرے لیے کچھ اس طرح کی چھاؤں ہوتی، جہاں میں دھوپ اور طوفان سے پناہ لے پاتا، تو میں بھی اپنے جیسے رنجیدہ دلوں کی مدد کر سکتا!" تو اس کی بے لوث دعا میں امید جلوہ گر ہوتی ہے۔

اے امید! جب میں شکستہ دل کے ساتھ انسانیت کے آلام کو سوچتا ہوں، تو تو مجھے فطرت کی مبہم تدابیر سے آگاہ کرتی ہے، کہ کس طرح وقت کے ساتھ دنیا کے ہر کونے میں تمدن کی روشنی پہنچے گی، ہر ساحل پر انسانی تہذیب کے جھنڈے گاڑے جائیں گے۔ دور دراز کی ہر تنہا وادی سے بستیوں کے چراغ دمکتے دکھائی دیں گے۔ جس کہسار کی تیرہ آغوش میں وحشی دستے پھرتے ہیں، وہاں امید اپنا گھر بنائے گی۔

اے امید! تیرے روئے روشن کی مسکراہٹ چلی گئی، جب ظلم نے باد صبا میں اپنا سیاہ پرچم لہرایا۔ وارسا کے آخری بہادر نے اپنی سر زمین کی تباہی دیکھی، اور بولا کہ کیا کوئی طاقت نہیں، جو ان بہادروں کی نگران ہو؟ اگرچہ ان حسین میدانوں پر بربادی کا راج ہے، مگر ابھی ہمارے اندر زندگی کی رمق باقی ہے! وطن کے نام پر ہم شمشیر لہراتے ہیں، قسم کھاتے ہیں اسی کے ساتھ جینے مرنے کی! اور اپنے چند سپاہیوں کے ساتھ آگے بڑھا، مگر وہ گنے چنے بہادر موت کی نذر ہوگئے۔ تب امید نے ایک لمحے کے لیے دنیا کو خیرباد کہا۔ اس وقت، اے انتقام! کہاں تھی تیری لاٹھی، جو خدا کے دشمنوں کو کچل دیتی ہے؟ مگر اس وقت بھی انسان میں حریت کی خواہش باقی تھی! سارمیشیا خون کے آنسو روتا تھا، اس کے اشکوں کا بدلہ چکانے کے لیے،آزادی کے مقدس دعوے کی پر بروس بینکبرن نے لبیک کہا! تاروں سے عاری اس اندوہ کی رات میں پرومیتھیئس کی آگ کی طرح سچائی کی روشنی لوٹ آئی۔

تم، جس پر ابھرتی صبح ناگوار گزرتی ہے،کہ تمہارے کام رات کی مانند سیاہ ہیں؛ تم، جوامید کے نغمے کو جھٹلاتے ہو. ظالمو! تمہارے جد و جہد کی کوئی اصل نہیں!کیا تمہاتے بعد کوئی حکمران نہ آئے گا؟ کیا بروٹس کسی ظالم کو موت کے دہانے میں نہیں دھکیلے گا؟ کیا ہیمپڈن رہائی کی صدا پر جواب نہیں دے گا؟ ہاں! وہ دعویٰ، جو محب وطن کا فخر ہے، شاعر کا نغمہ ہے،وہ دنیا پر حاوی ہو گا۔ کیا آدمی اپنے بھائی کو درندوں کے ساتھ آہنی زنجیروں میں جکڑ دے گا؟ نہیں! خدا نے ہمیں ایک مٹی سے بنایا، کسی کو آقا، نہ کسی کو غلام ٹھہرایا۔

کبھی اے کانگو کے فرمانروا!تو اپنی لامحدود زمینوں پر راج کیا کرتا تھا،تیرے بازو میں قوت اور آنکھ میں گرج ہوا کرتی تھی۔ مگر پھر فرنگستان کے اجنبی غارتگر نے تجھے مات دے دی،تیری منورجبیں سے آزادی کی مہر چھین لی۔ جب ناقوس کی آواز کے ساتھ تو نے جہان فانی کو الوداع کہا، تو اے محکوم!کیا تیرے تنہا دل میں بجز موت کے، کوئی خواہش پروان چڑھ سکتی تھی؟ اے کشور مشرقی! جہاں عظیم گنگا بہتی ہے،اے ابھرتے سورج کی سرزمین! کتنے برسوں تک تیرے قبائل تیمور کے فرمان کے آگے سر جھکاتے تھے، جس نے سرسبز وادیوں کو لہو سے رنگین کر دیا؟ جب فرنگیوں نے تمہاری ریاستیں تسخیر کرنا چاہیں، اور افریقا کے کیپ پر دھاوا بول دیا۔ اے برہمن زادو! اس وقت کہاں تھا امن؟ کوئی آیا تمہاری مدد کو، جب انگریزوں نے بحر ہند کی بیتاب لہروں کو عبور کیا؟ نہیں!یورپ کے مکین تیرےجواہر اور سیم و زر سے غنی ہو گئے، اور ہزاروں دلوں کی آہیں رائیگاں گئیں۔ ان نے اپنے خزینوں کو نا مبارک ہاتھوں سے قفل لگا دئیے، جب کہ وہاں کہ باسی بھوک سے مر تے تھے، قدرت کے نام کو خاک میں ملا دیا، اوراس ثروت سے ازلی بدنامی مول لے لی۔ مگر سنو!کہ آفاق سے ہند کے نگران کی آواز گونجتی ہے: "اے انسانیت کے دشمنو! گردش ایام وہ دن بھی لائے گی،جب یہ سرزمین تمہارے خون سے سیراب ہو گی۔ دسویں مرتبہ برہما اس دنیامیں آئے گا، ہند کی فگار زمین پر مرہم بن کر ظاہر ہوگا، اس کے ساحل سے ظالموں کو بے دخل کر دے گا۔"


حصہ دوم​

وہ کون ہے، کہ جس نے کبھی کوئی ہمدرد سوچ یا جذبہ نہیں دیکھا؟ جس کے دل سے حسن نے کبھی آہ طلب نہ کی؟ شاید ہوں کچھ بنجر دل، جن کی عقل نے دل کوکبھی مات نہ دی ہو۔ مگر کیا یہ ان کی فتح ہے، کہ ان دلوں میں عشق کی آگ نہیں بھڑکی؟ کون ہے جو دھڑکتے دل کا ان غافلوں سے ربط جوڑے گا؟ کوئی نہیں، کہ فطرت کی بے مہارخوشیوں میں دوسرے جذبات کی آمیزش ہونی چاہیے؛ ان کے بغیر آدمی بے نور ہے۔ حتیٰ کہ عدن کے باغوں میں بھی کوئی خوشی نہ تھی، وہاں کی خاموش فضا میں فرشتے بلا اثر ٹھہرتے تھے، بے وجہ وہاں بلبل چہکتی تھی، نسیم سحر کے جھونکے میں ٹہنیاں بے فائدہ رقص کرتی تھیں۔ وہ بےرنگ دن آہستگی سے گزرتے تھے،اور آدمی افسرده تھا – جب تک عورت مسکرائی!

ممکن ہےقسمت کے بے وقت دخل سے اسے رنج ہو، اس کا چین غارت ہو جائے، زندگی ایک بنجر راستہ معلوم ہو،وہ زندگی اسی روگ میں گنوا دے۔ افسوس اس وقت پرجب انسان اس زنِ زیباپردل ہارگیا۔اس ہجوم کوجھڑک دو جو عشق لا حاصل کے مزار پر حاضری دیتے ہیں۔ تیرے دل کی گرمجوش خواہشیں پھر رنگ لائیں گی، تیرے شکستہ دل پر سماوات کا دلکش پیغامبر خوشیاں نچھاور کرے گا، یادوں کا کاغذ دھندلا کرنے کے لیے نہ آنسوہوں گے، نہ کوئی خوف۔

تیرا ہاتھ ہزاروں مناظر کو قلم بند کرتا ہے، زندگی کی چہل پہل سے دور،کچھ لوگ جو چمکتی ڈھلانوں پر، بل کھاتے ساحلوں پر بھٹکتے ہیں۔ ڈوبتے سورج کی آخری کرنیں سمندر پر پڑتی ہیں،مغرب سے پریوں کے ساز کی آواز آتی ہے، وادی میں تنہا بلبل چہچہاتی ہے۔ جب باہر رات کی تند و تیز ہوا چنگھاڑتی ہے، افلاک کے احاطے میں دہکتے انگارے کھیلتے ہیں، اور کہکشاں کو دودھیا روشنی میں نہلاتے ہیں، توطوفان سے محفوظ کوئی مطرب اس لمحے کو الفاظ کے جادو سے مزید دلکش بناتا ہے۔ وہ آریون کی سرگزشت سناتا ہے، کہ کس طرح ایلبرٹ اور اس کے ساتھی سمندر پر ہلاک ہو گئے۔ رات کے سناٹے میں لانا کی گہرائیوں پر ملاحوں کی فریاد سنائی دی، اور ہیجان زدہ موجوں پر مرتے باپ نے اپنے بچے کو دعا دی، اور لقمہ اجل بن گیا۔ یا وہ مور نامی رہزن اور امیلیا کا قصہ سناتا ہے، جو اس کے خون میں رنگے ہاتھ چومتی تھی،اس سےموت مانگتی تھی۔ اس کی دل آویز فریاد سے جہان لرز اٹھا، جب اس ستمگر نے بے خودی کے عالم میں اپنے خنجر سے وہ ڈور کاٹ دی جو اس کا دنیاسے تعلق تھی۔

اس کے آخری لمحات سے اپنی کانپتی نظریں ہٹالو، اور کوئی دوسرا راگ چھیڑ دو ، یا تاریخ کے صفحات پلٹتے ہوئے ایک عصر سے دوسرے تک جاؤ۔ وہاں شاید تمہیں کچھ تاریک مناظر ملیں، جہاں تم رک کر سوچنے پر مجبور ہو جاؤ، کہ قیصر کے نام پر کتنے لوگ قربان ہوئے؟ یا چارلز دوازدہم کے کتنے سپاہی دریائے نیپر کے کنارے موت کی نذر ہوئے؟ اپنے زخموں سے کانپتے فوجی نے، طوفانی بارشوں میں، شل حواسوں کے ساتھ اپنا آخری سانس لیا۔ان آخری لمحات میں موت کے دہانے پر کھڑے ہو کر اس نے مڑ کر اپنے وطن کو دیکھا، اور ایک آہ کے ساتھ ابدی نیند سو گیا، افتخار سلطانی نے بھی اس کی حالت پر سوگ منایا، مگر ان کے قائد نے اس منظر کو دیکھا، نہ کچھ محسوس کیا۔

زمین و آسمان میں تخیل کے جہان پوشیدہ ہیں، ان کے راستوں پر امید تمہاری ہمدم ہے۔ ان اندیکھے جہانوں میں وہ لاکھوں روحوں کی داستان سناتی ہے جو ابھی دنیا میں موجود نہیں۔ اور جب تمہارا ذہن اس چند روزہ دنیا کو چھوڑ کر چلا جائے گا،تو تمہاری آنکھ آفاق میں جڑے جواہر کو دیکھے گی،وہاں جہاں ہستی تحرک میں آئی، زیست کی روشنی کا دریا بہنے لگا، خدا کے عرش کو، کائنات کے محور کو دیکھے گی!
امید کی آواز دلوں کو اسیر کر لیتی ہے، وہ زندگی کے ساتھ کھیلتی ہے، اس کے آخری لمحات کی تنبیہہ نہیں سنتی! ایسے ہی یہودا کے شاہ داؤد نے اپنے باغی بیٹے کی موت کا ماتم کیا، ان دنوں کو سوچتے ہوئے جب وہ معصوم بچہ اس کے دل کا سرور تھا۔ " میرے ابسلام! آہ، کہ تمہاری جگہ تمہارا باپ مر جاتا!آہ، وہ بدبخت گھڑی تھی جس میں تجھے مارا گیا! میرے بیٹے، میرے ابسلام!"

اے امیدِ جاوداں! جب زندگی کے آخری انگارے دہکتے ہیں، جب روح، عالمِ ارواح کی طرف، اور جسم خاک میں مل جاتا ہے، خدا نزع کی اس گھڑی میں روح تجھے عنایت کر دیتا ہے، کہ تو لرزتے لب، سفید رخسار، اور بند ہوتی آنکھ کو اپنے فرشته صفت ہاتھوں سے ابدی زندگی تک چھوڑ آئے گی۔ جب زندگی کی شام ہوتی ہے، تو میں موت کو سوچتا ہوں، میں ان پراسرار جہانوں میں جہاں وقت کی بھی رسائی نہیں، جو تیری ٹھنڈی چھاؤں سے دور ہیں، کیسے جا پاؤں گا؟ جب طور سینا پر گرجتی بجلی جیسی ایک بانگ سنائی دے گی، اور دنیا لرز اٹھے گی؟

اے ایمان کی بیٹی! مزار کے اندھیرےکو نور میں بدل دے، جانے والی روح کے توہمات کو زائل کردے! اے صالحین کی ساتھی!کہاں ہے تو؟ تو واپس خدا کے پہلو میں جا چکی ہے! ہر خوشی میرے ذہن سے محو ہو جائے، مگر امید کی روشنی کو یہیں چھوڑ جائے، وہ میرے ہر غم کو بھلا دے گی۔ مگر خوشی کا موقع اتنا مختصرکیوں ہوتا ہے؟ کیوں ہر خوبرو گل کی شبنم سوکھ جاتی ہے؟ کیوں ہماری مضطرب روحوں کو کوئی نغمہ تسکین نہیں دیتا؟ قسمت کی تلخ حقیقتوں کو چھپانے کے لیے حوروں کے ہاتھ کوئی حجاب نہیں بنا سکتے؟ کوئی لطیف جملہ، کوئی دانا قول، حساس دل کو تسکین نہیں پہنچا سکتا؟ جب فطرت اپنی نعمتیں واپس لے لیتی ہے، گزرتے برسوں کی وادی میں کھوئے انسان کو تیرے سوا کوئی تسلی دے سکتا ہے؟

اے ازلی امید! جب اس آفاقی حلقے میں اوائلِ وقت کا چرخہ گردش میں آیا، اس وقت تیرا لا فانی شباب شروع ہوا۔اور جب تمہارے تمام پہلو نشین سیارے فنا ہو کر اجل کی آگ میں بھڑک اٹھیں گے، اور آسمان کی آخری بجلی دنیاکو ہلا ر رکھ دے گی، تو تو اس سب سے بے نیاز، اس تباہی پر مسکرائے گی، اور فطرت کی بھڑکتی چتا پر اپنی مشعل جلائے گی!

تحریر ۔سارہ
کراچی ۔
2025، جنوری ۔
 
آخری تدوین:
Top