وسیم
محفلین
اگر آپ لاھور آ چکے ہیں یا وہیں رہتے ہیں تو آپ جانتے ہوں گے جہاں کسی زمانے میں کلمہ چوک ہوتا تھا وہاں اب ایک عدد انڈرپاس،ارے صرف انڈر پاس نہیں بلکہ بلند و بالا بلڈنگز کے سامنے اوور ہیڈ برج بھی بن چکا ہے۔ آپ لبرٹی کی طرف سے آئیں توانڈر پاس کو کراس کرتے ہی آپ کے الٹے ہاتھ پہ ٹیلیفون والوں کا دفتر آئے گا، تھوڑا آگے بڑھیں گے تو بینک والے ڈیرے ڈال کر بیٹھے ہیں، اس کے بعد برکت مارکیٹ اوراور تھوڑا سا آگے چوک جہاں سے ایک سڑک پنجاب یونیورسٹی کو مڑتی ہے بس وہیں پہ اپناقیام رہتا ہے۔۔
برکت مارکیٹ کے سامنے ہی کے ایف سی ہے اور اس کے ایف سی کے سامنے موسمی فقیروں کا جھمگٹا لگا رہتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان میری نظروں کے سامنے ایک بڑا سا اوور ہیڈ برج ہے جس کا شاذ و نادر استعمال چند سرپھرے لوگ ہی کرتے ہیں۔
جب سڑک کے بیچ میں جنگلہ کٹ کر بک چکا ہو اور سڑک پار کرنے کا رستہ خالی ہو تو ۔۔۔ تو دس منٹ کی مشقت کوئی سرپھرا ہی اٹھائے گا۔
یہاں میرے سامنے کبھی کبھار سڑک پہ اس وجہ سے حادثہ بھی ہو جاتا ہے لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ الزام کبھی سڑک پارکرنے والے جلد باز، غریب پہ نہیں آیا،
یہاں بھی خدا ہی انسان کی مدد کو آتا ہے،
جو الله کی مرضی،
جو رات قبر میں آنی ہے وہ باہر کیسے آ سکتی ہے
خدا نے ایسے ہی لکھی ہو گی، غرض جتنی ٹریفک اتنی باتیں
اسی ایمانِ محکم کی وجہ سے لوگوں کا قانون پہ عمل کرنا، پُل کو استعمال کرنا اور خود سے احتیاط کرنے کا جواز بنتا بھی نہیں۔ اب خدا کے کاموں میں بشر خوامخواہ کی ٹانگ اڑائے یہ بات کچھ مناسب معلوم نہیں ہوتی۔ بلکل ویسے ہی جیسے جو چالان کٹ جائے گا وہ سرکار کی جیب میں جائے گا، اور اگر کسی طرح نا کٹ پایاتو میرے پاس موجود ٹریفک والوں کی جیب میں۔ اب آواگان کےاس چکر میں میرا ٹانگ اڑانا چہ معنی۔۔۔
نیلی وردیوں میں ملبوس یہ لوگ بدلتے بھی رہتے ہیں۔ اکثر یہ ٹولیوں کی صورت میں آتے ہیں، اور سارا دن یہیں گزارتے ہیں۔میں آہستہ آہستہ اب ان سب کو جاننے لگ گیا ہوں اور ایک طرح سے ان کا ہمراز بھی ہوں۔ یہ انور ہے اس کی ابھی شادی ہونی ہے، یہ فیصل ہے اسے فلمیں دیکھنے کا شوق ہے، یہ ماجد ہے، بقول اس کے اس کا گزارہ بڑی مشکل سے ہوتا ہے، یہ اسلم ہے،سگریٹ کارسیا اور بلا کا کام چور۔
میرے ساتھ کھڑے ہو کر جب یہ موبائل پہ یا آپس میں گفتگو کرتے ہیں تو میں سنتا ضرور ہوں لیکن بولتا کچھ نہیں۔ میں جائز و ناجائز چالان کاٹتے ہوئے، اور رشوت وصول کرتے ہوئے انہیں دیکھتا ضرور ہوں لیکن کسی کو بتاتا نہیں۔ آج کل کے دور میں ہونٹ بند رکھنے اور کچھ نا بولنے میں ہی عافیت ہے،
یہ دور ہی ایسا ہے۔۔۔
سن لو لیکن چپ رہو۔۔۔
دیکھ لو مگر نظر انداز کر دو۔۔۔
گواہ بنو لیکن گواہی نا دو۔۔۔
طاقتور ہو تو چڑھ دوڑو۔۔۔
کمزور ہو تو دبک جاؤ۔۔۔۔
انقلابی ہو تو دو منٹ منہ سے جھاگ اڑاؤ۔۔۔
ورنہ اپنے کام سے کام رکھو اور سر جھکائے گزر جاؤ۔۔۔
اسی میں سب کی بچت ہے، اسی میں عزت ہے اور اسی میں اس بوسیدہ نظام کی بھلائی۔۔۔
ارے ارے آپ بھی سمجھ رہے ہوں گے میں کوئی انقلابی ہوں اور شاید روزانہ اس طرح کے حالات دیکھ کر میرے اندر بھی خون کو ابال آنے لگتا ہے؟ یا میں یہ سب دیکھ کر خون کے گھونٹ پیتا رہتا ہوں؟ یا اپنی بے بسی پہ کُڑھتا رہتا ہوں؟ تو صاحب ایسا ویساکچھ نہیں، یہ تو میں داستان سناتے سناتے بس ذرا بہک سا گیا تھا۔۔۔
ہاں تو میں بتا رہا تھاکہ جس دن اوپر سے کسی افسر کا سختی کرنے کا آرڈر آ جائے تو اس چوک پہ میلہ سا لگ جاتا ہے۔ بھانت بھانت کی اتنی بولیاں سنائی دینے لگتی ہیں کہ دماغ ماؤف ہو جاتا ہے۔
سر معاف کر دیں۔۔
میرا کزن خود ٹریفک وارڈن ہے۔۔
سر روزانہ ہیلمٹ پہن کر نکلتا ہوں آج جلدی میں بھول آیا ہوں۔۔
ایہہ وڈے پائی/انکل نال گل کر لو۔۔
میں ہائیکورٹ میں ایڈوکیٹ ہوں،۔۔
او انیا تینوں اک صحافی نوں روکن دی جرأت کیویں ہوئی۔۔
او توں مینوں جانندا نئی؟ میں تیری وردی لوا دیاں گاں۔۔
صبح سے شام تک اس تماشے میں بہت سے رنگ بھرے ہوتے ہیں، کہیں ڈبل سواری کی پابندی کے دنوں میں منچلوں کی پولیس والوں کے ساتھ آنکھ مچولی۔۔۔ اور کہیں احتجاج کے دنوں میں طاقتوروں کے خلاف انہی کی فراہم کردہ ٹرانسپورٹ میں
جب راج کرے گی خلق خدا
جب لال لال لہرائے گا
لازم ہے ہم بھی دیکھیں گے
اس دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
جیسے پرجوش نعرے لگاتے اکثر نوجوان تو جوش میں اس دن پورے ہفتے کے سگریٹ تک اڑا دیتے ہیں اور موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکال کر ٹرپل سواری کرتے ایسے غرارتے ہیں کہ کئی دفعہ تو میں بھی دہل کر رہ جاتا ہوں کہ حاکموں کے سر کے ساتھ ساتھ میرے سر پہ بھی انقلابی بجلی کڑ کڑ کڑ کڑکنے ہی والی ہے۔۔۔
لیکن اگلے ہی دن ان کو ون ویلنگ کرتے، اشارے توڑتے، آوازیں کستے اور جانوروں کی طرح لڑائی جھگڑے میں مصروف، گالم گلوچ کرتا دیکھ کر ایک گونہ سکون سا محسوس کرتا ہوں۔۔۔
آخر کو یہ ہمارا مستقبل ہیں، انہوں نے ہی تو کل کو اس ملک میں رائج گلے سڑے نظام میں مزید گلن سڑن کا اضافہ کرنا ہے اوراس گندگی کا حصہ بن کر بے شرمی سے قہقہے لگاتے ہوئے فیصلہ سنانا ہے کہ اس ملک کا کچھ نہیں بن سکتا۔ معافی چاہتا ہوں باتوں باتوں میں پھر مَیں ذرا بہک گیا۔
شاید مجھ پہ بھی اس منافقت کا اثر ہو گیا ہے، کہاں میں آپ کو چسکے لگا لگا کر داستان سنانے بیٹھا ہوں، اور کہاں دل کےپھپھولے پھوڑنے لگا ہوا ہوں۔ کہتا آپ سے کچھ ہوں، کرتا کچھ ہوں۔۔۔۔
اسی تماشے کا ایک حصہ نیلی وردیوں کے ساتھ پیلی وردیوں والے بھی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ نیلی وردیوں والے صبح صبح ہی آ کر اپنا ڈیرہ سنبھال لیتے ہیں اور پیلی وردیوں والوں کی صبح شام کو ہوتی ہے۔
کتنی ہی دفعہ کا دھلا ہوا پیلا کرتا اور اس کرتے کے نیچے سفید دھوتی یا شلوار اور ان دونوں میں پھنسے کمزور جسم، چھوٹی آنکھوں، گلے میں پڑے بڑے ڈھول لٹکائے اور ان ڈھولوں سے بھی بڑی خواہشات دل میں بسائے، آنکھوں میں دیہاڑی کے سپنے سجائے،
شام ہوتے ہی اپنے گاہکوں کا انتظار شروع کر دیتے ہیں۔۔۔
سامنے والے شادی ہال میں شام کو جب برقی قمقمے جگمگا اٹھتے ہیں، اور جب گارڈز اپنی صاف ستھری وردی پہن کر آنے جانے والوں کے لیے بڑھ بڑھ کر دروازہ کھولنا اور پیشہ ور فقیروں کا گالیاں دینا شروع کرتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں بھی شکاریوں کی طرح چمک آ جاتی ہیں۔۔۔
اُدھر دولہا کار سے اترتا ہے، اِدھر ڈھول پہ پہلی ضرب پڑتی ہے
وہاں دولہے کے گلے میں ہار پہنایا جاتا ہے یہاں جھنجھنا پوری طاقت سے چھن چھن بجنا شروع ہو جاتا ہے۔۔۔
روٹی۔۔۔گھر کا قرضہ۔۔دوائیاں۔۔۔کرایہ۔۔۔
ڈھول۔۔۔جھنجھنا۔۔ڈھول۔۔۔جھنجھنا۔۔۔
اُدھر دولہے کے دوست پورے قوت سے ناچ رہے ہوتے ہیں اِدھر مجبوریاں پوری طاقت سے بج رہی ہوتی ہیں۔۔۔
یہاں مجبوریوں کی تاپ بلند ہوتی جاتی ہیں، وہاں ناچ کی تیزی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔۔۔
پھر ویلوں کے دور چلنے لگتے ہیں، بھوکی نگاہوں میں بجلی سی چمک، اور جسم میں چیتے سی پھرتی آ جاتی ہے
یہ دو وقت کی روٹی آ گئی۔۔۔
یہ گھر کا کرایہ ہو گیا۔۔۔
یہ ماں باپ کی دوائی پکڑی گئی۔۔۔
یہ بچوں کے سہانے مستقبل کے خواب تھیلے میں پہنچ گئے۔۔۔
یہ میری بیوی کے لیے چاندی کی بالیاں آ گئیں۔۔۔
ایسے کتنے ہی رنگ برنگے تماشے میں روزانہ اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں، کبھی بندر والا کاندھے پہ بندر اور دماغ میں سوچیں بٹھائےگزرتا ہے، کبھی مولوی صاحب کندھے پہ صافہ رکھے سائیکل کے پیڈل مارتے بڑھاپے کی جانب گامزن نظر آتے ہیں، اور کہیں تیر کے نشان اور سبز نمبر پلیٹوں والی گاڑیاں قانون پہ تھوکتے زن سے گزر جاتی ہیں۔۔۔
یہ چوک خود غرضی، بدتہذیبی ، بے عملی، منافقت، محرومیوں اور مایوسیوں کا چوک تو نہیں؟ یہ سب کب بدلے گا؟ کیا تہذیب، تمدن، نظم و ضبط ، احترام، اور تمیز کبھی ان گاڑیوں موٹر سائیکلوں، چنگچیوں، رکشے والوں اور پیدل راہ چلتوں کی زندگی میں نظر آئے گی؟
اسی سوچ اور مایوسی میں کل کی رات بھی بے آرام کٹ گئی۔ آج صبح ہوئی تو میں نے سوچ لیا تھا کہ میں بھی باقی ملک کی طرح اب کان اور آنکھوں کو بند اور ضمیر کو سلا کر اپنے کام پہ توجہ دوں گا۔
اچانک ایک اوور سپیڈ لینڈ کروزر والے نے باوجود مجھے سرخ دیکھ کر اپنی رفتار کو مزید بڑھایا اور تیزی سے مجھے کاٹتا ہوا ہوّا ہوگیا،اسکے پیچھے چند دن پہلے قانون کی عملداری کا جلوس نکالنے والے موٹر سائیکلوں پہ ٹرپل سواری کرتے یونیورسٹی کے چند طلباء بھی کٹ مارکر نکل گئے۔ مایوسی نے میرے چاروں طرف گھر کر لیا اور میں دل گرفتہ بے وجہ ہارن بجاتے بیزار چہروں کو تکنے لگا۔
اسی اثنا میں قریبی اسکول کے دس بیس بچے میرے قریب آئے، ایک نے بھاگ کر سڑک پار کرنا چاہی تو دوسرے نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا، ابھی سامنے والا اشارہ سرخ ہے جب یہ ہمارے لیے سبز ہو گا تب ہم سڑک پار کریں گے، اُس کی بات سنتے ہی میری آنکھ سےخوشی کا آنسو ٹپک پڑا اور میں سُرخ سے سبز ہو گیا۔۔۔۔
برکت مارکیٹ کے سامنے ہی کے ایف سی ہے اور اس کے ایف سی کے سامنے موسمی فقیروں کا جھمگٹا لگا رہتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان میری نظروں کے سامنے ایک بڑا سا اوور ہیڈ برج ہے جس کا شاذ و نادر استعمال چند سرپھرے لوگ ہی کرتے ہیں۔
جب سڑک کے بیچ میں جنگلہ کٹ کر بک چکا ہو اور سڑک پار کرنے کا رستہ خالی ہو تو ۔۔۔ تو دس منٹ کی مشقت کوئی سرپھرا ہی اٹھائے گا۔
یہاں میرے سامنے کبھی کبھار سڑک پہ اس وجہ سے حادثہ بھی ہو جاتا ہے لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ الزام کبھی سڑک پارکرنے والے جلد باز، غریب پہ نہیں آیا،
یہاں بھی خدا ہی انسان کی مدد کو آتا ہے،
جو الله کی مرضی،
جو رات قبر میں آنی ہے وہ باہر کیسے آ سکتی ہے
خدا نے ایسے ہی لکھی ہو گی، غرض جتنی ٹریفک اتنی باتیں
اسی ایمانِ محکم کی وجہ سے لوگوں کا قانون پہ عمل کرنا، پُل کو استعمال کرنا اور خود سے احتیاط کرنے کا جواز بنتا بھی نہیں۔ اب خدا کے کاموں میں بشر خوامخواہ کی ٹانگ اڑائے یہ بات کچھ مناسب معلوم نہیں ہوتی۔ بلکل ویسے ہی جیسے جو چالان کٹ جائے گا وہ سرکار کی جیب میں جائے گا، اور اگر کسی طرح نا کٹ پایاتو میرے پاس موجود ٹریفک والوں کی جیب میں۔ اب آواگان کےاس چکر میں میرا ٹانگ اڑانا چہ معنی۔۔۔
نیلی وردیوں میں ملبوس یہ لوگ بدلتے بھی رہتے ہیں۔ اکثر یہ ٹولیوں کی صورت میں آتے ہیں، اور سارا دن یہیں گزارتے ہیں۔میں آہستہ آہستہ اب ان سب کو جاننے لگ گیا ہوں اور ایک طرح سے ان کا ہمراز بھی ہوں۔ یہ انور ہے اس کی ابھی شادی ہونی ہے، یہ فیصل ہے اسے فلمیں دیکھنے کا شوق ہے، یہ ماجد ہے، بقول اس کے اس کا گزارہ بڑی مشکل سے ہوتا ہے، یہ اسلم ہے،سگریٹ کارسیا اور بلا کا کام چور۔
میرے ساتھ کھڑے ہو کر جب یہ موبائل پہ یا آپس میں گفتگو کرتے ہیں تو میں سنتا ضرور ہوں لیکن بولتا کچھ نہیں۔ میں جائز و ناجائز چالان کاٹتے ہوئے، اور رشوت وصول کرتے ہوئے انہیں دیکھتا ضرور ہوں لیکن کسی کو بتاتا نہیں۔ آج کل کے دور میں ہونٹ بند رکھنے اور کچھ نا بولنے میں ہی عافیت ہے،
یہ دور ہی ایسا ہے۔۔۔
سن لو لیکن چپ رہو۔۔۔
دیکھ لو مگر نظر انداز کر دو۔۔۔
گواہ بنو لیکن گواہی نا دو۔۔۔
طاقتور ہو تو چڑھ دوڑو۔۔۔
کمزور ہو تو دبک جاؤ۔۔۔۔
انقلابی ہو تو دو منٹ منہ سے جھاگ اڑاؤ۔۔۔
ورنہ اپنے کام سے کام رکھو اور سر جھکائے گزر جاؤ۔۔۔
اسی میں سب کی بچت ہے، اسی میں عزت ہے اور اسی میں اس بوسیدہ نظام کی بھلائی۔۔۔
ارے ارے آپ بھی سمجھ رہے ہوں گے میں کوئی انقلابی ہوں اور شاید روزانہ اس طرح کے حالات دیکھ کر میرے اندر بھی خون کو ابال آنے لگتا ہے؟ یا میں یہ سب دیکھ کر خون کے گھونٹ پیتا رہتا ہوں؟ یا اپنی بے بسی پہ کُڑھتا رہتا ہوں؟ تو صاحب ایسا ویساکچھ نہیں، یہ تو میں داستان سناتے سناتے بس ذرا بہک سا گیا تھا۔۔۔
ہاں تو میں بتا رہا تھاکہ جس دن اوپر سے کسی افسر کا سختی کرنے کا آرڈر آ جائے تو اس چوک پہ میلہ سا لگ جاتا ہے۔ بھانت بھانت کی اتنی بولیاں سنائی دینے لگتی ہیں کہ دماغ ماؤف ہو جاتا ہے۔
سر معاف کر دیں۔۔
میرا کزن خود ٹریفک وارڈن ہے۔۔
سر روزانہ ہیلمٹ پہن کر نکلتا ہوں آج جلدی میں بھول آیا ہوں۔۔
ایہہ وڈے پائی/انکل نال گل کر لو۔۔
میں ہائیکورٹ میں ایڈوکیٹ ہوں،۔۔
او انیا تینوں اک صحافی نوں روکن دی جرأت کیویں ہوئی۔۔
او توں مینوں جانندا نئی؟ میں تیری وردی لوا دیاں گاں۔۔
صبح سے شام تک اس تماشے میں بہت سے رنگ بھرے ہوتے ہیں، کہیں ڈبل سواری کی پابندی کے دنوں میں منچلوں کی پولیس والوں کے ساتھ آنکھ مچولی۔۔۔ اور کہیں احتجاج کے دنوں میں طاقتوروں کے خلاف انہی کی فراہم کردہ ٹرانسپورٹ میں
جب راج کرے گی خلق خدا
جب لال لال لہرائے گا
لازم ہے ہم بھی دیکھیں گے
اس دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
جیسے پرجوش نعرے لگاتے اکثر نوجوان تو جوش میں اس دن پورے ہفتے کے سگریٹ تک اڑا دیتے ہیں اور موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکال کر ٹرپل سواری کرتے ایسے غرارتے ہیں کہ کئی دفعہ تو میں بھی دہل کر رہ جاتا ہوں کہ حاکموں کے سر کے ساتھ ساتھ میرے سر پہ بھی انقلابی بجلی کڑ کڑ کڑ کڑکنے ہی والی ہے۔۔۔
لیکن اگلے ہی دن ان کو ون ویلنگ کرتے، اشارے توڑتے، آوازیں کستے اور جانوروں کی طرح لڑائی جھگڑے میں مصروف، گالم گلوچ کرتا دیکھ کر ایک گونہ سکون سا محسوس کرتا ہوں۔۔۔
آخر کو یہ ہمارا مستقبل ہیں، انہوں نے ہی تو کل کو اس ملک میں رائج گلے سڑے نظام میں مزید گلن سڑن کا اضافہ کرنا ہے اوراس گندگی کا حصہ بن کر بے شرمی سے قہقہے لگاتے ہوئے فیصلہ سنانا ہے کہ اس ملک کا کچھ نہیں بن سکتا۔ معافی چاہتا ہوں باتوں باتوں میں پھر مَیں ذرا بہک گیا۔
شاید مجھ پہ بھی اس منافقت کا اثر ہو گیا ہے، کہاں میں آپ کو چسکے لگا لگا کر داستان سنانے بیٹھا ہوں، اور کہاں دل کےپھپھولے پھوڑنے لگا ہوا ہوں۔ کہتا آپ سے کچھ ہوں، کرتا کچھ ہوں۔۔۔۔
اسی تماشے کا ایک حصہ نیلی وردیوں کے ساتھ پیلی وردیوں والے بھی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ نیلی وردیوں والے صبح صبح ہی آ کر اپنا ڈیرہ سنبھال لیتے ہیں اور پیلی وردیوں والوں کی صبح شام کو ہوتی ہے۔
کتنی ہی دفعہ کا دھلا ہوا پیلا کرتا اور اس کرتے کے نیچے سفید دھوتی یا شلوار اور ان دونوں میں پھنسے کمزور جسم، چھوٹی آنکھوں، گلے میں پڑے بڑے ڈھول لٹکائے اور ان ڈھولوں سے بھی بڑی خواہشات دل میں بسائے، آنکھوں میں دیہاڑی کے سپنے سجائے،
شام ہوتے ہی اپنے گاہکوں کا انتظار شروع کر دیتے ہیں۔۔۔
سامنے والے شادی ہال میں شام کو جب برقی قمقمے جگمگا اٹھتے ہیں، اور جب گارڈز اپنی صاف ستھری وردی پہن کر آنے جانے والوں کے لیے بڑھ بڑھ کر دروازہ کھولنا اور پیشہ ور فقیروں کا گالیاں دینا شروع کرتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں بھی شکاریوں کی طرح چمک آ جاتی ہیں۔۔۔
اُدھر دولہا کار سے اترتا ہے، اِدھر ڈھول پہ پہلی ضرب پڑتی ہے
وہاں دولہے کے گلے میں ہار پہنایا جاتا ہے یہاں جھنجھنا پوری طاقت سے چھن چھن بجنا شروع ہو جاتا ہے۔۔۔
روٹی۔۔۔گھر کا قرضہ۔۔دوائیاں۔۔۔کرایہ۔۔۔
ڈھول۔۔۔جھنجھنا۔۔ڈھول۔۔۔جھنجھنا۔۔۔
اُدھر دولہے کے دوست پورے قوت سے ناچ رہے ہوتے ہیں اِدھر مجبوریاں پوری طاقت سے بج رہی ہوتی ہیں۔۔۔
یہاں مجبوریوں کی تاپ بلند ہوتی جاتی ہیں، وہاں ناچ کی تیزی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔۔۔
پھر ویلوں کے دور چلنے لگتے ہیں، بھوکی نگاہوں میں بجلی سی چمک، اور جسم میں چیتے سی پھرتی آ جاتی ہے
یہ دو وقت کی روٹی آ گئی۔۔۔
یہ گھر کا کرایہ ہو گیا۔۔۔
یہ ماں باپ کی دوائی پکڑی گئی۔۔۔
یہ بچوں کے سہانے مستقبل کے خواب تھیلے میں پہنچ گئے۔۔۔
یہ میری بیوی کے لیے چاندی کی بالیاں آ گئیں۔۔۔
ایسے کتنے ہی رنگ برنگے تماشے میں روزانہ اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں، کبھی بندر والا کاندھے پہ بندر اور دماغ میں سوچیں بٹھائےگزرتا ہے، کبھی مولوی صاحب کندھے پہ صافہ رکھے سائیکل کے پیڈل مارتے بڑھاپے کی جانب گامزن نظر آتے ہیں، اور کہیں تیر کے نشان اور سبز نمبر پلیٹوں والی گاڑیاں قانون پہ تھوکتے زن سے گزر جاتی ہیں۔۔۔
یہ چوک خود غرضی، بدتہذیبی ، بے عملی، منافقت، محرومیوں اور مایوسیوں کا چوک تو نہیں؟ یہ سب کب بدلے گا؟ کیا تہذیب، تمدن، نظم و ضبط ، احترام، اور تمیز کبھی ان گاڑیوں موٹر سائیکلوں، چنگچیوں، رکشے والوں اور پیدل راہ چلتوں کی زندگی میں نظر آئے گی؟
اسی سوچ اور مایوسی میں کل کی رات بھی بے آرام کٹ گئی۔ آج صبح ہوئی تو میں نے سوچ لیا تھا کہ میں بھی باقی ملک کی طرح اب کان اور آنکھوں کو بند اور ضمیر کو سلا کر اپنے کام پہ توجہ دوں گا۔
اچانک ایک اوور سپیڈ لینڈ کروزر والے نے باوجود مجھے سرخ دیکھ کر اپنی رفتار کو مزید بڑھایا اور تیزی سے مجھے کاٹتا ہوا ہوّا ہوگیا،اسکے پیچھے چند دن پہلے قانون کی عملداری کا جلوس نکالنے والے موٹر سائیکلوں پہ ٹرپل سواری کرتے یونیورسٹی کے چند طلباء بھی کٹ مارکر نکل گئے۔ مایوسی نے میرے چاروں طرف گھر کر لیا اور میں دل گرفتہ بے وجہ ہارن بجاتے بیزار چہروں کو تکنے لگا۔
اسی اثنا میں قریبی اسکول کے دس بیس بچے میرے قریب آئے، ایک نے بھاگ کر سڑک پار کرنا چاہی تو دوسرے نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا، ابھی سامنے والا اشارہ سرخ ہے جب یہ ہمارے لیے سبز ہو گا تب ہم سڑک پار کریں گے، اُس کی بات سنتے ہی میری آنکھ سےخوشی کا آنسو ٹپک پڑا اور میں سُرخ سے سبز ہو گیا۔۔۔۔
آخری تدوین: