کاشفی

محفلین
غزل
(ضامن جعفری)
امیرِ شہر کے دستِ ہُنَر کا ذکر نہیں
تمام شہر جَلا اُس کے گھر کا ذکر نہیں

پڑھا ہے ہم نے بہت ہاتھ کی لکیروں کو
کَہیِں معاہدہِ خَیر و شَر کا ذکر نہیں

تمہارے حُسن کی تاریخ نامکمّل ہے
کسی جگہ مرے حُسنِ نظر کا ذکر نہیں

صلیب و دار کے سائے میں ہے تمام سَفَر
میں جس سَفَر میں ہُوں اُس میں شَجَر کا ذکر نہیں

تمہاری سنگ دِلی کی گواہ ہے تاریخ
کسی وَرَق پہ کَہیِں در گُزر کا ذکر نہیں

بہت عجیب ہیں دانشورانِ نَو ضاؔمن
نظر کا زعم، اور اہلِ نظر کا ذکر نہیں
 

محمداحمد

لائبریرین
واہ واہ واہ

بہت ہی خوب انتخاب ہے کاشفی بھائی۔۔۔! بہت اعلیٰ۔۔۔۔!

آپ کی شاعری کی دنیا میں واپسی خوش آئند ہے۔ :)
 

کاشفی

محفلین
واہ واہ واہ

بہت ہی خوب انتخاب ہے کاشفی بھائی۔۔۔ ! بہت اعلیٰ۔۔۔ ۔!

آپ کی شاعری کی دنیا میں واپسی خوش آئند ہے۔ :)
بیحد شکریہ۔۔غزل کی پسندیدگی کے لیئے۔۔۔
میں شاعری کی دنیا سے خود ساختہ طور پر غائب تھا، بھاگا نہیں تھا۔۔:)۔۔لیکن نظروں میں تمام شاعری تھی۔۔
خوش آمدید کے لیئے شکریہ۔۔
محمد احمد بھائی۔۔میں سیاست کی لڑیوں سے خودساختہ طور جلاوطنی اختیار کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں تا کہ لوگوں کو افاقہ ہو۔۔۔اور وہ جو کچھ بھی فرمانا چاہتے ہیں فرماتے رہیں۔
خوش و خرم رہیئے۔۔
 
Top