امیر اور غریب کی تقسیم

جاسم محمد

محفلین
امیر اور غریب کی تقسیم
عبداللہ بن زبیر منگل 14 مئ 2019
1660691-ameerghareeb-1557303453-859-640x480.jpg

ہر دن ’’غریب‘‘ غریب تر ہوتا جارہا ہے اور ’’امیر‘‘ امیر ترین۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

دورِ حاضر کی سب سے بڑی پریشانی ’’امیر‘‘ اور ’’غریب ‘‘ کے درمیان کی خلیج ہے۔ امیر طبقے کو دنیا بھر کی تمام آسائشات میسر ہیں اور ’’غریب‘‘ بنیادی ضروریات کےلیے بھی ترس رہا ہے۔ ہر شہری کو روٹی ، کپڑا اور مکان کی سہولت مہیا کرنا ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے مگر اس مملکت میں ایسی کوئی صورت نہیں ہے۔ ہر دن ’’غریب‘‘ غریب تر ہوتا جارہا ہے اور ’’امیر‘‘ امیر ترین۔

صدیوں سے یہ فرق قائم ہے۔ غلاموں کی نسل سے کون واقف نہیں، مگر اسلام نے انسانوں میں امتیاز کی لکیر مٹا ڈالی اور انسانیت کو مساوات کی لڑی میں پرو دیا۔ لیکن اسی آفاقی مذہب کے پیروکار بھی ’’امیر‘‘ اور ’’غریب‘‘ طبقوں میں تقسیم ہوچکے ہیں۔

اگر حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو معیشت کی اس دوڑ میں ’’غریب‘‘ کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی راستے پر دیوانہ وار چل رہا ہے اور ’’امیر‘‘ اسے ہانکتے ہوئے اپنے عیش و عشرت میں مسلسل اضافہ کیے جارہا ہے۔

پاکستان کے کروڑوں غریبوں پر ہزاروں امرا کی حکمرانی ہے۔ یہ سیاہ و سفید کے مالک لوگ ’’غریب‘‘ کی بنیادی ضروریات سے ہی بے خبر ہیں یا بے خبر بنے ہوئے ہیں۔

اگر غور سے دیکھا جائے تو سیکیورٹی گارڈ، پلمبر، موچی، نان بائی، مستری، ویلڈر، مکینک، مزدور، پینٹر، الیکٹریشن، درزی، ڈرائیور، دھوبی، گوالا، مالی، خاکروب، منشی، چھابڑی والا، پنکچر والا، بیرا، سیلزمین، کنڈیکٹر اور نہ جانے کتنے ایسے شعبے ہیں جن کا وجود ’’غریب‘‘ کی وجہ سے باقی ہے، اور انہی کے دم سے ہی اس نظام کائنات کا حسن قائم ودائم ہے۔

’’امیر‘‘ اور ’’غریب‘‘ کی تقسیم رب کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جس کو چاہے نواز دے اور جسے چاہے محروم رکھے۔ کسی کو دے کر آزمائے اور کسی کو محرومی کے امتحان میں ڈالے۔ لیکن سرمایہ دار کے رزق میں یقینی طور پر اللہ نے محتاجوں کی روزی رکھی ہے۔ جو مالی طور پہ سالانہ 2.5 فیصد نکالنے، رمضان کے فطرانے، زمیندار کے عشر اور صدقہ کی صورت میں ہر مسلمان صاحب حیثیت پر لاگو ہے۔ لیکن کتنے لوگ ہیں جو ان فرائض سے سبکدوش ہورہے ہیں؟

میں جس دیہات سے وابستہ ہوں، آج بھی وہاں ایسے لوگ ہیں جو صرف ایک وقت کھانا کھاتے ہیں۔ جن کے گھروں میں آج تک بجلی کا میٹر نہیں لگ سکا۔ اور صرف ایک دیہات ہی نہیں پاکستان کے ہزاروں دیہات اس مسئلے سے دوچار ہیں۔ کہیں پانی نہیں، تو کہیں اناج کی قلت ہے۔ وقت کے ساہوکار آج بھی سود در سود کا ایسا جال بچھاتے ہیں کہ کئی نسلوں کی عمر قرضوں کی ادائیگی میں برباد ہوجاتی ہے۔

’’امیر‘‘ سیاسی جغادری تبدیلیوں کے راگ الاپتے ہر پانچ سال بعد ’’غریب‘‘ کے دروازے پر آتے ہیں، مگر آج تک غریب کے چولہے کو گرم نہیں کرپائے۔

’’غریب‘‘ آج بھی جوہڑ کا پانی پی رہا ہے، ٹاٹ کے اسکول میں اس کا معصوم پھل پھول رہا ہے اور وقت کا پہیہ اسی رفتار سے رواں دواں ہے۔ مسلم لیگ کو اپنا دامن صاف کرنے کی فکر ہے۔ مولانا فضل الرحمان جمہوریت بچانے کی فکر میں دبلے ہوئے جارہے ہیں۔ سراج الحق کو جوڑ توڑ چاہیے۔ آصف زرداری کو اپنے اوپر لگے الزامات سے گلو خلاصی چاہیے۔ عمران خان کو اپنی حکومت بچانی ہے۔ غریب کا کوئی پرسان حال نہیں۔ غریب اسی طرح پس رہا ہے، ایڑیاں رگڑ رہا ہے، مر رہا ہے۔ مگر اس کی کسی کو پروا نہیں۔

محکمہ زکوٰة بنا ہوا ہے مگر تین ہزار کی تین دفعہ امداد لینے کےلیے نو ہزار میں سے چھ ہزار لگ جاتے ہیں اور یہ محکمہ بھی کئی سال سے غیر فعال ہے۔

غریب کو ہر مقام پر انتہائی عیاری کے ساتھ لوٹا جاتا ہے۔ سیاست دان نعروں سے، ڈاکٹر دوا سے، وکیل فیس سے، پٹواری مشوروں سے، پولیس چائے پانی سے اور پورا معاشرہ فریب سے لوٹتا ہے۔

’’امیر‘‘ اور ’’غریب‘‘ کے اسپتال، اسکول، ادارے الگ الگ ہیں، یہاں تک کہ ’’امیر‘‘ علاج کےلیے باہر بھی جاسکتا ہے۔ ’’غریب‘‘ کا کوئی پرسان حال نہیں۔ وہ مجبوری میں بچوں کو پڑھا نہیں سکتا۔ اگر کسی ذریعے سے تعلیمی مدارج طے کرلے تو ملازمت نہیں لے پاتا۔ ’’غریب‘‘ کو جان کے لالے پڑے ہیں اور اس پہ مستزاد رہی سہی کسر معاشرتی شادی بیاہ کی رسمیں، مردوں کو دفنانے کی بعد کی روایتیں اور پھر بخشوانے کے مولویانہ نذرانے پوری کردیتے ہیں۔ جہیز نہ ہونے کی بنا پر بچیاں بوڑھی ہوگئیں، علاج نہ ملنے پر کھانستے کھانستے جان دے دی، فیس نہ ہونے کی بنا پر اسکول سے نکال دیا گیا، بروقت طبی امداد نہ ملنے پر زچہ، بچہ چل بسے۔ ان حالات میں کبھی کسی ’’غریب‘‘ نے خون فروخت کیا، گردے بیچے، پھر بھی کچھ نہ بن پایا تو بیچ چوراہے پر بچوں کے گلے میں ’’برائے فروخت‘‘ کا بورڈ لگا کر بیٹھ گیا۔ کسی نے غربت کے ہاتھوں تنگ ہوکر خودکشی کرلی اور کسی نے ہتھیار اٹھا لیے۔ کسی نے غم بھلانے کےلیے نشے کا سہارا لے لیا۔

کسی سے اگر کچھ بھی نہ بن پایا، روزی روٹی کے لالے پڑگئے تو مسجد سے جوتا، ٹنکی سے گلاس، نل سے ٹونٹی، چھتوں سے پنکھے اور بھرے مجمع میں لوگوں کی جیبوں پر ہاتھوں کی صفائی نظر آنے لگی۔ مجبور غریب آخر کیا کرتا؟ محنت مزدوری سے دو وقت کا کھانا بھی پورا نہ ہو تو معاشرتی بھرم کیسے رہے گا؟ اس لیے کچھ لوگوں نے چھینا جھپٹی کی راہ لی اور کچھ نے زندگی ہی سے راہ فرار لے لی۔

کوئی ہاری بن کر جان گنوا بیٹھا، کسی کی لخت جگر سردار کی عشوہ طراز یوں کی نذر ہوگئی، کوئی چمنیوں میں جل گیا اور کسی کو رعونت سے بھرے آقا نے کتوں کے ذریعے بھنبھوڑ ڈالا۔

پھر کچھ حالات کے ستائے ہوئے ’’غریب‘‘ ملک دشمن عناصر کے ہاتھ لگے تو دہشت گرد کہلائے۔ کچھ چھوٹو گینگ بن کر ابھرے اور کچھ نام نہاد سیاسی آقاؤں کی خوشنودی میں نعرہ لگانے، ڈیروں پر پانی پلانے اور مفت کی چاپلوسی کرنے پر مامور ہوگئے۔ اس طرح ’’امیر‘‘ اور ’’غریب‘‘ کے درمیان خلیج وسیع تر ہوتی گئی اور یہ مسلسل بڑھ رہی ہے۔

’’غریب‘‘ گانا گائے تو میراثی اور ’’امیر‘‘ گائے تو گلوکار۔ کسی وجہ سے ’’غریب‘‘ بجلی کا تار لگا لے تو چور اور ’’امیر‘‘ اربوں کی کرپشن میں ملوث ہو کر بھی صاف بچ نکلتا ہے۔

’’غریب‘‘ کو صاف پانی چاہیے، انصاف چاہیے، حق چاہیے، روزگار چاہیے، اناج چاہیے، تعلیم چاہیے۔ اسے مارشل لاء سے خطرہ نہیں، اسے پارلیمنٹ سے کچھ نہیں لینا دینا، اسے پارٹیوں سے کوئی لگاؤ نہیں۔ اسے صرف انصاف چاہیے۔ ایسی عدالت چاہیے جو اس کی آواز سنے۔ ایسی حکومت چاہیے جو اسے لالی پاپ نہیں روزگار دے۔ اب یہ اچھائی پارلیمنٹ سے ہو تو بھی بہتر، صدارتی نظام سے ملے تو بھی ٹھیک، فوج کے ہاتھوں سے ہو تو بھی خوش آمدید۔ اور اگر یہ بھلائی عوامی منتخب نمائندوں کے ہاتھوں سے نمودار ہو تو بھی ’’جی آیاں نوں‘‘۔

غریب کی بس ایک ہی صدا ہے ’’صاب جی ہمیں حکومت سے کچھ نہیں لینا۔ ہمیں بس دو وقت کا کھانا دے دو، پہننے کو لباس دے دو اور ذریعہ روزگار دے دو‘‘۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 
Top