ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

ماہ شوال اس لحاظ سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں صدیقہؓ بنتِ صدیقؓ نبی کریم ا کے عقد میں آئیں۔
اﷲ تعالیٰ کے ہاں اس مقدس خاتون کی قدر و منزلت کا اندازہ اس سے کیجئے کہ اس کی براء ت و پاکدامنی کی شہادت دینے کے لئے قرآن کریم کا پورا رکوع نازل ہؤا۔
حضرت یوسف علیہ السلام اﷲ کے پیغمبر تھے۔ ان پر جب زلیخا نے الزام عائد کیا تو اﷲ تعالیٰ نے ان کی معصومیت کی شہادت زلیخا ہی کے گھرانے کے ایک فرد سے دِلوا دی۔ وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِّنْ اَہْلِہَا....... اور زلیخا کے گھرانے سے ایک گواہ نے گواہی دی کہ اگر یوسف کا گریبان چاک ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یوسف ؑ پیش دستی کر رہے تھے اور زلیخا انہیں روک رہی تھی، پیچھے ہٹا رہی تھی۔ اسی کشمکش میں گریباں پھٹ گیا۔۔۔اور اگر دامن پھٹا ہوتو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یوسف ؑ جان بچا کر بھاگ رہے تھے اور زلیخا پیچھے سے اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ اسی کھینچاتانی میں دامن تار تار ہوگیا۔
عزیز مصر نے یوسف علیہ السلام کے دامانِ دریدہ کو دیکھا تو سب سمجھ گیااور زلیخا سے مخاطب ہو کر بولا:اِنَّکِ کُنْتِ مِنَ الْخَاطِءِیْنo بلاشبہ تو ہی خطا کاروں میں سے ہے۔
یونہی مریم علیہا السلام پر الزام لگا ۔۔۔ بغیر باپ کے بچہ!! یَا مَرْیَمُ لَقَدْ جِءْتِ شَیْءًا فَرِیأَo مریم! یہ تو تم نے بہت ہی غلط کام کر ڈالا۔
بی بی مریم نے بچے کی طرف اشارہ کر دیا کہ اسی سے پوچھ لو۔۔۔! لوگوں کو حیرت ہوئی کہ جھولے میں پڑا ہؤا بچہ بھلا کیا بتا سکتا ہے۔۔۔! مگر حیرت کی کیا بات تھی، جو قادر مطلق بعد میں گویائی عطا کر سکتا ہے، وہ ایک خاتون کی عصمت و طہارت کی شہادت دلوانے کے لئے پہلے بھی بولنے کی قوت عطا فرما سکتا ہے، چنانچہ بچہ خود ہی بول اٹھا اِنِّیْ عَبْدُاﷲِ اٰتَانِیَ الْکِتٰبَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّاo میں اﷲ کا بندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب عنایت کی اور نبی بنایا۔
نوزائیدہ بچے کی یہ معجزانہ گفتگو سن کر الزام لگانے والے اپنا سامنہ لے کر رہ گئے۔
غرضیکہ ایک پیغمبر پر الزام لگا تو اﷲتعالیٰ نے اس کی پاکیزگی کی گواہی، اسی گھرانے کے ایک فرد سے دلوائی۔ ایک پیغمبر کی ماں پر تہمت لگی تو اس کی عفت کی شہادت نومولود سے دلوائی، لیکن جب اپنے محبوب کی زوجہ محبوبہؓ پر بات آئی اور صدیق اکبرؓ کی اس پاکباز بیٹی پر منافقین نے ایک بے ہودہ بہتان باندھا تو رب العرش العظیم بہ نفس نفیس اس کی براء ت و نزاہت کا گواہ بن گیا اور سورۂ نور کا ایک مکمل رکوع نازل فرما کر ابدالآباد تک اس کی عفت و طہارت کا چار دانگ عالم میں ڈنکا بجا دیا۔(۱)
(۱) واقعہ کی تفصیل جاننے کے لئے اٹھارہویں پارے کی سورۂ نور کے دوسرے رکوع کی تفسیر کا مطالعہ کیجئے!
یہ کسی انسان کی شہادت نہیں ہے ؛بلکہ احکم الحاکمین کی گواہی ہے، اس لئے ذرا اس کے تیور تو ملاحظہ کیجئے ۔۔۔!
لِکُلِّ امْرِیءٍ مِنْہُمْ مَا اکْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہ‘ مِنْہُمْ لَہ‘ عَذَابٌ عَظِیْمٌoاس الزام تراشی میں جتنا کسی نے حصہ لیا، اتنا ہی اس کو گناہ ہوگا اور اس فتنہ و شر کے بانی کے لئے تو عذاب عظیم ہے۔
بہتان تراشوں کے بارے میں ارشاد ہؤا، فَاُولٰءِکَ عِنْدَاﷲِ ہُمُ
الْکَاذِبُوْنَoیہ سب اﷲ کے نزدیک جھوٹے ہیں اور اگر اﷲ کا فضل و کرم تمہارے شامل حال نہ ہوتا اور وہ عفو و درگذر سے کام نہ لیتا تو لَمَسَّکُمْ فِیْمَا اَفَضْتُمْ فِیْہِ عَذَابٌ عَظِیْمٌoتم جس معاملے میں دھنس پڑے تھے، اس کی پاداش میں تم پر عذاب عظیم نازل ہو جاتا۔
پھر تنبیہ کی گئی کہ تم لوگوں نے ایسی بے ہودہ بات کو سننا کیسے گوارا کیا؟
وَ لَوْلَا اِذَ سَمِعْتُمُوْہُ قُلْتُمْ مَایَکُوْنَ لَنَا اَنْ نَتَکَلَّمَ بِہٰذَا سُبْحَانَکَ ہٰذَا بُہْتَانٌ عَظِیْمٌoیہ افواہ سنتے ہی تم نے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات زبان پر لانی ہی نہیں چاہئے۔ سبحان اﷲ یہ تو بہتان عظیم ہے۔
پھر اہل ایمان کو آئندہ کے لئے خبردار کیا گیا۔
یَعِظُکُمُ اﷲُ اَنْ تَعُوْدُوْا لِمِثْلِہٖ اَبَدًا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَoاگر تم مؤمن ہو تو خبردار! آئندہ ایسی حرکت کبھی نہ کرنا۔
ملاحظہ فرمایا آپ نے شہنشاہ ذوالجلال کا انداز سرزنش و عتاب۔۔۔! کتنا غصہ آیا اسے اپنے محبوب کی زوجہ محبوبہؓ پر الزام لگنے سے!!!
چونکہ یہ ساری آیتیں لے کر جبریل امین ہی نازل ہوئے تھے اس لئے اس مقدس ماں کی عظمتوں کا ان سے زیادہ واقف اور کون ہوسکتا ہے۔ غالباً اسی لئے جبریل کی نگاہ میں مؤمنین کی اس مادرِ مہرباں کا اتنا اعزاز و اکرام تھا کہ اس کے کاشانۂ عفت میں داخل ہونے سے پہلے باقاعدہ اجازت طلب کیا کرتے تھے۔
جس پیکر پاکیزگی کے حجلۂ نزاہت میں روح القدس بھی بلا اجازت نہ داخل ہوسکیں، اس کی رفعتوں کا کیا ٹھکانہ!
بنتِ صدیق ، آرام جانِ نبیؐ
اس حریمِ برأت پہ لاکھوں سلام
یعنی ہے سورتِ نور جن کی گواہ
ان کی پُر نور صورت پہ لاکھوں سلام
جن میں روح القدس بے اجازت نہ جائیں
ان سرادق کی عصمت پہ لاکھوں سلام
اپنی اس زوجہ طاہرہ کے ساتھ جانِ دوعالم ا کا ایسا غیر معمولی تعلق تھا کہ جس گھڑی جانِ دوعالم ا اس جہانِ فانی سے رفیقِ اعلیٰ کی جانب روانہ ہوئے، اس وقت آپ انہی کی گود میں، انہی کے شانوں پر سر رکھے ہوئے تھے اور چند لمحے پہلے انہی کے لعاب دہن سے ترشدہ مسواک سے اپنے دندان مبارک صاف کئے تھے۔۔۔ زہے نصیب!
شوہر کی طرف سے ایسی لازوال محبت و رفاقت کس بیوی کو نصیب ہوئی ہوگی!!
بلاشبہ یہ نکاح دنیا کے کامیاب ترین نکاحوں میں سے ایک تھا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ نکاح بھی شوال میں ہؤا اور تین سال بعد رخصتی بھی شوال میں ہوئی۔
افسوس! کہ اپنے نبی کے اسوۂ حسنہ سے لاعلمی کی وجہ سے مسلمانوں میں۔۔۔ خصوصاً ہمارے علاقے میں ۔۔۔یہ وہم پایا جاتا ہے کہ دو عیدوں (عید الفطر اور عید الاضحی) کے درمیان ہونے والی شادیاں ناکام ہو جاتی ہیں ۔۔۔ معاذ اﷲ! کیا رسول اﷲ ا اور عائشہ صدیقہؓ کی شادی ناکام ہوگئی تھی؟
جب ہندو یہاں ہؤا کرتے تھے تو ان کے ساتھ میل ملاپ کی وجہ سے ایسے اوہام مسلمانوں کے گھرانوں میں بھی در آئے۔ عرصہ ہؤا کہ ہندو یہاں سے جاچکے ہیں، مگر ہم ابھی تک اس طرح کے ہزاروں توہمات کے جالوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ فیا حسرتاہ۔



مسلمانوں کو چاہئے کہ دو عیدوں کے درمیانی عرصہ میں زیادہ سے زیادہ شادیاں کرکے اس وہم کو باطل کریں اور اسوۂ رسول ا کی پیروی کا ثواب کمائیں۔
 
آخری تدوین:
سبحان اللہ۔ ماشااللہ بہت خوبصورت۔

افسوس! کہ اپنے نبی کے اسوۂ حسنہ سے لاعلمی کی وجہ سے مسلمانوں میں۔۔۔ خصوصاً ہمارے علاقے میں ۔۔۔یہ وہم پایا جاتا ہے کہ دو عیدوں (عید الفطر اور عید الاضحی) کے درمیان ہونے والی شادیاں ناکام ہو جاتی ہیں
حیران کن
 
Top