محمد امین
لائبریرین
صفحہ ۵۱
برساتے ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو اسے (سمندر کے پانی کی طرح) کڑوا کردیں۔ پھر کیا اسی نعمت کے لیے ضروری نہیں کہ تم شکر گزار ہو؟ اچھا! تم نے یہ بات بھی دیکھی کہ یہ آگ جو تم سلگاتے ہو تو اس کے لیے لکڑی تم نے پیدا کی ہے یا ہم پیدا کر رہے ہیں؟ ہم نے اسے یادگار اور مسافروں کے لیے فائدہ بخش بنایا۔
نظامِ ربوبیت سے توحید پر استدلال:
اسی طرح وہ نظامِ ربوبیت سے توحیدِ الٰہی پر استدلال کرتا ہے۔ جو رب العالمین تمام کائنات کی پرورش کر رہا ہے اور جس کی ربوبیت کا اعتراف تمہارے دل کے ایک ایک ریشے میں موجود ہے، اس کے سوا کون اس کا مستحق ہو سکتا ہے کہ بندگی و نیاز کا سر اس کے آگے جھکایا جائے؟
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿٢١﴾ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۖ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّ۔هِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ﴿٢٢﴾
(البقرۃ: ۲۱۔۲۲)
اے افرادِ نسلِ انسانی! اپنے پروردگار کی عبادت کرو، اس پروردگار کی جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان سب کو بھی پیدا کیا جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں، اور اس لیے پیدا کیا تا کہ تم برائیوں سے بچو۔ وہ پروردگارِ عالم جس نے تمہارے لیے زمین فرش کی طرح بچھا دی اور آسمان چھت کی طرح بنایا اور آسمان سے پانی برسایا تاکہ تمہارے لیے رزق کا سامان ہو۔ پس (جب خالقیت اسی کی خالقیت ہے اور ربوبیت اسی کی ربوبیت تو) ایسا نہ کرو کہ کسی دوسری ذات کو اس کا ہم پلہ ٹھہراؤ، اور تم اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہو!
یا مثلاً سورۂ فاطر میں ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّ۔هِ عَلَيْكُمْ ۚ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّ۔هِ يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا إِلَ۔ٰهَ إِلَّا هُوَ ۖفَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ ﴿٣﴾
(فاطر: ۳)
صفحہ ۵۲
اے افرادِ نسلِ انسانی! اللہ نے اپنی جن نعمتوں سے تمہیں فیض یاب کیا ہے ان پر غور کرو! کیا اللہ کے سوا کوئی دوسرا بھی خالق ہے جو تمہیں زمین اور آسمان کی بخشائشوں سے رزق دے رہا ہے؟ نہیں، کوئی معبود نہیں ہے، مگر اسی کی ایک ذات! پھر تم (اس سے روگردانی کر کے) کدھر بہکے چلے جا رہےہو؟ ۲۴؎
نظامِ ربوبیت سے وحی و رسالت کی ضرورت پر استدلال:
اسی طرح وہ نظامِ ربوبیت کے اعمال سے انسانی سعادت و شقاوت کے معنوی قوانین اور وحی و رسالت کی ضرورت پر بھی استدلال کرتا ہے۔ جس رب العالمین نے تمہاری پرورش کے لیے ربوبیت کا ایسا نظام قائم کر رکھا ہے، کیا ممکن ہے کہ اس نے تمہاری روحانی فلاح و سعادت کے لیے کوئی قاعدہ مقرر نی کیا ہو؟ جس طرح تمہارے جسم کی ضرورتیں ہیں اسی طرح تمہاری روح کی بھی ضرورتیں ہیں، پھر کیونکر ممکن ہے کہ جسم کی نشوونما کے لیے تو اس کے پاس سب کچھ ہو، لیکن روح کی نشوونما کے لیے اس کے پاس کوئی پروردگاری نہ ہو؟ اگر وہ رب العالمین ہے اور اس کی ربوبیت کے فیضان کا یہ حال ہے کہ ہر ذرہ کے لیے سیرابی اور ہر چیونٹی کے لیے کارسازی رکھتی ہے تو کیونکر باور کیا جاسکتا ہے کہ انسان کی روحانی سعادت کے لیے اس کے پاس کوئی سرچشمگی نہ ہو؟ اس کی پروردگاری اجسام کی پرورش کے لیے آسمان سے پانی برسائے لیکن ارواح کی پرورش کے لیے ایک قطرۂ فیض بھی نہ رکھے؟ تم دیکھتے ہو کہ جب زمین شادابی سے محروم ہو کر مردہ ہوجاتی ہے تو یہ اس کا قانون ہے کہ بارانِ رحمت نمودار ہوتی ہے اور شندگی کی برکتوں سے زمین کے ایک ایک ذرے کو مالامال کردیتی ہے۔ پھر کیا یہ ضروری نہیں کہ جب عالمِ انسانیت ہدایت و سعادت کی شادابیوں سے محروم ہوجائے تو اس کی بارانِ رحمت نمودار ہو کر ایک ایک روح کو پیامِ زندگی پہنچا دے؟ روحانی سعادت کی بارش کیا ہے؟ وہ کہتا ہے: وحیِ الٰہی ہے۔ تم اس منظر پر کبھی متعجب نہیں ہوتے کہ پانی برسا اور مردہ زمین زندہ ہوگئی۔ پھر اس بات پر کیوں چونک اٹھو کہ وحیِ الٰہی ظاہر ہوئی اور مردہ روحوں میں زندگی کی جنبش پیدا ہوگئی؟
برساتے ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو اسے (سمندر کے پانی کی طرح) کڑوا کردیں۔ پھر کیا اسی نعمت کے لیے ضروری نہیں کہ تم شکر گزار ہو؟ اچھا! تم نے یہ بات بھی دیکھی کہ یہ آگ جو تم سلگاتے ہو تو اس کے لیے لکڑی تم نے پیدا کی ہے یا ہم پیدا کر رہے ہیں؟ ہم نے اسے یادگار اور مسافروں کے لیے فائدہ بخش بنایا۔
نظامِ ربوبیت سے توحید پر استدلال:
اسی طرح وہ نظامِ ربوبیت سے توحیدِ الٰہی پر استدلال کرتا ہے۔ جو رب العالمین تمام کائنات کی پرورش کر رہا ہے اور جس کی ربوبیت کا اعتراف تمہارے دل کے ایک ایک ریشے میں موجود ہے، اس کے سوا کون اس کا مستحق ہو سکتا ہے کہ بندگی و نیاز کا سر اس کے آگے جھکایا جائے؟
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿٢١﴾ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۖ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّ۔هِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ﴿٢٢﴾
(البقرۃ: ۲۱۔۲۲)
اے افرادِ نسلِ انسانی! اپنے پروردگار کی عبادت کرو، اس پروردگار کی جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان سب کو بھی پیدا کیا جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں، اور اس لیے پیدا کیا تا کہ تم برائیوں سے بچو۔ وہ پروردگارِ عالم جس نے تمہارے لیے زمین فرش کی طرح بچھا دی اور آسمان چھت کی طرح بنایا اور آسمان سے پانی برسایا تاکہ تمہارے لیے رزق کا سامان ہو۔ پس (جب خالقیت اسی کی خالقیت ہے اور ربوبیت اسی کی ربوبیت تو) ایسا نہ کرو کہ کسی دوسری ذات کو اس کا ہم پلہ ٹھہراؤ، اور تم اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہو!
یا مثلاً سورۂ فاطر میں ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّ۔هِ عَلَيْكُمْ ۚ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّ۔هِ يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا إِلَ۔ٰهَ إِلَّا هُوَ ۖفَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ ﴿٣﴾
(فاطر: ۳)
صفحہ ۵۲
اے افرادِ نسلِ انسانی! اللہ نے اپنی جن نعمتوں سے تمہیں فیض یاب کیا ہے ان پر غور کرو! کیا اللہ کے سوا کوئی دوسرا بھی خالق ہے جو تمہیں زمین اور آسمان کی بخشائشوں سے رزق دے رہا ہے؟ نہیں، کوئی معبود نہیں ہے، مگر اسی کی ایک ذات! پھر تم (اس سے روگردانی کر کے) کدھر بہکے چلے جا رہےہو؟ ۲۴؎
نظامِ ربوبیت سے وحی و رسالت کی ضرورت پر استدلال:
اسی طرح وہ نظامِ ربوبیت کے اعمال سے انسانی سعادت و شقاوت کے معنوی قوانین اور وحی و رسالت کی ضرورت پر بھی استدلال کرتا ہے۔ جس رب العالمین نے تمہاری پرورش کے لیے ربوبیت کا ایسا نظام قائم کر رکھا ہے، کیا ممکن ہے کہ اس نے تمہاری روحانی فلاح و سعادت کے لیے کوئی قاعدہ مقرر نی کیا ہو؟ جس طرح تمہارے جسم کی ضرورتیں ہیں اسی طرح تمہاری روح کی بھی ضرورتیں ہیں، پھر کیونکر ممکن ہے کہ جسم کی نشوونما کے لیے تو اس کے پاس سب کچھ ہو، لیکن روح کی نشوونما کے لیے اس کے پاس کوئی پروردگاری نہ ہو؟ اگر وہ رب العالمین ہے اور اس کی ربوبیت کے فیضان کا یہ حال ہے کہ ہر ذرہ کے لیے سیرابی اور ہر چیونٹی کے لیے کارسازی رکھتی ہے تو کیونکر باور کیا جاسکتا ہے کہ انسان کی روحانی سعادت کے لیے اس کے پاس کوئی سرچشمگی نہ ہو؟ اس کی پروردگاری اجسام کی پرورش کے لیے آسمان سے پانی برسائے لیکن ارواح کی پرورش کے لیے ایک قطرۂ فیض بھی نہ رکھے؟ تم دیکھتے ہو کہ جب زمین شادابی سے محروم ہو کر مردہ ہوجاتی ہے تو یہ اس کا قانون ہے کہ بارانِ رحمت نمودار ہوتی ہے اور شندگی کی برکتوں سے زمین کے ایک ایک ذرے کو مالامال کردیتی ہے۔ پھر کیا یہ ضروری نہیں کہ جب عالمِ انسانیت ہدایت و سعادت کی شادابیوں سے محروم ہوجائے تو اس کی بارانِ رحمت نمودار ہو کر ایک ایک روح کو پیامِ زندگی پہنچا دے؟ روحانی سعادت کی بارش کیا ہے؟ وہ کہتا ہے: وحیِ الٰہی ہے۔ تم اس منظر پر کبھی متعجب نہیں ہوتے کہ پانی برسا اور مردہ زمین زندہ ہوگئی۔ پھر اس بات پر کیوں چونک اٹھو کہ وحیِ الٰہی ظاہر ہوئی اور مردہ روحوں میں زندگی کی جنبش پیدا ہوگئی؟