محمد مبین امجد
محفلین
اسے ابھی آئے ہوئے چند ہی ہفتے ہوئے تھے۔۔ تقسیم ہند کے بعد در بدر کی خاک چھان کر وہ اس گاؤں پہنچا تو ، اسی کو اپنا مسکن بنا لیا ۔
کبھی کبھی وہ عالم جذب میں ایک نعرہ مستانہ بلند کرتا۔ ۔ "میں مسلم لیگی ہوں"
۔۔ اور۔۔
اور وہ خبطی تھا ۔کہ سب اسے خبطی سمجھتے تھے۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ کسی سے بات نہ کرتا۔۔۔ اور اپنے ہی حال میں مست رہتا۔ ہاں اس نے اپنی کوٹھی پہ بڑے اہتمام سے انبا لہ ہاؤس لکھا ہوا تھا۔ کبھی کبھی میرا دل چاہتا کہ اسے پوچھوں جناب اگر بھارت چھوڑنے کا اتنا ہی دکھ تھا، تو چھوڑا کیوں۔۔؟؟؟ وہیں رہ جاتے۔ کیوں اتنی مصیبتیں جھیلیں اور ۔۔۔
اور اگر وہاں کے شہر سے ہی نسبت جوڑنی تھی تو کیوں اپنے رشتے دار گنوائے۔۔؟؟؟ کیوں قائد اعظم کی فوج میں ایک ادنیٰ سپاہی بنے۔۔؟؟؟
کیوں آخر کیوں۔۔۔؟
مگر میں اس سے پوچھ نہ پاتا۔۔ کہیں وہ ناراض نہ ہو جائے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مگر کچھ سوال ایسے ہوتے ہیں انہیں تشنہ ہی رہنے دیا جائے تو وہ چبھتے ہیں۔۔ دماغ میں بھونچال پیدا کرتے ہیں۔ اور اسی لیے ۔۔۔
اسی لیے ایک دن میں نے اس سے پوچھ ہی لیا۔۔۔اور اس نے مجھے بتا دیا۔
ہاں میں نے مکان پہ انبالہ ہاؤس لکھا ہے۔۔ کیونکہ میں وہیں سے تو آیا ہوں۔ اور ابھی مجھے وہاں کی گلیاں یاد آتی ہیں۔۔ وہ جہاں میں نے بچپنا گزارا تھا۔۔ وہ سب مجھےآج بھی یاد آتا ہے تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔۔
چاچا رام چندر ۔۔ جو مجھے بے حد پیار کرتاتھا اور میرے بابا کا بہت قریبی دوست تھا۔مگر۔۔۔۔۔
مگر جب تقسیم کا شور اٹھا تو کیسے اس نے آنکھیں پھیر لی تھیں۔ اور تو اور ہمارے گھر پہ دھاوا بولنے والوں میں وہ پیش پیش تھا۔ اور اسی نے تو میری ماں کے کانوں سے بالیاں کھینچی تھیں ۔۔ اور میری ماں کے کانوں پہ چیرا آگیا تھا۔۔ اور جب ہمارے مکان کو آگ لگائی گئی تو اسی نے اپنے گھر سے تیل کی گیلن مہیا کی تھی۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حالانکہ میرا باپ پکا کانگریسی تھا۔۔ وہ تو پاکستان کے قیام کے حق میں بھی نہیں تھا۔۔ اور اسی کو دیکھتے ہوئے میں بھی پکا کانگریسی تھا۔۔ ان کے جلسوں میں شرکت کرتا اور پاکستان مخالف نعرے لگاتا۔۔
اور انہی ہندوؤں نے جو میرے نعروں کا پرجوش جواب دیتے۔۔۔ میری تقریروں پہ مجھے کندھوں پہ اٹھا لیتے۔ میرے سامنے میرے باپ،بھائی، اور بہنوں کو میرے سامنے قتل کر دیا۔۔ بچوں کو ہوا میں اچھا ل کر نیزوں میں پرو دیا۔۔صرف اس لیے کہ میں مسلمان تھا اور۔۔۔۔۔۔
اور میرا مسلمان ہونا ہی میرا قصور بن گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اور اس دن مجھے سمجھ آئی کہ۔۔۔
میں جو سمجھتا تھا کہ پاکستان کی کوئی ضرورت نہیں۔۔ اور الگ وطن کا مطالبہ کرنے والوں سے بھی میرا یہی سوال ہوتا کہ آپ الگ وطن لے کر کیا کرو گے۔۔ اصل مسئلہ تو انگریزوں کا ہے ۔۔ بس انہیں مار بھگاؤ۔ اور خود امن و سکون سے رہو۔مگر۔۔۔
مگر اس دن مجھے سمجھ آئی کہ پاکستان ناگزیر ہے ۔ اور اس دن مجھے سمجھ آئی کہ گاندھی کا امن کا پیغام تو ڈھونگ تھا اور وہ ہمیں انگریزوں کی غلامی سے نکال کر اپنی غلامی میں رکھنا چاہتا ہے ۔ اور تب مجھے سمجھ آئی کہ مسلمان اپنے لیے علیحدہ ملک کا مطالبہ کیوں کرتے تھے۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اور میں نے اسی دن کانگریس چھوڑ دی۔۔۔ اور اسی دن مسلم لیگی ہونے کا نعرہ لگا دیا اور ۔۔۔ پاکستان کی طرف چلا آیا۔اور۔۔۔
اور تب سے ہی میں مسلم لیگی ہوں۔
اور بابو۔۔۔۔۔ اگر تم کہتے ہو تو میں انبالہ کا لفظ ہٹا دیتا ہوں۔۔
میں نے کہا کہ نہیں نہیں۔۔۔۔ بس ٹھیک ہے رہنے دو۔ مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر اگلے دن میں نے دیکھا تو اس نے انبالہ ہٹا کر پاکستان ہاؤس لکھ دیا تھا۔۔۔!
اور وہ خبطی تھا ۔کہ سب اسے خبطی سمجھتے تھے۔۔۔۔ مگر وہ تو بہت حساس اور سمجھدار تھا۔
کبھی کبھی وہ عالم جذب میں ایک نعرہ مستانہ بلند کرتا۔ ۔ "میں مسلم لیگی ہوں"
۔۔ اور۔۔
اور وہ خبطی تھا ۔کہ سب اسے خبطی سمجھتے تھے۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ کسی سے بات نہ کرتا۔۔۔ اور اپنے ہی حال میں مست رہتا۔ ہاں اس نے اپنی کوٹھی پہ بڑے اہتمام سے انبا لہ ہاؤس لکھا ہوا تھا۔ کبھی کبھی میرا دل چاہتا کہ اسے پوچھوں جناب اگر بھارت چھوڑنے کا اتنا ہی دکھ تھا، تو چھوڑا کیوں۔۔؟؟؟ وہیں رہ جاتے۔ کیوں اتنی مصیبتیں جھیلیں اور ۔۔۔
اور اگر وہاں کے شہر سے ہی نسبت جوڑنی تھی تو کیوں اپنے رشتے دار گنوائے۔۔؟؟؟ کیوں قائد اعظم کی فوج میں ایک ادنیٰ سپاہی بنے۔۔؟؟؟
کیوں آخر کیوں۔۔۔؟
مگر میں اس سے پوچھ نہ پاتا۔۔ کہیں وہ ناراض نہ ہو جائے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مگر کچھ سوال ایسے ہوتے ہیں انہیں تشنہ ہی رہنے دیا جائے تو وہ چبھتے ہیں۔۔ دماغ میں بھونچال پیدا کرتے ہیں۔ اور اسی لیے ۔۔۔
اسی لیے ایک دن میں نے اس سے پوچھ ہی لیا۔۔۔اور اس نے مجھے بتا دیا۔
ہاں میں نے مکان پہ انبالہ ہاؤس لکھا ہے۔۔ کیونکہ میں وہیں سے تو آیا ہوں۔ اور ابھی مجھے وہاں کی گلیاں یاد آتی ہیں۔۔ وہ جہاں میں نے بچپنا گزارا تھا۔۔ وہ سب مجھےآج بھی یاد آتا ہے تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔۔
چاچا رام چندر ۔۔ جو مجھے بے حد پیار کرتاتھا اور میرے بابا کا بہت قریبی دوست تھا۔مگر۔۔۔۔۔
مگر جب تقسیم کا شور اٹھا تو کیسے اس نے آنکھیں پھیر لی تھیں۔ اور تو اور ہمارے گھر پہ دھاوا بولنے والوں میں وہ پیش پیش تھا۔ اور اسی نے تو میری ماں کے کانوں سے بالیاں کھینچی تھیں ۔۔ اور میری ماں کے کانوں پہ چیرا آگیا تھا۔۔ اور جب ہمارے مکان کو آگ لگائی گئی تو اسی نے اپنے گھر سے تیل کی گیلن مہیا کی تھی۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حالانکہ میرا باپ پکا کانگریسی تھا۔۔ وہ تو پاکستان کے قیام کے حق میں بھی نہیں تھا۔۔ اور اسی کو دیکھتے ہوئے میں بھی پکا کانگریسی تھا۔۔ ان کے جلسوں میں شرکت کرتا اور پاکستان مخالف نعرے لگاتا۔۔
اور انہی ہندوؤں نے جو میرے نعروں کا پرجوش جواب دیتے۔۔۔ میری تقریروں پہ مجھے کندھوں پہ اٹھا لیتے۔ میرے سامنے میرے باپ،بھائی، اور بہنوں کو میرے سامنے قتل کر دیا۔۔ بچوں کو ہوا میں اچھا ل کر نیزوں میں پرو دیا۔۔صرف اس لیے کہ میں مسلمان تھا اور۔۔۔۔۔۔
اور میرا مسلمان ہونا ہی میرا قصور بن گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اور اس دن مجھے سمجھ آئی کہ۔۔۔
میں جو سمجھتا تھا کہ پاکستان کی کوئی ضرورت نہیں۔۔ اور الگ وطن کا مطالبہ کرنے والوں سے بھی میرا یہی سوال ہوتا کہ آپ الگ وطن لے کر کیا کرو گے۔۔ اصل مسئلہ تو انگریزوں کا ہے ۔۔ بس انہیں مار بھگاؤ۔ اور خود امن و سکون سے رہو۔مگر۔۔۔
مگر اس دن مجھے سمجھ آئی کہ پاکستان ناگزیر ہے ۔ اور اس دن مجھے سمجھ آئی کہ گاندھی کا امن کا پیغام تو ڈھونگ تھا اور وہ ہمیں انگریزوں کی غلامی سے نکال کر اپنی غلامی میں رکھنا چاہتا ہے ۔ اور تب مجھے سمجھ آئی کہ مسلمان اپنے لیے علیحدہ ملک کا مطالبہ کیوں کرتے تھے۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اور میں نے اسی دن کانگریس چھوڑ دی۔۔۔ اور اسی دن مسلم لیگی ہونے کا نعرہ لگا دیا اور ۔۔۔ پاکستان کی طرف چلا آیا۔اور۔۔۔
اور تب سے ہی میں مسلم لیگی ہوں۔
اور بابو۔۔۔۔۔ اگر تم کہتے ہو تو میں انبالہ کا لفظ ہٹا دیتا ہوں۔۔
میں نے کہا کہ نہیں نہیں۔۔۔۔ بس ٹھیک ہے رہنے دو۔ مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر اگلے دن میں نے دیکھا تو اس نے انبالہ ہٹا کر پاکستان ہاؤس لکھ دیا تھا۔۔۔!
اور وہ خبطی تھا ۔کہ سب اسے خبطی سمجھتے تھے۔۔۔۔ مگر وہ تو بہت حساس اور سمجھدار تھا۔
آخری تدوین: