داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دئے جلانے لگے
اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گماں
ہم یہ کیسا قدم اُٹھانے لگے
رخ بدلنے لگا فسانے کا
لوگ محفل سے اُٹھ کے جانے لگے
ایک پل میں وہاں سے ہم اُٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
اپنی قسمت سے ہے مفر کس کو
تیر پر اُڑ کے بھی نشانے لگے