انتخابی مہم، عسکریت پسندوں کی سرپرستی میں

بعض حلقوں میں یہ پہچاننا مشکل ہے کہ امیدوار کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہے یا پھر سپاہ صحابہ پاکستان اور اہل سنت والجماعت سے۔
partnerships-some-solo-ventures-in-the-sectarian-sector-670.jpg


خانیوال: کبیروالا میں آج کل گویا سیاست اور مذہب آپس میں گھل مل گئے ہیں۔ مثال کے طور پر شیعہ مخالف جذبات کو فروغ دینے، کٹر رہنماؤں اور گروہوں کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرنے والی تنظیمیں، جیسے کہ کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان، (جو اہل سنت والجماعت کے نام سے متحرک ہے) اور لشکر جھنگوی۔ 1990ء سے اس علاقے نے مقامی سیاستدانوں اور انتہاپسندوں کے نہایت قریبی اتحاد کے مظاہرے دیکھے ہیں۔
یہاں رضا حیات ہراج کی مثال لی جائے تو انہوں نے اپنے حلقہ انتخاب این اے-156 میں دیوبندی عقائد کے بڑھتے ہوئے اثرات کے بعد دیوبندی عقیدے کے پیروکاروں کے ووٹوں کی اہمیت کو محسوس کیا۔ ان کے مرحوم والد اقبال ہراج پہلے ہی سپاہ صحابہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو فروغ دے چکے تھے، اور رضا ہراج نے اس کو استعمال کرتے ہوئے پچھلے دو انتخابات میں سید فخر امام کو شکست دے کر اسمبلی میں اپنی واپسی کو یقینی بنایا تھا۔
اس علاقے کے دیوبندی رہنما اپنے ووٹ بینک کو متحد رکھنے کی اہمیت کو جان چکے ہیں، اسی لیے وہ امیدواروں کو شکست دینے کے لیے ان کی جماعتی وابستگی کو اہمیت دیے بغیر اس چیز کو پیش نظر رکھتے ہیں کہ کس امیدوار کے روابط اہل سنت والجماعت اور مقامی دیوبندی قیادت کے ساتھ زیادہ مستحکم ہیں۔
مفتی حامد حسن کا کہنا ہے کہ “اگر کسی انتخابی حلقے میں ایک سے زیادہ دیوبندی مکتبہ فکر کے ماننے والے امیدوار حصہ لے رہے ہوں گے تو اس صورت میں دیوبندی ووٹ تقسیم ہوجائیں گے۔”
یاد رہے کہ مفتی حماد حسن کبیر والا کے معروف دیوبندی مدرسے دارالعلوم عیدگاہ میں حدیث کا درس دیتے ہیں، جو سپاہ صحابہ کے بانی مولانا حق نواز جھنگوی اور ان کے جانشین مولانا ضیاءالرحمان فاروقی کی مادر علمی بھی ہے۔
چنانچہ اس اصول کے مطابق طے پانے والے سمجھوتےکے تحت ہی اہل سنت والجماعت کے نامزد امیدوار افتخار حقانی نے رضاہراج کی حمایت میں اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے تھے۔
مفتی حماد نے کہا کہ“یہ دارالعلوم اپنے طلباء اور پیروکاروں کو براہ راست نہیں کہتا کہ کسی خاص جماعت یا امیدوار کو ووٹ دیں۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم لوگوں کی رہنمائی کریں کہ وہ اپنے ووٹ کا استعمال نہایت ہشیاری کے ساتھ کریں اور ایماندار، مذہبی فکر رکھنے والے شفاف کردارکے حامل امیدواروں کو منتخب کریں۔”
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں یہ تسلیم کیا کہ ہراج خاندان نے دل کھول کر مدرسہ کے لیے رقم عطیہ کی ہے۔
لیکن اس مرتبہ ہراج خاندان اور اہل سنت والجماعت کے درمیان قائم اتحاد پر دھند چھائی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ دارالعلوم عیدگاہ تو گیارہ مئی کو ہونے والے انتخابات رضاہراج کی حمایت کررہاہے، لیکن اہل سنت والجماعت کی قیادت کا ذہن اب بدل گیا ہے اور انہوں نے رضا ہراج کی صوبائی اسمبلی کے لیے حمایت ترک کردی ہے۔
مقامی جامعہ مسجد کے خطیب مولانا عبدالخالق جو حلقہ این اے-156 سے اہل سنت والجماعت کے اُمیدوار ہیں نے بتایا “ہم (یعنی اہل سنت والجماعت) 1997ء سے نہایت وفاداری کے ساتھ رضا ہراج کی حمایت کر رہے تھے، اس لیے کہ ان کے والد اقبال ہراج نے ہمارے مقصد کا ساتھ دینے کا عہد کیا تھا۔ انہوں نے ناموس صحابہ کے بل پر دستخط بھی کیے تھے، جو اس وقت سپاہ صحابہ پاکستان کے رہنما مولانا اعظم طارق کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔اقبال ہراج نے اس کے باوجود کہ ملک کی وزیراعظم اور ان کی پارٹی لیڈر بے نظیر بھٹو کے دباؤ کے باوجود اس بل کی حمایت سے دستبردار ہونے سے انکار کردیا تھا۔
انہوں نے کہا“ہراج اپنے ایک شیعہ دوست کو صوبائی اسمبلی کی نشست سے لانا چاہتے ہیں لیکن ہمارے بندوں میں سے کسی ایک کے لیے گنجائش نکالنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اور اس کے علاوہ انہوں نے ترقی کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔”
رضا ہراج سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نہ تو فون کال کا جواب دیا، نہ ہی ملاقات کا وقت مانگنے کے لیے بھیجے گئے پیغام کا ، وہ اس وقت آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ 2002ء میں جب انہوں نے پیٹریاٹس گروپ جوائن کیا تھا، تو وہ پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر اور پھر 2008ء میں مسلم لیگ قاف کے ٹکٹ پر اسمبلی میں پہنچے تھے۔ ان کے مدّمقابل سید فخر امام تھے۔ انہیں جب پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ قاف نے ٹکٹ نہیں دیا تو انہوں نے مسلم لیگ نون کے ٹکٹ کے لیے قسمت آزمائی کرنا چاہی تھی۔
رضا ہراج اور مولانا عبدالخالق کے درمیان بیس ہزار کے لگ بھگ شیعہ مخالف دیوبندیوں کے ووٹ تقسیم ہوجائیں گے، اور خالق کی جیت کے امکانات کو بڑھا دیں گے۔ لیکن اس بات کا اندیشہ ہے کہ کسی بھی وقت بھی ان میں سمجھوتہ ہوسکتا ہے۔
اس طرح کا بھی امکان ہے کہ وہ کامیابی کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہوئےشریف سیاستدان کی طرح حالات کے دھارے میں خود کو چھوڑ سکتے ہیں، انہیں اپنا سیاسی کیئر بچانے کے لیے شدید ضرورت ہے۔
اگر آپ جنوب کی طرف آگے بڑھیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ کبیر والا میں انتہا پسند تنظیموں اور انتخابی امیدواروں کے درمیان ایسے اتحاد بن رہے ہیں، جن سے عام ووٹر پس پردہ چلے گئے ہیں اور مدرسوں، عسکریت پسند فرقہ پرست گروپ، اور جہادی گروہ منظر عام پر نمایاں ہوتے جارہے ہیں۔
تاحال اہل سنت والجماعت کا اثر جنوبی پنجاب کے مختلف علاقو٘ ں میں پھیلا ہوا ہے، اس کے تحت رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ چھوٹے اور بڑے ہزاروں مدرسے کام کررہے ہیں۔ اس شیعہ مخالف گروہ نے خود کو دوسروں کے بینر کے ذریعے ان مقامات پر خود کو پوشیدہ کیا ہوا ہے۔
اسی طرح کسی جگہ دیوبندی جماعتیں متحدہ دینی محاذ کے تحت اکھٹا ہیں، جبکہ دیگر مقامات پر دیوبندی امیدوار آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ اور جہاں اس گروپ کے پاس اپنے مضبوط امیدوار موجود نہیں ہیں، تو انہوں نے دیگر سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کے ساتھ انفرادی طور پر اتحاد کر رکھا ہے، تاکہ ان کی حمایت کو اپنے حق میں استعمال کرسکیں۔
بہاولپور کے بہت سے مقامات سے رحیم یار خان کی طرف آگے بڑھیں تو مقامی شہری آپ سے کہیں گے کہ اہل سنت والجماعت نے اپنے امیدواروں سے جگہ بھردی ہے، کچھ ان میں گمنام ہیں اوروہ اسمبلی میں پہنچنے کے لیے نہیں کھڑے ہیں۔ “اس بات سے کوئی انکار نہیں کرے گا کہ مذہبی ووٹروں کا حجم اب ان علاقوں میں بہت زیادہ نمایاں ہوگیا ہے، اس کی وجہ چاروں اطراف میں پھیلے ہوئے مذہبی مدرسے ہیں۔”
بہاولپور نیشنل عوامی پارٹی کے انتخابی امیدوار فاروق اعظم ملک جو بہاولپور کی نشست حلقہ این اے-185 سے حصہ لے رہے ہیں، نے کہا“یہ حمایت انتخابی حلقوں میں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بکھری ہوئی ہے اور ایک جگہ مجتمع نہیں ہےیا دو علاقوں میں انتخابی نتائج پر اثر انداز ہو گی۔” اس کے علاوہ انہوں نے اس سے انکار کیا کہ انتخابات میں حمایت حاصل کرنے کے لیےسیاستدانوں کی طرف سے مدرسوں کو رقوم کی فراہم کی گئی ہیں۔
خانپور میں جہاں جنوری 2011ء میں محرم کے ایک جلوس پر خودکش حملے میں اکیس افراد ہلاک ہوگئے تھے، اہل سنت والجماعت کے تحصیل سطح کے صدر ملک محمد یعقوب نے متنبہ کیا کہ دیوبندی ووٹ کی طاقت کو حقیر سمجھنے کی غلطی نہ کی جائے۔
ملک یعقوب جو اس تنظیم کے اندر ملک اسحاق کے گروپ کی نمائندگی کررہے ہیں، نے کہا“ہم نے مختلف حلقوں میں کافی طاقت حاصل کرلی ہےاور کسی امیدوار کے لیے ہماری حمایت کامیابی کی ضمانت ہے، پھر اگر ہم ووٹروں کی بڑی تعداد کے ساتھ معنی خیز حمایت کی بنیاد وں پر نہ کھڑے ہوتے تو مختلف سیاسی جماعتوں کے امیدوار ہماری حمایت حاصل کرنے کے لیے ہمارے پاس کیوں آتے ؟ ”
ملک یعقوب اس بات کو بلاجھجک تسلیم کرتے ہیں کہ مولانا لدھیانوی اور ملک اسحاق کے مابین شدید اختلافات موجود ہیں، انہوں نے واضح کیا کہ ان کے گروپ نے اپنے امیدوار انتخابی میدان میں اُتارے ہیں، مثلاً بہاولنگر سے تعلق رکھنے والے غلام رسول شاہ جو ملک اسحاق کے ساتھ شیعہ برادری کے لوگوں کی ہلاکتوں میں ملوث ہونے کے الزم کے تحت زیرحراست ہیں۔ رحیم یار خان کے محمد حسین، شورکوٹ جو جھنگ تحصیل کے قریب کبیروالا کے ساتھ ہے، سے آصف معاویہ، میلسی سے راؤ حبیب ، اوریہ تو صرف چند ہی نام ہیں۔
انہوں نے کہا“ہمارے امیدوار جو انتخابی مقابلے میں اہل سنت والجماعت یا متحدہ دینی محاذ کے پلیٹ فارم سے شریک نہیں ہیں، ان میں سے کچھ مقابلہ جاری رکھیں گےجبکہ دیگر امیدواروں کے ساتھ کوئی تصفیہ ہوجاتا ہےکچھ پیچھے ہٹ جائیں گے ۔”
انہوں نے واضح کیا کہ اہل سنت والجماعت میں ان کے گروپ کی طرف سے چند ہی امیدوار الیکشن میں کھڑے ہیں، اس لیے کہ ان کے رہنما ملک اسحاق اس بات کے حق میں نہیں ہیں کہ انتخابات میں حصہ لیا جائے، اس طرح وہ اپنی تنظیم کے مشن پر توجہ مرکوز نہیں کر پائیں گے۔
اس کے باوجود انہوں نے کہا“ہمارے لوگوں کے پاس انتخابات میں خرچ کرنے کے لیے رقم موجود نہیں ہے۔”
اہل سنت والجماعت کے رہنما نے دعویٰ کیا کہ ملک اسحاق کے گروپ نے گزشتہ الیکشن میں مسلم لیگ قاف کی مخالفت میں پیپلزپارٹی کی حمایت کی تھی، اس لیے کہ قاف لیگ کا لال مسجد آپریشن میں کردار شامل تھا۔ انہوں نے کہا“اس وقت کی صورتحال یہ ہے کہ ہم انفرادی طور پر ایسے امیدواروں کی حمایت کریں گےجو ایماندار ہوں، کرپشن سے دور ہوں اور غریبوں کی حالت سدھارنے کا عزم رکھتے ہوں۔اگر کوئی امیدوار ہمارے معیار پر پورا اُترتا ہے تو ہم اس کی حمایت کریں گے قطع نظر اس کے کہ اُسے کس پارٹی نے ٹکٹ دیا ہے۔”
جبکہ انفرادی طور پر امیدوار اپنے حلقہ انتخاب میں اپنے حریفوں پر برتری حاصل کرنے کے لیے انتہاپسند گروپس کے ساتھ اتحاد کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کررہے ہیں، تو کچھ سیاسی جماعتوں نے بھی اپنے ذہن میں اس کو اہمیت دیتے ہوئے جنوبی پنجاب میں بعض انتخابی حلقوں میں مذہبی ووٹ پر اپنی توجہ مرکوز کردی ہے، حالانکہ وہ اپنے پارٹی ٹکٹ جاری کرچکی ہیں۔مثال کے طور پر مسلم لیگ نون نے ڈیرہ اسماعیل خان کے ارب پتی مذہبی رہنما حافظ عبدالکریم کو دوبارہ میدان میں اُتارا ہے، تاکہ شہر میں موجود اہل حدیث ووٹروں کو اپنے حق میں استعمال کیا جاسکے۔
بعض صورتوں میں تو اس سے بھی بدتر صورتحال ہے، یہ پہچاننا مشکل ہوجاتا ہے کہ ایک امیدوار کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہے جس نے اُسے ٹکٹ دیا ہے، یا پھر سپاہ صحابہ پاکستان اور اہل سنت والجماعت سے۔ سردار محمد آباد ڈوگر کا معاملہ اس صورتحال کو واضح کرتا ہے، جنہیں مسلم لیگ نون نے خان گڑھ، مظفر گڑھ سے قومی اسمبلی کے لیے ٹکٹ دیا ہے، سب جانتے ہیں کہ ڈوگر کے سپاہ صحابہ پاکستان کے ساتھ تعلقات ہیں اور انہوں نے سلمان تاثیر کواسلام آباد میں ان کے سیکیورٹی گارڈ کے قتل کرنے سے قبل کھلم کھلا ان کے سر کی قیمت دو کروڑ لگائی تھی، کہ جو انہیں قتل کرے گا وہ اسے بیس کروڑ دیں گے۔
ایک کارنر میٹنگ کے بعد سردار آباد ڈوگر نے سپاہ صحابہ کے ساتھ کسی بھی قسم کے روابط کی سختی سے تردید کی ، لیکن جب ان سے ماضی میں سپاہ صحابہ کے ساتھ ان کے تعلقات اور سلمان تاثیر کے قتل کے لیے بھاری رقم کے اعلان کے حوالے سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے بات کو گھمادیا، “میں ناموس رسالت کے تحفظ کے لیے اپنی اور اپنے بچوں کی جان دے سکتا ہوں، کوئی بھی فتویٰ مجھے ڈرا نہیں سکتا، کیا آپ ناموس صحابہ کا تحفظ نہیں کریں گے؟”
پھر انہوں نے تالیوں کی گونج میں یہ اعلان کیا کہ نوازشریف وہ واحد سیاستدان ہیں جو خلیفتہ المسلمین کے خطاب کے معیار پر پورے اُترتے ہیں۔
بہ شکریہ ڈان اردو
 
Top