انتخابی مہمات | سرمایہ کاری یا فلاحی اخراجات

محمداحمد

لائبریرین
چونکہ پاکستان میں انتخابات نزدیک ہیں سو یہاں انتخابی مہمات اور ان پر ہونے والے اخراجات بھی زیرِ بحث آنے چاہیے۔ اس دھاگے کا مقصد یہی ہے۔

ہمارے ہاں طبقہ اُمراء کے ہمہ وقت اقتدار میں رہنے کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ انتخابی مہم میں اس قدر پیسہ استعمال ہوتا ہے کہ غریب یا متوسط شخص تو انتخابات لڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ انتخابی پوسٹرز، بینرز، وال چاکنگ، ٹی وی اشتہارات سے لے کر بڑے بڑے جلسوں تک اور انتخابات والے دن ووٹرز کو گھر سے انتخابی مرکز تک لانے لے جانے کی سواریوں کا بندوبست اور بریانی کی دیگیں بنوانے کے لئے اتنا پیسہ چاہیے ہوتا ہے کہ عام آدمی تو الیکشن لڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

کوئی بھی شخص ملک سے اس قدر مخلص نہیں ہوتا کہ محض عوام کی فلاح کے لئے کروڑوں روپے انتخابات میں لگائے۔ نتیجتاً وہ اس سب خرچے کو سرمایہ کاری تصور کرتا ہے اور اقتدار میں آ کر وصولی کا کام شروع کر دیتا ہے۔

انتخابات کے لئے ایسے قواعد و ضوابط بنائے جانا اشد ضروری ہیں کہ عام آدمی بھی بغیر سرمایہ لگائے انتخابات میں حصہ لے سکے۔ یہ کام حکومت اور الیکشن کمیشن کا ہے کہ انتخابی خرچوں کو نہ ہونے کے برابر کیا جائے اور انتہائی ضروری اخراجات مثلاً دور دراز علاقوں کے ووٹرز کی انتخابی مرکز تک رسائی حکومت اپنے ذمے لے لے۔اور اُمیدواروں کو پابند کرے کہ وہ اپنے طور پر کوئی خرچہ نہ کریں۔

اگر یہ سب ممکن ہو سکے تو انتخابات کبھی کاروبار نہیں بنیں نتیجتاً ہمیں مخلص قیادت میسر آئے ۔

اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے؟؟؟
 

حسان خان

لائبریرین
آپ کی بات تو درست ہے، لیکن یہاں کا کچھ نظام ہی ایسا ہے کہ پیسے خرچ کیے بغیر ووٹ حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ صرف یہاں کیا، ایک دو کالموں میں پڑھا تھا کہ امریکا تک میں ایک امیدوار کے لیے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔

لیکن پاکستان میں جو امیدوار خود سے خرچ نہیں کر سکتے، اُن کے اخراجات جماعت شاید اپنی جمع شدہ پونجی سے اٹھائے گی۔ متحدہ اور تحریکِ انصاف نے درمیانی اور نچلے طبقوں کے کئی لوگوں کو ٹکٹ دیا ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
آپ کی بات تو درست ہے، لیکن یہاں کا کچھ نظام ہی ایسا ہے کہ پیسے خرچ کیے بغیر ووٹ حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ صرف یہاں کیا، ایک دو کالموں میں پڑھا تھا کہ امریکا تک میں ایک امیدوار کے لیے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔

لیکن پاکستان میں جو امیدوار خود سے خرچ نہیں کر سکتے، اُن کے اخراجات جماعت شاید اپنی جمع شدہ پونجی سے اٹھائے گی۔ متحدہ اور تحریکِ انصاف نے درمیانی اور نچلے طبقوں کے کئی لوگوں کو ٹکٹ دیا ہے۔

اصل بات نظام کو تبدیل کرنے کی ہی ہے۔ یہ نظام تبدیل ہونا چاہیے اور انتخابات کو ان آلائشوں سے حتی الامکان پاک ہونا چاہیے۔

یہ بہت اچھی بات ہے کہ تحریکِ انصاف یا ایم کیو ایم والے متوسط طبقے کے اُمیدواروں کے اخراجات خود برداشت کررہ ہیں۔ تاہم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کل کو یہی جماعتیں اُمیدوار سے اس خرچے (سرمایہ کاری) کا عوض (کسی بھی شکل میں) مانگنے لگ جائیں۔ جب اُمیدوار بغیر کسی احسان کے منتخب ہوگا تو اُسے اپنی خودداری برقرار رکھنا زیادہ سہل ہوگی۔
 

حسان خان

لائبریرین
اس کا نظام کیسے تبدیل ہوگا؟ اور اگر نظام تبدیل ہو بھی گیا تو انتخابی مہم چلانے کے لیے سرمائے کی ضرورت تو پھر بھی پڑے گی۔ ایک جلسے پر بھی لاکھوں خرچ ہو جاتے ہیں۔

ایک جماعت کا نام میں لینا بھول گیا تھا۔ جماعتِ اسلامی کے بھی اکثر امیدوار متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اس کا نظام کیسے تبدیل ہوگا؟ اور اگر نظام تبدیل ہو بھی گیا تو انتخابی مہم چلانے کے لیے سرمائے کی ضرورت تو پھر بھی پڑے گی۔ ایک جلسے پر بھی لاکھوں خرچ ہو جاتے ہیں۔

ایک جماعت کا نام میں لینا بھول گیا تھا۔ جماعتِ اسلامی کے بھی اکثر امیدوار متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔

جلسے تو چلیے پارٹی کے خرچ پر ہی ہوں لیکن انتخابی مہم اور تشہیری اخراجات کوانتہائی محدود کرنا ضروری ہے۔ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ ہر پولنگ اسٹیشن پر اُمیدواروں کے کوائف اور ان کے منشور کی عوام تک رسائی کو یقینی بنائے۔ ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن ٹی وی پروگرامز کے ذریعے ہر جماعت کے نمائندوں کے پیغامات کو عوام تک پہنچانے کا کام کریں۔ (یہ کام نیوز چینلز بھی کر رہے ہیں بلکہ پی ٹی وی بھی کر رہا ہے۔)۔

اس سلسلے میں بات ہونی چاہیے، غور و فکر ہونا چاہیے۔ یقیناً راستے نکل آئیں گے۔

بقول شاعر:

راستے بند نہیں سوچنے والوں کے لئے
 
انتخابی اخراجات کو انتہائی کم ہونا چاہیے ورنہ کسی صورت امیدواروں کو ایک جیسے مواقع میسر نہیں آئیں گے ، نتیجہ یہ ہو گا کہ جس کے پاس زیادہ پیسہ ہوں گے وہ زیادہ تشہیر اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر لے گا۔

انتخابات میں اپنی ستائش اور کارناموں سے زیادہ مخالفوں کی برائیاں اور خامیاں اجاگر کرنا لوگوں کے ذہن پر زیادہ اثر چھوڑتا ہے اور اس میں جس کے پاس زیادہ سرمایہ ہو اور وہ اسے استعمال کرنے کی پوزیشن میں ہو تو وہ بہت اچھے اور صاف امیدوار کا کردار بھی الزامات کی متواتر تکرار سے داغدار نہ سہی تو انتہائی مشکوک ضرور بنا دے گا۔

اب اتنے چینل موجود ہیں کہ الیکشن کمیشن ان سے فائدہ اٹھا کر امیدواروں کو ٹی وی پر آنے اور اپنا موقف براہ راست پیش کرنے کے لیے کوئی لائحہ عمل ترتیب دے سکتا ہے جس سے کافی لوگوں کو براہ راست اور ریکارڈنگ کی صورت میں امیدوار کی گفتگو اور ارادے جاننے کا موقع مل سکتا ہے۔

اس کے علاوہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے استعمال کی بڑھوتی سے بھی پیسہ کی لاگت کو کم کیا جا سکتا ہے۔
 

زرقا مفتی

محفلین
میرے خیال میں اس کے لئے مزید انتخابی اصلاحات کی ضرورت ہے۔
ہمارے انتخابات میں
بڑے بڑے بل بورڈز پوسٹرز پمفلت اور اشتہارات استعمال کئے جاتے ہیں
بڑے بل بورڈز پر یا تو پابندی ہونی چاہیئے یا ان کے سائز اور دو تین مخصوص مقامات ہونے چاہیئں
پوسٹرز پر پابندی ہونی چاہیئے
الیکشن کے روز ٹرانسپورٹ اور دیگوں پر مکمل پابندی ہونی چاہیئے
ٹی وی چینلز پر امیدواروں کے درمیان مباحثے ہونے چاہیئں
سوشل نیٹ ورکس پر امیدواروں سے سوالات کا انتظام ہونا چاہیئے
 

شمشاد

لائبریرین
سب سے پہلے تو ان گنت دولت ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے پارٹی کے سربراہ کو ادا کی جاتی ہے۔ پھر انتخابی مہم پر ہر قسم کی دھاندلی روا رکھنے کے لیے بے حساب دولت خرچ کی جاتی ہے۔ تھوڑی بہت عوام پر بھی خرچہ کر دیا جاتا ہے۔ اور پھر الیکشن جیت کر سود سمیت وصولی کی جاتی ہے۔
 
میرے خیال میں تو برائی کو جڑ سے ختم کرنا چاہیے
اب ان میں سے بے شمار لوگ اپنے فوری فائدہ کے لیے اسمبلی میں جاتے ہیں
یعنی کہ "صوابدیدی فنڈ" کے لیے
اب اگر "صوابدیدی فنڈ" کو سرے سے ختم کر دیا جائے تو ان میں سے بہت سارے اپنی صنعتوں اور کاروباروں پر توجہ دینے لگیں گے
آخر دنیا کے کس ملک میں اسمبلی ممبران کو "قومی خزانہ" یوں بانٹنے کا حق دیا جاتا ہے؟؟؟
ہر جگہ اسمبلی ممبران کا کام "قانون سازی" ہوتا ہے
جبکہ یہاں "بندر بانٹ" ہوتا ہے
آپ کتوں کے درمیان سے "گوشت بھری ہڈی" ہٹا دیں تو ان پاگلوں کے شر سے محفوظ ہو جائیں گے
 

محمداحمد

لائبریرین
یوں تو انٹرنیٹ اور سوشل نیٹ ورک کے ذریعے انتخابی مہہم ہو سکتی ہے تاہم پاکستان میں اکثریت کے پاس یہ سہولیات میسر نہیں ہیں۔ ٹی وی ایک بڑا میڈیا ہے ٹی وی کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک بات پہنچائی جا سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن، حکومت اور نجی ٹی وی ادارے مل کر یہ کام با آسانی کر سکتے ہیں۔ یوں بھی نیوز چینلز یہ کام کسی نہ کسی حد تک کرتے ہی ہیں۔

محسن وقار علی

واقعی یہ بات ٹھیک ہے۔ قومی اور صوبائی مجلس شوریٰ کے ارکان کو قانون سازی اور دیگر اہم معاملات تک محدود رہنا چاہیے۔ اس طرح ان نشستوں سے "کاروباری" حضرات کی دلچسپی ختم ہو جائے گی اور اہل لوگ سامنے آ سکیں گے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ایسا کرتے ہیں یہاں ہم انتخابی مہمات اور پیسے کے عمل دخل سے متعلق سفارشات جمع کر لیتے ہیں۔

اگر تحریکِ انصاف برسرِ اقتدار آئی تو زرقا مفتی یہ سفارشات اُن تک پہنچا دیں گی۔ اگر ن لیگ میدان مارتی ہے تو ایچ اے خان بھائی یہ کام کریں گے۔

اور اگر پیپلز پارٹی جیت گئی تو اس دھاگے کو حذف کروا دیں گے۔ :)
 
یوں تو انٹرنیٹ اور سوشل نیٹ ورک کے ذریعے انتخابی مہہم ہو سکتی ہے تاہم پاکستان میں اکثریت کے پاس یہ سہولیات میسر نہیں ہیں۔ ٹی وی ایک بڑا میڈیا ہے ٹی وی کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک بات پہنچائی جا سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن، حکومت اور نجی ٹی وی ادارے مل کر یہ کام با آسانی کر سکتے ہیں۔ یوں بھی نیوز چینلز یہ کام کسی نہ کسی حد تک کرتے ہی ہیں۔

واقعی یہ بات ٹھیک ہے۔ قومی اور صوبائی مجلس شوریٰ کے ارکان کو قانون سازی اور دیگر اہم معاملات تک محدود رہنا چاہیے۔ اس طرح ان نشستوں سے "کاروباری" حضرات کی دلچسپی ختم ہو جائے گی اور اہل لوگ سامنے آ سکیں گے۔

مجھے پاکستانی الیکشن مہم میں سب سے بری بات یہ ووٹرز کو پولنگ کے لیے لے جانا لگتی ہے۔
جیسے وہ تو معزور ہیں اور یہ انہین پہنچانا اپنا فرض سمجھتے ہیں
معزور تو ہم ہیں لیکن "ذہنی"
احمد بھائی ۔"کاروباری" حضرات کی دلچسپی اک دم ختم نہیں ہو گی۔البتہ اس میں نمایاں کمی ضرور آئے گی
پھر یہ لوگ سرکا ری ٹھیکے وغیرہ لینے کے لیے سیاستدانوں کو "برائیب" کییا کریں گے
 

زرقا مفتی

محفلین
ایسا کرتے ہیں یہاں ہم انتخابی مہمات اور پیسے کے عمل دخل سے متعلق سفارشات جمع کر لیتے ہیں۔

اگر تحریکِ انصاف برسرِ اقتدار آئی تو زرقا مفتی یہ سفارشات اُن تک پہنچا دیں گی۔ اگر ن لیگ میدان مارتی ہے تو ایچ اے خان بھائی یہ کام کریں گے۔

اور اگر پیپلز پارٹی جیت گئی تو اس دھاگے کو حذف کروا دیں گے۔ :)
احمد بھائی اگر تحریکِ انصاف کی حکومت آئی تو وہ ایم این اے اور ایم پی اے حضرات کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز ختم کردے گی ۔ مزید یہ کہ ترقیاتی فنڈز بلدیات کے ذریعے خرچ ہونگے تاکہ ہر شہر ہر ضلعے میں کام ہوں یہ نہیں کہ ایک دو شہروں پر پورے صوبے کا بجٹ خرچ ہو جائے۔ ان دو باتوں کا اعلان پہلے ہی ہو چکا ہے
اس لئے سفارشات مجھے پہنچانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی
 

محمداحمد

لائبریرین
احمد بھائی اگر تحریکِ انصاف کی حکومت آئی تو وہ ایم این اے اور ایم پی اے حضرات کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز ختم کردے گی ۔ مزید یہ کہ ترقیاتی فنڈز بلدیات کے ذریعے خرچ ہونگے تاکہ ہر شہر ہر ضلعے میں کام ہوں یہ نہیں کہ ایک دو شہروں پر پورے صوبے کا بجٹ خرچ ہو جائے۔ ان دو باتوں کا اعلان پہلے ہی ہو چکا ہے
اس لئے سفارشات مجھے پہنچانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی

جی اس بات کا وعدہ تو عمران خان نے کیا ہے۔

پھر بھی آپ سفارشات بھیج دیجے گا تاکہ یاد دہانی بھی رہے اور انتخابی مہمات کے حوالے سے الیکشن کمیشن بھی بہتر حکمتِ عملی اختیار کر سکے۔ ورنہ ہمارے ہاں حکومت اور الیکشن کمیشن کو ان باتوں کا خیال انتخابات کے دنوں میں ہی آتا ہے۔
 
Top