انتخاب ندا فاضلی

الف عین

لائبریرین
نیل گگن میں تیر رہا ہے اجلا اجلا پورا چاند
کن آنکھوں سے دیکھا جائے چنچل چہرے جیسا چاند
مُنّی کی بھولی باتوں سی چھِٹکیں تاروں کی کلیاں
پپّو کی معصوم شرارت سا چھپ چھپ کر ابھرا چاند
مجھ سے پوچھو کیسے کاٹی میں نے پربت جیسی رات
تم نے تو گودی میں لے کر گھنٹوں چوما ہوگا چاند
پردیسی سونی آنکھوں میں شعلے سے لہراتے ہیں
بھابھی کی چھیڑوں سے بادل، آپا کی چُٹکی سا چاند
تم بھی لکھنا تم نے اس شب کتنی بار پیا پانی
تم نے بھی تو چھجّے اوپر دیکھا ہوگا پورا چاند
 

الف عین

لائبریرین
پیا نہیں جب گاؤں میں
آگ لگے سب گاؤں میں
کتنی میٹھی تھی املی
ساجن تھے جب گاؤں میں
سچ کہہ گُیّاں اور کہاں
ان جیسی چھب گاؤں میں
ان کے جانے کی تاریخ
دنگل تھا جب گاؤں میں
دیکھ سہیلی دھیمے بھول
بیری ہیں سب گاؤں میں
کتنی لمبی لگتی ہے
پگڈنڈی اب گاؤں میں
من کا سودا، من کا مول
کیسا مذہب گاؤں میں
 

الف عین

لائبریرین
ساجن جنگل پار گئے ہیں، چپ چپ راہ تکوں
بچھیا بیٹھی تھان میں اونگھے، کس سے بات کروں
بن ساجن کچھ بھی نہ سہائے بیٹھے رہنا کام
آنگن کے جامن کو باچوں یا دیوار پڑھوں
آڑی ترچھی ریکھاؤں سے ساری پٹیا لال
کب تک بیٹھے بیٹھے بیسے تیسے اور گِنوں
 

الف عین

لائبریرین
ایک ملاقات


نیم تلے دو جسم اجانے
چم چم ندیا جل
اڑی اڑی چہرے کی رنگت
کھلے کھلے زلفوں کے بل
دبی دبی کچھ گیلی سانسیں
جھکے جھکے سے نیل کنول
نام اس کا۔۔۔؟
دو نیلی آنکھیں
زات اس کی ۔۔۔؟
رستے کی رات
مذہب اس کا۔۔۔؟
بھیگا موسم
پتہ۔۔؟
بہاروں کی برسات
 

الف عین

لائبریرین
شیشے سے دھلا چوکا، موتی سے چنے برتن
ہنستا ہوا اک چہرہ، ہنستے ہوئے سو درپن
بچٌّوں سی ہُمکتی شب، گیندوں سے اچھلتے دن
چہروں سے دھلی خوشیاں، زلفوں سے کھلی الجھن
ہر پیڑ کوئ قصّہ، ہر گھر کوئ افسانہ
ہر راستہ پہچانا، ہر چہرے پہ اپنا پن
سمٹی ہوئ چوکھٹ پر اک دھوپ کی بِلّی سی
نیبو کی کیاری میں چاندی کے کئ کنگن
 

الف عین

لائبریرین
لہریں پڑیں تو سویا ہوا جل مچل گیا
پربت کو چیرتا ہوا دریا نکل گیا
رنگوں کے امتزاج میں پوشیدہ آگ تھی
دیکھا تھا میں نے چھو کے مرا ہاتھ جل گیا
اکثر پہاڑ سر پہ گرے اور چپ رہے
یوں بھی ہوا کہ پتّہ ہلا، دل دہل گیا
پہچانتے تو ہوگے نِدا فاضلی کو تم
سورج کو کھیل سمجھا تھا، چھوتے ہی جل گیا
 

الف عین

لائبریرین
قطعہ


گھاس پر کھیلتا ہے اک بچّہ
پاس ماں بیٹھی مسکراتی ہے
مجھ کو حیرت ہے جانے کیوں دنیا
کعبہ و سومنات جاتی ہے
 

الف عین

لائبریرین
پہلا پانی

چھن چھن کرتی ٹین کی چادر
سن سن بجتے پات
پنجرے کا طوطا
دہراتا
رٹی رٹائ بات
مٹھی میں دو جامن
منہ میں
ایک چمکتی سیٹی
آنگن میں چکّر کھاتی ہے
چھوٹی سی برسات
 

الف عین

لائبریرین
ایک دن

سورج!
اک نٹ کھٹ بالک سا
دن بھر شور مچائے
ادھر ادھر چڑیوں کو بکھیرے
کرنوں کو چھترائے
قلم۔۔ درانتی۔۔ برش۔۔ ہتھوڑا
ادھر ادھر پھیلائے
شام
تھکی ہاری ماں جیسی
ایک دیا سلگائے
دھیمے دھیمے
ساری بکھری چیزیں چنتی جائے
 

الف عین

لائبریرین
مشورہ

بلّی کے بچّے کا کب تک دھیان رکھو گی
سگرٹ کی ڈبیوں سے کتنے بیگ بنو گی
ہر دم گودی میں بچّی گھبراتا ہوگا
طوطا دن بھر رٹ رٹ کر تھک جاتا ہوگا
چوڑی کے ٹکروں کی کڑیاں بہت بنا لیں
کاغذ کے پھولوں کی لڑیاں بہت بنا لیں

میری مانو تو ان کو چٹھّی لکھ ڈالو
آخر کب تو خود کو دھوکا دے پاؤ گی
آج نہیں تو کل اس ضد پر پچھتاؤ گی
 

الف عین

لائبریرین
موٗڈس

آج کچھ ٹوٹا ہوا ہوں
یوں نہ سنجھو زندگی سے تھک گیا ہوں
چند لمحوں کو اندھیترا بڑھ گیا ہے
ہر کمر کی ڈال کمھلائ ہوئ ہے
ہر نظر کا پھول مرجھایا ہوا ہے
آئینے چہروں کے دھندلے ہو گئے ہیں
چوڑیوں کے گیت تھک کر سو گئے ہیں
راستے کاموش
بے رونق دوکانیں
شہر گم صم سا دکھائ دے رہا ہے

پھر کسی ناول کا اک رنگین جملہ
بے تکلّف دوست کی اک آدھ گالی
ٹیڑھی میڑھی بد نما سی کوئ دالی
بیچ رستے میں پھدکتی شوخ مینا
یا بھری بانہوں میں اک چونچال بچہ
میرے غم کی گتھّیوں کو کھول دے گا
خشک ہونٹوں میں تبسّم گھول دے گا
اور اس جادو کرن کا نور لے کر
میں جدھر دیکھوں گا چہرے کھِل اٹھیں گے
ہر کمر کی صال لہرانے لگے گی
ہر نظر کا پھول مسکانے لگے گا
سوئے سوئے راستے سجنے لگیں گے
چوڑیوں کے گیت پھر بجنے لگیں گے
آج کچھ ٹوٹا ہوا ہوں۔۔!
 

الف عین

لائبریرین
پھر یوں ہوا

ممکن ہے چند روز پریشاں رہی ہو تم
یہ بھی ہوا ہو، وقت پہ سورج اُگا نہ ہو
املی میں کوئ اچھا کتارا پکا نہ ہو
چھت کی کھلی ہواؤں میں آنچل اُڑا نہ ہو
دو تین دن رضائ میں سردی رکی نہ ہو
کمرے کی رات پنکھ پسارے اُڑی نہ ہو
ہنسنے کی بات پر بھی بمشکل ہنسی ہو تم
ممکن ہے چند روز پریشاں رہی ہو تم
کچھ دن خطوں میں آنسو بہے
شور و غل ہوا
تم زہر پی کے سائیں
میں انجن سے کٹ گیا
پھر یوں ہوا
کہ دھوپ کھلی
ابر چھَٹ گیا
میں نے وطن سے کوسوں پرے گھر بسا لیا
تم نے پڑوس میں نیا بھائ بنا لیا
 

الف عین

لائبریرین
شام

سوکھے کپروں کو چھت سے چنتی ہوئ
پیلی کرنوں کا ہار بنتی ہوئ
گیلے بالوں میں تولیہ لپٹائے
ہاتھ میں اک کٹی پتنگ اٹھائے
دائیں بازو پہ تھوڑی دھوپ سجائے
سیڑھیوں سے
اتر کے
آئ ہے
کس قدر بن سنور کے
آئ ہے
بجتے ہاتھوں سے چمنیاں دھو کر
گھر کے ہر کام سے سبک ہو کر
پالنے کو جھلا رہی ہے شام
پیالیوں میں کھِلا رہی ہے شام
چندا ماموں اُگا رہی ہے شام
 

الف عین

لائبریرین
بجلی کا کھمبا

کئ سال گزرے
کسی پیڑ کی ٹھنڈی چھاؤں تلے
میں
اندھیروں میں گم صم سا بیٹھا ہوا تھا
کئ اجنبی راہگیروں نے مجھ کو
مرا نام لے لے کے آواز دی تھی
فضاؤں میں ہل چل سی ہونے لگی تھی
مگر دوست!!
یہ بات ہے ان دنوں کی
یہاں۔۔
کوئ بجلی کا ھمبا نہیں تھا
مگر چاند کا نور پیلا نہیں تھا
 

الف عین

لائبریرین
قاتِل

وہ
جو ہوٹل میں چائے کے ٹوٹے کپ پر
نئ نئ پھلجھڑیاں سی چھوڑا کرتا ہے
بیٹھے بیٹھے ماچس کو توڑا کرتا ہے
وہ
جو ٹیڑھے سے منہہ کے اک بیل کے اوپر
رستے بھر تیکھے جملے بولا کرتا ہے
رنگ برنگی اُپمائیں سوچا کرتا ہے

وہ
جو چلتے رستے انجانے بچّوں کے
بنے بنائے بالوں کو بکھرا دیتا ہے
رو دیتا ہے کوئ تو بہلا دیتا ہے
جانے کیوں جب سے میں نےا س کو دیکھا ہے
میرے دل میں ایک عجب سا شک بیٹھا ہے
اپنے کمرے کے سنّاٹوں میں چھپ چھپ کر وہ
روز کسی کا قتل کیا کرتا ہوگا وہ
رات گئے تک خون پیا کرتا ہوگا وہ
 

الف عین

لائبریرین
بس کا سفر


میں چاہتا ہوں
یہ چوکور دھوپ کا ٹکڑا
الجھ رہا ہے جو بالوں میں
اس کعو سلجھا دوں
یہ دائیں بازو پہ
نھی سی سک کلی کا نشاں
جو اب کی بار دوپٹّہ اُڑے
تو سہلا دوں
کھُلی کتاب کو ہاتھوں سے چھین کر رکھ دوں
یہ فاختاؤں سے دو پاؤں
گود میں بھر لوں
کبھی کبھی تو سفر ایسے راس آتے ہیں
ذرا سی دیر میں دو گھنٹے بیت جاتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
پگھلتا سورج



آٹے کے کنستر میں پگھلتا ہوا سورج
چرپائ کی ادوان میں
جکڑا ہوا مہتاب
تاروں کی صلیبوں پہ
سسکتا ہوا ہر خواب
لہراتی ہوئ [پنڈلیاں
بجتی ہوئ رانیں
پھٹتی ہوئ ساڑی میں
گِٹھانوں پہ گِٹھانیں
 

الف عین

لائبریرین
شعورِ مرگ


اسے نہیں معلوم
کہ امّاؕ ں کیوں روتی ہیں
سر لٹکاے بہنیں کیوں بیٹھی رہتی ہیں
سورج ڈھلتے ہی
کتّا رونے لگتا ہے
گھڑی گھڑی دروازے کو تکنے لگتا ہے
گھر کا آنگن
میلا میلا کیوں رہتا ہے؟
جگہ جگہ پر پانی پھیلا کیوں رہتا ہے
اسے نہیں معلوم
کہ گُڑیا کب آئ تھی
مٹّی کی ہنڈیا کس نے دلوائ تھی
لیکن جب کوئ پھیری والا آتا ہے
یا کوئ گھر والا اس کو دھمکاتا ہے
جانے وہ کیا ادھر ادھر دیکھا کرتا ہے
جیسے کوئ کھوئ شے ڈھونڈھا کرتا ہے
اور اچانک چِلّا کر رونے لگتا ہے
اسے نہیں معلوم۔۔۔!
 

الف عین

لائبریرین
نئ کھڑکیاں


آمنے سامنے دو نئ کھڑکیاں
جلتی سگرٹ کی لہراتی آواز میں
سوئ ڈورے کے رنگین الفاظ میں
مشورہ کر رہی ہیں کئ روز سے
شاید اب بوڑھے دروازے سر جوڑ کر
وقت کی بات کو وقت پر مان لیں
بیچ کی ٹوٹی پھوٹی گلی چھوڑ کر
کھڑکیوں کے اشاروں کو پہچان لیں
 
Top