اظہرالحق
محفلین
گو گو گو ۔ ۔ ۔
کمانڈر کی آواز نے مجھے جیسے چونکا دیا ۔ ۔ ہم سب باری باری ہیلی کاپٹر سے کود گئے ۔۔ ۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ گوریلا فوج ہمیں فضا میں ہی نشانہ بنا سکتی ہے اسلئے میں نے اپنی مشین گن مضبوطی سے پکڑ لی اور چوکنا ہو گیا ۔ ۔ چاروں طرف ویرانی سی تھی ، اوپر سے ایسا لگتا تھا اس زمین پر کوئی بہت بڑا زلزلہ آیا ہو مگر میں جانتا تھا کہ یہ زلزلہ ہمارا ہی لایا ہوا تھا ۔۔ ۔ ۔ زمیں نزدیک آتی گئی ۔ ۔۔ ہمارا ٹارگٹ سامنے ہی تھا ، میں نے اپنے بیلٹ پر ہاتھ رکھ دیا، میری لینڈنگ کافی سموتھ تھی ، اگر میرا انسٹریکٹر دیکھتا تو بہت خوش ہوتا کیونکہ ٹریننگ میں وہ مجھے سب سے کمزور نظر والا پرندہ کہا کرتا تھا اور اکثر لنگڑا چکور بھی کہتا تھا کیونکہ کبھی بھی میری لینڈنگ اچھی نہ ہوتی ۔ ۔ مگر آج بہت کمال تھی ، میں ذرا بھی نہ ڈگمگایا تھا ۔ ۔۔
اور پھر ہم عمارت کی طرف بھاگے ۔۔ ۔ میرے ساتھ سارجنٹ شمعون بھی تھا ۔ ۔ وہ مجھ سے چند گز کے فاصلے پر اترا تھا ہم دونوں میں بہت دوستی تھی ، ایک ہفتہ پہلے ہی ہم ساحل پر اپنی اپنی گرل فرینڈز کے ساتھ تھے ، کہ ہمیں واپس بلا لیا گیا ۔ ۔ شمعون کو غصہ تو بہت تھا مگر وہ بھی میری طرح کٹر یہودی تھا اس لئے ۔ ۔ ۔ خوشی سے کمان جوائن کر لی ۔ ۔۔
ابھی ہم عمارت کے دروازے تک نہیں پہنچے تھے کہ ہمیں ایک بوڑھا عربی نظر آیا اسکے ساتھ ایک چھوٹی سی بچی تھی ۔ ۔۔ شمعون نے اسے دیکھتے ہی ہالٹ بولا ۔ ۔وہ ہاتھ اٹھا کر کھڑا ہو گیا ۔ ۔ ۔ بچی نے بوڑھے کی طرف دیکھا اور اسنے بھی اسی طرح ہاتھ اوپر کر لئے ۔ ۔ ۔پتہ نہیں کیوں میری ہنسی نکل گئی ۔ ۔ ۔ اس وقت تک ہمارے دوسرے کمانڈو بھی پہنچ چکے تھے ، میجر صاحن جو اس آپریشن کے کمانڈر تھے ، آگے آگے لیڈ کر رہے تھے ۔ ۔ ۔ شمعون نے بوڑھے سے پوچھا کہ اور کون ہیں کدھر ہیں ۔ ۔۔ اسنے سر ہلا دیا کہ کوئی اور نہیں ۔ ۔ ۔ مگر میجر نے کہا کہ ریڈ کرو ۔ ۔ اور پھر ہم نے عمارت پر دھاوا بول دیا ۔ ۔ ایک ایک کمرہ چیک کر لیا تہخانے دیکھ لئے مگر وہاں کوئی بھی نہیں ملا ۔ ۔۔ میجر بہت غصے میں تھا ۔ ۔ ۔ باہر آ کر اسی بوڑھے پر برس پڑا ۔ ۔ مگر بوڑھا کچھ نہ بتا سکا ۔ ۔ ہماری واپسی کے لئے ہیلی کاپٹر عمارت کے سامنے اتر چکا تھا ۔ ۔ مجھے میجر نے بوڑھے کے پاس چھوڑ دیا ۔ ۔ میں نے بوڑھے اور بچی پر اپنی مشین گن تان لی تھی ۔ ۔ ۔ عجیب لگ رہا تھا ۔ ۔ بوڑھے اور بچی کے پاس نہ تو کوئی ہتھیار تھا نہ ہی وہ مجھ جیسے کڑیل سے کچھ بھی کر سکتے تھے ۔۔ مگر ۔ ۔ میں جانتا تھا ۔ ۔ کہ یہ لوگ بہت چالاک ہوتے ہیں بچے بچے کے ذھن میں ہمارے خلاف جذبات ہوتے ہیں ۔ ۔۔
میجر ایک بار پھر لوٹ آیا اور باقی کمانڈوز کو واپسی کا سگنل دے دیا ۔ ۔ ۔اسنے بوڑھے کو دھکا دیا ۔ ۔ اور اسے ایک گندی سی گالی دی عربی میں ۔ ۔ پھر تو جیسے بوڑھے کا کوئی بٹن دب گیا ہو ۔ ۔ وہ چلانے لگا ۔ ۔ بچی رونے لگی تھی ۔ ۔ مجھے اسکی بھیں بھیں کھلنے لگی تھی ۔ ۔ ۔ میجر ہیلی کاپٹر کی طرف لپکا اور مجھے بھی آنے کا اشارہ کیا ۔ ۔ ۔ میں نے پوچھا انکا کیا کرنا ہے ، اسنے کہا جو تم چاہو ۔ ۔ ۔ میں انکی طرف مشین گن تانے ہیلی کاپٹر کی طرف بڑھنے لگا ۔ ۔ میں نے سوچا دونوں کو نہیں مارنا چاہیے ۔ ۔ ایک کو ماروں گا ۔ ۔ ۔ مگر کس کو بوڑھے کو ۔۔ یا بچی کو ۔ ۔ ۔ مجھے مصر کے فرعونوں کا زمانہ یاد آ گیا ۔ ۔ ۔جب ۔ ۔ بنی اسرائیل کے کسی بچے کو ۔۔ ۔ زندہ نہیں رہنے دیا جاتا تھا ۔ ۔ یہ یاد آتے ہی میرا فیصلہ بھی ہو گیا انتخاب بھی میں نے ہیلی کاپٹر پر پاؤں رکھا اور بچی پر برسٹ مار دیا ۔ ۔ وہ جیسے ہوا کے جھونکے سے گر گئی ۔ ۔ بوڑھا ۔ ۔ لہرایا اور اسپر گر پڑا ۔ ۔ اور مجھے پتہ چل گیا تھا کہ فرعون نے بنی اسرائیل کے بچوں کو کیوں قتل کرایا تھا ۔ ۔ ۔
کمانڈر کی آواز نے مجھے جیسے چونکا دیا ۔ ۔ ہم سب باری باری ہیلی کاپٹر سے کود گئے ۔۔ ۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ گوریلا فوج ہمیں فضا میں ہی نشانہ بنا سکتی ہے اسلئے میں نے اپنی مشین گن مضبوطی سے پکڑ لی اور چوکنا ہو گیا ۔ ۔ چاروں طرف ویرانی سی تھی ، اوپر سے ایسا لگتا تھا اس زمین پر کوئی بہت بڑا زلزلہ آیا ہو مگر میں جانتا تھا کہ یہ زلزلہ ہمارا ہی لایا ہوا تھا ۔۔ ۔ ۔ زمیں نزدیک آتی گئی ۔ ۔۔ ہمارا ٹارگٹ سامنے ہی تھا ، میں نے اپنے بیلٹ پر ہاتھ رکھ دیا، میری لینڈنگ کافی سموتھ تھی ، اگر میرا انسٹریکٹر دیکھتا تو بہت خوش ہوتا کیونکہ ٹریننگ میں وہ مجھے سب سے کمزور نظر والا پرندہ کہا کرتا تھا اور اکثر لنگڑا چکور بھی کہتا تھا کیونکہ کبھی بھی میری لینڈنگ اچھی نہ ہوتی ۔ ۔ مگر آج بہت کمال تھی ، میں ذرا بھی نہ ڈگمگایا تھا ۔ ۔۔
اور پھر ہم عمارت کی طرف بھاگے ۔۔ ۔ میرے ساتھ سارجنٹ شمعون بھی تھا ۔ ۔ وہ مجھ سے چند گز کے فاصلے پر اترا تھا ہم دونوں میں بہت دوستی تھی ، ایک ہفتہ پہلے ہی ہم ساحل پر اپنی اپنی گرل فرینڈز کے ساتھ تھے ، کہ ہمیں واپس بلا لیا گیا ۔ ۔ شمعون کو غصہ تو بہت تھا مگر وہ بھی میری طرح کٹر یہودی تھا اس لئے ۔ ۔ ۔ خوشی سے کمان جوائن کر لی ۔ ۔۔
ابھی ہم عمارت کے دروازے تک نہیں پہنچے تھے کہ ہمیں ایک بوڑھا عربی نظر آیا اسکے ساتھ ایک چھوٹی سی بچی تھی ۔ ۔۔ شمعون نے اسے دیکھتے ہی ہالٹ بولا ۔ ۔وہ ہاتھ اٹھا کر کھڑا ہو گیا ۔ ۔ ۔ بچی نے بوڑھے کی طرف دیکھا اور اسنے بھی اسی طرح ہاتھ اوپر کر لئے ۔ ۔ ۔پتہ نہیں کیوں میری ہنسی نکل گئی ۔ ۔ ۔ اس وقت تک ہمارے دوسرے کمانڈو بھی پہنچ چکے تھے ، میجر صاحن جو اس آپریشن کے کمانڈر تھے ، آگے آگے لیڈ کر رہے تھے ۔ ۔ ۔ شمعون نے بوڑھے سے پوچھا کہ اور کون ہیں کدھر ہیں ۔ ۔۔ اسنے سر ہلا دیا کہ کوئی اور نہیں ۔ ۔ ۔ مگر میجر نے کہا کہ ریڈ کرو ۔ ۔ اور پھر ہم نے عمارت پر دھاوا بول دیا ۔ ۔ ایک ایک کمرہ چیک کر لیا تہخانے دیکھ لئے مگر وہاں کوئی بھی نہیں ملا ۔ ۔۔ میجر بہت غصے میں تھا ۔ ۔ ۔ باہر آ کر اسی بوڑھے پر برس پڑا ۔ ۔ مگر بوڑھا کچھ نہ بتا سکا ۔ ۔ ہماری واپسی کے لئے ہیلی کاپٹر عمارت کے سامنے اتر چکا تھا ۔ ۔ مجھے میجر نے بوڑھے کے پاس چھوڑ دیا ۔ ۔ میں نے بوڑھے اور بچی پر اپنی مشین گن تان لی تھی ۔ ۔ ۔ عجیب لگ رہا تھا ۔ ۔ بوڑھے اور بچی کے پاس نہ تو کوئی ہتھیار تھا نہ ہی وہ مجھ جیسے کڑیل سے کچھ بھی کر سکتے تھے ۔۔ مگر ۔ ۔ میں جانتا تھا ۔ ۔ کہ یہ لوگ بہت چالاک ہوتے ہیں بچے بچے کے ذھن میں ہمارے خلاف جذبات ہوتے ہیں ۔ ۔۔
میجر ایک بار پھر لوٹ آیا اور باقی کمانڈوز کو واپسی کا سگنل دے دیا ۔ ۔ ۔اسنے بوڑھے کو دھکا دیا ۔ ۔ اور اسے ایک گندی سی گالی دی عربی میں ۔ ۔ پھر تو جیسے بوڑھے کا کوئی بٹن دب گیا ہو ۔ ۔ وہ چلانے لگا ۔ ۔ بچی رونے لگی تھی ۔ ۔ مجھے اسکی بھیں بھیں کھلنے لگی تھی ۔ ۔ ۔ میجر ہیلی کاپٹر کی طرف لپکا اور مجھے بھی آنے کا اشارہ کیا ۔ ۔ ۔ میں نے پوچھا انکا کیا کرنا ہے ، اسنے کہا جو تم چاہو ۔ ۔ ۔ میں انکی طرف مشین گن تانے ہیلی کاپٹر کی طرف بڑھنے لگا ۔ ۔ میں نے سوچا دونوں کو نہیں مارنا چاہیے ۔ ۔ ایک کو ماروں گا ۔ ۔ ۔ مگر کس کو بوڑھے کو ۔۔ یا بچی کو ۔ ۔ ۔ مجھے مصر کے فرعونوں کا زمانہ یاد آ گیا ۔ ۔ ۔جب ۔ ۔ بنی اسرائیل کے کسی بچے کو ۔۔ ۔ زندہ نہیں رہنے دیا جاتا تھا ۔ ۔ یہ یاد آتے ہی میرا فیصلہ بھی ہو گیا انتخاب بھی میں نے ہیلی کاپٹر پر پاؤں رکھا اور بچی پر برسٹ مار دیا ۔ ۔ وہ جیسے ہوا کے جھونکے سے گر گئی ۔ ۔ بوڑھا ۔ ۔ لہرایا اور اسپر گر پڑا ۔ ۔ اور مجھے پتہ چل گیا تھا کہ فرعون نے بنی اسرائیل کے بچوں کو کیوں قتل کرایا تھا ۔ ۔ ۔