دراصل ہر لفظ کا لفظی ترجمہ تو ہوسکتا ہے لیکن پھر مفہوم بدل جائے گا ۔کیونکہ انتساب کی عبارت کو سمجھنا ایک ذوقی کیفیت ہے نہ کہ لغت لیکر تو مطالب لکھ دینا بہرحال کوشش کرتے ہیں ۔چونکہ میں تو اپنے آپ کو ایک طفل مکتب سمجھتا ہوں استادان فن بیٹھے ہیں اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو تصحیح کردیں شکریہ
افلاطونِ دانش کدہ حقائق
فلاطون(Plato)، جس کا اصل نام
ارسٹوکلیزبتایا جاتا ہےیونان کے موثر ترین فلسفیوں میں سے ایک ہے۔افلاطون
سقراط کا شاگرداور متعدد فلسفیانہ
مکالمات کاخالق اور
ایتھنز میں ”
اکیڈمی” نامی ادارے کا بانی تھا جس میں بعدازاں
ارسطو نے تعلیم حاصل کی۔افلاطون نے اکیڈمی میں وسیع پیمانے پر تعلیم دی اور بہت سے
فلسفیانہ موضوعات، جن میں
سیاست،
اخلاقیات،
مابعدالطبیعیات اور
علمیات شامل ہیں، پر لکھا۔افلاطون کے
مکالمات اسکی اہم ترین تحریریں ہیں، بشکریہ وکی پیڈیا۔
یعنی حقائق کے کالج کے افلاطون (درحقیقت ہم صوفی لوگوں کا خیال ہے کہ افلاطون قطب وقت تھا اور اہل روحانیت میں یہ بات مشہور ہے کہ اس نے اسرار و رموز سے بھری ستائیس تختیاں لکھیں جن میں بحمدللہ دو تختیاں میرے پاس بھی مؤجود ہیں)
جالینیوسِ تفکر گاہِ دقائق ،
دقائق جمع ہے دقیقہ کی زیادہ تر یہ اصطلاح یونانی علم نجوم میں مستعمل ہے مثلاً مریخ برج جدی میں 27درجہ 5 دقیقہ اور 2 ثالثہ پر موجود ہے ۔
جالینوس ایک یونانی مفکر تھا جس نے اخلاطِ اربعہ(صفرا ،دم،ہوا اور بلغم) اور چہار عناصر(آتش،باد،آب اور خاک کا نظریہ پیش کیا اس کے علاوہ علم طب میں تشریح الابدانAnatomyاور اعضاء خارجیہ اور داخلیہ اور ادویات کے مرکبات اور مفردات پر تحقیق کی اور مقالہ جات لکھے۔
مفخرِ عرفائے اعصار یعنی فخرِچنیدہ اولیاء اللہ
مرجع فضلائے امصار یعنی وہ گوشہ جہاں اہل فضل یعنی عالم فاضل لوگ رجوع کرتے ہیں جیسے ایک شعر ہے
سید ہجویر شیدا ہے زمانہ آپ کا
مرجع شاہ گدا ہے آستانہ آپ کا
حیرت خانہ رموز و اسرار :اس کا مطلب تو عام فہم ہے ترجمہ کی ضرورت نہیں ہے
کشافِ معضلاتِ معارف : کشاف کہتے ہیں کھولنا اور معضلات کہتے ہیں گونگوں کے مقابلے یا دونوں طرح سے مشکل کو ۔۔۔۔۔جیسے کہ کہتے ہیں ۔۔۔
اظہار بھی مشکل ہے انکار بھی نہیں کرسکتے
مجبور ہیں اُف اللہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے
یعنی ذات کے متعلق ان عوارف کو جو کہ عام فہم زبان میں ادا نہیں ہوسکتے ہیں اور جن اؤلیاء پر اللہ کا فضل ہوجاتا ہے اور کائنات عالم یا ذات کے بھیدوں پر ان کو مطلع کیا جاتا ہے جیسا کہ حدیث قدسی ہے الانسان سری و انا سرہ ۔ انسان میرا بھید ہے اور میں اس کا راز ہوں تو ان عوارف کو اپنی شاعری میں بطریق معرفت پیش کرنا ۔
جیسا کہ الانسان کامل میں سید عبدالکریم بن ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب دوران معرفت میں چھٹے آسمان پر پہنچا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے میرا استقبال کیا اور کہا کہ یہاں معرفت کی کنواریاں متجلی ہوتی ہیں۔
حلالِ نکاتِ عوارف:یعنی معرفت کے نکتوں کو حل کرنے والے
سباحِ دجلہ فصاحت :سباح کہتے ہیں تیراک کو شائد دجلہ کی روانی اور تیزی کی وجہ سے فصاحت کے ساتھ تشبیہ دی ہو
سیاحِ حدائقِ بلاغت :بلاغت کےگلستان کی سیر کرنے والا
حارسِ عقل وشرع :نگہبان و پاسبان عقل اور شریعت(راستہ)
عارفِ اصل و فرع :جاننے والا اصل اور فرع کا فرع یعنی جزویات جیسے درخت اصل ہے اور شاخیں فرع ہیں
سالکِ بادیہ تجرید :سالک یعنی چلنے والا ۔۔۔۔بادیہ کہتے ہیں صحرا کو ۔۔۔۔۔تجرید کہتے ہیں اللہ کے سوا ہر چیز سے اعراض اور معاوضہ اور اجرت اور انعام کی تمنا سے اپنے باطن کو مجرد کرلینا
اس کے علاوہ ایک اور فارسی ترکیب میں بادیہ ہری بھری چراگاہ کو بھی کہتے ہیں کہ جس میں سبزہ ہو پھلدار و سایہ دار درخت ہوں اور ایک طرف سے ندی یا نہر بہتی ہو۔
نقطہ دائرہِ توحید :اس کی تشریح طولانی ہے بہرحال آپ ادھردیکھ سکتے ہیں۔دیکھیئے پوسٹ نمبر 7 کا یہ شعر
یکے خط است ز اول تا بآخر
ادبیافتہ عَتبَہ عبودیت :یعنی ان کی چوکھٹ عبودیت کی سند سے مزین ہے۔
نہ جانے کیوں یہ شعر لکھنے کو دل کررہا ہے۔
جھکی بحر عبادت جب شہِ بغداد کے در پر
عجب تاثیر سجدہ اپنی پیشانی میں دیکھی ہے
نواختہ نوالِ بابِ رُبوبیت:نواختہ کہتے ہیں نوازا گیا ،نوال کہتے عطا وکرم کو باب کہتے ہیں کتاب کا حصہ یا فصل اور ربوبیت کہتے ہیں پالنہار کو یعنی رب قدیر کے عطا و کرم سےنوازا گیا لوح محفوظ میں لکھا گیا ایک Chapter
مجذوبِ وحدت :اُس احد و واحد کی وحدت میں جذب و گم ہوجانے والا۔
مفتیِہدایت:بغیر کسی طمع و لالچ کاہادی
مکلل بہ اکلیلِ سخن :مکلل کہتے ہیں کسی ایسے لباس یا انگھوٹی کو جس کو موتیوں یا جواہرات سے آراستہ کیا جائے اور اکلیل کہتے ہیں کلغی کو جیسے مختلف پرندوں کی کلغیاں ہوتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ سخن کا ہیرے جواہرات سے جڑا ہوا تاج حضرت کے سَر پر رکھ کر رسم تاجپوشی ادا کی گئی ہو
مزین بہ زیورِ علم و فن :یعنی علم و فن کے زیور سے آراستہ
تربیت یافتہ اولیاء:اللہ کے دوستوں کا تربیت یافتہ
خلاصہ فیضانِ اصفیا: صاحب صفا یعنی جن لوگوں کو قلب کی صفائی حاصل ہے اُن صاحب اخیار لوگوں کے فیض کا مجموعہ و مرقع
نباضِ فطرتِ انسانی:نبض بنیادی طور پر طبابت سے متعلق ہے یعنی طبیب لوگ نبض دیکھ مرض کا ادراک کرتے ہیں۔ یہاں اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانی فطرت و طینیت کے نباض ہیں یعنی ان کے کلام میں ہر طرح کی فطرت کے بندوں کے چننے کے لیئے اپنے اپنے مطلب کےموتی و جواہرات موجود ہیں
خطیبِ منبرِ سخر بیانی:اس کا مطلب تو واضح ہےاگر تو یہ سخر ہے تو مطلب تسخیر کرنا ہے اور اگر سِحر ہے تو بھی واضح ہے
سلطانِ اقلیمِ الفاظ و معانی:الفاظ و معانی کی سلطنت کے بادشاہ ہیں
فقیرِ مستغنی دل :دل کی سلطنت کا بادشاہ یعنی امراء و بادشاہان وقت سے بے نیاز
ابوالفضائل:ابو یعنی باپ اور فضائل جمع ہے فضل کی یعنی فضائل کا باپ