loneliness4ever
محفلین
انتظار
از س ن مخمور
کاش میں کوئی بادل ہوتی زندگی آرام سے ہواکے دوش پر گزرتی، کبھی اِدھر کبھی اُدھر اڑتی پھرتی اور وقت آنے پر کسی بھی جا برس جاتی،میں اپنی اس سوچ پر آپ مسکرا دی، میری مسکراہٹ میں آج بھی مستی سانسیں لیتی ہے مگر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مسکرانے کا من نہیں کرتا۔آج جو ہفتوں بعد مسکرائی تو ہوا بھی بے خود ہو گئی اورمستی میں آکر میرے دوپٹے کو چھیڑتی میری زلفوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر لہرانے لگی۔خیال آیاکہ شام کے سائے بڑھنے کو ہیں ، اماں آج بھی یہ ہی کہتی ہیں کہ دن ڈھلے تو خاص طور سے اپنے بالوں کو سمیٹ کر رکھا کر۔ اماں کا کہا یاد آتے ہی میں نے جلدی سے لہراتی زلفوں کواپنی انگلیوں کے گرد لپیٹ لیا۔
’’چل شرارتی! اب تو مجھ سے مستی کرنا چھوڑ دے ، نگر نگر گھوم کر بھی میرے پاس آنا اور مجھے تنگ کرنا نہیں چھوڑتی ‘‘
میں نے دھیمے سے ہوا کو مخاطب کر کے آپ ہی آپ کہا ، ایسا لگا جیسے چلتی ہوا نے میرا کہا سن لیا ، گزرتے شریر جھونکے نے اپنی چال بدلی اور گھوم کرپھرمیرے رخساروں کو چومااور میرے سر کوڈھانپے دوپٹہ کو مجھ سے جدا کرنا چاہا تو میں بھڑک اٹھی
’’ بدتمیزی کرتی ہے ، بہت ہوا اب یہاں بیٹھتی ہی نہیں ہوں ، آنا چھوڑ دونگی تویاد کرے گی مجھے‘‘
میں نے ہوا سے لپٹے دوپٹے کو اپنے سر پہ سجاتے ہوئے کہا اور فوراَ ہی اٹھ کھڑی ہوئی گھرکوجانے کے لئے ، مگرابھی شایدجھیل کنارے کو میرا اُس کے پاس سے جانا منظور نہ تھا ، میرا طویل ارض کا دوپٹہ سدا بہار پھولوں کی ڈالیوں نے تھام لیا ، میں مسکرا کر پھر وہیں گھاس پر بیٹھ گئی
’’ دیکھو اس طرح تنگ بھی کرتے ہو تم لوگ اور جانے بھی نہیں دیتے‘‘
میں نے رنگ برنگے سدا بہار پھو لوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پیار بھرے لہجے میں کہا ۔ اور نظر اٹھا کر پربت کے سینے کو سیراب کرتے بہتے چشمے کو دیکھا جو وادی کی آغوش میں رواں مگر پرسکون جھیل کی گود میں آگرتا تھا۔غرض ان ہی نظاروں کے ساتھ وہ شام بھی تمام ہوگئی اماں نے گھر کی دہلیز پر کھڑے ہوکر ہاتھ ہلایا کہ اب بہت وقت ہوگیا ہے میں واپس گھر آجائوں۔ گھر جھیل سے کچھ ہی فاصلے پر تھا اماں اکثر دہلیز ہی سے مجھے بلا لیتی تھی۔یہاں دن ڈھلتا اور یہاں میں دو قدم مار کر اپنے گھر میں اماں کے پاس ہوتی ۔میں نے جوابا ہاتھ ہلایا اور سدا بہار کی ڈالیوں پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے ، درخت کو اپنی کمر کا بوسہ دیتے ہوئے یہ کہہ کر اٹھ گئی کہ کل آتی ہوں ۔ مجھے وہاں بیٹھتے ماہ و سال گزر چکے تھے، ڈوبتا سورج پر بت کی اوٹ لیتے ہوئے ہر شام مجھکو سلام کرتا تھا، دھوپ میں درخت کا سایہ میرے بدن کے لمس کا پیاسہ رہتا تھا، پھیلا ہوا مضبوط تنا ہر شام میرے نازک سراپے کو تھام لیتا تھا اور میں اس سے ٹیک لگا کر بہتی جھیل کے پانی میں پائوں لٹکائے گھنٹوں گزار دیتی تھی ۔میرا دوست وہ درخت تھا جس کے قدموں میں اکثر سررکھ کر لمبی گھاس کو اوڑھکر میں آسمان سے ڈھیروںباتیں کرتی تھی، میری سہیلیوں میں اب بہتی جھیل، سدا بہار پھولوں کی ڈالیاں اور وادی میں اڑتی کوئل ہی بچی تھیں ورنہ رخسانہ ، شائستہ ، اور زرمینہ تو ایک ایک کر کے مجھکو دوری کا پیام دیکر اپنے اپنے پیا جی کے ساتھ اس وادی سے رخصت ہو گئی تھیں۔ ابّا جان نے دورمجھے قصبے کے بڑے کالج سے ڈگری پڑھوا کر اس قابل کر دیا تھا کہ یہاں بستی کے بڑے اسکول میں معاون استانی کے طور کام کرنے کا موقع مل گیا تھا۔ اماں جی کی تربیت نے ایسا بے نیاز بنا دیا تھا کہ نگاہ کہ راستے کوئی جنس مخالف دل تک رسائی نہیں پاسکا تھا۔ ماں باپ کا مان بنکر اپنی زندگی کے ہر فیصلے کو انکے ہاتھوں سپرد کرکے میں بس صبح اسکول کو جانا اور وہاں سے ظہر سے پہلے گھر واپس آنے کو ہی اپنے ہاتھوں میں لیکر زندگی ایک انتظار کے سائے تلے اطمینان سے گزار رہی تھی۔ پربتوں میں گھیری وادی اور بستی کا ہر منظر میرا جانا پہنچانا تھا۔ پہلے اباجان کی شرافت ، اماں کی ملنساری اور اب اسکول کی استانی ہونے کے ناطے ہر آنکھ میرے واسطے باادب تھی ۔جھیل کنارے میری بیٹھک روز کا معمول تھی، بچپن میں جھیل سے پرے درخت پر ابا نے جھولا باندھا تھا یوں بچپن کی شامیں جھولے کے سنگ خوب گزریں۔ اب اس عمر میں یوں کھولے عام جھولے پر بیٹھنا ہی عجیب لگتا تھا، اور استانی ہونے کے ناطے اب اس طرح کی تفریح کے لئے لگتا تھا کہ وقت رہا نہیں ہے، مگر یہ تو سوچ کی باتیں ہوتی ہیں ، انتظار کی پرچھائیں کبھی اتنی مہیب ہوجاتیں کہ ہر سُوسیاہی ہی نظر آتی اور کبھی ایک امید بن کر زندگی کی راتوں کو بھی دن جیسا روشن کر دیتی تھیں۔ کبھی لگتا تھا کہ ڈوبتا سورج میرے لئے رب کی بارگاہ میں خوب دعائیں کر رہا ہے اور کبھی لگتا تھا کہ میری اداسی اس پر بھی غالب آگئی ہو اور وہ پربت کی اوٹ میں جا کر خوب رو رہا ہو۔ وقت تھا کہ خاموش چال چلے جا رہا تھا ، میں کبھی کبھی اپنی زندگی کی یکسانیت سے اکتا جاتی تو جھیل کنارے بیٹھ کر خوب کنکر جھیل کی نذر کردیتی تھی ۔ اماں کے بعد کوئی میرے اتنا قریب تھا تو وہی جھیل کنارا جہاں کبھی درخت کے تنے نے میرے رخساروں پر آب دیکھا تھا تو کبھی سدا بہار پھولوں کی ڈالیاں میری اداسی میں لہلہانا بھول جاتی تھیں اور کبھی جھیل میرے بہتے آنسوئوں کو پی جاتی تھی اور کبھی من چلی ہوا میرے رخساروں کا بوسہ لے کر مجھے انتظار کاٹنے کا حوصلہ دیتی تھی۔ وہ جھیل کنارا ایسا تھا جس کی سماعت میں میری آنکھ میں سجا ہر خواب تھا ۔ وہ اور وہاں کا ہر منظر میرا راز دان تھا۔ غرض قدرت کے نظارے میرے بہترین ساتھی تھی مگر افسوس ایک وقت ہی تھا جس کی آنکھ میں کوئی مروت نہیں تھی نہ میرے لئے، نہ میرے بوڑھے ہوتے ماں باپ کے لئے اور نہ ہی ہم جیسے لاکھوں گھرانوں کے لئے ۔مگر وقت کی اس بے مروتی اور بے اعتنائی کو ہر دن ہم مل کر شکست دے دیتے تھے ۔ امیدوں کی روشنی ، ناامیدی کے سورج پر غالب آجاتی تھی جب ہم تینوں ایک دوسرے سے مسکرا کر بات کیا کرتے تھے۔ وقت لاکھ بے اعتنائی اور سرد مہری کے باوجود ہم سے ہماری مسکراہٹ نہیں چھین پایا تھا۔ اماں ، ابا کچھ کہتے نہیں تھے مگر کبھی کبھی لگتا تھا کہ آنکھوں میں بہتا سمندر اب پلکوں کا بند توڑ کر رخساروں کو سیراب کر ہی دے گا مگر آفرین ان ڈھلتے مگر مضبوط اعصاب اور احساس والوں پر جنھوں نے کبھی میرے سامنے اپنے درد کا اظہار نہیں کیا ۔ مگر اب میں بچی تو رہی نہیں تھی خوب سمجھ چکی تھی وہ کیا باتیں ہیں جو اماں ابا کو راتوں کو سونے نہیں دیتی ہیں ۔ میٹھی اور پرسکون ، ہلکی پھلکی نیند کو ان کی آنکھیں ترستی تھیں ۔ وہ گھنٹوں سو لیں مگر ایسا لگتا تھا کہ نیند ان کی آنکھوں میں اتری ہی نہ ہو۔دل چاہتا تھا کہ ان سے لگ کر خوب رو دوں مگر ان ہی کی اولاد تھی اس لئے ضبط کئے رہتی تھی۔مگر پاس درخت کے ، جھیل کنارے ضبط کا ہر بندھن اپنے آپ توڑ دیتی تھی، کوئل اپنی کوک بھول جاتی تھی ، بادل اپنی چال ، میری آنکھ سے آنسو کیا گرتے جھیل کے دل میں ، پربت کی گود میں ، غرض قدرت کے ہر منظر میں اداسی اتر جاتی تھی ۔
وقت تھا کہ اپنی چال بدلنے کو آمادہ نہ تھا، انتظار تھا کہ تمام ہونے کا نام نہیں لیتا تھا، اوراب میں وقت کے دھارے بہتی بہتی وہاں پہنچ گئی تھی جہاں کسی نئے سورج کی آمد کی امید اپنے آپ دم توڑ دیتی ہے۔ مگر ظالم انتظار تھا کہ طویل سے طویل ہوئے جارہا تھا۔ ابا کے توانا ہاتھ اب کانپنے لگے تھے، اماں کو دور کا دیکھنے کے لئے اپنی آنکھیں چھوٹی کرنا پڑتی تھیں مگر عینک لگوانے کووہ راضی نہ تھیں، ابا جنھوں نے تمام عمر اماں اور مجھے سہارا دیا تھا آج لاٹھی پر آچکے تھے ۔ مگر وقت تھا کہ اپنی سخاوت، عنایت کھو چکا تھا، ہفتوں سے اب مہینے ہو جاتے ہم کو مسکراہٹ کا موقع ہی نہیں دیتا تھا۔زندگی خواب کے سہارے سفر کرتے کرتے تھک رہی تھی۔ میں استانی سے ہیڈ ماسٹرنی ہو چلی تھی سیاہی ساتھ چھوڑنے کو تیار بیٹھی تھی ۔ مگر تمام گھرانہ آج بھی دستک کے انتظار میں تھا، گھر ایک راہگزر بن کر رہ گیا تھا، کوئی مسافر ایسا نہ آیا جو دوبارہ آنے کی خواہش کرتا۔ حتی کہ گھر گلشن کی صورت اب بھی تھا، آنکھ میں اب بھی خواب آتے تھے مگر لگتا تھا کہ عمر بھر کی مانگے جانے والی دعائیں آج تلک تاثیر کی تلاش میںہیںیا اپنی باری کے انتظار میں طویل قطار میں کھڑی ہیں۔ میں قدم قدم چلتے چلتے تھک گئی تھی ۔ابا ، اماں کی بڑھتی عمر نے ، ان کی جھکتی کمروں نے میرے حوصلے پست کر دئیے تھے۔ میرے اردگرد قائم حفاظت کی دیوار کمزور پڑ چکی تھی، میں خوفزدہ رہنے لگی تھی۔میں اب اپنے لئے ان سے زیادہ دعائیں کرنے لگی تھی، ایک یہ ہی کام تو ہوتا ہے ہم جیسوں کے پاس مگر شاید ابھی وقت نہیں ہوا تھا ۔یہ جملہ ، یہ دلاسہ بھی کتنا با وفا رہا، تمام عمر ساتھ نبھایا مگر شاید یہ بھی اب بوڑھا ہو گیا تھا ۔اور اپنا اثر کھو چکا تھا۔ کبھی ذہن دہراتا، کبھی من کہتا ’’ابھی وقت نہیں ہوا ہے‘‘ مگر روح تھی کہ اب اس دلاسے پر بھی قرار میں نہیں آتی تھی۔ بے کلی تھی کہ بڑھتی جارہی تھی، گھٹن ہونے لگتی تھی کبھی اور اب توکبھی جیون سے فرار کی خواہش بھی دل میں آنے لگی تھی۔ میں ہار رہی تھی امیداور نامیدی کے درمیان ہونے والی جنگ ،اکثر جھیل کنارے میرا وقت خاموشی کی نذر ہو جاتا تھا۔ میری تمام سہلییاںاوردوست میری خاموشی پر اداس تھے۔طبیعت بھی اب ساتھ نہیں دیتی تھی میں بوڑھی تو نہیں ہوئی تھی مگر خوف نے مجھے اپنی گرفت میں مکمل طور سے لے لیا تھا جس کی وجہ سے میں اپنا ہر عمل جو مجھے زندگی سے رابطے میں رکھے ہوئے تھا ترک کرتی جارہی تھی۔میری سوچوں نے مجھے مفلوج کر دیا تھا۔ اب لفظ’’ انتظار‘‘ سے نفرت ہونے لگی تھی۔ کبھی کبھی بوجھ دل پر اتنا بڑھتا کہ لگتا شاید رخصتی کا وقت آن پہنچا ہو۔ اداسی میری ذات میں اترنا چاہتی تھی مگر آج تلک جھیل کنارے نے اس کو مجھ سے کسی قدر دور کئے ہوئے تھا۔
میں آج بھی برسوںسے مقررہ ہوئے وقت پر جھیل کنارے اپنے دوست درخت کے تنے سے ٹیک لگاکرجابیٹھی۔پچھلے ایک ہفتے سے بخار میں مبتلا تھی اس لئے پورے سات دن کی غیر حاضری کے بعد یہاں آئی تھی، ایسا بہت ہی کم ہوا تھا کہ میں اتنے وقت کے لئے اپنے دوستوں سے دور رہی ہوں۔ ابھی بھی بخار میں تھی مگر میں اب ان سے دوری برداشت نہیں کر سکتی تھی اس لئے پاس جا بیٹھی۔ میں نے پائوں سے چپل اتار کر اپنے پاس رکھے اور جھیل کے پانی میں پائوں ڈال کر بیٹھ گئی۔ ایک خاموشی ساتھ تھی، پھولوں پر ہاتھ پھیرا اور پربت کی بلندیوں کا نظارا کرنے لگی۔ مجھے آج تمام نظارے بہت بے چین نظر آرہے تھے، معلوم نہیں کیوں، شاید وہ جان گئے تھے کہ کیا ہونے کو ہے اور میں بے خبر تھی۔ کوئل نے کوکو کی تو نظاروں نے جیسے اپنی کیفیت مجھ سے چھپا لی اور ایک دم فضا تبدیل ہوگئی۔ میرے ہاتھ کے لمس سے پھول کھل اٹھے ، گھاس تن کے کھڑی ہوگئی، درخت نے پیار سے مجھ کو اپنی آغوش میں لے لیا، میں نے اس کے قدموں میں سر رکھا اور آسمان کا نظارا کرنے لگی، فلک کا چراغ پربت کی اوٹ لینے کو تھا مگر یوں لگ رہا تھا کہ وہ پرلی جانب اترنے کو تیار نہیں ، وہ ٹکٹکی باندھے مجھے دیکھے جا رہا تھا، میں آپ ہی آپ شرما گئی،
’’ کیوں جی اتنی بے حیائی سے کیوں دیکھ رہے ہو؟ لگتا ہے جیسے آج پہلی بار چندہ کو دیکھاہے تم نے؟؟‘‘
میں نے ڈھلتے سورج سے کلام کیا تو جیسے لہلہاتی گھاس کو کچھ خیال آیا اور وہ مزید تن کے کھڑی ہوگئی اور میرے اور سورج کے مقابل آگئی، میں نے پیار سے گھاس کی دیوار پر ہاتھ پھیرا، اور رخ بدل کر گھر کی جانب دیکھا کہیں اماں تو مجھے بلا نہیں رہی ہیں کہ شام رات کی آغوش میں اترنے کو تھی مگر بے حیا سورج آج پربت کنارے جیسے اٹک گیا تھا، اور پرلی جانب رخ کرنے کو تیار نہ تھا۔ اور مسلسل مجھے ہی دیکھے جارہا تھا۔ فلک پر غیر معمولی سرخی پھیل چکی تھی، وقت پورا زور لگا رہا تھا سورج کو پرلی جانب موڑنے پر مگر سورج نے جیسے آج قسم کھائی ہوئی تھی۔ اور اس ہی تگ ودو میں فلک پر لالی بکھر رہی تھی۔ کوئل پھر کوکی اور میری آنکھوں میں جیسے عمر بھر کا خمار اترنے لگا۔ ہواکی چال میں تیزی آگئی، آنکھوں میں پرانے وقتوں کا جھولا جھولنے کا منظر آگیا، میں گزرے وقتوں کے نظاروں سے محظوظ ہونے لگی۔جھولے سے گرنا، رونا، ابا کا لپک کر گود میں لینا، سب آنکھوں میں اتر گیا۔ اماں کا پہلی بار مجھ سے روٹی پکوانا، میراسالن کو جلا دینا، اپنی ناکامی پر بھی اماں کی شاباش، ابا کا مزے لے لے کر لگے ہوئے سالن کے لقمے لینا، تمام مناظر آنکھوں میں تازہ ہوگئے۔ خبر ہی نہ ہوئی کہ کب آنکھوں سے دو قطرے نکل کر درخت کے قدموں سے جا لگے۔میری آنکھوں میں آنسو کب گوارا تھے جھیل کنارے ایک ایک منظر کو۔ یوں لگا جیسے سورج مچل گیا ہو، پربت نے جھک کر مست ہوا کے کان میں کوئی سرگوشی کی ہو، اوپرفلک پر ابر سے رہا نہ گیا اس نے اپنی بانہیں کھول دیں اور تنی گھاس نے جیسے راستہ دے دیا ہو ، سدا بہار کی ڈالیوں نے میرے ہاتھ کا لمس عمر بھر کے واسطے اپنے اندر محفوظ کر لیا ہو، جھیل کا پانی جیسے میرے پائوں سے لپٹ گیا ۔یو ں لگا ایک وہ ہی ہے جو مجھے روک رہا ہے اوپر ابر تو اپنی بانہیں کھول چکا تھا مگر جھیل کا آب میرے پائوں چھوڑنے کو آمادہ نہ تھا کہ ہوا بدمست ہو گئی اور ایسا لگا جیسے بہت زور سے ہوا نے اپنا پر جھیل کی سطح پر مارا ہو، تب کہیں جا کر جھیل نے میرے پائوں چھوڑے، میری آنکھیں لبریز ہو گئی تھیں ماضی کے پیمانے میری آنکھوں میں چھلک پڑے تھے۔میرے لبوں پر ایک مسکراہٹ سج گئی تھی۔ ہواجیسے پوری وادی کا چکر لگا کر اپنی زبان میں کوئی اعلان کر رہی تھی، مجھے یوں لگا کہ میرا دوست درخت میرے اوپر جھک گیا ہے ایک ایک شاخ والہانہ انداز سے میرے بوسے لے رہی ہے، میں ان کے اس انداز پر مسکرا دی، میں نے پھر نگاہ گھر کی دہلیز پر ٹکا دی ایسا لگا جیسے میں یہ نظارا اپنی آنکھوں میں سدا کے لئے محفوظ کرنا چاہ رہی ہوں، دور فلک کی سرخی کی اوٹ سے ایک تارا مدہم روشنی لئے سورج کی ضد کے آگے سر پٹخ رہا تھا، ڈر تھا کہ کہیں وہ اپنا ماتھا لہولہان نہ کر لے ابر نے سورج سے التجا کی، پربت نے ہاتھ تھام کر سورج کو اپنے پیچھے کرنا چاہا مگر وہ مسلسل مجھے دیکھے جارہا تھا، مجھ سے تارے کی بیقراری، ابر کی التجا سنی نہ گئی میں نے اپنا رخ سورج کی جانب کر لیا اور گھاس کی دیوار جیسے زمین سے لگ گئی
’’ دیکھ ضد نہیں کرتے، عمر بھر کا ساتھ رہا ہے لاج رکھ لے ہنس بھی دے اس وقت تو، اور اپنی ضد چھوڑ دے‘‘
میری بات سنتے ہی ایسا لگا جیسے سورج کی آنکھ میں میرا آنسو اتر گیا ہو، ایک تیز چمک کے ساتھ سورج اپنی آنکھوں میں میرا آنسو لئے، لبوں پر مسکراہٹ لئے پربت کی اوٹ میں چلا گیا۔ ماتھا پیٹتے تارے سے روشنی کی ایک لہر نکلی اور آن کی آن میں میرا سراپا اس میں نہا گیا، ابر مجھے اپنی بانہوں میں لینے کے لئے جیسے زمین پر اتر گیا، ہوا نے چکر لگایا اور اپنی لگامیں ڈھیلی چھوڑ دیں، میرا طویل ارض کا دوپٹہ فضا کے دوش پر بلند ہوا اور ہوا نے بہت محبت سے مجھے سر سے پیر تک میری اوڑھنی اوڑھا دی۔ ابر نے آگے بڑھ کر مجھے اپنی آغوش میں لے لیا۔اوس کی صورت وادی میں قدرت کا ایک ایک آنسو سج گیا۔اور میں انتظار تمام ہونے کا خواب اپنی آنکھوں میں لئے ابر کے ہمراہ فلک کی سیر کو چلی گئی۔
س ن مخمور
امر تنہائی
از س ن مخمور
کاش میں کوئی بادل ہوتی زندگی آرام سے ہواکے دوش پر گزرتی، کبھی اِدھر کبھی اُدھر اڑتی پھرتی اور وقت آنے پر کسی بھی جا برس جاتی،میں اپنی اس سوچ پر آپ مسکرا دی، میری مسکراہٹ میں آج بھی مستی سانسیں لیتی ہے مگر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مسکرانے کا من نہیں کرتا۔آج جو ہفتوں بعد مسکرائی تو ہوا بھی بے خود ہو گئی اورمستی میں آکر میرے دوپٹے کو چھیڑتی میری زلفوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر لہرانے لگی۔خیال آیاکہ شام کے سائے بڑھنے کو ہیں ، اماں آج بھی یہ ہی کہتی ہیں کہ دن ڈھلے تو خاص طور سے اپنے بالوں کو سمیٹ کر رکھا کر۔ اماں کا کہا یاد آتے ہی میں نے جلدی سے لہراتی زلفوں کواپنی انگلیوں کے گرد لپیٹ لیا۔
’’چل شرارتی! اب تو مجھ سے مستی کرنا چھوڑ دے ، نگر نگر گھوم کر بھی میرے پاس آنا اور مجھے تنگ کرنا نہیں چھوڑتی ‘‘
میں نے دھیمے سے ہوا کو مخاطب کر کے آپ ہی آپ کہا ، ایسا لگا جیسے چلتی ہوا نے میرا کہا سن لیا ، گزرتے شریر جھونکے نے اپنی چال بدلی اور گھوم کرپھرمیرے رخساروں کو چومااور میرے سر کوڈھانپے دوپٹہ کو مجھ سے جدا کرنا چاہا تو میں بھڑک اٹھی
’’ بدتمیزی کرتی ہے ، بہت ہوا اب یہاں بیٹھتی ہی نہیں ہوں ، آنا چھوڑ دونگی تویاد کرے گی مجھے‘‘
میں نے ہوا سے لپٹے دوپٹے کو اپنے سر پہ سجاتے ہوئے کہا اور فوراَ ہی اٹھ کھڑی ہوئی گھرکوجانے کے لئے ، مگرابھی شایدجھیل کنارے کو میرا اُس کے پاس سے جانا منظور نہ تھا ، میرا طویل ارض کا دوپٹہ سدا بہار پھولوں کی ڈالیوں نے تھام لیا ، میں مسکرا کر پھر وہیں گھاس پر بیٹھ گئی
’’ دیکھو اس طرح تنگ بھی کرتے ہو تم لوگ اور جانے بھی نہیں دیتے‘‘
میں نے رنگ برنگے سدا بہار پھو لوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پیار بھرے لہجے میں کہا ۔ اور نظر اٹھا کر پربت کے سینے کو سیراب کرتے بہتے چشمے کو دیکھا جو وادی کی آغوش میں رواں مگر پرسکون جھیل کی گود میں آگرتا تھا۔غرض ان ہی نظاروں کے ساتھ وہ شام بھی تمام ہوگئی اماں نے گھر کی دہلیز پر کھڑے ہوکر ہاتھ ہلایا کہ اب بہت وقت ہوگیا ہے میں واپس گھر آجائوں۔ گھر جھیل سے کچھ ہی فاصلے پر تھا اماں اکثر دہلیز ہی سے مجھے بلا لیتی تھی۔یہاں دن ڈھلتا اور یہاں میں دو قدم مار کر اپنے گھر میں اماں کے پاس ہوتی ۔میں نے جوابا ہاتھ ہلایا اور سدا بہار کی ڈالیوں پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے ، درخت کو اپنی کمر کا بوسہ دیتے ہوئے یہ کہہ کر اٹھ گئی کہ کل آتی ہوں ۔ مجھے وہاں بیٹھتے ماہ و سال گزر چکے تھے، ڈوبتا سورج پر بت کی اوٹ لیتے ہوئے ہر شام مجھکو سلام کرتا تھا، دھوپ میں درخت کا سایہ میرے بدن کے لمس کا پیاسہ رہتا تھا، پھیلا ہوا مضبوط تنا ہر شام میرے نازک سراپے کو تھام لیتا تھا اور میں اس سے ٹیک لگا کر بہتی جھیل کے پانی میں پائوں لٹکائے گھنٹوں گزار دیتی تھی ۔میرا دوست وہ درخت تھا جس کے قدموں میں اکثر سررکھ کر لمبی گھاس کو اوڑھکر میں آسمان سے ڈھیروںباتیں کرتی تھی، میری سہیلیوں میں اب بہتی جھیل، سدا بہار پھولوں کی ڈالیاں اور وادی میں اڑتی کوئل ہی بچی تھیں ورنہ رخسانہ ، شائستہ ، اور زرمینہ تو ایک ایک کر کے مجھکو دوری کا پیام دیکر اپنے اپنے پیا جی کے ساتھ اس وادی سے رخصت ہو گئی تھیں۔ ابّا جان نے دورمجھے قصبے کے بڑے کالج سے ڈگری پڑھوا کر اس قابل کر دیا تھا کہ یہاں بستی کے بڑے اسکول میں معاون استانی کے طور کام کرنے کا موقع مل گیا تھا۔ اماں جی کی تربیت نے ایسا بے نیاز بنا دیا تھا کہ نگاہ کہ راستے کوئی جنس مخالف دل تک رسائی نہیں پاسکا تھا۔ ماں باپ کا مان بنکر اپنی زندگی کے ہر فیصلے کو انکے ہاتھوں سپرد کرکے میں بس صبح اسکول کو جانا اور وہاں سے ظہر سے پہلے گھر واپس آنے کو ہی اپنے ہاتھوں میں لیکر زندگی ایک انتظار کے سائے تلے اطمینان سے گزار رہی تھی۔ پربتوں میں گھیری وادی اور بستی کا ہر منظر میرا جانا پہنچانا تھا۔ پہلے اباجان کی شرافت ، اماں کی ملنساری اور اب اسکول کی استانی ہونے کے ناطے ہر آنکھ میرے واسطے باادب تھی ۔جھیل کنارے میری بیٹھک روز کا معمول تھی، بچپن میں جھیل سے پرے درخت پر ابا نے جھولا باندھا تھا یوں بچپن کی شامیں جھولے کے سنگ خوب گزریں۔ اب اس عمر میں یوں کھولے عام جھولے پر بیٹھنا ہی عجیب لگتا تھا، اور استانی ہونے کے ناطے اب اس طرح کی تفریح کے لئے لگتا تھا کہ وقت رہا نہیں ہے، مگر یہ تو سوچ کی باتیں ہوتی ہیں ، انتظار کی پرچھائیں کبھی اتنی مہیب ہوجاتیں کہ ہر سُوسیاہی ہی نظر آتی اور کبھی ایک امید بن کر زندگی کی راتوں کو بھی دن جیسا روشن کر دیتی تھیں۔ کبھی لگتا تھا کہ ڈوبتا سورج میرے لئے رب کی بارگاہ میں خوب دعائیں کر رہا ہے اور کبھی لگتا تھا کہ میری اداسی اس پر بھی غالب آگئی ہو اور وہ پربت کی اوٹ میں جا کر خوب رو رہا ہو۔ وقت تھا کہ خاموش چال چلے جا رہا تھا ، میں کبھی کبھی اپنی زندگی کی یکسانیت سے اکتا جاتی تو جھیل کنارے بیٹھ کر خوب کنکر جھیل کی نذر کردیتی تھی ۔ اماں کے بعد کوئی میرے اتنا قریب تھا تو وہی جھیل کنارا جہاں کبھی درخت کے تنے نے میرے رخساروں پر آب دیکھا تھا تو کبھی سدا بہار پھولوں کی ڈالیاں میری اداسی میں لہلہانا بھول جاتی تھیں اور کبھی جھیل میرے بہتے آنسوئوں کو پی جاتی تھی اور کبھی من چلی ہوا میرے رخساروں کا بوسہ لے کر مجھے انتظار کاٹنے کا حوصلہ دیتی تھی۔ وہ جھیل کنارا ایسا تھا جس کی سماعت میں میری آنکھ میں سجا ہر خواب تھا ۔ وہ اور وہاں کا ہر منظر میرا راز دان تھا۔ غرض قدرت کے نظارے میرے بہترین ساتھی تھی مگر افسوس ایک وقت ہی تھا جس کی آنکھ میں کوئی مروت نہیں تھی نہ میرے لئے، نہ میرے بوڑھے ہوتے ماں باپ کے لئے اور نہ ہی ہم جیسے لاکھوں گھرانوں کے لئے ۔مگر وقت کی اس بے مروتی اور بے اعتنائی کو ہر دن ہم مل کر شکست دے دیتے تھے ۔ امیدوں کی روشنی ، ناامیدی کے سورج پر غالب آجاتی تھی جب ہم تینوں ایک دوسرے سے مسکرا کر بات کیا کرتے تھے۔ وقت لاکھ بے اعتنائی اور سرد مہری کے باوجود ہم سے ہماری مسکراہٹ نہیں چھین پایا تھا۔ اماں ، ابا کچھ کہتے نہیں تھے مگر کبھی کبھی لگتا تھا کہ آنکھوں میں بہتا سمندر اب پلکوں کا بند توڑ کر رخساروں کو سیراب کر ہی دے گا مگر آفرین ان ڈھلتے مگر مضبوط اعصاب اور احساس والوں پر جنھوں نے کبھی میرے سامنے اپنے درد کا اظہار نہیں کیا ۔ مگر اب میں بچی تو رہی نہیں تھی خوب سمجھ چکی تھی وہ کیا باتیں ہیں جو اماں ابا کو راتوں کو سونے نہیں دیتی ہیں ۔ میٹھی اور پرسکون ، ہلکی پھلکی نیند کو ان کی آنکھیں ترستی تھیں ۔ وہ گھنٹوں سو لیں مگر ایسا لگتا تھا کہ نیند ان کی آنکھوں میں اتری ہی نہ ہو۔دل چاہتا تھا کہ ان سے لگ کر خوب رو دوں مگر ان ہی کی اولاد تھی اس لئے ضبط کئے رہتی تھی۔مگر پاس درخت کے ، جھیل کنارے ضبط کا ہر بندھن اپنے آپ توڑ دیتی تھی، کوئل اپنی کوک بھول جاتی تھی ، بادل اپنی چال ، میری آنکھ سے آنسو کیا گرتے جھیل کے دل میں ، پربت کی گود میں ، غرض قدرت کے ہر منظر میں اداسی اتر جاتی تھی ۔
وقت تھا کہ اپنی چال بدلنے کو آمادہ نہ تھا، انتظار تھا کہ تمام ہونے کا نام نہیں لیتا تھا، اوراب میں وقت کے دھارے بہتی بہتی وہاں پہنچ گئی تھی جہاں کسی نئے سورج کی آمد کی امید اپنے آپ دم توڑ دیتی ہے۔ مگر ظالم انتظار تھا کہ طویل سے طویل ہوئے جارہا تھا۔ ابا کے توانا ہاتھ اب کانپنے لگے تھے، اماں کو دور کا دیکھنے کے لئے اپنی آنکھیں چھوٹی کرنا پڑتی تھیں مگر عینک لگوانے کووہ راضی نہ تھیں، ابا جنھوں نے تمام عمر اماں اور مجھے سہارا دیا تھا آج لاٹھی پر آچکے تھے ۔ مگر وقت تھا کہ اپنی سخاوت، عنایت کھو چکا تھا، ہفتوں سے اب مہینے ہو جاتے ہم کو مسکراہٹ کا موقع ہی نہیں دیتا تھا۔زندگی خواب کے سہارے سفر کرتے کرتے تھک رہی تھی۔ میں استانی سے ہیڈ ماسٹرنی ہو چلی تھی سیاہی ساتھ چھوڑنے کو تیار بیٹھی تھی ۔ مگر تمام گھرانہ آج بھی دستک کے انتظار میں تھا، گھر ایک راہگزر بن کر رہ گیا تھا، کوئی مسافر ایسا نہ آیا جو دوبارہ آنے کی خواہش کرتا۔ حتی کہ گھر گلشن کی صورت اب بھی تھا، آنکھ میں اب بھی خواب آتے تھے مگر لگتا تھا کہ عمر بھر کی مانگے جانے والی دعائیں آج تلک تاثیر کی تلاش میںہیںیا اپنی باری کے انتظار میں طویل قطار میں کھڑی ہیں۔ میں قدم قدم چلتے چلتے تھک گئی تھی ۔ابا ، اماں کی بڑھتی عمر نے ، ان کی جھکتی کمروں نے میرے حوصلے پست کر دئیے تھے۔ میرے اردگرد قائم حفاظت کی دیوار کمزور پڑ چکی تھی، میں خوفزدہ رہنے لگی تھی۔میں اب اپنے لئے ان سے زیادہ دعائیں کرنے لگی تھی، ایک یہ ہی کام تو ہوتا ہے ہم جیسوں کے پاس مگر شاید ابھی وقت نہیں ہوا تھا ۔یہ جملہ ، یہ دلاسہ بھی کتنا با وفا رہا، تمام عمر ساتھ نبھایا مگر شاید یہ بھی اب بوڑھا ہو گیا تھا ۔اور اپنا اثر کھو چکا تھا۔ کبھی ذہن دہراتا، کبھی من کہتا ’’ابھی وقت نہیں ہوا ہے‘‘ مگر روح تھی کہ اب اس دلاسے پر بھی قرار میں نہیں آتی تھی۔ بے کلی تھی کہ بڑھتی جارہی تھی، گھٹن ہونے لگتی تھی کبھی اور اب توکبھی جیون سے فرار کی خواہش بھی دل میں آنے لگی تھی۔ میں ہار رہی تھی امیداور نامیدی کے درمیان ہونے والی جنگ ،اکثر جھیل کنارے میرا وقت خاموشی کی نذر ہو جاتا تھا۔ میری تمام سہلییاںاوردوست میری خاموشی پر اداس تھے۔طبیعت بھی اب ساتھ نہیں دیتی تھی میں بوڑھی تو نہیں ہوئی تھی مگر خوف نے مجھے اپنی گرفت میں مکمل طور سے لے لیا تھا جس کی وجہ سے میں اپنا ہر عمل جو مجھے زندگی سے رابطے میں رکھے ہوئے تھا ترک کرتی جارہی تھی۔میری سوچوں نے مجھے مفلوج کر دیا تھا۔ اب لفظ’’ انتظار‘‘ سے نفرت ہونے لگی تھی۔ کبھی کبھی بوجھ دل پر اتنا بڑھتا کہ لگتا شاید رخصتی کا وقت آن پہنچا ہو۔ اداسی میری ذات میں اترنا چاہتی تھی مگر آج تلک جھیل کنارے نے اس کو مجھ سے کسی قدر دور کئے ہوئے تھا۔
میں آج بھی برسوںسے مقررہ ہوئے وقت پر جھیل کنارے اپنے دوست درخت کے تنے سے ٹیک لگاکرجابیٹھی۔پچھلے ایک ہفتے سے بخار میں مبتلا تھی اس لئے پورے سات دن کی غیر حاضری کے بعد یہاں آئی تھی، ایسا بہت ہی کم ہوا تھا کہ میں اتنے وقت کے لئے اپنے دوستوں سے دور رہی ہوں۔ ابھی بھی بخار میں تھی مگر میں اب ان سے دوری برداشت نہیں کر سکتی تھی اس لئے پاس جا بیٹھی۔ میں نے پائوں سے چپل اتار کر اپنے پاس رکھے اور جھیل کے پانی میں پائوں ڈال کر بیٹھ گئی۔ ایک خاموشی ساتھ تھی، پھولوں پر ہاتھ پھیرا اور پربت کی بلندیوں کا نظارا کرنے لگی۔ مجھے آج تمام نظارے بہت بے چین نظر آرہے تھے، معلوم نہیں کیوں، شاید وہ جان گئے تھے کہ کیا ہونے کو ہے اور میں بے خبر تھی۔ کوئل نے کوکو کی تو نظاروں نے جیسے اپنی کیفیت مجھ سے چھپا لی اور ایک دم فضا تبدیل ہوگئی۔ میرے ہاتھ کے لمس سے پھول کھل اٹھے ، گھاس تن کے کھڑی ہوگئی، درخت نے پیار سے مجھ کو اپنی آغوش میں لے لیا، میں نے اس کے قدموں میں سر رکھا اور آسمان کا نظارا کرنے لگی، فلک کا چراغ پربت کی اوٹ لینے کو تھا مگر یوں لگ رہا تھا کہ وہ پرلی جانب اترنے کو تیار نہیں ، وہ ٹکٹکی باندھے مجھے دیکھے جا رہا تھا، میں آپ ہی آپ شرما گئی،
’’ کیوں جی اتنی بے حیائی سے کیوں دیکھ رہے ہو؟ لگتا ہے جیسے آج پہلی بار چندہ کو دیکھاہے تم نے؟؟‘‘
میں نے ڈھلتے سورج سے کلام کیا تو جیسے لہلہاتی گھاس کو کچھ خیال آیا اور وہ مزید تن کے کھڑی ہوگئی اور میرے اور سورج کے مقابل آگئی، میں نے پیار سے گھاس کی دیوار پر ہاتھ پھیرا، اور رخ بدل کر گھر کی جانب دیکھا کہیں اماں تو مجھے بلا نہیں رہی ہیں کہ شام رات کی آغوش میں اترنے کو تھی مگر بے حیا سورج آج پربت کنارے جیسے اٹک گیا تھا، اور پرلی جانب رخ کرنے کو تیار نہ تھا۔ اور مسلسل مجھے ہی دیکھے جارہا تھا۔ فلک پر غیر معمولی سرخی پھیل چکی تھی، وقت پورا زور لگا رہا تھا سورج کو پرلی جانب موڑنے پر مگر سورج نے جیسے آج قسم کھائی ہوئی تھی۔ اور اس ہی تگ ودو میں فلک پر لالی بکھر رہی تھی۔ کوئل پھر کوکی اور میری آنکھوں میں جیسے عمر بھر کا خمار اترنے لگا۔ ہواکی چال میں تیزی آگئی، آنکھوں میں پرانے وقتوں کا جھولا جھولنے کا منظر آگیا، میں گزرے وقتوں کے نظاروں سے محظوظ ہونے لگی۔جھولے سے گرنا، رونا، ابا کا لپک کر گود میں لینا، سب آنکھوں میں اتر گیا۔ اماں کا پہلی بار مجھ سے روٹی پکوانا، میراسالن کو جلا دینا، اپنی ناکامی پر بھی اماں کی شاباش، ابا کا مزے لے لے کر لگے ہوئے سالن کے لقمے لینا، تمام مناظر آنکھوں میں تازہ ہوگئے۔ خبر ہی نہ ہوئی کہ کب آنکھوں سے دو قطرے نکل کر درخت کے قدموں سے جا لگے۔میری آنکھوں میں آنسو کب گوارا تھے جھیل کنارے ایک ایک منظر کو۔ یوں لگا جیسے سورج مچل گیا ہو، پربت نے جھک کر مست ہوا کے کان میں کوئی سرگوشی کی ہو، اوپرفلک پر ابر سے رہا نہ گیا اس نے اپنی بانہیں کھول دیں اور تنی گھاس نے جیسے راستہ دے دیا ہو ، سدا بہار کی ڈالیوں نے میرے ہاتھ کا لمس عمر بھر کے واسطے اپنے اندر محفوظ کر لیا ہو، جھیل کا پانی جیسے میرے پائوں سے لپٹ گیا ۔یو ں لگا ایک وہ ہی ہے جو مجھے روک رہا ہے اوپر ابر تو اپنی بانہیں کھول چکا تھا مگر جھیل کا آب میرے پائوں چھوڑنے کو آمادہ نہ تھا کہ ہوا بدمست ہو گئی اور ایسا لگا جیسے بہت زور سے ہوا نے اپنا پر جھیل کی سطح پر مارا ہو، تب کہیں جا کر جھیل نے میرے پائوں چھوڑے، میری آنکھیں لبریز ہو گئی تھیں ماضی کے پیمانے میری آنکھوں میں چھلک پڑے تھے۔میرے لبوں پر ایک مسکراہٹ سج گئی تھی۔ ہواجیسے پوری وادی کا چکر لگا کر اپنی زبان میں کوئی اعلان کر رہی تھی، مجھے یوں لگا کہ میرا دوست درخت میرے اوپر جھک گیا ہے ایک ایک شاخ والہانہ انداز سے میرے بوسے لے رہی ہے، میں ان کے اس انداز پر مسکرا دی، میں نے پھر نگاہ گھر کی دہلیز پر ٹکا دی ایسا لگا جیسے میں یہ نظارا اپنی آنکھوں میں سدا کے لئے محفوظ کرنا چاہ رہی ہوں، دور فلک کی سرخی کی اوٹ سے ایک تارا مدہم روشنی لئے سورج کی ضد کے آگے سر پٹخ رہا تھا، ڈر تھا کہ کہیں وہ اپنا ماتھا لہولہان نہ کر لے ابر نے سورج سے التجا کی، پربت نے ہاتھ تھام کر سورج کو اپنے پیچھے کرنا چاہا مگر وہ مسلسل مجھے دیکھے جارہا تھا، مجھ سے تارے کی بیقراری، ابر کی التجا سنی نہ گئی میں نے اپنا رخ سورج کی جانب کر لیا اور گھاس کی دیوار جیسے زمین سے لگ گئی
’’ دیکھ ضد نہیں کرتے، عمر بھر کا ساتھ رہا ہے لاج رکھ لے ہنس بھی دے اس وقت تو، اور اپنی ضد چھوڑ دے‘‘
میری بات سنتے ہی ایسا لگا جیسے سورج کی آنکھ میں میرا آنسو اتر گیا ہو، ایک تیز چمک کے ساتھ سورج اپنی آنکھوں میں میرا آنسو لئے، لبوں پر مسکراہٹ لئے پربت کی اوٹ میں چلا گیا۔ ماتھا پیٹتے تارے سے روشنی کی ایک لہر نکلی اور آن کی آن میں میرا سراپا اس میں نہا گیا، ابر مجھے اپنی بانہوں میں لینے کے لئے جیسے زمین پر اتر گیا، ہوا نے چکر لگایا اور اپنی لگامیں ڈھیلی چھوڑ دیں، میرا طویل ارض کا دوپٹہ فضا کے دوش پر بلند ہوا اور ہوا نے بہت محبت سے مجھے سر سے پیر تک میری اوڑھنی اوڑھا دی۔ ابر نے آگے بڑھ کر مجھے اپنی آغوش میں لے لیا۔اوس کی صورت وادی میں قدرت کا ایک ایک آنسو سج گیا۔اور میں انتظار تمام ہونے کا خواب اپنی آنکھوں میں لئے ابر کے ہمراہ فلک کی سیر کو چلی گئی۔
س ن مخمور
امر تنہائی