تجمل نقوی
محفلین
انجان ہمدرد۔
تحریر۔بقلم خود۔ تجمل نقوی
اپنے دکھوں کو نظر انداز کرنے اور خود کو مصروف کرنے کے لئے وہ اپنے موبائل میں مصروف تھی کہ اچانک کسی انجان نے ایک سماجی گروپ جس کی وہ ممبر تھی اک پیغام ارسال کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ پیغام کی پسندیدگی کا اظہار بہت سے افراد نے کیا۔ نہ تو وہ انجان سے واقف تھی اور نہ ہی انجان، دونوں ہی اپنی زندگی جی رہے تھے۔ انجان کبھی کبھی پیغام ارسال کرتا تو اس کی طرف سے پسندیدگی کا اظہار ضرور ہوتا، شاید یہ اس لیے تھا کہ وہ لکھاری دنیا کی حقیقت اور اپنے اندر کا حال مختصر الفاظ میں بیان کر دیتا تھا۔ کچھ الفاظ اسے اس کرب اور تکلیف سے روشناس کرواتے جن سے وہ خود لڑ رہی تھی۔ اور وہ انجان لکھاری بھی اسی درد سے گزر رہا تھا جو اپنا حال ماضی اور مستقبل محظ الفاظ میں بیان کرتا۔ اس لڑکی کو وہ الفاظ ایسے ہی لگتے جیسے لکھاری اسی کی کہانی یا جزبات، احساسات لکھ رہا ہو۔ مگر کوئی بھی لکھاری ہر وہ بات قلم بند کرتا ہے جو اس نے محسوس کی ہو یا دیکھی ہو۔
وقت گزرتا گیا اور پیغامات نشر ہوتے رہے۔ ایک رات اسے کسی انجان کا انفرادی پیغام موصول ہوا جس میں کچھ الفاظ تعریفی تھے اور کچھ حقیقی۔ اس انفرادی پیغام نے تعلق بڑھانے کا رستہ ہموار کیا۔ جان پہجان ہوئی اور جو پیغامات اور احساسات اجتماعی طور پر نشر ہوتے وہ انفرادی طرز کے ہو گئے۔
مگر یہ احساسات، جزبات نہ تو قربت حاصل کرنے کے لئے ہوتے اور نہ ہی دل جوئی کے لئے۔ وقت نے کروٹ لی اور زندگی کے معاملات و حالات بیان ہونے لگے۔ شاید وقت کو احساس ہو گیا تھا کہ اب تعلق کی مضبوطی ضروری ہے۔
جب گزشتہ زندگی کے احوال کھلے تو یہ بات مشترکہ پائی گئی کہ انجان لکھاری اور لڑکی اک ہی دکھ سے دوچار ہیں دونوں ہی اپنوں کو کھونے کا غم اٹھائے ہوئے ہیں۔
اب انجان لکھاری اک انجان ہمدرد کی صورت اختیار کر رہا تھا کیونکہ جب دکھ اور سکھ سانجھے ہونے لگتے ہیں تو نہ چاہتے ہوئے بھی ہمدردی کا رشتہ وجود میں آنے لگتا ہے چاہے وہ کچھ لمحات کے لئے ہی کیوں نہ ہو۔ آپ جتنا بھی اس بات سے منحرف ہوں مگر اس حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتے۔
اپنے آپ میں رہنے والی لڑکی یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ وہ لکھاری کے لفظوں سے متاثر ہے،اس کی شخصیت سے یا دکھوں کا ایک جیسا ہونا اسے مجبور کر رہا کہ گفتگو کی جائے۔ وہ اس سوچ میں اکثر گم رہتی کہ ایسا کیوں ہے؟ کیوں میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ انجان ہے اور میں کیوں اپنا آپ بیان کرتی ہوں؟۔ ایسا کیا ہے جو مجھے اس کی طرف مائل کرتا ہے۔؟
وہ اپنے آپ سے باتیں کرتی یہ دلی لگاؤ ہے؟ نہیں یہ دلی لگاؤ نہیں تو پھر محبت کا احساس جنم لے رہا ہے؟ نہیں ایسا بھی نہیں، میرے اور اس کے دکھ ایک جیسے ہیں اس لئے، پھر کیا ہوا اگر دکھ ایک جیسے ہیں اب ہر اس شخص سے تو بات کرنا عادت نہیں بن سکتی جس کا دکھ میرے جیسا ہے۔
ادھر لکھاری اپنے احساسات کو تحریری شکل دینے میں مگن ہوتا ہے ہر وہ بات اور الفاظ تحریر کرتا ہے جو وہ کہہ نہیں سکتا۔ وہ بھی اسی سوچ میں ہے کہ اتنی مماثلت کیسے ہو سکتی ہے۔؟
جیسے جیسے وقت گزرتا ہے ویسے ویسے خیالات کی عکاسی اور یکسانیت واضح ہوتی چلی جاتی ہے۔ اسقدر خیالات کی یکسانیت کہ کچھ بولنے سے پہلے بسہ اوقات الفاظ ہی چھین لئے جاتے اور یہ روز کا معمول بن گیا۔
حیرانگی کا عالم یہ کہ پسندیدگی اور نا پسندیدگی بھی یکساں۔
ان سب باتوں کے باوجود دونوں کو اپنی منزل اور رستے معلوم ہیں۔ دونوں ہی باتوں باتوں میں اظہار کر جاتےہیں اور بات چھپا بھی لیتے ہیں۔ عملی سوچ رکھنے والے خیالی دنیا کم سجاتے ہیں اور دونوں انجان عمل کے خیال سجا لیتے ہیں۔ خواب سجانا کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ رسم و رواج آڑ بنتے ہیں تو خیالات آہستہ آہستہ انکار کی صورت بیان ہونے لگتے ہیں۔ اور دل لگی عادت یا محبت کو چھپایا جاتا ہے کہ نہیں نہیں ایسا نہیں ہے بس وقتی لگاؤہے دراصل یہ لگاؤ کبھی ساتھ نہیں چھوڑتا۔ دورانِ گفتگو اکثر روٹھنے منانے، بھول جانے، مزاح اور سنجیدگی کا حسین امتزاج اس لگاؤ کو تقویت دیتا ہے۔
دونوں اس تقویت کو دبے لفظوں میں بیان کرتے ہیں۔ دونوں کا سوچنے کا انداز کہیں نہ کہیں اک جیسا ہے۔
لڑکی سوچتی ہے کہ ایسے رشتے کا اظہار کیا کرنا اور اظہار کے الفاظ بیان کیونکر کئے جائیں جن کا مطلب ہی کوئی نہ ہو۔
وہ حقِ ملکیت رکھنے والی دوشیزہ نہ جانے کیوں کسی اور کا نام برداشت کرتی ہے، شاید راستوں کا تعین ہونے پر یہ ہوتا ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ منزلیں نظر انداز کرنا پڑتی ہیں اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ تو سستانے کا مقام ہے منزل تو کوئی اور ہے۔
نا دیکھے ہوئے انسان سے جزباتی یا دلی لگاؤ اک عجیب کیفیت پیدا کر دیتا ہے جس میں محبت کا گمان بھی ہوتا ہے اور دل کے سمبھل جانے کا حوصلہ بھی۔مگر یہ احساس اور ڈر ہمیشہ رہتا ہے کہ اجنبی اپنا کیوں لگتا ہے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ محبت کیا ہے اور اک اچھا سہارا کیا۔ سہارے کی ضرورت نہ بھی ہو تو کمی محسوس ہوتی ہے۔ دل کی باتوں کا رخ کسی مجبوری، حالت یا یاد میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
وہ محبت سے ڈرتی ہے اس خوف سے کہ اگر اس کا احساس ہو گیا تو دور چلے جانے کا غم کون سہے گا۔ کیونکہ اب اس میں کسی اور کو کھونے کی ہمت نہیں۔
کسی سوال کے جواب میں اک دن کہتی ہے۔ " جناب زندگی بہت عجیب کھیل کھیلتی ہے"
وہ لکھاری، انجان ہمدرد اس بات پر سوچ کے دریچے کھولتا ہے اور کئی وہم اور باتوں کی کڑیاں ملاتاہوا الفاظ کو یکجا کرتا ہے۔ اسے ہر وہ بات لکھنی ہے جو اسے کہی گئی،۔ سوچ کا پنچھی اڑتا ہوا یادوں اور الفاظ کے دانے چگتا ہے اور واپس آ کر کاغذ کے گھونسلے میں پلنے والے جزبات اور احساسات کے ننھے بچوں کو خوراک دیتا ہے۔ جس سے اَن کہی باتیں، دبے جزبات اور احساسات پروان چڑھتے ہیں۔
مگر دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ محبت کا اظہار یا اقرار نہیں ہوگا، چپ چاپ اپنا اپنا رستہ لیں گے نہ کوئی گلہ نہ شکوہ۔ انکے رشتے میں احساسات، جزبات، رسم و رواج، اور حقیقت پسندی خاموش انسیت اور لگاؤ ہی بنیاد ہے۔ اور انجان ہمدرد دکھوں کا مداوا ہے۔ جو سب لہجے اور الفاظ سمجھتا ہے۔ انکی تکرار کچھ یوں ہے۔
وہ اکثر کہتی ہے:
سنو اے اجنبی ہمدرد
زندگی انوکھے کھیل کھیلتی ہے
دیکھو نا تم میرے نہیں ہو معلوم ہے مجھ کو
مگر نہ جانے کیوں تم اپنے سے لگتے ہو۔
تمہیں سننا دیکھنا اچھا لگتا ہے۔
دیکھو قسمت نے یہ کیسا کھیل کھیلا ہے
تمہیں مجھ سے ملایا ہے
مگر اے اجنبی ہمدرد تم مل نہیں سکتے۔
مجھے اپنے رستوں پر خود ہی سنمبھل کر چلنا ہے
دیکھو کیسا کھیل کھیلا ہے؟
کہ ہم دونوں کو منزل صاف دکھائی دے رہی ہے
مگر پھر بھی ہم ساتھ چل نہیں سکتے
سیاہ،سفید اور سبز رنگ ہم دونوں کو بھاتے ہیں۔
تو کیا یہ ہم آہنگی فقط اک حادثہ ہے کیا۔؟
نہیں ایسا نہیں ہے کوئی تو ربط ہے اپنا۔؟
کوئی بھی ربط ہو لیکن ہم مل نہیں سکتے۔
دیکھو نا!
قدرت نے انوکھا کھیل کھیلا ہے۔
سنو تم لکھتے ہو؟
تو مجھے تحریر کرو گے کیا؟
میرے درد و الم کو الفاظ کی صورت
کہیں پر قید کرو گے کیا؟
مجھے معلوم ہے تمہیں بھول جانے کی عادت ہے
مجھے تحریر کر لو تم کہ بھول نہ پاؤ
اور جب تحریر کرنے لگو مجھکو
تو فقط میرا ذکر ہو اس میں
مجھے اچھا نہیں لگتا کہ
کوئی اور تمہارے تخیل سے گزر کر
الفاظ میں قید ہو جائے۔
ہاں وہ لفظ تب ارسال کرنا جب
تمہیں محسوس ہو جائے
کہ میرا حال ہو بہو ایسا ہے
وہ لڑنا اور جھگڑنا بھی تحریر کر لینا
وہ ان کہے گہرے لفظ بھی لکھنا
جو میرے اندر اترے ہیں
تمہیں تو الفاظ سے کھیلنا آتا ہے
مجھے تم الفاظ کا کھیل مت سمجھ لینا
تمہیں معلوم ہے میں اک احساس جیسی ہوں
مجھے الفاظ کی چوٹیں مت دینا تم
مجھے بس قید کرنا تم
میرے وہ سب الفاظ تحریر کرنا جو
تم مجھ سے چھین لیتے ہو۔
وہ کڑوی باتیں بھی لکھنا تم
جو تم نے انجانے میں کہہ دی تھیں
میرا روٹھنا بھی لکھنا تم
اپنا منانا بھی لکھنا تم
یہ بھی لکھنا کہ تم دن کے اجالے میں
عجب سی شخصیت کا رخ دکھاتے ہو
پتھر دل اور سخت لگتے ہو
مجھے وہ رات کا سہما ہوا انسان بھاتا ہے لکھنا تم
مگر یہ مت لکھنا کہ مجھے تم سے محبت یا دل لگی ہوگی
میرے دل میں وہ ہی آئے گا جو
تم جیسا بالکل نہیں ہوگا
تم تو ہر وہ احساس لکھتےہو
جو مجھ سے منسوب ہو یا نہ بھی ہو۔
تمہیں بس عادت ہے لکھنے کی مگر
احساس سے خالی بہت سنگ دل ہو تم
کبھی دل توڑ دیتے ہو
کبھی دل میں بیٹھ جاتے ہو
کبھی شب بھر جگاتے ہو
کبھی بے رخی کی نیند سوتے ہو
کبھی اپنے سے لگتےہو
کبھی انجان ہمدرد لگتے ہو
وہ کہتا ہے سنو لڑکی
ٹھیک کہتی ہو کہ قدرت عجب کھیل کھیلتی ہے
دیکھو نہ مجھے بھی علم نہیں تھا کہ
تم میری ہم خیال بن کر
میری ویران زندگی کو
آباد کر دو گی۔
سنو لڑکی
اگر میں اپنے جزبات لکھ دونگا
تو دنیا جان جائے گی
محبت روٹھ جائے گی
تمہیں تو علم ہے نا کہ
میں باتیں بھول جاتا ہوں
میں تمہیں تحریر کروں گا بس۔
دیکھو کیسا عجب کھیل کھیلا ہے
کہ تم اک اجنبی سے بات کرتی ہو
حالانکہ تمہیں یہ احساس بھی ہے کہ
ہم ساتھ چل نہیں سکتے۔
جہاں تک بات میری ہے
میری فکر چھوڑو تم
میں تو لکھاری ہوں
یونہی لامعنی الفاظ لکھتا ہوں
مجھے احساس، جزبوں اور محبت سے
کیونکر کوئی مطلب ہو
اب بھلا میں اقرار کروں گا کہ
محبت دفن ہے مجھ میں
تم نے ہی کہا تھا کہ میں اقرار کر نہیں سکتا
جواباً میں نے کہا تھا کہ اقرار مشکل ہے
سنو لڑکی میں اور تم ایک جیسے ہیں
نہ تم اقرار کر سکو گی نہ
میں اظہار کی ہمت رکھتا ہوں
دونوں ہی انجام سے ڈر کر
دبے الفاظ میں ٹال دیتے ہیں
یک طرفہ محبت روگ ہوتی ہے
مگر یہ ممکن نہیں لڑکی
کہ عرصہ بیت جانے پر
دل کی لگی نے گھر نہ بنایا ہو
مجھے یاد ہے جب تم نے کہا تھا کہ
میرا ساتھ مانگو گے
تو انکار کی صورت ممکن نہیں ہوگی
مگر اک خوف لاحق ہے
کہ ان رسموں، رواجوں اور ریتوں سے
ہم دونوں ٹوٹ جائیں گے
تم نے خود کہا تھا کہ
جس رستے پہ جانا نہیں ہوتا
وہ رستہ پوچھا نہیں کرتے
سنو اے ہم خیال لڑکی
سچ پوچھو تو
تمہاری بات کا لہجہ
میری سمجھ میں نہیں آتا
جب تم انکار کرتی ہو عادت کے ہونے کا
تو پھر دن بھر منتظر کیونکر رہتی ہو
تمہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ
میں کس وقت میسر ہوں
میری مصروفیت کا تم کو علم ہوتا ہے
میری باتوں کو دل کی نگاہوں سے
تکتی اور محسوس کرتی ہو
مجھے خود کو تحریر کرنے کا کہتی ہو
جب میں ٹوٹنے لگتا ہوں
مجھے تعمیر کرتی ہو
مگر پھر یہ بھی کہتی ہو
مجھے کسی کےساتھ کی ضرورت نہیں کوئی
جب بھی گہری باتیں ہوں
تم رخ پھیر دیتی ہو
سنو اے پاگل ہم خیال لڑکی
محبت ہو چکی کب کی
کبھی جب رستے جدا ہوں گے
زندگی کی لمبی مسافت میں
تھک کر چُور ہو گی تو
تمہیں میں یاد آؤں گا
کبھی جو انجان ہمدرد کے عنوان کی کتاب دیکھو گی
میری لکھی ہوئی تحریروں میں خود کو قید پاؤگی
ہم دونوں جانتے ہیں کہ
وداع ہونے کا لمحہ دشوار ہوتا ہے
تو ہم اک کام کرتے ہیں
محبت سے انکار کرتے ہیں
چلو اک ساتھ کہتے ہیں
مجھے تم سے محبت ہو نہیں سکتی
مجھے تو محبت نام ہی
اک کھیل لگتا ہے۔
چلو اب شام ہو گئی ہے
چلو اب کھیل ختم کرتے ہیں
چلو اپنے اپنے گھر چلتے ہیں
چلو اس کھیل سے انکار کرتے ہیں۔
تحریر۔بقلم خود۔ تجمل نقوی
اپنے دکھوں کو نظر انداز کرنے اور خود کو مصروف کرنے کے لئے وہ اپنے موبائل میں مصروف تھی کہ اچانک کسی انجان نے ایک سماجی گروپ جس کی وہ ممبر تھی اک پیغام ارسال کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ پیغام کی پسندیدگی کا اظہار بہت سے افراد نے کیا۔ نہ تو وہ انجان سے واقف تھی اور نہ ہی انجان، دونوں ہی اپنی زندگی جی رہے تھے۔ انجان کبھی کبھی پیغام ارسال کرتا تو اس کی طرف سے پسندیدگی کا اظہار ضرور ہوتا، شاید یہ اس لیے تھا کہ وہ لکھاری دنیا کی حقیقت اور اپنے اندر کا حال مختصر الفاظ میں بیان کر دیتا تھا۔ کچھ الفاظ اسے اس کرب اور تکلیف سے روشناس کرواتے جن سے وہ خود لڑ رہی تھی۔ اور وہ انجان لکھاری بھی اسی درد سے گزر رہا تھا جو اپنا حال ماضی اور مستقبل محظ الفاظ میں بیان کرتا۔ اس لڑکی کو وہ الفاظ ایسے ہی لگتے جیسے لکھاری اسی کی کہانی یا جزبات، احساسات لکھ رہا ہو۔ مگر کوئی بھی لکھاری ہر وہ بات قلم بند کرتا ہے جو اس نے محسوس کی ہو یا دیکھی ہو۔
وقت گزرتا گیا اور پیغامات نشر ہوتے رہے۔ ایک رات اسے کسی انجان کا انفرادی پیغام موصول ہوا جس میں کچھ الفاظ تعریفی تھے اور کچھ حقیقی۔ اس انفرادی پیغام نے تعلق بڑھانے کا رستہ ہموار کیا۔ جان پہجان ہوئی اور جو پیغامات اور احساسات اجتماعی طور پر نشر ہوتے وہ انفرادی طرز کے ہو گئے۔
مگر یہ احساسات، جزبات نہ تو قربت حاصل کرنے کے لئے ہوتے اور نہ ہی دل جوئی کے لئے۔ وقت نے کروٹ لی اور زندگی کے معاملات و حالات بیان ہونے لگے۔ شاید وقت کو احساس ہو گیا تھا کہ اب تعلق کی مضبوطی ضروری ہے۔
جب گزشتہ زندگی کے احوال کھلے تو یہ بات مشترکہ پائی گئی کہ انجان لکھاری اور لڑکی اک ہی دکھ سے دوچار ہیں دونوں ہی اپنوں کو کھونے کا غم اٹھائے ہوئے ہیں۔
اب انجان لکھاری اک انجان ہمدرد کی صورت اختیار کر رہا تھا کیونکہ جب دکھ اور سکھ سانجھے ہونے لگتے ہیں تو نہ چاہتے ہوئے بھی ہمدردی کا رشتہ وجود میں آنے لگتا ہے چاہے وہ کچھ لمحات کے لئے ہی کیوں نہ ہو۔ آپ جتنا بھی اس بات سے منحرف ہوں مگر اس حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتے۔
اپنے آپ میں رہنے والی لڑکی یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ وہ لکھاری کے لفظوں سے متاثر ہے،اس کی شخصیت سے یا دکھوں کا ایک جیسا ہونا اسے مجبور کر رہا کہ گفتگو کی جائے۔ وہ اس سوچ میں اکثر گم رہتی کہ ایسا کیوں ہے؟ کیوں میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ انجان ہے اور میں کیوں اپنا آپ بیان کرتی ہوں؟۔ ایسا کیا ہے جو مجھے اس کی طرف مائل کرتا ہے۔؟
وہ اپنے آپ سے باتیں کرتی یہ دلی لگاؤ ہے؟ نہیں یہ دلی لگاؤ نہیں تو پھر محبت کا احساس جنم لے رہا ہے؟ نہیں ایسا بھی نہیں، میرے اور اس کے دکھ ایک جیسے ہیں اس لئے، پھر کیا ہوا اگر دکھ ایک جیسے ہیں اب ہر اس شخص سے تو بات کرنا عادت نہیں بن سکتی جس کا دکھ میرے جیسا ہے۔
ادھر لکھاری اپنے احساسات کو تحریری شکل دینے میں مگن ہوتا ہے ہر وہ بات اور الفاظ تحریر کرتا ہے جو وہ کہہ نہیں سکتا۔ وہ بھی اسی سوچ میں ہے کہ اتنی مماثلت کیسے ہو سکتی ہے۔؟
جیسے جیسے وقت گزرتا ہے ویسے ویسے خیالات کی عکاسی اور یکسانیت واضح ہوتی چلی جاتی ہے۔ اسقدر خیالات کی یکسانیت کہ کچھ بولنے سے پہلے بسہ اوقات الفاظ ہی چھین لئے جاتے اور یہ روز کا معمول بن گیا۔
حیرانگی کا عالم یہ کہ پسندیدگی اور نا پسندیدگی بھی یکساں۔
ان سب باتوں کے باوجود دونوں کو اپنی منزل اور رستے معلوم ہیں۔ دونوں ہی باتوں باتوں میں اظہار کر جاتےہیں اور بات چھپا بھی لیتے ہیں۔ عملی سوچ رکھنے والے خیالی دنیا کم سجاتے ہیں اور دونوں انجان عمل کے خیال سجا لیتے ہیں۔ خواب سجانا کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ رسم و رواج آڑ بنتے ہیں تو خیالات آہستہ آہستہ انکار کی صورت بیان ہونے لگتے ہیں۔ اور دل لگی عادت یا محبت کو چھپایا جاتا ہے کہ نہیں نہیں ایسا نہیں ہے بس وقتی لگاؤہے دراصل یہ لگاؤ کبھی ساتھ نہیں چھوڑتا۔ دورانِ گفتگو اکثر روٹھنے منانے، بھول جانے، مزاح اور سنجیدگی کا حسین امتزاج اس لگاؤ کو تقویت دیتا ہے۔
دونوں اس تقویت کو دبے لفظوں میں بیان کرتے ہیں۔ دونوں کا سوچنے کا انداز کہیں نہ کہیں اک جیسا ہے۔
لڑکی سوچتی ہے کہ ایسے رشتے کا اظہار کیا کرنا اور اظہار کے الفاظ بیان کیونکر کئے جائیں جن کا مطلب ہی کوئی نہ ہو۔
وہ حقِ ملکیت رکھنے والی دوشیزہ نہ جانے کیوں کسی اور کا نام برداشت کرتی ہے، شاید راستوں کا تعین ہونے پر یہ ہوتا ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ منزلیں نظر انداز کرنا پڑتی ہیں اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ تو سستانے کا مقام ہے منزل تو کوئی اور ہے۔
نا دیکھے ہوئے انسان سے جزباتی یا دلی لگاؤ اک عجیب کیفیت پیدا کر دیتا ہے جس میں محبت کا گمان بھی ہوتا ہے اور دل کے سمبھل جانے کا حوصلہ بھی۔مگر یہ احساس اور ڈر ہمیشہ رہتا ہے کہ اجنبی اپنا کیوں لگتا ہے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ محبت کیا ہے اور اک اچھا سہارا کیا۔ سہارے کی ضرورت نہ بھی ہو تو کمی محسوس ہوتی ہے۔ دل کی باتوں کا رخ کسی مجبوری، حالت یا یاد میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
وہ محبت سے ڈرتی ہے اس خوف سے کہ اگر اس کا احساس ہو گیا تو دور چلے جانے کا غم کون سہے گا۔ کیونکہ اب اس میں کسی اور کو کھونے کی ہمت نہیں۔
کسی سوال کے جواب میں اک دن کہتی ہے۔ " جناب زندگی بہت عجیب کھیل کھیلتی ہے"
وہ لکھاری، انجان ہمدرد اس بات پر سوچ کے دریچے کھولتا ہے اور کئی وہم اور باتوں کی کڑیاں ملاتاہوا الفاظ کو یکجا کرتا ہے۔ اسے ہر وہ بات لکھنی ہے جو اسے کہی گئی،۔ سوچ کا پنچھی اڑتا ہوا یادوں اور الفاظ کے دانے چگتا ہے اور واپس آ کر کاغذ کے گھونسلے میں پلنے والے جزبات اور احساسات کے ننھے بچوں کو خوراک دیتا ہے۔ جس سے اَن کہی باتیں، دبے جزبات اور احساسات پروان چڑھتے ہیں۔
مگر دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ محبت کا اظہار یا اقرار نہیں ہوگا، چپ چاپ اپنا اپنا رستہ لیں گے نہ کوئی گلہ نہ شکوہ۔ انکے رشتے میں احساسات، جزبات، رسم و رواج، اور حقیقت پسندی خاموش انسیت اور لگاؤ ہی بنیاد ہے۔ اور انجان ہمدرد دکھوں کا مداوا ہے۔ جو سب لہجے اور الفاظ سمجھتا ہے۔ انکی تکرار کچھ یوں ہے۔
وہ اکثر کہتی ہے:
سنو اے اجنبی ہمدرد
زندگی انوکھے کھیل کھیلتی ہے
دیکھو نا تم میرے نہیں ہو معلوم ہے مجھ کو
مگر نہ جانے کیوں تم اپنے سے لگتے ہو۔
تمہیں سننا دیکھنا اچھا لگتا ہے۔
دیکھو قسمت نے یہ کیسا کھیل کھیلا ہے
تمہیں مجھ سے ملایا ہے
مگر اے اجنبی ہمدرد تم مل نہیں سکتے۔
مجھے اپنے رستوں پر خود ہی سنمبھل کر چلنا ہے
دیکھو کیسا کھیل کھیلا ہے؟
کہ ہم دونوں کو منزل صاف دکھائی دے رہی ہے
مگر پھر بھی ہم ساتھ چل نہیں سکتے
سیاہ،سفید اور سبز رنگ ہم دونوں کو بھاتے ہیں۔
تو کیا یہ ہم آہنگی فقط اک حادثہ ہے کیا۔؟
نہیں ایسا نہیں ہے کوئی تو ربط ہے اپنا۔؟
کوئی بھی ربط ہو لیکن ہم مل نہیں سکتے۔
دیکھو نا!
قدرت نے انوکھا کھیل کھیلا ہے۔
سنو تم لکھتے ہو؟
تو مجھے تحریر کرو گے کیا؟
میرے درد و الم کو الفاظ کی صورت
کہیں پر قید کرو گے کیا؟
مجھے معلوم ہے تمہیں بھول جانے کی عادت ہے
مجھے تحریر کر لو تم کہ بھول نہ پاؤ
اور جب تحریر کرنے لگو مجھکو
تو فقط میرا ذکر ہو اس میں
مجھے اچھا نہیں لگتا کہ
کوئی اور تمہارے تخیل سے گزر کر
الفاظ میں قید ہو جائے۔
ہاں وہ لفظ تب ارسال کرنا جب
تمہیں محسوس ہو جائے
کہ میرا حال ہو بہو ایسا ہے
وہ لڑنا اور جھگڑنا بھی تحریر کر لینا
وہ ان کہے گہرے لفظ بھی لکھنا
جو میرے اندر اترے ہیں
تمہیں تو الفاظ سے کھیلنا آتا ہے
مجھے تم الفاظ کا کھیل مت سمجھ لینا
تمہیں معلوم ہے میں اک احساس جیسی ہوں
مجھے الفاظ کی چوٹیں مت دینا تم
مجھے بس قید کرنا تم
میرے وہ سب الفاظ تحریر کرنا جو
تم مجھ سے چھین لیتے ہو۔
وہ کڑوی باتیں بھی لکھنا تم
جو تم نے انجانے میں کہہ دی تھیں
میرا روٹھنا بھی لکھنا تم
اپنا منانا بھی لکھنا تم
یہ بھی لکھنا کہ تم دن کے اجالے میں
عجب سی شخصیت کا رخ دکھاتے ہو
پتھر دل اور سخت لگتے ہو
مجھے وہ رات کا سہما ہوا انسان بھاتا ہے لکھنا تم
مگر یہ مت لکھنا کہ مجھے تم سے محبت یا دل لگی ہوگی
میرے دل میں وہ ہی آئے گا جو
تم جیسا بالکل نہیں ہوگا
تم تو ہر وہ احساس لکھتےہو
جو مجھ سے منسوب ہو یا نہ بھی ہو۔
تمہیں بس عادت ہے لکھنے کی مگر
احساس سے خالی بہت سنگ دل ہو تم
کبھی دل توڑ دیتے ہو
کبھی دل میں بیٹھ جاتے ہو
کبھی شب بھر جگاتے ہو
کبھی بے رخی کی نیند سوتے ہو
کبھی اپنے سے لگتےہو
کبھی انجان ہمدرد لگتے ہو
وہ کہتا ہے سنو لڑکی
ٹھیک کہتی ہو کہ قدرت عجب کھیل کھیلتی ہے
دیکھو نہ مجھے بھی علم نہیں تھا کہ
تم میری ہم خیال بن کر
میری ویران زندگی کو
آباد کر دو گی۔
سنو لڑکی
اگر میں اپنے جزبات لکھ دونگا
تو دنیا جان جائے گی
محبت روٹھ جائے گی
تمہیں تو علم ہے نا کہ
میں باتیں بھول جاتا ہوں
میں تمہیں تحریر کروں گا بس۔
دیکھو کیسا عجب کھیل کھیلا ہے
کہ تم اک اجنبی سے بات کرتی ہو
حالانکہ تمہیں یہ احساس بھی ہے کہ
ہم ساتھ چل نہیں سکتے۔
جہاں تک بات میری ہے
میری فکر چھوڑو تم
میں تو لکھاری ہوں
یونہی لامعنی الفاظ لکھتا ہوں
مجھے احساس، جزبوں اور محبت سے
کیونکر کوئی مطلب ہو
اب بھلا میں اقرار کروں گا کہ
محبت دفن ہے مجھ میں
تم نے ہی کہا تھا کہ میں اقرار کر نہیں سکتا
جواباً میں نے کہا تھا کہ اقرار مشکل ہے
سنو لڑکی میں اور تم ایک جیسے ہیں
نہ تم اقرار کر سکو گی نہ
میں اظہار کی ہمت رکھتا ہوں
دونوں ہی انجام سے ڈر کر
دبے الفاظ میں ٹال دیتے ہیں
یک طرفہ محبت روگ ہوتی ہے
مگر یہ ممکن نہیں لڑکی
کہ عرصہ بیت جانے پر
دل کی لگی نے گھر نہ بنایا ہو
مجھے یاد ہے جب تم نے کہا تھا کہ
میرا ساتھ مانگو گے
تو انکار کی صورت ممکن نہیں ہوگی
مگر اک خوف لاحق ہے
کہ ان رسموں، رواجوں اور ریتوں سے
ہم دونوں ٹوٹ جائیں گے
تم نے خود کہا تھا کہ
جس رستے پہ جانا نہیں ہوتا
وہ رستہ پوچھا نہیں کرتے
سنو اے ہم خیال لڑکی
سچ پوچھو تو
تمہاری بات کا لہجہ
میری سمجھ میں نہیں آتا
جب تم انکار کرتی ہو عادت کے ہونے کا
تو پھر دن بھر منتظر کیونکر رہتی ہو
تمہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ
میں کس وقت میسر ہوں
میری مصروفیت کا تم کو علم ہوتا ہے
میری باتوں کو دل کی نگاہوں سے
تکتی اور محسوس کرتی ہو
مجھے خود کو تحریر کرنے کا کہتی ہو
جب میں ٹوٹنے لگتا ہوں
مجھے تعمیر کرتی ہو
مگر پھر یہ بھی کہتی ہو
مجھے کسی کےساتھ کی ضرورت نہیں کوئی
جب بھی گہری باتیں ہوں
تم رخ پھیر دیتی ہو
سنو اے پاگل ہم خیال لڑکی
محبت ہو چکی کب کی
کبھی جب رستے جدا ہوں گے
زندگی کی لمبی مسافت میں
تھک کر چُور ہو گی تو
تمہیں میں یاد آؤں گا
کبھی جو انجان ہمدرد کے عنوان کی کتاب دیکھو گی
میری لکھی ہوئی تحریروں میں خود کو قید پاؤگی
ہم دونوں جانتے ہیں کہ
وداع ہونے کا لمحہ دشوار ہوتا ہے
تو ہم اک کام کرتے ہیں
محبت سے انکار کرتے ہیں
چلو اک ساتھ کہتے ہیں
مجھے تم سے محبت ہو نہیں سکتی
مجھے تو محبت نام ہی
اک کھیل لگتا ہے۔
چلو اب شام ہو گئی ہے
چلو اب کھیل ختم کرتے ہیں
چلو اپنے اپنے گھر چلتے ہیں
چلو اس کھیل سے انکار کرتے ہیں۔