اندر کا شور۔۔۔

کل بیٹے کو سائنسی کی کتاب میں آواز کے بارے میں پڑھاتے ہوئے میرے ذہن میں اس کی شدت کو ماپنے کا خیال آیا ۔ میں نے مختلف ایپس کو دیکھتے ہوئے ساؤنڈ میٹر کی ایپ انسٹال کی اور ارد گرد پھیلی آوازوں کی شدت کو ماپا۔ ہم نے خاموش کمرے میں محسوس کیا کہ 30-25 ڈیسی بل کا غیر محسوس شور ہے۔ پنکھے کی آواز کو سنا جس کی شدت 45 ڈیسی بل تھی۔ گھر سے باہر اچانک وقفے وقفے سے گزرنے والے موٹر سائیکلوں کی آواز کو سنا جو 50-55 ڈیسی بل کا شور تھا۔سلنسر نکلے 125 کو دس فٹ دور سے سنا جس کی شدت 100 ڈیسی بل کے قریب تھی۔رکشے بھی اتنا ہی شور مچا رہے تھے۔ گفتگو کے درمیان محسوس کیا کہ ہماری آوازوں کی شدت 60-70ڈیسی بل کے درمیان تھی۔موبائل پر تیز موسیقی کا گیت سنا جس کی شدت 110 ڈیسی بل تک پہنچی۔ اس بارے میں تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ 100 سے زائد ڈیسی بل کے شور میں کام ہماری سماعت کو متاثر اور مستقل ختم بھی کرسکتا ہے جب کہ 130 ڈیسی بل کی آوازیں ہمارے کانوں میں تکلیف پیدا کردیتی ہے۔100 ڈیسی بل کے شور میں سماعت کے خاتمے کا ایک مطلب یہ ہے کہ آپ آہستہ آہستہ قوتِ گویائی سے بھی محروم ہورہے ہیں۔
آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ گزرتی عمر کے ساتھ ہماری قوتِ گویائی کم ہوتی جاتی ہے۔۔۔جہاں کم ظرف لوگوں کی آواز آپ سے بلند ہو، آپ وہاں خاموش ہوجاتے ہیں۔۔۔ جہاں اولاد کی آواز بلند ہونے لگے، والدین کو چپ لگ جاتی ہے اور جہاں رشتوں میں دراڑیں پڑنے لگیں، کچھ شور کے بعد موت کا سناٹا چھا جاتا ہے۔ ہم دن رات ایسا کتنا ہی شور سنتے ہیں ، محسوس کرتے ہیں اور اپنے اندر مستقل پال لیتے ہیں جس کا تعلق محض ہماری سماعت سے نہیں ہوتا۔ کبھی یہ شور اتنا بلند ہوجاتا ہے کہ دل کی دھڑکن بےترتیب ہوجاتی ہے اوراعصاب پرجھنجھلاہٹ طاری ہوجاتی ہے۔ کئی لوگ تو اس کے نیچے دب کر جینے کا حوصلہ تک کھودیتے ہیں۔
آپ نے کبھی غور کیا کہ جب لوگوں کی بلند فشارِخون (بلڈ پریشر) سے دماغ کی شریانیں پھٹتی ہیں، دل کا دورہ پڑتا ہے یا وہ بستر سے لگ جاتے ہیں تو اس سے پہلے وہ کتنی دیر سے کتنے شور کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں ۔۔۔اور ان میں سے کتنے اس شور کو مات دینے پر قادر ہوتے ہیں؟ان میں سے ہم نے کس کی زندگی میں کتنا شور برپا کیا ہوتا ہے اور کتنوں کی زندگی میں ہم اس شور کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں ؟ مجھے تو لگتا ہے کہ ہر کم گو شخص اپنے اندر کوئی طوفان لیے بیٹھا ہوتا ہے۔ یا پھر وہ اس طوفان سے بھی گزر چکا ہوتا ہے اور محض دن پورے کر رہا ہوتا ہے۔ علامہ اقبال نے ایک دوست سے کہا تھا کہ میں بھرے لاہور میں تنہا ہوں۔۔۔اور ان کی یہ آرزو تو آپ نے ضرور سنی یا پڑھی ہوگی:
شورش سے بھاگتا ہوں، دل ڈھونڈتا ہے مر ا
ایسا سکُوت جس پر تقریر بھی فدا ہو
مرتا ہوں خامشی پر، یہ آرزو ہے مرسی
دامن مںں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو
نفسیاتی شور پر تمام بڑے شعرا نے اشعار کہے ہیں۔ میرے سامنے غالب کے اس ضمن میں پانچ اشعار ہیں جن میں سے دو ملاحظہ کیجیے گا:
شورِ جولاں تھا کنارِ بحر پر کس کا کہ آج
گِردِ ساحل ہے بہ زخمِ موجۂ دریا نمک
شورِ طوفانِ بلا ہے خندۂ بے اختیار
کیا ہے گل کی بے زبانی کیا ہے یہ لالے کا داغ
محمد خرم یاسین
 
آج جبکہ پڑھنے پڑھانے کا رجحان کمپیوٹر کی رنگینیوں اور انٹرنیٹ کی جلوہ سامانیوں میں گم ہے توضرورت اِس بات کی ہے کہ اپنے چھوٹے چھوٹے مضامین بلکہ شذرات کے بقدر لکھی تحریروں سے پڑھے لکھوں میں پڑھنے پڑھانے کی تحریک پیدا کی جائے۔بہانے بہانے سے لکھنے لکھانے کی طرف مائل کیا جائے ،طرح طرح سے حوصلہ افزائی کی جائے ۔ آپ کا یہ مضمون پڑھ کر مجھے دِلی خوشی ہوئی کہ کس طرح جدیدایجادات اور میکانکی وسائل سے بات شروع کرکے وقت کے بہت سے نازک اور اہم مسائل سے بے توجہی، لاپروائی اور خودغرضی کی گرد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قلم کی نوک سے ہٹا نے کی کوشش کی ہے :​
طُور پر تاب رہی یا نہ رہی خیر، مگر
کچھ تو دکھلاہی دیا ۔۔ذوقِ تمنائی نے
 
آخری تدوین:
آج جبکہ پڑھنے پڑھانے کا رجحان کمپیوٹر کی رنگینوں اور انٹرنیٹ کی جلوہ سامانیوں میں گم ہے توضرورت اِس بات کی ہے کہ اپنے چھوٹے چھوٹے مضامین بلکہ شذرات کی بقدر لکھی تحریروں سے پڑھے لکھوں میں پڑھنے پڑھانے کی تحریک پیدا کی جائے۔بہانے بہانے سے لکھنے لکھانے کی طرف مائل کیا جائے ،طرح طرح سے حوصلہ افزائی کی جائے ۔ آپ کا یہ مضمون پڑھ کر مجھے دِلی خوشی ہوئی کہ کس طرح جدیدایجادات اور میکانکی وسائل سے بات شروع کرکے وقت کے بہت سے نازک اور اہم مسائل سے بے توجہی، لاپروائی اور خودغرضی کی گرد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قلم کی نوک سے ہٹا نے کی کوشش کی ہے :​
طُور پر تاب رہی یا نہ رہی خیر، مگر
کچھ تو دکھلاہی دیا ۔۔ذوقِ تمنائی نے
آپ ہمیشہ حوصلہ افزائی فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے۔ کاش میری یہ تحریریں کسی کے کام آجائیں۔ ممنون ہوں۔ جزاک اللہ خیرا۔
 
Top