سویدا
محفلین
بالآخر سینئرکالم نگار نذیر ناجی بھی اب یہ لکھنے پر مجبور ہوگئے
بہت دیر کی مہربان آتے آتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اندیشہ ہائے دور دراز از نذیر ناجی
کراچی کے حالات جو رخ اختیار کر رہے ہیں‘ وہ امریکی ضروریات کے عین مطابق ہے۔ مجھے کبھی یہ شبہ نہیں رہا کہ امریکہ پاکستان کا خیرخواہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی میری رائے یہ رہی ہے کہ ایک سپرپاور کو مشتعل اور زچ کر کے جارحیت کے راستوں پر نہیں ڈالنا چاہیے۔ حتی الامکان یہ کوشش ہونا چاہیے کہ وہ ہم سے کوئی خطرہ محسوس نہ کرے۔ اسے یہ شک نہ ہو کہ ہماری وجہ سے‘ اس کے عالمی اور داخلی مفادات کو خطرہ لاحق ہے اور اسے یہ بدگمانی بھی نہ ہو کہ ہم دوطرفہ معاملات میں اس کے ساتھ کوئی دھوکہ کر رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی صورت سپرپاور کے غیظ و غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہوتی ہے۔ ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ بدقسمتی سے ہم یہ ساری غلطیاں کر بیٹھے ہیں۔ ہم نے امریکہ سے جو فوجی معاہدے کئے‘ ان میں واضح طور سے درج تھا کہ امریکہ سے لیا ہوا اسلحہ ہم بھارت کے خلاف استعمال نہیں کریں گے۔ مگر ہم نے ایسا کیا۔ ہم نے سوویت یونین کے خلاف جو چھاپہ مار جنگ امریکی اسلحہ اور پیسہ لے کر لڑی‘ اس کا اختتام ہم اپنے مفادات کے مطابق چاہتے تھے۔ جبکہ امریکہ سوویت یونین کی پسپائی کے بعد یہ چاہتا تھا کہ اب کوئی طاقت وہاں کے معاملات میں مداخلت نہ کرے اور افغان آپس میں لڑتے بھڑتے جیسے بھی رہنا چاہیں‘ رہیں۔ لیکن ضیاالحق اور بعد کی حکومتوں نے افعانستان میں مداخلت کا عمل جاری رکھا اورہماری مدد اور سرپرستی سے‘ طالبان کی جو حکومت قائم ہوئی‘ اس نے القاعدہ کو اپنے ملک کے اندر مراکز قائم کرنے کی اجازت بھی دی اور تحفظ بھی دیا۔ اپنی دلیل کے آخری جزو کو‘ ترتیب کی خاطر میں پہلے لکھ رہا ہوں اور وہ یہ کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف امریکی اتحادی بن کر بھی اس کی توقعات پوری نہیں کیں۔ امریکہ سے اسلحہ اور پیسہ لیتے رہے اور ساتھ ہی افغانستان میں اتحادی فوجوں پر حملے کرنے والوں کو سہولتیں بھی بہم پہنچاتے رہے۔ یہ کھلی اشتعال انگیزی تھی۔ کوئی سپر پاور یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ کوئی ملک اس کا اتحادی بھی ہو اور اسی کے پیسے اور اسلحہ کے بل بوتے پر اس کے قاتلوں کا مددگار بھی ہو۔ ہم نے صدر پرویزمشرف اور ان کے حامیوں کی پالیسیوں کو سنجیدگی سے نہیں دیکھا لیکن امریکہ کے لئے ان پالیسیوں کو برداشت کرنا بے حد مشکل تھا اور وہ برداشت نہیں کر رہا۔ جو کچھ اب ہونے جا رہا ہے‘ وہ امریکی عدم برداشت سے پیدا ہونے والے نتائج پر مشتمل ہو گا۔
سپرپاورز کے بنائے ہوئے نقشے‘ سٹریٹجک ڈیزائنز‘ چالوں اور گمراہ کرنے والے اقدامات کو خود ان کے دانشور اور مبصر بھی پوری طرح سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں اور ان کی ایجنسیاں جس طرح کام کرتی ہیں‘ ان سے تو خود حکمران بھی پوری طرح باخبر نہیں ہوتے۔ مجھ جیسا ایک کم علم اور ناچیز انسان انہیں پوری طرح کیسے سمجھ سکتا ہے؟ مثلاً یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ القاعدہ نے امریکہ میں دہشت گردی کی جو زبردست وارداتیں کیں‘ وہ امریکہ کی آلہ کار کیسے ہو سکتی ہے؟ لیکن جب القاعدہ سے منسوب وارداتوں کے نتائج دیکھتا ہوں تو وہ سب کے سب امریکہ کے حق میں نکلتے ہیں۔ اس نے 9/11 کی وارداتیں کیں‘ تو امریکہ کو پوری مسلم دنیا پر دباؤ ڈالنے اورجارحیت کا جواز ڈھونڈنے کے مواقع ملے۔ انہی وارداتوں کی آڑ میں امریکہ نے افغانستان پر فوجی قبضے کے لئے دنیا بھر کی حمایت حاصل کی۔ عراق پر فوجی قبضے کے بعد القاعدہ سے منسوب جتنی بھی دہشت گردی ہوئی‘ اس کی آڑ میں امریکہ کو عراق کے عوام کی مزاحمت وحشیانہ طریقے سے کچلنے کا جواز ملا اور عراقی عوام کی کمر اور حوصلے بری طرح سے توڑے گئے۔ القاعدہ ایک علیحدہ حقیقت ہے یا سی آئی اے کی کوئی شیڈو تنظیم؟ یہ میں نہیں جانتا۔ مگر اس کے نام سے جو کچھ بھی ہوتا ہے‘ اس کا فائدہ آخر کار امریکہ اٹھاتا ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے‘ اسامہ بن لادن یقینا ایک جیتے جاگتے شخص کا نام تھا‘ جس نے ٹی وی پر آ کر بیانات بھی دیئے اور پاکستانی اخبارنویسوں کو بطور خاص دعوتیں دے کر انٹرویوز بھی دیئے اور نہ جانے وہ کونسے عناصر تھے‘ جن کے ذریعے پاکستان میں اسامہ بن لادن کے چرچے بھی ہوئے اور ان کی تصاویر کی مختلف ذرائع سے تشہیر بھی کی گئی اور اسے امریکہ دشمن علامت کے طور پر اس طرح ابھارا گیا کہ پاکستان کے سادہ لوح شہری‘ اسے امریکہ کا سب سے بڑا دشمن تصور کرنے لگے۔ یہ متھ کیوں اور کس وجہ سے پروان چڑھائی گئی؟ اس کے بارے میں فی الحال پورا اندازہ لگانا مشکل ہے۔لیکن یہ بات کم و بیش ثابت ہے کہ اسامہ بن لادن اس دنیا میں موجود نہیں ہے۔ اگر کہیں ہے‘ توخود امریکہ کی قید میں ہو گا۔ محترمہ بے نظیرشہید نے ایک انٹرویو میں واضح طور پہ کہہ دیا تھا کہ اسامہ بن لادن مر چکا ہے اور اس کا قاتل امریکہ کی تحویل میں ہے۔ ہو سکتا ہے یہی انکشاف بی بی کی شہادت کا باعث بنا ہو۔ یہ بات دہراکر میں خود بھی شاید کسی گولی یا بم پر اپنا نام لکھ رہا ہوں۔مگر میرا وطن جس سازش کا ہدف بن رہا ہے‘ میں اسے ناکام نہیں کر سکتا‘ تو اس کی کامیابی دیکھنے سے پہلے مر جانا بہتر ہے۔
مجھے یقین نہیں کہ القاعدہ کی قیادت یا کوئی علیحدہ تنظیم موجود ہے۔ یہ امریکی ایجنسیوں کے ڈھکوسلے ہیں‘ جن کے نام پر وارداتیں کی جاتی ہیں۔ ہمیں میڈیا کے مخصوص ذرائع سے یہ اطلاعات پہنچائی جاتی ہیں کہ نہ صرف القاعدہ موجود اور سرگرم ہے بلکہ اسامہ بن لادن اور اس کے ساتھی بھی پاک افغان سرحد پر پناہ گزین ہیں۔ امریکی عہدیدار تو صاف کہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں ہے۔ کیا آپ کو اس الزام میں کوئی منصوبہ نظر نہیں آرہا؟ کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ ایک دوسرے پر شک کرنے والی تنظیموں میں باہمی تصادم کو فروغ دینے کے لئے تو نہیں؟ القاعدہ اور اسامہ کی متھوں میں سے جو کچھ برآمد کیا جا سکتا ہے‘ کیا وہ امریکی غیضظ و غصب کا اظہار نہیں ہو گا؟ پاکستان میں امریکہ کے جو ممکنہ اہداف ہیں‘ کیا وہ صرف کراچی اور فاٹا تک محدود ہیں یا ہماری فوجی اور ایٹمی استعداد بھی ان میں شامل ہے؟ اور اگر ایسا ہے‘ تو امریکی منصوبوں میں ہمارے لئے جس دلدل کی تخلیق کی جا رہی ہے‘ وہ بہت بڑی ہو گی۔جس طرف کراچی کو دھکیلا جا رہا ہے‘ شاید پورے پاکستان کو اسی سمت میں دھکیلنے کا منصوبہ ہو۔ کراچی کے بعد لاہورکا نمبر تو نہیں؟
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=457439
بہت دیر کی مہربان آتے آتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اندیشہ ہائے دور دراز از نذیر ناجی
پہلے تو یہ عرض کر دوں کہ کراچی میں جن جماعتوں پر ٹارگٹ کلنگ کے الزامات لگائے جا رہے ہیں‘ ان میں کوئی قصور وار نہیں۔ اے این پی‘ ایم کیو ایم‘ اہل سنت‘ اہل تشیع‘ غرض یہ کہ جتنے بھی لسانی‘ سیاسی اور فقہی گروپ یا جماعتیں ہیں‘ وہ سب ایک ہی طاقت کا ہدف ہیں‘ جو دکھائی دیئے بغیر اس طرح سے قتل و غارت گری کرا رہی ہے کہ تمام مذکورہ گروپ اس کا ذمہ دار ایک دوسرے کو سمجھیں اور ردعمل میں انتقامی کارروائیاں کریں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ سارے نقصان اٹھانے والے‘ ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے‘ شکوک و شبہات میں مبتلا رہتے ہیں اور ایک دوسرے اسی طرح پر شک کرتے ہیں‘ جیسے کہ منصوبہ بنانے والوں کے مقاصد میں شامل ہے۔ آپ اگر ٹارگٹ کلنگ کی ترتیب کو سامنے رکھ کر جائزہ لیں‘ تو صاف نظر آئے گا کہ کس موقع پر‘ کس جماعت یا گروہ کے افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے؟ اور اس کے ردعمل میں جن واقعات کی توقع کی گئی تھی‘ کم و بیش سب کچھ اسی طرح ہوا‘ جیسے منصوبہ سازوں نے سوچا ہو گا۔ ظاہر ہے کہ یہ باتیں پڑھ کے فوری سوال یہ پیدا ہو گا کہ سازش کرنے والے کون ہیں؟ ہو سکتا ہے میرے جواب میں لکھی گئی باتیں آپ کے لئے قابل قبول نہ ہوں۔ مگر جو قارئین مجھے پڑھتے ہیں‘ انہیں یقینا اندازہ ہو گا کہ میرے تجزیوں میں لکھی گئی بیشتر باتیں کبھی مہینوں اور کبھی سالوں کے بعد درست ثابت ہوتی رہی ہیں اور میں ہر اندازہ حقائق کو سمجھنے اور پرکھنے کی کوشش کے دوران لگاتا ہوں۔ کوئی کوشش کامیاب رہتی ہے اور کوئی نہیں رہتی۔کراچی کے حالات جو رخ اختیار کر رہے ہیں‘ وہ امریکی ضروریات کے عین مطابق ہے۔ مجھے کبھی یہ شبہ نہیں رہا کہ امریکہ پاکستان کا خیرخواہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی میری رائے یہ رہی ہے کہ ایک سپرپاور کو مشتعل اور زچ کر کے جارحیت کے راستوں پر نہیں ڈالنا چاہیے۔ حتی الامکان یہ کوشش ہونا چاہیے کہ وہ ہم سے کوئی خطرہ محسوس نہ کرے۔ اسے یہ شک نہ ہو کہ ہماری وجہ سے‘ اس کے عالمی اور داخلی مفادات کو خطرہ لاحق ہے اور اسے یہ بدگمانی بھی نہ ہو کہ ہم دوطرفہ معاملات میں اس کے ساتھ کوئی دھوکہ کر رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی صورت سپرپاور کے غیظ و غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہوتی ہے۔ ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ بدقسمتی سے ہم یہ ساری غلطیاں کر بیٹھے ہیں۔ ہم نے امریکہ سے جو فوجی معاہدے کئے‘ ان میں واضح طور سے درج تھا کہ امریکہ سے لیا ہوا اسلحہ ہم بھارت کے خلاف استعمال نہیں کریں گے۔ مگر ہم نے ایسا کیا۔ ہم نے سوویت یونین کے خلاف جو چھاپہ مار جنگ امریکی اسلحہ اور پیسہ لے کر لڑی‘ اس کا اختتام ہم اپنے مفادات کے مطابق چاہتے تھے۔ جبکہ امریکہ سوویت یونین کی پسپائی کے بعد یہ چاہتا تھا کہ اب کوئی طاقت وہاں کے معاملات میں مداخلت نہ کرے اور افغان آپس میں لڑتے بھڑتے جیسے بھی رہنا چاہیں‘ رہیں۔ لیکن ضیاالحق اور بعد کی حکومتوں نے افعانستان میں مداخلت کا عمل جاری رکھا اورہماری مدد اور سرپرستی سے‘ طالبان کی جو حکومت قائم ہوئی‘ اس نے القاعدہ کو اپنے ملک کے اندر مراکز قائم کرنے کی اجازت بھی دی اور تحفظ بھی دیا۔ اپنی دلیل کے آخری جزو کو‘ ترتیب کی خاطر میں پہلے لکھ رہا ہوں اور وہ یہ کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف امریکی اتحادی بن کر بھی اس کی توقعات پوری نہیں کیں۔ امریکہ سے اسلحہ اور پیسہ لیتے رہے اور ساتھ ہی افغانستان میں اتحادی فوجوں پر حملے کرنے والوں کو سہولتیں بھی بہم پہنچاتے رہے۔ یہ کھلی اشتعال انگیزی تھی۔ کوئی سپر پاور یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ کوئی ملک اس کا اتحادی بھی ہو اور اسی کے پیسے اور اسلحہ کے بل بوتے پر اس کے قاتلوں کا مددگار بھی ہو۔ ہم نے صدر پرویزمشرف اور ان کے حامیوں کی پالیسیوں کو سنجیدگی سے نہیں دیکھا لیکن امریکہ کے لئے ان پالیسیوں کو برداشت کرنا بے حد مشکل تھا اور وہ برداشت نہیں کر رہا۔ جو کچھ اب ہونے جا رہا ہے‘ وہ امریکی عدم برداشت سے پیدا ہونے والے نتائج پر مشتمل ہو گا۔
سپرپاورز کے بنائے ہوئے نقشے‘ سٹریٹجک ڈیزائنز‘ چالوں اور گمراہ کرنے والے اقدامات کو خود ان کے دانشور اور مبصر بھی پوری طرح سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں اور ان کی ایجنسیاں جس طرح کام کرتی ہیں‘ ان سے تو خود حکمران بھی پوری طرح باخبر نہیں ہوتے۔ مجھ جیسا ایک کم علم اور ناچیز انسان انہیں پوری طرح کیسے سمجھ سکتا ہے؟ مثلاً یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ القاعدہ نے امریکہ میں دہشت گردی کی جو زبردست وارداتیں کیں‘ وہ امریکہ کی آلہ کار کیسے ہو سکتی ہے؟ لیکن جب القاعدہ سے منسوب وارداتوں کے نتائج دیکھتا ہوں تو وہ سب کے سب امریکہ کے حق میں نکلتے ہیں۔ اس نے 9/11 کی وارداتیں کیں‘ تو امریکہ کو پوری مسلم دنیا پر دباؤ ڈالنے اورجارحیت کا جواز ڈھونڈنے کے مواقع ملے۔ انہی وارداتوں کی آڑ میں امریکہ نے افغانستان پر فوجی قبضے کے لئے دنیا بھر کی حمایت حاصل کی۔ عراق پر فوجی قبضے کے بعد القاعدہ سے منسوب جتنی بھی دہشت گردی ہوئی‘ اس کی آڑ میں امریکہ کو عراق کے عوام کی مزاحمت وحشیانہ طریقے سے کچلنے کا جواز ملا اور عراقی عوام کی کمر اور حوصلے بری طرح سے توڑے گئے۔ القاعدہ ایک علیحدہ حقیقت ہے یا سی آئی اے کی کوئی شیڈو تنظیم؟ یہ میں نہیں جانتا۔ مگر اس کے نام سے جو کچھ بھی ہوتا ہے‘ اس کا فائدہ آخر کار امریکہ اٹھاتا ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے‘ اسامہ بن لادن یقینا ایک جیتے جاگتے شخص کا نام تھا‘ جس نے ٹی وی پر آ کر بیانات بھی دیئے اور پاکستانی اخبارنویسوں کو بطور خاص دعوتیں دے کر انٹرویوز بھی دیئے اور نہ جانے وہ کونسے عناصر تھے‘ جن کے ذریعے پاکستان میں اسامہ بن لادن کے چرچے بھی ہوئے اور ان کی تصاویر کی مختلف ذرائع سے تشہیر بھی کی گئی اور اسے امریکہ دشمن علامت کے طور پر اس طرح ابھارا گیا کہ پاکستان کے سادہ لوح شہری‘ اسے امریکہ کا سب سے بڑا دشمن تصور کرنے لگے۔ یہ متھ کیوں اور کس وجہ سے پروان چڑھائی گئی؟ اس کے بارے میں فی الحال پورا اندازہ لگانا مشکل ہے۔لیکن یہ بات کم و بیش ثابت ہے کہ اسامہ بن لادن اس دنیا میں موجود نہیں ہے۔ اگر کہیں ہے‘ توخود امریکہ کی قید میں ہو گا۔ محترمہ بے نظیرشہید نے ایک انٹرویو میں واضح طور پہ کہہ دیا تھا کہ اسامہ بن لادن مر چکا ہے اور اس کا قاتل امریکہ کی تحویل میں ہے۔ ہو سکتا ہے یہی انکشاف بی بی کی شہادت کا باعث بنا ہو۔ یہ بات دہراکر میں خود بھی شاید کسی گولی یا بم پر اپنا نام لکھ رہا ہوں۔مگر میرا وطن جس سازش کا ہدف بن رہا ہے‘ میں اسے ناکام نہیں کر سکتا‘ تو اس کی کامیابی دیکھنے سے پہلے مر جانا بہتر ہے۔
مجھے یقین نہیں کہ القاعدہ کی قیادت یا کوئی علیحدہ تنظیم موجود ہے۔ یہ امریکی ایجنسیوں کے ڈھکوسلے ہیں‘ جن کے نام پر وارداتیں کی جاتی ہیں۔ ہمیں میڈیا کے مخصوص ذرائع سے یہ اطلاعات پہنچائی جاتی ہیں کہ نہ صرف القاعدہ موجود اور سرگرم ہے بلکہ اسامہ بن لادن اور اس کے ساتھی بھی پاک افغان سرحد پر پناہ گزین ہیں۔ امریکی عہدیدار تو صاف کہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں ہے۔ کیا آپ کو اس الزام میں کوئی منصوبہ نظر نہیں آرہا؟ کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ ایک دوسرے پر شک کرنے والی تنظیموں میں باہمی تصادم کو فروغ دینے کے لئے تو نہیں؟ القاعدہ اور اسامہ کی متھوں میں سے جو کچھ برآمد کیا جا سکتا ہے‘ کیا وہ امریکی غیضظ و غصب کا اظہار نہیں ہو گا؟ پاکستان میں امریکہ کے جو ممکنہ اہداف ہیں‘ کیا وہ صرف کراچی اور فاٹا تک محدود ہیں یا ہماری فوجی اور ایٹمی استعداد بھی ان میں شامل ہے؟ اور اگر ایسا ہے‘ تو امریکی منصوبوں میں ہمارے لئے جس دلدل کی تخلیق کی جا رہی ہے‘ وہ بہت بڑی ہو گی۔جس طرف کراچی کو دھکیلا جا رہا ہے‘ شاید پورے پاکستان کو اسی سمت میں دھکیلنے کا منصوبہ ہو۔ کراچی کے بعد لاہورکا نمبر تو نہیں؟
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=457439