Muhammad Qader Ali
محفلین
حضرت اُمّ سُلیم
ایک پاکباز صحابیہ حضرت اُمّ سُلیم (رمیصاء)رضی اللہ عنہا
حضرت اُمّ سُلیم رضی اللہ عنہا ان خوش نصیب صحابیات میں سے ہیں جن کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنّتی ہونے کی بشارت دی تھی۔ ان کا اسم گرامی رُمیصاء تھا۔۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہہ راوی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں نے اپنے آپ کو جنت میں داخل ہوتے ہوئے تو اچانک میری نگاہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہہ کی بیوی رُمیصاء پر پڑی۔"
عہد رسالت میں ان کے کئی واقعات ایسے ہیں جنہوں نے ان کو صحابی خواتین میں ایک منفرد مقام عطاء کیا ہے۔
مبلّغہ
ان کی نکاح کا واقعہ عجیب ہے یہ اپنے نکاح سے پہلے اسلام لاچکی تھیں، حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہہ جو بعد میں ان کے شوہر بنے، اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔۔حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہہ نے کفر ہی کی حالت میں انہیں شادی کا پیغام دیا، اس کے جواب میں حضرت اُمّ سُلیم رضی اللہ عنہا انُ سے فرمایا:"ابوطلحہ رضی اللہ عنہہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تم ایک ایسی لکڑی کو اپنا معبود بنا رکھا ہے جو زمین سے اُگتی ہے، اور اسے فلاں قبیلے کے ایک حبشی شخص نے گھڑا ہے?"
"ہاں جانتا ہوں" ابوطلحہ رضی اللہ عنہہ کہا۔
"کیا تمہیں ایسے لکڑی کو معبود قرار دیتے ہوئے شرم نہیں آتی? تم جیسے آدمی کا پیغام رد نہیں کیا جاسکتا، لیکن میں مسلمان ہوچکی ہوں اور تم ابھی کافر ہو، اگر تم اسلام لے آؤ تو مجھے اس کے سوا کوئی مہر نہیں چاہیے۔" حضرت اُمّ سُلیم رضی اللہ عنہا نے جواب دیا۔
"سونا چاندی!" ابوطلحہ رضی اللہ عنہہ نے جواب دیا۔
"لیکن مجھے نہ سونا چاہیے نہ چاندی چاہیے، میں تو تم سے بس اسلام چاہتی ہوں" حضرت اُمّ سُلیم رضی اللہ عنہا نے فرمایا۔
یہ سن کر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے دل میں اسلام گھر کر گیا،وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم کے درمیان تشریف فرماتھے۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہہ آتے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا: " ابوطلحہ رضی اللہ عنہہ تمہارے پاس اس حال میں آئے ہیں کہ ان کی آنکھوں کے درمیان اسلام کانور چمک رہاہے۔
اس کے بعد ابوطلحہ رضی اللہ عنہہ اسلام لائے اور حضرت اُمّ سُلیم رضی اللہ عنہا کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں۔
مجاہدہ
یہی حضرت اُمّ سُلیم رضی اللہ عنہا جن کے بارے میں حضرت انس رضی اللہ عنہہ فرماتے کہ غزوہ اُحد کے موقع پر میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور آپ کو اپنی پشت پر پانی کے مشکیزے بھر بھر کر لاتی اور مجاہدوں کو پانی پلاتی، جب مشکیزے خالی ہو جاتے تو پھر تازہ پانی بھر لاتی۔
نوٹ: اس وقت تک پردے کا احکام نازل نہیں ہوئے تھے۔
اور غزوہ حُنین کے موقع پر حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہہ نے اپنے اس پاکباز بیوی کو دیکھا کہ ایک خنجر لئے کھڑی ۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہہ نے پوحھا: "حضرت اُمّ سُلیم رضی اللہ عنہا یہ کیا ہے?" انہوں نے جواب دیا: "یہ خنجر ہے اور میں نے اسے اسلیے تھام رکھا ہےکہ کسی مشرک نے میرے قریب آنے کی کوشش کی تو اس کے پیٹ میں اتاردونگی۔" حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہہ خوش ہوکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے مجاہد عزم کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ کافی ہوگیا
(اب تمہیں اس کی ضرورت نہیں)۔
صبر و حکمت کی پیکر
یہی حضرت اُمّ سُلیم رضی اللہ عنہا ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے صاحبزادے بیمار ہوگئے، حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہہ انہیں بیمار چھوڑکر کام پر چلے گئے، اسی دوران میں صاحبزادے کا انتقال ہوگیا۔ حضرت اُمّ سُلیم رضی اللہ عنہا نے ان پر کپڑا ڈالا، جس کوٹھری میں اانتقال ہوگیا تھا نعش اسی میں رہنے دی ، اور آکر حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہہ کے لیے کھانا تیار کرنے لگیں۔ حضرت ابوطلحہ روزے سے تھے اور حضرت اُمّ سُلیم رضی اللہ عنہا نے یہ پسند نہ کیا کہ افطار وغیرہ سے پہلے انہیں اس جانکاہ غم میں مبتلا کریں ۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہہ شام کے وقت آئے بچے کا حال پوچھا اور اسے دیکھنے کے لئے کوٹھری میں جانے لگے۔ لیکن حضرت اُمّ سُلیم رضی اللہ عنہا نے کہا:" وہ بہت اچھی حالت میں ہے اسے دیکھنے کی ضرورت نہیں ۔" حضرت ابوطلحہ لوٹ آئے اور مطمئن ہوکر افطار کرنے لگے۔ حضرت اُمّ سُلیم رضی اللہ عنہا نے اپنے شووپر کے استقبال کے لیے حسب معمول سنگھار بھی کیا اور گھر کی فضاء پر اسے حادثے کا معمولی اثر بھی نہ ہونے دیا۔ رات حسب معمول ہنستے کھیلتے گزری، تہجد کے وقت حضرت اُمّ سُلیم رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہہ سے کہا:"ابوطلحہ رضی اللہ عنہہ! فلاں قبیلے کے لوگ عجیب ہیں انہوں نے کوئی چیز عاریۃ مانگی، پڑوسیوں نے دیدی مگر اسے اپنی سمجھ کر بیٹھ گئے اب وہ اپنی چیز مانگتے ہیں تو ان پر خفاہوتے ہیں۔"انہوں نے بڑا برا کیا یہ تو انصاف کے صریح خلاف ہے۔"ابوطلحہ رضی اللہ عنہہ نے کہا: اس پر حضرت اُمّ سُلیم رضی اللہ عنہا بولیں:" آپ کا بیٹا بھی اللہ نے عاریۃ اللہ نے دیا تھا اور اب اس نے اس کو واپس بلالیا، وہی اسکا مالک تھا ہمیں صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں۔" ابو طلحہ رضی اللہ عنہہ یہ سن کر حیران رہ گئے اور جاکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ حضرت اُمّ سُلیم رضی اللہ عنہا نے میرے ساتھ ایسا ایسا معاملہ کیا۔ نبی صلی اللہ نے جواب میں فرمایا:"ابوطلحہ! اللہ نے تمہاری گزشتہ رات میں تم پر بڑی برکتیں نازل کی ہیں۔" حضرت انس رضی اللہ عنہہ فرماتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کے سوا مدینہ طیّبہ کے کسی گھر تشریف نہیں لے جاتے سوائےحضرت اُمّ سُلیم رضی اللہ عنہا کے یہاں جایا کرتے تھے آپ سے پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" مجھے ان پر رحم آتا ہے ، ان کے بھائی میرے سامنے قتل ہوئے تھے"۔
ایک پاکباز صحابیہ حضرت اُمّ سُلیم (رمیصاء)رضی اللہ عنہا
حضرت اُمّ سُلیم رضی اللہ عنہا ان خوش نصیب صحابیات میں سے ہیں جن کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنّتی ہونے کی بشارت دی تھی۔ ان کا اسم گرامی رُمیصاء تھا۔۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہہ راوی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں نے اپنے آپ کو جنت میں داخل ہوتے ہوئے تو اچانک میری نگاہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہہ کی بیوی رُمیصاء پر پڑی۔"
عہد رسالت میں ان کے کئی واقعات ایسے ہیں جنہوں نے ان کو صحابی خواتین میں ایک منفرد مقام عطاء کیا ہے۔
مبلّغہ
ان کی نکاح کا واقعہ عجیب ہے یہ اپنے نکاح سے پہلے اسلام لاچکی تھیں، حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہہ جو بعد میں ان کے شوہر بنے، اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔۔حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہہ نے کفر ہی کی حالت میں انہیں شادی کا پیغام دیا، اس کے جواب میں حضرت اُمّ سُلیم رضی اللہ عنہا انُ سے فرمایا:"ابوطلحہ رضی اللہ عنہہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تم ایک ایسی لکڑی کو اپنا معبود بنا رکھا ہے جو زمین سے اُگتی ہے، اور اسے فلاں قبیلے کے ایک حبشی شخص نے گھڑا ہے?"
"ہاں جانتا ہوں" ابوطلحہ رضی اللہ عنہہ کہا۔
"کیا تمہیں ایسے لکڑی کو معبود قرار دیتے ہوئے شرم نہیں آتی? تم جیسے آدمی کا پیغام رد نہیں کیا جاسکتا، لیکن میں مسلمان ہوچکی ہوں اور تم ابھی کافر ہو، اگر تم اسلام لے آؤ تو مجھے اس کے سوا کوئی مہر نہیں چاہیے۔" حضرت اُمّ سُلیم رضی اللہ عنہا نے جواب دیا۔
"سونا چاندی!" ابوطلحہ رضی اللہ عنہہ نے جواب دیا۔
"لیکن مجھے نہ سونا چاہیے نہ چاندی چاہیے، میں تو تم سے بس اسلام چاہتی ہوں" حضرت اُمّ سُلیم رضی اللہ عنہا نے فرمایا۔
یہ سن کر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے دل میں اسلام گھر کر گیا،وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم کے درمیان تشریف فرماتھے۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہہ آتے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا: " ابوطلحہ رضی اللہ عنہہ تمہارے پاس اس حال میں آئے ہیں کہ ان کی آنکھوں کے درمیان اسلام کانور چمک رہاہے۔
اس کے بعد ابوطلحہ رضی اللہ عنہہ اسلام لائے اور حضرت اُمّ سُلیم رضی اللہ عنہا کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں۔
مجاہدہ
یہی حضرت اُمّ سُلیم رضی اللہ عنہا جن کے بارے میں حضرت انس رضی اللہ عنہہ فرماتے کہ غزوہ اُحد کے موقع پر میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور آپ کو اپنی پشت پر پانی کے مشکیزے بھر بھر کر لاتی اور مجاہدوں کو پانی پلاتی، جب مشکیزے خالی ہو جاتے تو پھر تازہ پانی بھر لاتی۔
نوٹ: اس وقت تک پردے کا احکام نازل نہیں ہوئے تھے۔
اور غزوہ حُنین کے موقع پر حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہہ نے اپنے اس پاکباز بیوی کو دیکھا کہ ایک خنجر لئے کھڑی ۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہہ نے پوحھا: "حضرت اُمّ سُلیم رضی اللہ عنہا یہ کیا ہے?" انہوں نے جواب دیا: "یہ خنجر ہے اور میں نے اسے اسلیے تھام رکھا ہےکہ کسی مشرک نے میرے قریب آنے کی کوشش کی تو اس کے پیٹ میں اتاردونگی۔" حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہہ خوش ہوکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے مجاہد عزم کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ کافی ہوگیا
(اب تمہیں اس کی ضرورت نہیں)۔
صبر و حکمت کی پیکر
یہی حضرت اُمّ سُلیم رضی اللہ عنہا ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے صاحبزادے بیمار ہوگئے، حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہہ انہیں بیمار چھوڑکر کام پر چلے گئے، اسی دوران میں صاحبزادے کا انتقال ہوگیا۔ حضرت اُمّ سُلیم رضی اللہ عنہا نے ان پر کپڑا ڈالا، جس کوٹھری میں اانتقال ہوگیا تھا نعش اسی میں رہنے دی ، اور آکر حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہہ کے لیے کھانا تیار کرنے لگیں۔ حضرت ابوطلحہ روزے سے تھے اور حضرت اُمّ سُلیم رضی اللہ عنہا نے یہ پسند نہ کیا کہ افطار وغیرہ سے پہلے انہیں اس جانکاہ غم میں مبتلا کریں ۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہہ شام کے وقت آئے بچے کا حال پوچھا اور اسے دیکھنے کے لئے کوٹھری میں جانے لگے۔ لیکن حضرت اُمّ سُلیم رضی اللہ عنہا نے کہا:" وہ بہت اچھی حالت میں ہے اسے دیکھنے کی ضرورت نہیں ۔" حضرت ابوطلحہ لوٹ آئے اور مطمئن ہوکر افطار کرنے لگے۔ حضرت اُمّ سُلیم رضی اللہ عنہا نے اپنے شووپر کے استقبال کے لیے حسب معمول سنگھار بھی کیا اور گھر کی فضاء پر اسے حادثے کا معمولی اثر بھی نہ ہونے دیا۔ رات حسب معمول ہنستے کھیلتے گزری، تہجد کے وقت حضرت اُمّ سُلیم رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہہ سے کہا:"ابوطلحہ رضی اللہ عنہہ! فلاں قبیلے کے لوگ عجیب ہیں انہوں نے کوئی چیز عاریۃ مانگی، پڑوسیوں نے دیدی مگر اسے اپنی سمجھ کر بیٹھ گئے اب وہ اپنی چیز مانگتے ہیں تو ان پر خفاہوتے ہیں۔"انہوں نے بڑا برا کیا یہ تو انصاف کے صریح خلاف ہے۔"ابوطلحہ رضی اللہ عنہہ نے کہا: اس پر حضرت اُمّ سُلیم رضی اللہ عنہا بولیں:" آپ کا بیٹا بھی اللہ نے عاریۃ اللہ نے دیا تھا اور اب اس نے اس کو واپس بلالیا، وہی اسکا مالک تھا ہمیں صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں۔" ابو طلحہ رضی اللہ عنہہ یہ سن کر حیران رہ گئے اور جاکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ حضرت اُمّ سُلیم رضی اللہ عنہا نے میرے ساتھ ایسا ایسا معاملہ کیا۔ نبی صلی اللہ نے جواب میں فرمایا:"ابوطلحہ! اللہ نے تمہاری گزشتہ رات میں تم پر بڑی برکتیں نازل کی ہیں۔" حضرت انس رضی اللہ عنہہ فرماتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کے سوا مدینہ طیّبہ کے کسی گھر تشریف نہیں لے جاتے سوائےحضرت اُمّ سُلیم رضی اللہ عنہا کے یہاں جایا کرتے تھے آپ سے پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" مجھے ان پر رحم آتا ہے ، ان کے بھائی میرے سامنے قتل ہوئے تھے"۔