محمد بلال افتخار خان
محفلین
نوٹ
یہ فجر کے وقت دیکھا جانے والا خواب ہے جسے میں نے 2012 میں کہانی کی صورت میں تحریر کیا ہے
کہتے ہیں جب انسانون کی بستی میں ظلم بڑھ گیا۔۔ اور لوٹ مار اور خون خرابہ عام ہو گیااور اس ظلم کی وجہ سے آسمان نے بھی بارش برسانا روک لی۔۔۔توکئی سمندر پار رہنے والےڈریکولاز نے سوچا اب چھپنے کا کیا فائیدا۔۔چلو اور چل کر بستی پر حکمرانی کریں۔ لوگوں کا خون پی کر اپنی پیاس بھجائین اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی برادری میں بھی اضافہ کرین۔۔
یہ ومپائیرز یا ڈرئیکولا آہستہ آہستہ انسان کی بستی کا کنٹرول سمبھالنے لگے۔۔ جس کا خون پیتے۔۔کچھ دیر بعد وہ بھی ڈرئیکولا بن جاتا اور یوں ان کی تعداد میں اضافہ در اضافہ ہوتا جاتا۔۔
انسانون کی بستی کے وہ مجبور جو اپنے سرداروں کے مظالم کا نشانہ بن رہے تھے۔۔ان میں سے کچھ نے سوچا کہ کیوں نہ ان ومپائیرز یا ڈرئیکولاز کے ساتھی بن جائیں۔۔ طاقت حاصل کریں تاکہ اپنے اوپر کئے مظالم کے بدلے لے سکیں۔۔
ان انسانوں میں ایک انسان ایسا بھی تھا جوصرف، ظلم کی چکی سے اپنے خاندان اور اپنے عزیزون کو بچانا چاہتا تھا۔۔۔لیکن وہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ خود اپنی ہی بستی کے لوگوں کا لہو پئے اور لہو پی کر انہیں بھی ظلمت کی تاریکیوں میں دہکیل دے۔۔ مگر مجبور تھا۔۔ کوئی آپشن نہ تھا ۔ وہ اپنے دوستون کے ساتھ ڈرئیکولاز کے پاس گیا اور درخواست کی کہ ہمارا خون پی کر ہمیں اپنی صف میں شامل کر لین۔۔
ڈرئیکولا کے سردار نے ان کے خون سے اپنی پیاس بجھائی اور انھیں اپنے قبیلے میں شامل کر لیا۔۔ خون پلانے سے ان کی کیفیت ہی بدل گئی۔۔ ایک دم ہزار پہلوانون کی طاقت ان میں سے ہر ایک میں آ گئ۔۔ جب یہ چاہتے تو اڑ کر کہیں بھی چلے جاتے۔۔طاقت اقتدار اور اپنی مرضی منوانے کی طاقت انسان کو واقعی الگ مخلوق بنا دیتی ہے۔۔ اس طاقت کے ساتھ ایک غلط چیز بھی ان کی ذات کا حصہ بن گئی۔۔ اور وہ تھی۔۔۔ وہ پابندی جس کی وجہ سے وہ سورج کی روشنی میں وہ نہایت کمزور ہو جاتے تھے اور اجالا انہیں جلانے لگ جاتا تھا۔۔
ان نئے ڈریکولاز میں یہ شخص بھی شامل تھا جسے اللہ نے دہڑکنے والا دل دیا تھا اور جو صرف ظلم سے بچاو چاہتا تھا اور اسی لئے مجبوراً ان میں شامل ہوا تھا۔۔ پہلے پہل تو اس نے نئی فطرت اپنانے کی کوشش کی لیکن ہر مقام پر وہ ناکام ہوا۔ کیونکہ اس کے سینے میں رکھا دل ڈرائیکولا بننے کے باوجود دہڑکتا تھا۔۔ اسی شش وپنج میں آخر کار ایک دن اس نے فیصلہ کیا کہ چونکہ میری اور میرے خاندان کی بقا اسی میں ہے کہ میں اپنے نئے قبیلے کے ساتھ رہوں تاکہ میرے عزیز ان کے شر سے وہ محفوظ رہیں۔۔مگر۔۔۔ چونکہ میری فطرت میں یہ نہیں ہے۔۔۔ کہ میں کسی کو نقصان پہنچاون اس لئے میں اپنی ذات سے تو کسی کا نقصان نہیں ہونے دوں گا۔۔۔
اب ہوتا یہ کہ جب اس کا غول کسی آبادی پر حملہ آور ہوتا تو یہ لوگون کا خون پینے سے باز رہتا اور کوشش کرتا کہ لوگوں کو اپنے غول سے بچائے رکھے۔۔۔
کچھ دن تو کسی نے یہ باتیں نوٹ نہ کیں لیکن جلد ہی اس کے ساتھی شک میں پر گئے۔۔ بعض نئے اور پرانے ساتھوں کو شک ہوا کہ وہ سہی سے ڈرئیکولا
ہی نہیں بن سکا۔۔ اور خوں پینے کی پیاس والا مادہ اس میں سہی سرائیت نہیں کر سکا۔۔
ایک دو بار ساتھیوں نے اسے گھیر نے کی کوشش کی ۔۔ اسے غصہ آیا اور اس کے دانت لمبے ہو گئے۔۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر ساتھی پیچھے ہو گئے کیونکہ انھیں لگا کہ یہ ان میں سب سے طاقت ور ڈرائیکولا
ہے۔۔۔ ہالنکہ وہ ہر بار اندر سے ڈرا ہوا ہوتا۔۔
روز کا معمول دیکھ کر ایک دن اس نے فیصلہ کیا کہ وہ غول چھوڑ دے گا۔۔ لعنت ہے ایسی غلامانہ زندگی پر۔۔۔ جو اللہ کی رضا وہی سب سے بہتر۔۔۔ صبح ہونے سے کچھ دیر پہلے اس نے ڈرئیکولاز کے قلعے کی دیوار سے چھلانگ لگائی اور پہاڑ اتر کر بھاگا۔۔۔
اس کا بھاگنا تھا کہ برسون سے رکی بارش کا آغاز ہو گیا۔۔ اللہ کی رحمت اس دن خوب برسی۔۔ وہ اپنے گھر پہنچا ، اسے ڈر تھا کہ صبح ہوتے ہی وہ جل جائے گا اس لئے صبح سے پہلے گھر پہنچ جائے۔۔ اسی سفر کے دوران صبح ہو گئی۔۔ لیکن یہ کیا؟
صبح جلا نہیں رہی بلکہ آرام دے رہی ہے۔ عرصے بعد دکھنے والی روشنی سرور اور عجیب کیفیت کا باعث بن رہی ہے۔۔۔
یا اللہ میں کہاں ہوں؟؟؟
اتناسکون۔۔۔۔
اتنا سکون تو وہ طاقت بھی نہ دے سکی۔۔۔
جو آج اپنے ہی بنائے ایک خول جسے احساس تحفظ کے لیئے میں نے بنایا تھا۔۔۔ آج اس سے نکلنے کے فیصلے کے۔۔۔۔
بعد دن کا اجالا دے رہا ہے۔۔
جسے میں اختتام سمجھ رہا وہ تو اختتام نہیں۔۔۔۔
بلکہ یہ تو نیا آ غاز ہے۔۔۔
سیدھا گھر پہنچا۔۔ اور بغیر بتائے اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔ انکھیں بند کئیں تو بارش کی ٹپ ٹپ کی آواز آئی۔۔ دیکھنے بھاگا۔۔تو دیکھا والد اور والدہ نچلی منزل پر نماز کے بعد قرآن کی تلاوت میں مصروف ہیں۔۔ چھت ٹپک رہی اور اللہ کی رحمت اندر گھر میں آ رہی ہے۔۔ شک کا حجاب اتر چکا ہے اور رحمت کی بارش زمیں کو نئی زندگی دے رہی ہے۔۔۔ خوف اور وحشت کی قحط سالی ختم ہو چکی ہے۔۔امید اور رحمت کی بارش۔۔۔۔۔ زمیں کو سراب کر رہی ہے۔۔
اسی سوچ میں وہ کھڑا ہے کہ ایک دم باہر سے خوشی کے شادیانوں کی آواز آتی ہے۔۔
لوگ خوش ہیں۔۔۔۔۔
وہ وجہ پوچھتا ہے تو کوئی کہتا ہے بارش نے ڈرئیکولاز کا قلعہ گرا دیا ہے۔۔ وہ بھاگ رہے ہیں اور جو پھنسے ہوئے ہیں انھیں صبح کا اجالا ختم کر رہا ہے۔۔۔
بستی پھر آزاد ہو گئی ہے۔۔ ڈرئیکولاز کے ساتھی، ظالم سردار ۔۔ ڈرئیکولاز کے ساتھ ختم ہو رہے ہیں۔۔ جو بچے ہیں وہ توبہ اور معافیاں مانگ رہے ہیں۔۔
دوسری طرف بارش نے زمیں میں نئی جان ڈال دے ہے۔۔۔ اس سال ضرور اچھی فصل ہو گی۔۔ بستی اپنی نئی زندگی کا آغاز کرے گی۔۔
وہ سوچتا ہے کہ وہ کتنا خوش قسمت ہے۔
کیا یہ رحمت اس کے غول چھوڑنے کا انعام ہے ؟
یا طاقت کے نشے نے اسے زمیں پر بسنے والی مخلوق سے بے خبر کر دیا تھا۔۔
وہ خوش ہے اور حیران ہے۔۔ سوچ رہا ہے۔۔۔۔
ایک فرد کا۔۔۔۔جب سوچنے انداز بدل جاتا ہے۔۔۔ تو کیسے دنیا کا سٹیج بھی بدل جاتا ہے۔ ایک فیصلے کی بدولت کیسے۔۔۔ ناصرف وہ انسان بن گیا بلکہ ایک درست فیصلے نے۔۔۔ضمیر کی آواز پر عمل کو۔۔۔۔ اس کی نجات کا ذریعہ بھی بنا دیا۔۔
نئی صبح آ گئی ہے۔۔چلو اچھا ہوا سب کچھ ظاہر ہو گیا۔۔ اب لوگ اتنی مار کھانے کے بعد اپنے حقوق جان گئے ہیں۔۔ اب کسی ظالم کو طاقت نہیں ملے گی۔۔ ڈرائیکولاز کو اب یہ بستی کبھی اپنے درمیان نہیں آنے دے گی۔۔ نئی صبح ہے۔۔ نئی امید ہے۔۔ زندگی کا ایک نیا آغاز۔۔۔
اللہ اس بستی کو ہمیشہ آباد رکھے۔۔۔ یہ انسانوں کی بستی ہے۔۔۔
ہان وہ انسان جس کے جد کو خلافت ارضی عطا ہوئی۔۔
اللہ ایسے ہمیشہ آباد رکھے۔۔۔
BTV: انسانوں کی بستی
یہ فجر کے وقت دیکھا جانے والا خواب ہے جسے میں نے 2012 میں کہانی کی صورت میں تحریر کیا ہے
کہتے ہیں جب انسانون کی بستی میں ظلم بڑھ گیا۔۔ اور لوٹ مار اور خون خرابہ عام ہو گیااور اس ظلم کی وجہ سے آسمان نے بھی بارش برسانا روک لی۔۔۔توکئی سمندر پار رہنے والےڈریکولاز نے سوچا اب چھپنے کا کیا فائیدا۔۔چلو اور چل کر بستی پر حکمرانی کریں۔ لوگوں کا خون پی کر اپنی پیاس بھجائین اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی برادری میں بھی اضافہ کرین۔۔
یہ ومپائیرز یا ڈرئیکولا آہستہ آہستہ انسان کی بستی کا کنٹرول سمبھالنے لگے۔۔ جس کا خون پیتے۔۔کچھ دیر بعد وہ بھی ڈرئیکولا بن جاتا اور یوں ان کی تعداد میں اضافہ در اضافہ ہوتا جاتا۔۔
انسانون کی بستی کے وہ مجبور جو اپنے سرداروں کے مظالم کا نشانہ بن رہے تھے۔۔ان میں سے کچھ نے سوچا کہ کیوں نہ ان ومپائیرز یا ڈرئیکولاز کے ساتھی بن جائیں۔۔ طاقت حاصل کریں تاکہ اپنے اوپر کئے مظالم کے بدلے لے سکیں۔۔
ان انسانوں میں ایک انسان ایسا بھی تھا جوصرف، ظلم کی چکی سے اپنے خاندان اور اپنے عزیزون کو بچانا چاہتا تھا۔۔۔لیکن وہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ خود اپنی ہی بستی کے لوگوں کا لہو پئے اور لہو پی کر انہیں بھی ظلمت کی تاریکیوں میں دہکیل دے۔۔ مگر مجبور تھا۔۔ کوئی آپشن نہ تھا ۔ وہ اپنے دوستون کے ساتھ ڈرئیکولاز کے پاس گیا اور درخواست کی کہ ہمارا خون پی کر ہمیں اپنی صف میں شامل کر لین۔۔
ڈرئیکولا کے سردار نے ان کے خون سے اپنی پیاس بجھائی اور انھیں اپنے قبیلے میں شامل کر لیا۔۔ خون پلانے سے ان کی کیفیت ہی بدل گئی۔۔ ایک دم ہزار پہلوانون کی طاقت ان میں سے ہر ایک میں آ گئ۔۔ جب یہ چاہتے تو اڑ کر کہیں بھی چلے جاتے۔۔طاقت اقتدار اور اپنی مرضی منوانے کی طاقت انسان کو واقعی الگ مخلوق بنا دیتی ہے۔۔ اس طاقت کے ساتھ ایک غلط چیز بھی ان کی ذات کا حصہ بن گئی۔۔ اور وہ تھی۔۔۔ وہ پابندی جس کی وجہ سے وہ سورج کی روشنی میں وہ نہایت کمزور ہو جاتے تھے اور اجالا انہیں جلانے لگ جاتا تھا۔۔
ان نئے ڈریکولاز میں یہ شخص بھی شامل تھا جسے اللہ نے دہڑکنے والا دل دیا تھا اور جو صرف ظلم سے بچاو چاہتا تھا اور اسی لئے مجبوراً ان میں شامل ہوا تھا۔۔ پہلے پہل تو اس نے نئی فطرت اپنانے کی کوشش کی لیکن ہر مقام پر وہ ناکام ہوا۔ کیونکہ اس کے سینے میں رکھا دل ڈرائیکولا بننے کے باوجود دہڑکتا تھا۔۔ اسی شش وپنج میں آخر کار ایک دن اس نے فیصلہ کیا کہ چونکہ میری اور میرے خاندان کی بقا اسی میں ہے کہ میں اپنے نئے قبیلے کے ساتھ رہوں تاکہ میرے عزیز ان کے شر سے وہ محفوظ رہیں۔۔مگر۔۔۔ چونکہ میری فطرت میں یہ نہیں ہے۔۔۔ کہ میں کسی کو نقصان پہنچاون اس لئے میں اپنی ذات سے تو کسی کا نقصان نہیں ہونے دوں گا۔۔۔
اب ہوتا یہ کہ جب اس کا غول کسی آبادی پر حملہ آور ہوتا تو یہ لوگون کا خون پینے سے باز رہتا اور کوشش کرتا کہ لوگوں کو اپنے غول سے بچائے رکھے۔۔۔
کچھ دن تو کسی نے یہ باتیں نوٹ نہ کیں لیکن جلد ہی اس کے ساتھی شک میں پر گئے۔۔ بعض نئے اور پرانے ساتھوں کو شک ہوا کہ وہ سہی سے ڈرئیکولا
ہی نہیں بن سکا۔۔ اور خوں پینے کی پیاس والا مادہ اس میں سہی سرائیت نہیں کر سکا۔۔
ایک دو بار ساتھیوں نے اسے گھیر نے کی کوشش کی ۔۔ اسے غصہ آیا اور اس کے دانت لمبے ہو گئے۔۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر ساتھی پیچھے ہو گئے کیونکہ انھیں لگا کہ یہ ان میں سب سے طاقت ور ڈرائیکولا
ہے۔۔۔ ہالنکہ وہ ہر بار اندر سے ڈرا ہوا ہوتا۔۔
روز کا معمول دیکھ کر ایک دن اس نے فیصلہ کیا کہ وہ غول چھوڑ دے گا۔۔ لعنت ہے ایسی غلامانہ زندگی پر۔۔۔ جو اللہ کی رضا وہی سب سے بہتر۔۔۔ صبح ہونے سے کچھ دیر پہلے اس نے ڈرئیکولاز کے قلعے کی دیوار سے چھلانگ لگائی اور پہاڑ اتر کر بھاگا۔۔۔
اس کا بھاگنا تھا کہ برسون سے رکی بارش کا آغاز ہو گیا۔۔ اللہ کی رحمت اس دن خوب برسی۔۔ وہ اپنے گھر پہنچا ، اسے ڈر تھا کہ صبح ہوتے ہی وہ جل جائے گا اس لئے صبح سے پہلے گھر پہنچ جائے۔۔ اسی سفر کے دوران صبح ہو گئی۔۔ لیکن یہ کیا؟
صبح جلا نہیں رہی بلکہ آرام دے رہی ہے۔ عرصے بعد دکھنے والی روشنی سرور اور عجیب کیفیت کا باعث بن رہی ہے۔۔۔
یا اللہ میں کہاں ہوں؟؟؟
اتناسکون۔۔۔۔
اتنا سکون تو وہ طاقت بھی نہ دے سکی۔۔۔
جو آج اپنے ہی بنائے ایک خول جسے احساس تحفظ کے لیئے میں نے بنایا تھا۔۔۔ آج اس سے نکلنے کے فیصلے کے۔۔۔۔
بعد دن کا اجالا دے رہا ہے۔۔
جسے میں اختتام سمجھ رہا وہ تو اختتام نہیں۔۔۔۔
بلکہ یہ تو نیا آ غاز ہے۔۔۔
سیدھا گھر پہنچا۔۔ اور بغیر بتائے اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔ انکھیں بند کئیں تو بارش کی ٹپ ٹپ کی آواز آئی۔۔ دیکھنے بھاگا۔۔تو دیکھا والد اور والدہ نچلی منزل پر نماز کے بعد قرآن کی تلاوت میں مصروف ہیں۔۔ چھت ٹپک رہی اور اللہ کی رحمت اندر گھر میں آ رہی ہے۔۔ شک کا حجاب اتر چکا ہے اور رحمت کی بارش زمیں کو نئی زندگی دے رہی ہے۔۔۔ خوف اور وحشت کی قحط سالی ختم ہو چکی ہے۔۔امید اور رحمت کی بارش۔۔۔۔۔ زمیں کو سراب کر رہی ہے۔۔
اسی سوچ میں وہ کھڑا ہے کہ ایک دم باہر سے خوشی کے شادیانوں کی آواز آتی ہے۔۔
لوگ خوش ہیں۔۔۔۔۔
وہ وجہ پوچھتا ہے تو کوئی کہتا ہے بارش نے ڈرئیکولاز کا قلعہ گرا دیا ہے۔۔ وہ بھاگ رہے ہیں اور جو پھنسے ہوئے ہیں انھیں صبح کا اجالا ختم کر رہا ہے۔۔۔
بستی پھر آزاد ہو گئی ہے۔۔ ڈرئیکولاز کے ساتھی، ظالم سردار ۔۔ ڈرئیکولاز کے ساتھ ختم ہو رہے ہیں۔۔ جو بچے ہیں وہ توبہ اور معافیاں مانگ رہے ہیں۔۔
دوسری طرف بارش نے زمیں میں نئی جان ڈال دے ہے۔۔۔ اس سال ضرور اچھی فصل ہو گی۔۔ بستی اپنی نئی زندگی کا آغاز کرے گی۔۔
وہ سوچتا ہے کہ وہ کتنا خوش قسمت ہے۔
کیا یہ رحمت اس کے غول چھوڑنے کا انعام ہے ؟
یا طاقت کے نشے نے اسے زمیں پر بسنے والی مخلوق سے بے خبر کر دیا تھا۔۔
وہ خوش ہے اور حیران ہے۔۔ سوچ رہا ہے۔۔۔۔
ایک فرد کا۔۔۔۔جب سوچنے انداز بدل جاتا ہے۔۔۔ تو کیسے دنیا کا سٹیج بھی بدل جاتا ہے۔ ایک فیصلے کی بدولت کیسے۔۔۔ ناصرف وہ انسان بن گیا بلکہ ایک درست فیصلے نے۔۔۔ضمیر کی آواز پر عمل کو۔۔۔۔ اس کی نجات کا ذریعہ بھی بنا دیا۔۔
نئی صبح آ گئی ہے۔۔چلو اچھا ہوا سب کچھ ظاہر ہو گیا۔۔ اب لوگ اتنی مار کھانے کے بعد اپنے حقوق جان گئے ہیں۔۔ اب کسی ظالم کو طاقت نہیں ملے گی۔۔ ڈرائیکولاز کو اب یہ بستی کبھی اپنے درمیان نہیں آنے دے گی۔۔ نئی صبح ہے۔۔ نئی امید ہے۔۔ زندگی کا ایک نیا آغاز۔۔۔
اللہ اس بستی کو ہمیشہ آباد رکھے۔۔۔ یہ انسانوں کی بستی ہے۔۔۔
ہان وہ انسان جس کے جد کو خلافت ارضی عطا ہوئی۔۔
اللہ ایسے ہمیشہ آباد رکھے۔۔۔
BTV: انسانوں کی بستی