محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
انسانی ناک پر ایک تقریر۔( ولیم سروین کے ناول دی ہیومن کامیڈی سے ایک باب۔ ترجمہ کرنل شفیق الرحمٰن)
‘‘ تھوڑے ہی دنوں کی بات ہےکہ ایشیائے کوچک میں کھدائی ہوئی تو ایک عظیم الشان سلطنت کے آثار برآمد ہوئے۔۔۔’’
ہومر غنودگی میں تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ یہ عظیم الشان سلطنت کہاں تھی؟ اتھاکا میں؟ کیلیفورنیا میں؟ پھر کیا ہوئی؟ اب نہ اس میں عظیم انسان ہیں، نہ ایجادیں نہ دھوپ گھڑیاں، نہ اعداد و شمار نہ رات منڈل نہ کوئی راگ رنگ، نہ کچھ اور۔ اور کہاں ہے یہ عظیم الشان سلطنت؟
وہ ہڑ بڑا کر اٹھا اور ادھر ادھر جھانکنے لگا۔ جدھر نگاہیں جاتیں، ہیلن کا چہرہ سامنے آجاتا۔ سب سے بڑی سلطنت تو یہ چہرہ تھا۔
’’ حطیطی مصر کے ساحل پر جاپہنچے اور ملک بھر میں پھیل گئے۔ عبرانی خون میں آمیزش کرکے انہوں نے عبرانیوں کو حطیطیوں جیسی ناک عطا کی۔‘‘
ہیلن خاموش ہوگئی۔سبق ختم ہوگیا تھا۔
‘‘ شاباش ہیلن!۔۔۔’’ استانی نے کہا۔
ہیلن اپنی جگہ پر بیٹھ گئی۔ استانی نے پوچھا۔‘‘ بچو! آج کے سبق سے کیا سیکھا؟’’
‘‘یہی کہ دنیا میں ہر شخص کے ناک ہوتی ہے۔’’ ہومر نے جواب دیا۔
‘‘ اور کیا سیکھا؟’’
‘‘ اور یہ کہ ناک صرف صاف کرنے یا زکام کروانے کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ تاریخ قدیم کے سلسلے میں بھی کام آتی ہے۔’’
‘‘ کوئی اور بچہ جواب دے۔’’ استانی نے جماعت کی طرف دیکھا۔
‘‘ جی میں تو سبق کی باتیں بتا رہا ہوں۔ ناک اتنی اہم چیز نہ ہوتی تو اسکا ذکر کیوں کیا جاتا۔۔’’ ہومر بولا۔
‘‘ تو پھر اٹھو اور انسانی ناک پر تقریر کرو۔’’ استانی نے کہا۔
تقریر تو کیا کرسکتا ہوں لیکن تاریخ کے مطالعے سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ زمانہ ماضی سے لے کر آج تک چہروں پر ہمیشہ ناک رہی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ کلاس میں ہر چہرے کے ساتھ ایک ناک ہے۔ چاروں طرف ناکیں ہی ناکیں ہیں۔ ناک انسانی چہرے کا غالباً مہمل ترین حصہ ہے۔ بنی نوع انسان کو جتنا ناک نے پریشان کیا کسی اور چیز نے نہیں کیا۔ حطیطیوں کی اور بات ہے ، ان کی ناک بے حد نفیس اور عام ناکوں سے مختلف تھی۔ لیکن دھوپ گھڑی کی کی ایجاد کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاسکتیکیونکہ بعد میں کسی نے اصل گھڑی بنادی۔ اگر اہم ہے تو بس ایک چیز۔۔۔ ناک۔۔۔’’
مسخرہ جوزف بڑے شوق سے سن رہا تھا۔ اسے ہومر کی یہ باتیں بہت اچھی معلوم ہوئیں۔
کچھ لوگ بالکل ناک میں بولتے ہیں۔ کئی ناک کے ذریعے خراٹے لیتے ہیں۔ کچھ ہمیشہ ناک کی سیدھ میں چلتے ہیں۔ کیئوں کو ناک میں نکیل ڈال کر مطیع کیا جاسکتا ہے۔ انسان ناک گھس کر منتیں کرتا ہے۔ توبہ کرتے وقت ناک رگڑتا ہے۔ ناک میں دم آجائے تو ناک سے تین سیدھی لکیریں کھینچتا ہے۔ خاندان کی ناک بنا رہتا ہے۔ اپنی ناک پرر مکھی نہیں بیٹھنے دیتا۔ کسی کی بیہودہ حرکت سے خاندان کی ناک کٹ جاتی ہے۔ موم کی ناک کو جدھر چاہو موڑ لو۔ ناک کا بال ناک سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔ بعض لوگ دوسروں کے معاملے میں خواہ مخواہ اپنی ناک ٹھونس دیتے ہیں۔ ناک ساکن ہے لیکن چہرہ متحرک ہے۔ اس لیے جہاں چہرہ جاتا ہے ناک کو بھی جاتا پڑتا ہے۔ ناک صرف سونگھنے کے لیے ہے۔ بہت سے لوگ اپنی ناک سے ہی بہت کچھ تاڑ جاتے ہیں۔’’
ہومر نے ہیوبرٹ کی طرف دیکھا، پھر ہیلن کی طرف، جس کی ناک میں ذرا سا خم تھا۔
ایسے لوگوں کی ناکوں کا رخ آسمان کی طرف رہتا ہے ، جیسے ناک کے رخ ہی تو بہشت جائیں گے۔ ایک دو جانوں کو چھوڑ کر سب کے نتھنے ہوتے ہیں۔ مکمل ناک فقط انسان کے حصے میں آئی ہے۔ پھر بھی حیوانوں کی قوت شامہ ہم سے تیز ہے۔ میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ ناک ہی فساد کی جڑ ہے۔ اسی سے دوستی ٹوٹتی ہے ، لڑائیاں ہوتی ہیں، کنبوں میں پھوٹ پڑتی ہے۔ جنگوں کی اصل وجہ ناک ہے۔ مس ہکس ! میں دوڑ میں چلا جاؤں؟’’
استانی خوش تھی کہ چھوٹی سی بات کو ہومر نے کس طرح بڑھا چڑھا کر بیان کیا ، لیکن بچوں کو قابو میں رکھنا بھی ضروری تھا۔ اس نے سر ہلا کر کہا‘‘ نہیں ہومر، تم یہیں رہو گے، اور ہیوبرٹ تم بھی۔ اچھا ، اب ناک کو دفع کرو اور جو کچھ پڑھا ہے اس کے متعلق بتاؤ۔’’
کلاس خاموش تھی۔‘‘ کچھ تو کہو۔’’
مسخرے جوزف نے اٹھ کر ایک رباعی پڑھی۔
‘‘ ناکیں لال لال ہیں
بنفشہ نیلا نیلا ہے
جماعت نیم مردہ ہے
آپ کا رنگ پیلا ہے۔’’
‘‘ کچھ اور۔۔۔؟’’ استانی نے پوچھا۔
‘‘جہاز راں اور سیاح لوگوں کی ناکیں پکوڑے جیسی ہوتی ہیں۔’’ ایک لڑکی بولی۔
‘‘جڑواں بچوں کی دوناکیں ہوتی ہیں۔’’ جوزف بولا۔
‘‘ ناک ہمیشہ آگے ہوتی ہے، سر کے پیچھے کبھی نہیں ہوتی۔’’ جوزف کا ایک ساتھی بولا۔
‘‘ کچھ اور۔۔؟؟’’ استانی برابر یہی کہے جارہی تھی۔‘‘ اچھا تم بتاؤ ہنری’’
‘‘ جی میں ناکوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔’’
‘‘ حضرت موسیٰ کے متعلق تو جانتے ہو؟’’ جوزف نے ہنری سے پوچھا۔
‘‘ ہاں! انجیل میں ان کا ذکر ہے۔’’
‘‘ ان کے ناک تھی یا نہیں؟’’
‘‘ تھی۔’’
‘‘تو کہہ دو کہ حضرتِ موسیٰ صاحبِ ناک تھے۔۔ تمہیں معلوم نہیں کہ ہم تاریخِ قدیم پڑھ رہے ہیں۔ تم لوگ علم حاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔’’
‘‘کچھ اور۔۔’’ استانی نے پھر پوچھا۔
‘‘ خیالات اڑتے ہیں، قدم چلتے ہیں اور ناک بہتی ہے۔’’ جوزف بولا۔
‘‘ مس ہکس، دوڑ میں جانے کی اجازت دے دیجیے۔’’ ہومر نے عاجزی سے کہا۔
‘‘ مجھے کسی دوڑ ووڑ کی خبر نہیں۔ اچھا کوئی اور۔۔؟’’
‘‘ جی میں نے اتنا کچھ تو کہا ہے ناکوں کے متعلق۔’’ ہومر بولا۔
‘‘ وہ سب مہمل تھا۔’’
اتنے میں گھنٹی بجی ، بچے منتشر ہوگئے۔ صرف ہومر اور ہیوبرٹ رہ گئے۔
(انسانی تماشا۔ولیم سروین۔ ترجمہ۔ شفیق الرحمٰن)
‘‘ تھوڑے ہی دنوں کی بات ہےکہ ایشیائے کوچک میں کھدائی ہوئی تو ایک عظیم الشان سلطنت کے آثار برآمد ہوئے۔۔۔’’
ہومر غنودگی میں تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ یہ عظیم الشان سلطنت کہاں تھی؟ اتھاکا میں؟ کیلیفورنیا میں؟ پھر کیا ہوئی؟ اب نہ اس میں عظیم انسان ہیں، نہ ایجادیں نہ دھوپ گھڑیاں، نہ اعداد و شمار نہ رات منڈل نہ کوئی راگ رنگ، نہ کچھ اور۔ اور کہاں ہے یہ عظیم الشان سلطنت؟
وہ ہڑ بڑا کر اٹھا اور ادھر ادھر جھانکنے لگا۔ جدھر نگاہیں جاتیں، ہیلن کا چہرہ سامنے آجاتا۔ سب سے بڑی سلطنت تو یہ چہرہ تھا۔
’’ حطیطی مصر کے ساحل پر جاپہنچے اور ملک بھر میں پھیل گئے۔ عبرانی خون میں آمیزش کرکے انہوں نے عبرانیوں کو حطیطیوں جیسی ناک عطا کی۔‘‘
ہیلن خاموش ہوگئی۔سبق ختم ہوگیا تھا۔
‘‘ شاباش ہیلن!۔۔۔’’ استانی نے کہا۔
ہیلن اپنی جگہ پر بیٹھ گئی۔ استانی نے پوچھا۔‘‘ بچو! آج کے سبق سے کیا سیکھا؟’’
‘‘یہی کہ دنیا میں ہر شخص کے ناک ہوتی ہے۔’’ ہومر نے جواب دیا۔
‘‘ اور کیا سیکھا؟’’
‘‘ اور یہ کہ ناک صرف صاف کرنے یا زکام کروانے کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ تاریخ قدیم کے سلسلے میں بھی کام آتی ہے۔’’
‘‘ کوئی اور بچہ جواب دے۔’’ استانی نے جماعت کی طرف دیکھا۔
‘‘ جی میں تو سبق کی باتیں بتا رہا ہوں۔ ناک اتنی اہم چیز نہ ہوتی تو اسکا ذکر کیوں کیا جاتا۔۔’’ ہومر بولا۔
‘‘ تو پھر اٹھو اور انسانی ناک پر تقریر کرو۔’’ استانی نے کہا۔
تقریر تو کیا کرسکتا ہوں لیکن تاریخ کے مطالعے سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ زمانہ ماضی سے لے کر آج تک چہروں پر ہمیشہ ناک رہی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ کلاس میں ہر چہرے کے ساتھ ایک ناک ہے۔ چاروں طرف ناکیں ہی ناکیں ہیں۔ ناک انسانی چہرے کا غالباً مہمل ترین حصہ ہے۔ بنی نوع انسان کو جتنا ناک نے پریشان کیا کسی اور چیز نے نہیں کیا۔ حطیطیوں کی اور بات ہے ، ان کی ناک بے حد نفیس اور عام ناکوں سے مختلف تھی۔ لیکن دھوپ گھڑی کی کی ایجاد کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاسکتیکیونکہ بعد میں کسی نے اصل گھڑی بنادی۔ اگر اہم ہے تو بس ایک چیز۔۔۔ ناک۔۔۔’’
مسخرہ جوزف بڑے شوق سے سن رہا تھا۔ اسے ہومر کی یہ باتیں بہت اچھی معلوم ہوئیں۔
کچھ لوگ بالکل ناک میں بولتے ہیں۔ کئی ناک کے ذریعے خراٹے لیتے ہیں۔ کچھ ہمیشہ ناک کی سیدھ میں چلتے ہیں۔ کیئوں کو ناک میں نکیل ڈال کر مطیع کیا جاسکتا ہے۔ انسان ناک گھس کر منتیں کرتا ہے۔ توبہ کرتے وقت ناک رگڑتا ہے۔ ناک میں دم آجائے تو ناک سے تین سیدھی لکیریں کھینچتا ہے۔ خاندان کی ناک بنا رہتا ہے۔ اپنی ناک پرر مکھی نہیں بیٹھنے دیتا۔ کسی کی بیہودہ حرکت سے خاندان کی ناک کٹ جاتی ہے۔ موم کی ناک کو جدھر چاہو موڑ لو۔ ناک کا بال ناک سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔ بعض لوگ دوسروں کے معاملے میں خواہ مخواہ اپنی ناک ٹھونس دیتے ہیں۔ ناک ساکن ہے لیکن چہرہ متحرک ہے۔ اس لیے جہاں چہرہ جاتا ہے ناک کو بھی جاتا پڑتا ہے۔ ناک صرف سونگھنے کے لیے ہے۔ بہت سے لوگ اپنی ناک سے ہی بہت کچھ تاڑ جاتے ہیں۔’’
ہومر نے ہیوبرٹ کی طرف دیکھا، پھر ہیلن کی طرف، جس کی ناک میں ذرا سا خم تھا۔
ایسے لوگوں کی ناکوں کا رخ آسمان کی طرف رہتا ہے ، جیسے ناک کے رخ ہی تو بہشت جائیں گے۔ ایک دو جانوں کو چھوڑ کر سب کے نتھنے ہوتے ہیں۔ مکمل ناک فقط انسان کے حصے میں آئی ہے۔ پھر بھی حیوانوں کی قوت شامہ ہم سے تیز ہے۔ میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ ناک ہی فساد کی جڑ ہے۔ اسی سے دوستی ٹوٹتی ہے ، لڑائیاں ہوتی ہیں، کنبوں میں پھوٹ پڑتی ہے۔ جنگوں کی اصل وجہ ناک ہے۔ مس ہکس ! میں دوڑ میں چلا جاؤں؟’’
استانی خوش تھی کہ چھوٹی سی بات کو ہومر نے کس طرح بڑھا چڑھا کر بیان کیا ، لیکن بچوں کو قابو میں رکھنا بھی ضروری تھا۔ اس نے سر ہلا کر کہا‘‘ نہیں ہومر، تم یہیں رہو گے، اور ہیوبرٹ تم بھی۔ اچھا ، اب ناک کو دفع کرو اور جو کچھ پڑھا ہے اس کے متعلق بتاؤ۔’’
کلاس خاموش تھی۔‘‘ کچھ تو کہو۔’’
مسخرے جوزف نے اٹھ کر ایک رباعی پڑھی۔
‘‘ ناکیں لال لال ہیں
بنفشہ نیلا نیلا ہے
جماعت نیم مردہ ہے
آپ کا رنگ پیلا ہے۔’’
‘‘ کچھ اور۔۔۔؟’’ استانی نے پوچھا۔
‘‘جہاز راں اور سیاح لوگوں کی ناکیں پکوڑے جیسی ہوتی ہیں۔’’ ایک لڑکی بولی۔
‘‘جڑواں بچوں کی دوناکیں ہوتی ہیں۔’’ جوزف بولا۔
‘‘ ناک ہمیشہ آگے ہوتی ہے، سر کے پیچھے کبھی نہیں ہوتی۔’’ جوزف کا ایک ساتھی بولا۔
‘‘ کچھ اور۔۔؟؟’’ استانی برابر یہی کہے جارہی تھی۔‘‘ اچھا تم بتاؤ ہنری’’
‘‘ جی میں ناکوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔’’
‘‘ حضرت موسیٰ کے متعلق تو جانتے ہو؟’’ جوزف نے ہنری سے پوچھا۔
‘‘ ہاں! انجیل میں ان کا ذکر ہے۔’’
‘‘ ان کے ناک تھی یا نہیں؟’’
‘‘ تھی۔’’
‘‘تو کہہ دو کہ حضرتِ موسیٰ صاحبِ ناک تھے۔۔ تمہیں معلوم نہیں کہ ہم تاریخِ قدیم پڑھ رہے ہیں۔ تم لوگ علم حاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔’’
‘‘کچھ اور۔۔’’ استانی نے پھر پوچھا۔
‘‘ خیالات اڑتے ہیں، قدم چلتے ہیں اور ناک بہتی ہے۔’’ جوزف بولا۔
‘‘ مس ہکس، دوڑ میں جانے کی اجازت دے دیجیے۔’’ ہومر نے عاجزی سے کہا۔
‘‘ مجھے کسی دوڑ ووڑ کی خبر نہیں۔ اچھا کوئی اور۔۔؟’’
‘‘ جی میں نے اتنا کچھ تو کہا ہے ناکوں کے متعلق۔’’ ہومر بولا۔
‘‘ وہ سب مہمل تھا۔’’
اتنے میں گھنٹی بجی ، بچے منتشر ہوگئے۔ صرف ہومر اور ہیوبرٹ رہ گئے۔
(انسانی تماشا۔ولیم سروین۔ ترجمہ۔ شفیق الرحمٰن)