Muhammad Qader Ali
محفلین
انسان کی حقیقتالحمدللہ
کائنات ارضی کی سب سے حیرت انگیز ہشاش بشاش’ ذندہ متحرک’ عقل و ہوش اور روح وضمیر رکھنےوالی
مخلوق ”انسان”کے نام سے موسوم ہے۔ انسان کو قدرت کے سخی ہاتھوں نے موزون قدوقامت’ حسین و جمیل’خدوخال اور حد درجہ نرالی ساخت سے نوازا۔ اس کے اندر بلند اخلاق’ قوت احساس’ طاقت گفتار اور فکرو عمل کی صلاحیت پیدا فرمائی اورمافی الضمیر کو اداکرنے کے مختلف انداز سکھائے ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
ترجمہ:
ھم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔ ۔۔۔۔۔التین۔4۔
رحمان نے قرآن کی تعلیم دی۔اس نے انسان کو پیدا کیا’ پھر اس کو گویا ئی سکھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔الرحمن۔1-4
حق تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا ۔ باری تعالی کا ارشاد ھے۔
ترجمہ:
اور بلاشبہ ھم نے انسان کو کھنکھناتی ھوئی مٹی سے پیدا کیا جو سڑے ھوئے گارے سے تیار ھوئی تھی۔ ”حجر36”
ترجمہ:
جبکہ تمھارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ھوں ’ پھرجب میں اسکو پورا بنا چکوں اور میںاپنی روح پھونک دوں تو اس کے اگے سجدے میں گر پڑنا۔ ”ص۔71-72"۔
ترجمہ:
جس نے چیز خوب بنائی اورانسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا۔”سجدہ 7”
اولاد آدم علیہ السلام کی کی پیدائش پر روشنی ڈالتے ھوئے فرمایا:
ترجمہ:
پھر اس کی نسل (انسانی جسم کے) خلاصہ (یعنی نطفہ کے) حقیرپانی سے بنائی۔ ”سجدہ۔8”
ترجمہ:
بلاشبہ ہم نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔” الدھر 3”
ترجمہ:
لوگو: اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کوایک شخص سےپیدا کیا یعنی پہلے اس سے اسکا
جوڑا بنایا’ پھران دونوں سے بہت سے مردوعورتیںپیدا کرکے پھیلادیے۔ ” نساء۔ 1”
سورہ مریم میں اللہ تعالی بہت سے جلیل القدر انبیاء اور رسولوں کےتذکرے کے بعد فرماتاھے:
ترجمہ:
یہ وہ پیغمبرھیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا آدم میں سے ’ اور ان لوگوں کی نسل سے’ اوریہ اسرائیل کی نسل سے’ اوریہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو ھم نے ہدایت بخشی اور برگزیدہ کیا۔”مریم۔58”
یہ اور اس طرح کی بہت سی قرآین آیات میں اس بات کو بہت ہی وضاحت اور صراحت کے ساتھ
بیان کردیگئی ھے کہ انسانی تخلیق کا اغاز حضرت آدم علیہ السلام سے ھوا ھے اوریہ تمام
انسان بشمول انبیاء ورسول سب حضرت آدم علیہ السلام کی ذریت اور اولاد ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ
وجہ تخلیق انسان کیا ھے۔
وجہ تخلیق انسان
اللہ تعا لی نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے کہ:
ترجمہ:
اور میں نے جن و انس کواسکے سوا کسی اور غرض کیلئے پیدا نہیں
کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔
سورہ الزاریات۔۔56
اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے جن اور انس کو اسلئے پیدا
کیا ہے کہ وہ صرف اللہ ہی کے وفادار ہوں؛ اس کے خلاف کسی اورکے
وفادار نہ ہوں۔صرف اللہ کے احکام کی اطاعت کریں۔
اسکے خلاف کسی اور کا حکم نہ مانیں اوراسی کے اگے ادب اور تعظیم
سے سر جھکائیں؛ کسی اور کے اگے سر نہ جھکائیں۔
انہی تین چیزوں کو اللہ نے عبادت کےجامع لفظ میں بیان کیا ہے۔
یہی مطلب ان تمام ایتوں کا ہے جن میں اللہ نے عبادت کا حکم دیاہے۔
ھمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور اپ صلی اللہ علیہ و سلم سے
پہلے جتنے نبی اللہ کی طرف سے آءے ہیں ان سب کی تعلیم کا سارا
لب لباب اور خلاصہ یہی ہے کہ:
ترجمہ:
اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔
سورہ یوسف۔40
یعنی ایک بادشاہ ہے جسکا سب کو وفادار ھونا چاھئے۔
اور وہ بادشاہ اللہ ہے۔
صرف ایک قانون ہے جس کی پیروی کرنی چاھئے
اور وہ قانون اللہ کا قانون ہے۔
اور ایک صرف ایک ہی ہستی ایسی ہے جسکی سب کو
پرستش اور پوجا کرنی چاہیے اور وہ ہستی اللہ کی ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام سےلے کرنبی آخراالزمان حضرت
محمد صلی اللہ علیہ و سلم تک جتنے بھی نبی اور رسول بھیجے گئے سب کی تعلیم کا محور و مقصد یہی ہے۔
ارشاد باری ہے:
ترجمہ:
اور کوئی امت ایسی نہیں جس میں ڈرانے والا نہ گزرا ہو۔
سورہ فاطر24.
اور ارشاد ہے:
ترجمہ:
اور ھم نے ھر امت میں ایک رسول بھیج دیا اوراس کے
ذریعے سے سب کوخبردار کردیا کہ اللہ بندگی کرو اور
طاغوت کی بندگی سے بچو۔
سورہ النخل۔36
خرابی کہاں سے آئی
قرآن مجید ھم کو بتاتا ہے کہ انسان کے زندگی میں خرابی آنے کے تین راستے ہیں:-
نفس کی بندگی۔
باپ دادا کی اندھی پیروی۔
غیر اللہ کی اطاعت۔
نفس کی بندگی:
خرابی آنے کا پہلا راستہ انسان کی اپنی نفس کی خواہشات ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ باری تعالی ارشاد فرماتے ہیں۔
ترجمہ:
اس سے بڑھ کر گمراہ کون ھوگا جس نے اللہ کی ھدایت کے بجائے
اپنے نفس کی خواہش کی پیروی کی۔ ایسے ظالم لوگوں کو اللہ
ھدایت نہیں دیتا۔
القصص۔50
مطلب یہ ھے کہ سب سے بڑھ کرانسان کو گمراہ کرنے والی چیزانسان کےنفس
کی خواہشات ہیں۔ وہ ہر وقت یہ دیکھے گا کہ دولت کہاں سے حاصل ہوتی ہے،
عزت و شہرت کس کام میں ملتی ہے، لذت اور لطف ، آرام اورآسائش کس کام
میں ملتی ہے۔ بس یہ چیزیں جس کام میں ہونگی وہ اسی کو اختیار کرے گا،
چاہے اللہ اس سے منع کرے اور یہ چیزیں جس کام میں نہ ہوں
اس کو ہرگزنہ کرے گا، چاہے اللہ اس کا حکم دے۔
تو ایسا شخص اللہ کے بجائے اپنے نفس کا ہی بندہ ہوگیا۔۔
باپ دادا کی اندھی پیروی :-
خرابی آنے کا دوسرا راستہ یہ ہے کہ باپ دادا سے جو رسم و رواج، جو عقیدے و
خیالات، جو رنگ ڈھنگ چلے آرہے ہو، آدمی ان کا غلام بن جائے اور اللہ کے حکم سے بڑھکر ان کو سمجھے، اور ان کے خلاف اللہ کا حکم ان کے سامنے پیش کیا جائے
تو کہے کہ میں تو وہی کرونگا جو میرے باپ دادا کرتے تھے اور جو میرے خاندان اور قبیلے کا رواج ہے۔
قرآن مجید میں اللہ باری تعالی ارشاد فرماتے ہیں۔
ترجمہ:
اور جب کبھی ان سے کہا گیا کہ جو کلیم اللہ نے بھیجاہے ہے اس کی پیروی
کرو تو انہوں نے یہی کہا کہ ھم تو اس بات کی پیروی کریں گے جو ہمیں باپ دادا سے ملی ہے۔ اگران کے باپ دادا کسی بات کو نہ سمجھتے ہوں اور راہ راست پر نہ ہوں تو کیا یہ پھر بھی انہی کی پیروی کئے جائیں گے
البقرہ۔170
یہ ایسی خرابی اور گمراہی ہے جس میں تقریبا ہر زمانے کے جاہل لوگ مبتلا رہے ہیں اورہمیشہ اللہ کے رسول کی ہدایت کو ماننے سے یہی چیز انسان کو روکتی رہی ہے۔
قرآن مجید میں اسکی بہت ساری مثالیں موجود ہیں۔۔
غیر اللہ کی اطاعت :-
خرابی کے آنے کا تیسرا راستہ قرآن نے یہ بتایاہے کہ انسان اللہ کے حکم کو
چھوڑکر دوسرے لوگوں کے حکم ماننے لگتا ہے اور یہ خیال کرتا ہے کہ
فلاں شخص بڑا آدمی ہے ، اس کی بات پکی ہوگی یا فلاں شخص کے ھاتھ میں
میری روزی روٹی ہے اس لیئے اس کی بات ماننی چاھئے یا فلاں شخص بڑا
صاحب اقتدار ہے اس لیئے اس کی فرمانبرداری کرنی چاھئے یا فلاں صاحب
بد دعاء سے مجھے تباہ کردیں گے یا اپنے ساتھ جنت میں لے جا ئیں گے۔
اس لیئے جو وہ کہیں وہ صحیح ہے یا فلانی قوم پڑی ترقی کررہی ہے
اس کے طریقے اختیار کرنی چاھئیں؛ تو ایسے شخص پر ھدایت کا راستہ
بند ہوجاتا ہے۔
اللہ تعالی اپنے کلام پاک میں ارشاد فرماتا ہے -:
ترجمہ:
اگر تو نے ان بہت سے لوگوں کی اطاعت کی جو زمین میں
رھتے ہیں تو وہ تجھ کو اللہ کے راستے سے بھٹکادیں گے۔
الانعام۔۔116
یعنی آدمی سیدھے راستے پر اس وقت ہوسکتا ہے جب اس کا ایک اللہ ہو۔
سینکڑوں؛ ھزاروں خدا جس نے بنالیئے ہوں اور جو کبھی اس خدا کے کہے
پراور کبھی دوسرے خدا کے کہے پرچلتا ہو؛ وہ کبھی صحیح راستہ نہیں پاسکتا۔
خلاصہ یہ ہوا کہ گمراہی اور خرابی کے تین بڑے بڑے سبب ہیں -:
1- نفس کی بندگی۔
2- باپ دادا؛خاندان اورقبیلےکےرواجوں کی بندگی اور اندھی پیروی۔
3- غیر اللہ کی اطاعت۔ عام طورپردنیا کے لوگوں کی بندگی؛ جس میں
دولت مند لوگ؛ حکام وقت اوربناوٹی پیشوا کی اندھی تقلید اور گمراہ
قومیں سب ہی شامل ہیں۔
کرنے کا کام؟
اس پہلے بتایا جاچکا ہے کہ انسانی زندگی میں خرابی کہاں سے آتی ہے اور اس کے
بڑے سبب کیا ہے ؟
اس خرابی سے بچنے کا واحد ذریعہ صرف صحیح علم کا حصول اور اس کے
مطابق عمل ہے؛ ہر مسلمان بچے ؛ جوان اور بوڑھے کو کم از کم اتنا علم ضرور حاصل
ہونا چاھئے کہ قرآن جس مقصد کیلئے اور جو تعلیم لیکر آیا ہے اس کا لب لباب جان لے؛
نبی اکرم صلی اللی علیہ وسلم جس چیز کو مٹانے کیلئے اور اس کی جگہہ جو چیزقائم کرنے کیلئے تشریف لائے تھےاس کو خوب پہچان لے اور اس خاص طریق زندگی سے واقف وہوجائے
جو اللہ نے مسلمانوں کیلئے مقرر کیا ہے۔ صحیح علم کی یہ روشنی صرف اللہ پاک کی طرف سے مل سکتی ہے جو علیم اور بصیر ہے؛ وہ ہر چیز کی حقیقت کو جانتا ہے وہی ٹھیک ٹھیک بتا سکتا ہے کہ ھمارا حقیقی نفع کس چیز میں ہے اورحقیقی نقصان کس چیز میں۔ ھمارا کونسا کام حقیقت میں
صحیح ہے اور کونسا غلط ۔ یہ روشنی جو اللہ تعالی کی طرف سے ملتی ہے؛ اس سے فائدہ اٹھانے کیلئے دو باتوں کی ضرورت ہے۔
۱۔ ایک یہ کہ اللہ تعالی پر اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پرجس کے واسطے سے یہ روشنی ہم تک پہنچی ہے سچے دل سے ایمان لائیں۔ یعنی پورا یقین ہوکہ اللہ کی طرف سے اس کے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ ہدایت دی ہے بلکل برحق ہے خواہ اس کی مصلحت ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔
۲۔ دوسرے یہ ایمان لانے کے بعد ہم اس کی اطاعت کریں۔ اس لئے کہ اطاعت کے
بغیر کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوسکتا۔ اصلی فائدہ اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب
ایمان لانے کے ساتھ اطاعت بھی کریں۔ جس بات کا حکم دیا گیا ہے اس پر فقط
زبان ہی سے آمنا و صدقنا نہ کہیں بلکہ اس پر عمل بھی کریں۔ اور جس بات سے
روکا گیا ہے؛ اس سےپرہیز کرنے کا زبانی اقرار ہی نہ کریں بلکہ اپنے اعمال میں
اس سے پرپیز بھی کریں۔ اسی لئے حق تعالی بار بار فرماتا ہے کہ:
ترجمہ۔:
اللہ کی اطاعت کرو اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرو۔
سورۃ المائدہ۔ 92۔
ترجمہ۔:
اگر میرے رسول کی اطاعت کروگے تب ہی تم کو ہدایت ملے گی۔
سورۃالنور۔ 54۔
ترجمہ۔:
وہ لوگ جو ہمارے رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرتے
ہیں ان کو ڈرنا چاھئے کہ کہیں وہ کسی آفت میں نہ پڑجائیں۔
سورۃ النور۔ 63.
اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا اصل مطلب یہ ہے کہ
ہم آنکھیں بند کرکے کسی کے پیچھے نہ چلیں بلکہ ہمیشہ یہ دیکھتے رہیں کہ اگر کوئی
شخص ہمیں کسی کام کو کہتا ہے وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے
مطابق کہتا ہے یا اس کے خلاف۔ اگر مطابق کہتا ہے تو اس کی بات ضرور ماننی
چاھئے؛اس صورت میں ہم اس کی اطاعت کب کررہے ہیں؛ یہ تو دراصل
اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی اطاعت ہے اور اگر وہ حکم یا کام
اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کہتا ہے تو اس کی بات رد کردی
جائے گی خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ کیونکہ ہمارے لئے سوائے اللہ اور اللہ کے
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی کے حکم کی اطاعت جائزنہیں ہے۔
وما علینا الا البلاغ۔
استفادہ از:
عقیدۃالمومن۔۔۔۔ الشیخ ابوبکر۔
خطبات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیدابوالاعلی مودودی۔
خطبات حرم۔۔۔۔ ڈاکٹر ملک غلام مرتضی۔
کائنات ارضی کی سب سے حیرت انگیز ہشاش بشاش’ ذندہ متحرک’ عقل و ہوش اور روح وضمیر رکھنےوالی
مخلوق ”انسان”کے نام سے موسوم ہے۔ انسان کو قدرت کے سخی ہاتھوں نے موزون قدوقامت’ حسین و جمیل’خدوخال اور حد درجہ نرالی ساخت سے نوازا۔ اس کے اندر بلند اخلاق’ قوت احساس’ طاقت گفتار اور فکرو عمل کی صلاحیت پیدا فرمائی اورمافی الضمیر کو اداکرنے کے مختلف انداز سکھائے ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
ترجمہ:
ھم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔ ۔۔۔۔۔التین۔4۔
رحمان نے قرآن کی تعلیم دی۔اس نے انسان کو پیدا کیا’ پھر اس کو گویا ئی سکھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔الرحمن۔1-4
حق تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا ۔ باری تعالی کا ارشاد ھے۔
ترجمہ:
اور بلاشبہ ھم نے انسان کو کھنکھناتی ھوئی مٹی سے پیدا کیا جو سڑے ھوئے گارے سے تیار ھوئی تھی۔ ”حجر36”
ترجمہ:
جبکہ تمھارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ھوں ’ پھرجب میں اسکو پورا بنا چکوں اور میںاپنی روح پھونک دوں تو اس کے اگے سجدے میں گر پڑنا۔ ”ص۔71-72"۔
ترجمہ:
جس نے چیز خوب بنائی اورانسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا۔”سجدہ 7”
اولاد آدم علیہ السلام کی کی پیدائش پر روشنی ڈالتے ھوئے فرمایا:
ترجمہ:
پھر اس کی نسل (انسانی جسم کے) خلاصہ (یعنی نطفہ کے) حقیرپانی سے بنائی۔ ”سجدہ۔8”
ترجمہ:
بلاشبہ ہم نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔” الدھر 3”
ترجمہ:
لوگو: اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کوایک شخص سےپیدا کیا یعنی پہلے اس سے اسکا
جوڑا بنایا’ پھران دونوں سے بہت سے مردوعورتیںپیدا کرکے پھیلادیے۔ ” نساء۔ 1”
سورہ مریم میں اللہ تعالی بہت سے جلیل القدر انبیاء اور رسولوں کےتذکرے کے بعد فرماتاھے:
ترجمہ:
یہ وہ پیغمبرھیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا آدم میں سے ’ اور ان لوگوں کی نسل سے’ اوریہ اسرائیل کی نسل سے’ اوریہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو ھم نے ہدایت بخشی اور برگزیدہ کیا۔”مریم۔58”
یہ اور اس طرح کی بہت سی قرآین آیات میں اس بات کو بہت ہی وضاحت اور صراحت کے ساتھ
بیان کردیگئی ھے کہ انسانی تخلیق کا اغاز حضرت آدم علیہ السلام سے ھوا ھے اوریہ تمام
انسان بشمول انبیاء ورسول سب حضرت آدم علیہ السلام کی ذریت اور اولاد ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ
وجہ تخلیق انسان کیا ھے۔
وجہ تخلیق انسان
اللہ تعا لی نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے کہ:
ترجمہ:
اور میں نے جن و انس کواسکے سوا کسی اور غرض کیلئے پیدا نہیں
کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔
سورہ الزاریات۔۔56
اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے جن اور انس کو اسلئے پیدا
کیا ہے کہ وہ صرف اللہ ہی کے وفادار ہوں؛ اس کے خلاف کسی اورکے
وفادار نہ ہوں۔صرف اللہ کے احکام کی اطاعت کریں۔
اسکے خلاف کسی اور کا حکم نہ مانیں اوراسی کے اگے ادب اور تعظیم
سے سر جھکائیں؛ کسی اور کے اگے سر نہ جھکائیں۔
انہی تین چیزوں کو اللہ نے عبادت کےجامع لفظ میں بیان کیا ہے۔
یہی مطلب ان تمام ایتوں کا ہے جن میں اللہ نے عبادت کا حکم دیاہے۔
ھمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور اپ صلی اللہ علیہ و سلم سے
پہلے جتنے نبی اللہ کی طرف سے آءے ہیں ان سب کی تعلیم کا سارا
لب لباب اور خلاصہ یہی ہے کہ:
ترجمہ:
اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔
سورہ یوسف۔40
یعنی ایک بادشاہ ہے جسکا سب کو وفادار ھونا چاھئے۔
اور وہ بادشاہ اللہ ہے۔
صرف ایک قانون ہے جس کی پیروی کرنی چاھئے
اور وہ قانون اللہ کا قانون ہے۔
اور ایک صرف ایک ہی ہستی ایسی ہے جسکی سب کو
پرستش اور پوجا کرنی چاہیے اور وہ ہستی اللہ کی ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام سےلے کرنبی آخراالزمان حضرت
محمد صلی اللہ علیہ و سلم تک جتنے بھی نبی اور رسول بھیجے گئے سب کی تعلیم کا محور و مقصد یہی ہے۔
ارشاد باری ہے:
ترجمہ:
اور کوئی امت ایسی نہیں جس میں ڈرانے والا نہ گزرا ہو۔
سورہ فاطر24.
اور ارشاد ہے:
ترجمہ:
اور ھم نے ھر امت میں ایک رسول بھیج دیا اوراس کے
ذریعے سے سب کوخبردار کردیا کہ اللہ بندگی کرو اور
طاغوت کی بندگی سے بچو۔
سورہ النخل۔36
خرابی کہاں سے آئی
قرآن مجید ھم کو بتاتا ہے کہ انسان کے زندگی میں خرابی آنے کے تین راستے ہیں:-
نفس کی بندگی۔
باپ دادا کی اندھی پیروی۔
غیر اللہ کی اطاعت۔
نفس کی بندگی:
خرابی آنے کا پہلا راستہ انسان کی اپنی نفس کی خواہشات ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ باری تعالی ارشاد فرماتے ہیں۔
ترجمہ:
اس سے بڑھ کر گمراہ کون ھوگا جس نے اللہ کی ھدایت کے بجائے
اپنے نفس کی خواہش کی پیروی کی۔ ایسے ظالم لوگوں کو اللہ
ھدایت نہیں دیتا۔
القصص۔50
مطلب یہ ھے کہ سب سے بڑھ کرانسان کو گمراہ کرنے والی چیزانسان کےنفس
کی خواہشات ہیں۔ وہ ہر وقت یہ دیکھے گا کہ دولت کہاں سے حاصل ہوتی ہے،
عزت و شہرت کس کام میں ملتی ہے، لذت اور لطف ، آرام اورآسائش کس کام
میں ملتی ہے۔ بس یہ چیزیں جس کام میں ہونگی وہ اسی کو اختیار کرے گا،
چاہے اللہ اس سے منع کرے اور یہ چیزیں جس کام میں نہ ہوں
اس کو ہرگزنہ کرے گا، چاہے اللہ اس کا حکم دے۔
تو ایسا شخص اللہ کے بجائے اپنے نفس کا ہی بندہ ہوگیا۔۔
باپ دادا کی اندھی پیروی :-
خرابی آنے کا دوسرا راستہ یہ ہے کہ باپ دادا سے جو رسم و رواج، جو عقیدے و
خیالات، جو رنگ ڈھنگ چلے آرہے ہو، آدمی ان کا غلام بن جائے اور اللہ کے حکم سے بڑھکر ان کو سمجھے، اور ان کے خلاف اللہ کا حکم ان کے سامنے پیش کیا جائے
تو کہے کہ میں تو وہی کرونگا جو میرے باپ دادا کرتے تھے اور جو میرے خاندان اور قبیلے کا رواج ہے۔
قرآن مجید میں اللہ باری تعالی ارشاد فرماتے ہیں۔
ترجمہ:
اور جب کبھی ان سے کہا گیا کہ جو کلیم اللہ نے بھیجاہے ہے اس کی پیروی
کرو تو انہوں نے یہی کہا کہ ھم تو اس بات کی پیروی کریں گے جو ہمیں باپ دادا سے ملی ہے۔ اگران کے باپ دادا کسی بات کو نہ سمجھتے ہوں اور راہ راست پر نہ ہوں تو کیا یہ پھر بھی انہی کی پیروی کئے جائیں گے
البقرہ۔170
یہ ایسی خرابی اور گمراہی ہے جس میں تقریبا ہر زمانے کے جاہل لوگ مبتلا رہے ہیں اورہمیشہ اللہ کے رسول کی ہدایت کو ماننے سے یہی چیز انسان کو روکتی رہی ہے۔
قرآن مجید میں اسکی بہت ساری مثالیں موجود ہیں۔۔
غیر اللہ کی اطاعت :-
خرابی کے آنے کا تیسرا راستہ قرآن نے یہ بتایاہے کہ انسان اللہ کے حکم کو
چھوڑکر دوسرے لوگوں کے حکم ماننے لگتا ہے اور یہ خیال کرتا ہے کہ
فلاں شخص بڑا آدمی ہے ، اس کی بات پکی ہوگی یا فلاں شخص کے ھاتھ میں
میری روزی روٹی ہے اس لیئے اس کی بات ماننی چاھئے یا فلاں شخص بڑا
صاحب اقتدار ہے اس لیئے اس کی فرمانبرداری کرنی چاھئے یا فلاں صاحب
بد دعاء سے مجھے تباہ کردیں گے یا اپنے ساتھ جنت میں لے جا ئیں گے۔
اس لیئے جو وہ کہیں وہ صحیح ہے یا فلانی قوم پڑی ترقی کررہی ہے
اس کے طریقے اختیار کرنی چاھئیں؛ تو ایسے شخص پر ھدایت کا راستہ
بند ہوجاتا ہے۔
اللہ تعالی اپنے کلام پاک میں ارشاد فرماتا ہے -:
ترجمہ:
اگر تو نے ان بہت سے لوگوں کی اطاعت کی جو زمین میں
رھتے ہیں تو وہ تجھ کو اللہ کے راستے سے بھٹکادیں گے۔
الانعام۔۔116
یعنی آدمی سیدھے راستے پر اس وقت ہوسکتا ہے جب اس کا ایک اللہ ہو۔
سینکڑوں؛ ھزاروں خدا جس نے بنالیئے ہوں اور جو کبھی اس خدا کے کہے
پراور کبھی دوسرے خدا کے کہے پرچلتا ہو؛ وہ کبھی صحیح راستہ نہیں پاسکتا۔
خلاصہ یہ ہوا کہ گمراہی اور خرابی کے تین بڑے بڑے سبب ہیں -:
1- نفس کی بندگی۔
2- باپ دادا؛خاندان اورقبیلےکےرواجوں کی بندگی اور اندھی پیروی۔
3- غیر اللہ کی اطاعت۔ عام طورپردنیا کے لوگوں کی بندگی؛ جس میں
دولت مند لوگ؛ حکام وقت اوربناوٹی پیشوا کی اندھی تقلید اور گمراہ
قومیں سب ہی شامل ہیں۔
کرنے کا کام؟
اس پہلے بتایا جاچکا ہے کہ انسانی زندگی میں خرابی کہاں سے آتی ہے اور اس کے
بڑے سبب کیا ہے ؟
اس خرابی سے بچنے کا واحد ذریعہ صرف صحیح علم کا حصول اور اس کے
مطابق عمل ہے؛ ہر مسلمان بچے ؛ جوان اور بوڑھے کو کم از کم اتنا علم ضرور حاصل
ہونا چاھئے کہ قرآن جس مقصد کیلئے اور جو تعلیم لیکر آیا ہے اس کا لب لباب جان لے؛
نبی اکرم صلی اللی علیہ وسلم جس چیز کو مٹانے کیلئے اور اس کی جگہہ جو چیزقائم کرنے کیلئے تشریف لائے تھےاس کو خوب پہچان لے اور اس خاص طریق زندگی سے واقف وہوجائے
جو اللہ نے مسلمانوں کیلئے مقرر کیا ہے۔ صحیح علم کی یہ روشنی صرف اللہ پاک کی طرف سے مل سکتی ہے جو علیم اور بصیر ہے؛ وہ ہر چیز کی حقیقت کو جانتا ہے وہی ٹھیک ٹھیک بتا سکتا ہے کہ ھمارا حقیقی نفع کس چیز میں ہے اورحقیقی نقصان کس چیز میں۔ ھمارا کونسا کام حقیقت میں
صحیح ہے اور کونسا غلط ۔ یہ روشنی جو اللہ تعالی کی طرف سے ملتی ہے؛ اس سے فائدہ اٹھانے کیلئے دو باتوں کی ضرورت ہے۔
۱۔ ایک یہ کہ اللہ تعالی پر اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پرجس کے واسطے سے یہ روشنی ہم تک پہنچی ہے سچے دل سے ایمان لائیں۔ یعنی پورا یقین ہوکہ اللہ کی طرف سے اس کے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ ہدایت دی ہے بلکل برحق ہے خواہ اس کی مصلحت ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔
۲۔ دوسرے یہ ایمان لانے کے بعد ہم اس کی اطاعت کریں۔ اس لئے کہ اطاعت کے
بغیر کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوسکتا۔ اصلی فائدہ اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب
ایمان لانے کے ساتھ اطاعت بھی کریں۔ جس بات کا حکم دیا گیا ہے اس پر فقط
زبان ہی سے آمنا و صدقنا نہ کہیں بلکہ اس پر عمل بھی کریں۔ اور جس بات سے
روکا گیا ہے؛ اس سےپرہیز کرنے کا زبانی اقرار ہی نہ کریں بلکہ اپنے اعمال میں
اس سے پرپیز بھی کریں۔ اسی لئے حق تعالی بار بار فرماتا ہے کہ:
ترجمہ۔:
اللہ کی اطاعت کرو اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرو۔
سورۃ المائدہ۔ 92۔
ترجمہ۔:
اگر میرے رسول کی اطاعت کروگے تب ہی تم کو ہدایت ملے گی۔
سورۃالنور۔ 54۔
ترجمہ۔:
وہ لوگ جو ہمارے رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرتے
ہیں ان کو ڈرنا چاھئے کہ کہیں وہ کسی آفت میں نہ پڑجائیں۔
سورۃ النور۔ 63.
اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا اصل مطلب یہ ہے کہ
ہم آنکھیں بند کرکے کسی کے پیچھے نہ چلیں بلکہ ہمیشہ یہ دیکھتے رہیں کہ اگر کوئی
شخص ہمیں کسی کام کو کہتا ہے وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے
مطابق کہتا ہے یا اس کے خلاف۔ اگر مطابق کہتا ہے تو اس کی بات ضرور ماننی
چاھئے؛اس صورت میں ہم اس کی اطاعت کب کررہے ہیں؛ یہ تو دراصل
اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی اطاعت ہے اور اگر وہ حکم یا کام
اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کہتا ہے تو اس کی بات رد کردی
جائے گی خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ کیونکہ ہمارے لئے سوائے اللہ اور اللہ کے
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی کے حکم کی اطاعت جائزنہیں ہے۔
وما علینا الا البلاغ۔
استفادہ از:
عقیدۃالمومن۔۔۔۔ الشیخ ابوبکر۔
خطبات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیدابوالاعلی مودودی۔
خطبات حرم۔۔۔۔ ڈاکٹر ملک غلام مرتضی۔