nazar haffi
محفلین
نذر حافی
جناب یہ ظلم ہے۔۔۔یہ ظلم ہے۔۔۔گستاخ چڑیا جب تک ہاتھ میں رہی پھڑ پھڑاتی رہی۔جب اُڑی تو ہاتھ بھی ساتھ لے گئی۔چڑی مار نے روتے ہوئے اپنی زخمی کلائی کٹہرے کے جنگلے پر قاضی کے سامنے رکھ دی اور پھر چلایا۔۔جناب یہ ظلم ہے ۔۔۔یہ ظلم ہے۔
عدالت نے چڑیا کے خلاف یکطرفہ فیصلہ سنا تے ہوئےسارے چڑی ماروں کو چڑیا کی گرفتاری کا حکم دیدیا۔
یہ خبر اخباروں نے چھاپی،ٹی وی نے دیکھائی،ریڈیو نے سنائی اور لوگوں کا جم غفیر چڑیا کے تعاقب میں شہر سے نکل پڑا۔ان میں کچھ چڑی مار تھے،کچھ ان کے رشتے دار اور باقی تماش بین تھے۔جب پورا شہر خالی ہو گیاتو سنسان شہر میں گرفتار چڑیوں کے درمیان کُھسر پُھسر شروع ہو گئی۔ایک چڑیا نے دوسری کو ،دوسری نے تیسری کو یہ ماجرا سنایااور یوں شہر بھر میں چڑیوں نے پر مارنے شروع کر دیے۔
سنسان شہر چڑیوں کے پروں کی پھڑ پھراہٹ سے گونج اُٹھا۔پروں کی تھر تھراہٹ سے سارا شہر تھر تھرا گیا اور فلک بوس عمارتیں ایک ایک کر کے زمین بوس ہو نے لگیں۔
عمارتوں کے گرنے کی آوازیں سن کر لوگ اُلٹے پاوں شہر کی طرف بھاگے لیکن شہر میں ملبے کے ڈھیر کے سوا کچھ نہ تھا۔
یوں یہ خبر پہنچی ظلِّ الہیٰ تک،ملک کی سب سے بڑی عدالت تک۔
ظلِ الہیٰ نے حکم دیا کہ اگر کل تک ساری چڑیوں کو گرفتار کر کے پیش نہ کیا گیا تو ویران شہر کے اُجڑے ہوئے باسیوں کو آگ لگا دی جائے گی۔
لوگ دوڑ پڑے۔۔۔ساری چڑیاں گرفتار کر کے لائی گئیں،حتیٰ کہ وہ گستاخ چڑیا بھی۔
لوگوں کے ہاتھوں پر ابھی تک وہ لہو تازہ تھا جو چڑیوں کو گرفتار کرتے ہوئے لگا تھا ۔لوگ اپنے ہاتھوں کے لہو کو منہ پر مل کر میک اپ کرنے لگ گے اور ظلّ الہی ان کے چہروں کی سرخی دیکھ کر انہیں انعامات سے نوازتے گئے۔جس کے چہرے پر جتنی زیادہ سرخی تھی اسے اتناہی بڑا انعام دیاگیا۔
ظلِ الہیٰ کے دربار میں مقدمہ چلا،
کچھ چڑیوں نے وعدہ معاف گواہ بننے کی کوشش کی ،کچھ نے اقبال جُرم کرنے کی ٹھانی،کچھ نے دانے دنکے پر گزارہ کرنے کی سوچی اور کچھ نے قفس میں ہی اپنی باقی زندگی گزارنے میں عافیت سمجھی۔۔۔
ایسے میں وہ گستاخ چڑیا پھڑ پھڑاتی ہوئی ظلِّ الہی کے تاج پر آکر بیٹھی اور بولی۔۔۔ارے نادان چڑیو!انسانوں کی طرح اپنی صنف سے غدّاری نہ کرنا۔۔۔انسانوں کی طرح اپنے سماج میں کالے انگریزوں کی فصل نہ بونا ۔۔۔یاد رکھو۔۔۔چڑی ماروں کے درباروں سے چڑیوں کوانصاف نہیں ملا کرتا۔جب تک چڑیا ں بنی رہو گی یہ لوگ تمہارے خون کی سرخی سے میک اپ کرتے رہیں گے اور تمارے لئے نت نئے وزیرستان بناتے رہیں گے۔
وزیرستان ہاں وزیرستان ۔۔۔جہاں انسان کی قیمت چڑیا سے بھی کم ہے۔۔۔
چڑیاں حیران ہوگئیں۔۔۔ہم سے بھی کم ۔۔۔جی ہاں۔۔۔
صرف وزیرستان ہی کیا۔۔۔کراچی ہی لے لو۔۔۔کراچی
کراچی کا ذکر کیا،پنجاب ۔۔۔بلوچستان۔۔۔بنگلہ دیش۔۔۔
یہ کہہ کرچڑیا پھڑ پھڑائی اور پھر ساری چڑیاں پھڑ پھڑائیں ،لوگ پھڑ پھڑاہٹ سے گھبرائے اور دیکھتے ہی دیکھتے چڑیاں کسی کی آنکھ ،کسی کی کلائی،کسی کا کان لے کر اُڑ گئیں۔شام ہونے تک سب کی آنکھیں ،کان اور کلائیاں لے کر چڑیاں فرار کر گئیں۔شہر میں کوئی سالم شخص باقی نہیں رہا،پورے شہر میں صرف ایک شخص کی ایک آنکھ بچی تھی۔
کہتے ہیں کہ چڑیوں نے اس کی ایک آنکھ خود ہی چھوڑ دی تھی تاکہ وہ اپنی ایک آنکھ سے بے نواوں کے خون سے میک اپ کرنے والوں کا نجام دیکھ سکے،لارڈ میکالےکے زندان میں ایک روشن صبح کے آغاز کا کوئی ظالم بھی تو عینی شاہد ہو۔
جناب یہ ظلم ہے۔۔۔یہ ظلم ہے۔۔۔گستاخ چڑیا جب تک ہاتھ میں رہی پھڑ پھڑاتی رہی۔جب اُڑی تو ہاتھ بھی ساتھ لے گئی۔چڑی مار نے روتے ہوئے اپنی زخمی کلائی کٹہرے کے جنگلے پر قاضی کے سامنے رکھ دی اور پھر چلایا۔۔جناب یہ ظلم ہے ۔۔۔یہ ظلم ہے۔
عدالت نے چڑیا کے خلاف یکطرفہ فیصلہ سنا تے ہوئےسارے چڑی ماروں کو چڑیا کی گرفتاری کا حکم دیدیا۔
یہ خبر اخباروں نے چھاپی،ٹی وی نے دیکھائی،ریڈیو نے سنائی اور لوگوں کا جم غفیر چڑیا کے تعاقب میں شہر سے نکل پڑا۔ان میں کچھ چڑی مار تھے،کچھ ان کے رشتے دار اور باقی تماش بین تھے۔جب پورا شہر خالی ہو گیاتو سنسان شہر میں گرفتار چڑیوں کے درمیان کُھسر پُھسر شروع ہو گئی۔ایک چڑیا نے دوسری کو ،دوسری نے تیسری کو یہ ماجرا سنایااور یوں شہر بھر میں چڑیوں نے پر مارنے شروع کر دیے۔
سنسان شہر چڑیوں کے پروں کی پھڑ پھراہٹ سے گونج اُٹھا۔پروں کی تھر تھراہٹ سے سارا شہر تھر تھرا گیا اور فلک بوس عمارتیں ایک ایک کر کے زمین بوس ہو نے لگیں۔
عمارتوں کے گرنے کی آوازیں سن کر لوگ اُلٹے پاوں شہر کی طرف بھاگے لیکن شہر میں ملبے کے ڈھیر کے سوا کچھ نہ تھا۔
یوں یہ خبر پہنچی ظلِّ الہیٰ تک،ملک کی سب سے بڑی عدالت تک۔
ظلِ الہیٰ نے حکم دیا کہ اگر کل تک ساری چڑیوں کو گرفتار کر کے پیش نہ کیا گیا تو ویران شہر کے اُجڑے ہوئے باسیوں کو آگ لگا دی جائے گی۔
لوگ دوڑ پڑے۔۔۔ساری چڑیاں گرفتار کر کے لائی گئیں،حتیٰ کہ وہ گستاخ چڑیا بھی۔
لوگوں کے ہاتھوں پر ابھی تک وہ لہو تازہ تھا جو چڑیوں کو گرفتار کرتے ہوئے لگا تھا ۔لوگ اپنے ہاتھوں کے لہو کو منہ پر مل کر میک اپ کرنے لگ گے اور ظلّ الہی ان کے چہروں کی سرخی دیکھ کر انہیں انعامات سے نوازتے گئے۔جس کے چہرے پر جتنی زیادہ سرخی تھی اسے اتناہی بڑا انعام دیاگیا۔
ظلِ الہیٰ کے دربار میں مقدمہ چلا،
کچھ چڑیوں نے وعدہ معاف گواہ بننے کی کوشش کی ،کچھ نے اقبال جُرم کرنے کی ٹھانی،کچھ نے دانے دنکے پر گزارہ کرنے کی سوچی اور کچھ نے قفس میں ہی اپنی باقی زندگی گزارنے میں عافیت سمجھی۔۔۔
ایسے میں وہ گستاخ چڑیا پھڑ پھڑاتی ہوئی ظلِّ الہی کے تاج پر آکر بیٹھی اور بولی۔۔۔ارے نادان چڑیو!انسانوں کی طرح اپنی صنف سے غدّاری نہ کرنا۔۔۔انسانوں کی طرح اپنے سماج میں کالے انگریزوں کی فصل نہ بونا ۔۔۔یاد رکھو۔۔۔چڑی ماروں کے درباروں سے چڑیوں کوانصاف نہیں ملا کرتا۔جب تک چڑیا ں بنی رہو گی یہ لوگ تمہارے خون کی سرخی سے میک اپ کرتے رہیں گے اور تمارے لئے نت نئے وزیرستان بناتے رہیں گے۔
وزیرستان ہاں وزیرستان ۔۔۔جہاں انسان کی قیمت چڑیا سے بھی کم ہے۔۔۔
چڑیاں حیران ہوگئیں۔۔۔ہم سے بھی کم ۔۔۔جی ہاں۔۔۔
صرف وزیرستان ہی کیا۔۔۔کراچی ہی لے لو۔۔۔کراچی
کراچی کا ذکر کیا،پنجاب ۔۔۔بلوچستان۔۔۔بنگلہ دیش۔۔۔
یہ کہہ کرچڑیا پھڑ پھڑائی اور پھر ساری چڑیاں پھڑ پھڑائیں ،لوگ پھڑ پھڑاہٹ سے گھبرائے اور دیکھتے ہی دیکھتے چڑیاں کسی کی آنکھ ،کسی کی کلائی،کسی کا کان لے کر اُڑ گئیں۔شام ہونے تک سب کی آنکھیں ،کان اور کلائیاں لے کر چڑیاں فرار کر گئیں۔شہر میں کوئی سالم شخص باقی نہیں رہا،پورے شہر میں صرف ایک شخص کی ایک آنکھ بچی تھی۔
کہتے ہیں کہ چڑیوں نے اس کی ایک آنکھ خود ہی چھوڑ دی تھی تاکہ وہ اپنی ایک آنکھ سے بے نواوں کے خون سے میک اپ کرنے والوں کا نجام دیکھ سکے،لارڈ میکالےکے زندان میں ایک روشن صبح کے آغاز کا کوئی ظالم بھی تو عینی شاہد ہو۔