محسن وقار علی
محفلین
اب اگر آخر کار جنرل (ر) پرویز مشرف کے سر پر لٹکنے والی احتساب کی تلوار عیاں ہو ہی گئی ہے تو اس کے استعمال میں احتیاط کی ضرورت ہے۔ تاریخ کے ایک اہم موڑ پر منصفی کی اس بالادستی اور انتقام کی آگ میں فرق روا نہ رکھا گیا تو بہت سی اچھائی زائل بھی ہوسکتی ہے۔ بہتری کی جگہ وہ روایت لے سکتی ہے جس کی موجودگی میں جمہوری رویے نہ تو جڑ پکڑیں گے اور نہ قانون کا ڈنکا بجے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف تاریخ کا مقدمہ بہت مضبوط ہے۔ ان کے دور میں ہونے والے ان گِنت واقعات ایسے ہیں جن کی بنیاد طاقت کے غرور سے رکھی گئی تھی اور اس پر رکھی ہوئی ہر اینٹ اس شخصیت پر ستی کی بھٹی میں بنی تھی جس کے بغیر کوئی ڈکٹیٹر شِپ اپنے ضابطے لاگو نہیں کر سکتی۔ اگرچہ آج کل جنرل مشرف کے اِکا دُکا حامی یہ تاویل پیش کرتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ ان کے دور کے تمام فیصلے ’جمہوری‘ انداز سے ہوتے تھے مگر حقیقت میں اس وقت صرف جنرل (ر) پرویز مشرف کا قلم ہی حرفِ آخر ہوتا تھا۔
ان کے سامنے جنرل اور سیاستدان سب فریاد یا تجاویز بیان تو کرتے تھے اور بسا اوقات اپنی بات منوا بھی لیتے تھے مگر ہر اہم معاملے پر جنرل (ر) پرویز مشرف کی جنبش زبان ہی حتمی فیصلہ صادر کرتی تھی۔ وہ اپنے تمام اقدامات کے ذمے دار ہیں کیوں کہ انھوں نے مشاورت کے عمل کو اپنی اطاعت کے احاطے میں بند کر رکھا تھا اور ہر معاملے میں اپنی ’صلاحیت‘کا اظہار کیے بغیر اس کو اگلے مرحلے میں پہنچانے سے گریزاں رہتے تھے، لہذا اب جب وہ ہر طرف سے گھیرے میں ہیں، ان کو ماضی کے اچھے اور برے کا حساب خود ہی دینا ہوگا۔
مکمل طور پر طاقت اور اختیار استعمال کرنے والے کلی طور پر ذمے دار بھی ٹھہرائے جاتے ہیں۔ قانون کا اصول بھی یہی ہے اور تاریخ کا سبق بھی۔ اس کو تبدیل کرنے کی کوشش کارگر نہیں ہو سکی، نہ اس کو عدالت مانے گی اور نہ عدالتی استدلال مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایک سابق عسکری سربراہ کو عدالت کے سامنے پیش ہونے یا گرفتار کیے جانے کے نظارے اگر محض نفرت یا انتقام کے غصے کی وجہ سے دلکش اور رنگین نظر آرہے ہیں تو پھر منصف بھی شاید ایسی غلطی کر رہا ہے جو ملزم نے کی تھی ۔
مسئلہ اس وقت جنرل (ر) پرویز مشرف کو قانون کا آئینہ دکھانے کا نہیں ہے بلکہ اس قرینے کا ہے جو آئینہ دکھانے کے لیے اپنایا جائے گا۔ موجودہ عدالتی نظام وہ ہے جس پر جنرل (ر) پرویز مشرف نے جبر کیا اور جس کی تالہ بندی کی ناکام کوشش نے ان کو تاریک اور بند گلی میں ایسے دھکیل دیا کہ جیسے مکھی تنے ہوئے جال کی طرف کھِچی چلی جاتی ہے۔ موجودہ جج صاحبان کی بہت بڑی تعداد جنرل (ر) پرویز مشرف کی ڈسی ہوئی ہے۔ قانونی ماہرین بہتر طور پر سمجھتے ہیں کہ کیا ایک مضرُوب ضرب لگانے والے کے بارے میں مکمل طور پر اپنے ذاتی احساس، جذبے اور خیالات کو حقائق پر غالب آنے سے روکنے کی قدرت رکھتا ہے یا نہیں مگر عام فہم میں ایسا کرنا ناممکن ہے۔
سادہ الفاظ میں کیا موجودہ عدالتوں سے جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف ہونے والے مقدمات کا فیصلہ مکمل طور پر قانون کے ترازو میں تولا جا رہا ہے یا اس کے پیچھے وہ سوچ موجود ہے جس نے پہلے سے یہ طے کیا ہوا ہے کہ پھندے میں آئے ہوئے اس سابق فوجی حکمران کو الٹا لٹکانا ہی ہے؟ کڑوی حقیقت یہ ہے کہ جنرل مشرف خود تو کٹہرے میں موجود ہے مگر اس کے برابر میں انصاف کرنے والے اس تمام نظام کا امتحان بھی شروع ہے۔ جج صاحبان، چاہے ان کا تعلق کسی بھی درجے کی عدالت سے کیوں نہ ہو، کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ان کی رائے میں قبل از وقت فیصلے کا عنصر کتنا حاوی ہے اور ماضی کے دلخراش واقعات سے ان کے ذہن کتنے متاثر ہوتے ہیں۔
یہ بھی ثابت کرنا ہو گا کہ چک شہزاد میں غیر قانونی فارم ہائوسز پر بلڈوزر پھرانے کا فیصلہ عین اسی وقت کیوں ہوا جب جنرل(ر) پرویز مشرف ضمانت کے لیے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے؟ یہ غیر قانونی تجاوزات ایک طویل عرصے سے قائم تھیں لیکن اس پر اس وقت کسی نے غور نہیں کیا۔ اسی طرح جنرل (ر)پرویز مشرف کے لیے آنے والے دنوں میں تمام عدالتی مراحل کو بھی اس قسم کے سوالوں کا سامنا ہو گا جس کے جوابات نہ تو ذرایع ابلاغ میں موجود تجزیہ نگا ر دے سکتے ہیںاورنہ ہی وکلاء برادری۔ یہ معاملات جج صاحبان کے رائے اور ان کی طرف سے جاری کیے جانے والے احکامات اور فیصلوں کی نوعیت اور اس سے بڑھ کر ان کی قانونی بنیاد طے کرے گی۔ اس کے ساتھ عدالتی نظام کو اس دبائو کا بھی مستقل مزاجی سے سامنا کرنا پڑے گا جس کا مقصد صرف مشرف کے مقدمے کو ’رفع دفع‘ کرانا ہے۔
نئے انتخابات کے موقع پر پرانے مسائل کی اس بوتل کا منہ بند کرانے والوں کی کمی نہیں۔ صدر مملکت سے لے کر بہت سی سیاسی جماعتیں جنرل مشرف کو عدالت میں کھڑا کروا کر ان رازوں سے پردہ نہیں اٹھانا چاہتیں جن میں وہ خود حصہ دار رہی ہیں۔ جنرل مشرف کے دفاع کے لیے بھی بہت سے قانونی ماہرین موجود ہیں بالخصوص ایسی صورت میں کہ جب ان کا مقدمہ طویل کاروائی میں تبدیل ہوتا ہوا نظر آ رہا ہو ۔ (ان میں ایک نا قابلِ یقین نام عاصمہ جہانگیر صاحبہ کا بھی ہے اگرچہ مجھے اس میں صداقت کا عنصر نظر نہیں آ تا ہے مگر چونکہ اس مملکت میں سب کچھ ہو سکتا ہے لہذا یہ بہتر ہو گا کہ عاصمہ جہانگیر اس افواہ کی خود وضاحت کر دیں کہ آیا انھوں نے جنرل مشرف سے رابطہ کر کے ان کا وکیل بننے کی خواہش کا اظہار کیا کہ نہیں)۔
یہ دبائو آنے والے دنوں میں مزید بڑھے گا۔ عین ممکن ہے کہ بطور درمیانی راستہ جنرل(ر)پرویز مشرف کو ملک سے باہر جانے کا ایک اور موقع فراہم کردیا جائے۔ عدالتوں کو اس ’بیچ کے راستے‘ کو بند کرنا ہو گا۔ عدالتوں کا کام نہ ہی انتقام لینا ہے اور نہ ہی ملزم کو مفرور بن جانے میں مدد دینا ہے۔ ان کا کام انصاف کرنا ہے، ایسا انصاف جو ہو اور نظر بھی آئے۔
بہ شکریہ روزنامہ ایکسپریس