ناعمہ عزیز
لائبریرین
لوگ اکثر کہتے ہیں کہ دنیا میں انصاف نہیں رہا ، ہر کسی پر ظلم ہو رہا ہے، ہر کسی کو اپنا آپ مظلوم نظر آتا، ہر کسی کویہ لگتا ہے کہ میں ہی بیچارہ ہوں ، پر میں نے تو جب بھی مشاہدہ کیا مجھے یہ ہی نظر آیا کہ دنیا میں ہر روز ہر کسی کے ساتھ انصاف ہوتا ہے اور ایسا انصاف ہوتا ہے کہ اس دنیا کی کوئی عدالت ویسا انصاف نہیں کر سکتی، سب سے بڑا جج تو انسان کے اندر بیٹھا ہوتا ہے، جو ہمیں بتا تا ہے کہ یہ نا کرو وہ نا کرو، اگر ایسا کرو گے تو نقصان ہو گا ، اگر ویسا کرو گے تو تباہ و برباد ہو جاؤ گے، ہاں یہ جو(دل) ہم جھوٹا وکیل ہائر کر لیتے ہیں نا دلائل دینے کو اِسے اگر نوکری سے برطرف کر دیا جائے تو سچائی، جھوٹ، ناانصافی اور انصاف ہمیں ٹھیک ٹھیک نظر آنے لگے،
دوسروں پر الزام دھرنا بڑا آسان کام ہے، پیسے نہیں لگتے نا اور مزہ آتا ہے، پر اپنے اندر جھانکنا بڑا مشکل ہے، کیا کریں، ہم تو یہ نہیں چاہتے کہ کوئی ہمیں بُرا کہے تو ہم اپنے آپ کو کیسے بُرا کہہ سکتے ہیں؟؟ مگر ہمارے کہنے یا نا کہنے سے کیا ہوتا ہے، میں سمجھتی ہوں کہ عدالت روز لگتی ہے، انصاف روز ہوتا ہے، وہ جس نے ہمیں تخلیق کیا وہ ماسٹر مائنڈ خود جج کی سیٹ پر بیٹھ کر ایسا انصاف کر تاہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، میں اکثر مثال دیا کرتی ہوں کہ اگر آپ کسی کی بہن ، بیٹی ، بیوی اور ماں کا احترام نہیں کرتے، ان کو عزت نہیں دیتے تو پھر اپنے ذہن میں یہ خیال مت لائیں کہ آپ کی بہن ، بیٹی، بیوی، اور ماں محفوظ ہیں، چاہے آپ نے ان کو کتنی ہی مضبوط دیواروں کے اندر رکھ کر ان پر کتنی ہی پاپندیاں کیوں نا عائد کی ہوں، انصاف کرنے والی ذات اوپر بیٹھی ہے،
ایک ساس بہو بیاہ کر لاتی ہے ، چار دن سُکھ کے گزرتےہیں اور پھر وہی چخ چخ جو ہر گھر کا معمول ہے، اور وہی ساس ایک ماں بھی جو یہ چاہتی ہے کہ اُس کی بیٹی سُکھی رہے، ہنستی مسکراتی رہے، بھئی جب وہ کسی کی بیٹی کو سُکھ نہیں دے گی تو اس کی بیٹی کو دنیا کے کسی کونے سے سُکھ نہیں ملنے والا!
اس لئے کہ انصاف کرنے والا اوپر بیٹھا ہے۔
اگر آپ کسی دفترمیں نوکری کر رہے ہیں اور ساتھ ہی سات ہیرا پھیری کا کام بھی جاری ہے تاکہ آپ اپنی اولاد کو اچھا کھلا پلا سکیں، ان کی ضرورتیں پوری ہوں ، اور آپ کا گھرانہ خوشحال رہے ، تو یہ مت بھولیں کہ حرام کھلا کر آپ اپنی اولاد کے خواہشات تو پوری کر سکتے ہیں لیکن اگر وہ اولاد ہی آپ کو دھوکہ دینا شروع کر دے تو پھر آپ کس کو ذمہ دار ٹھہرانا پسند کر یں ؟؟
دنیا اس اصول پر چلتی ہے کہ اچھادو اور اچھا لو، بُرا دو اور بُرا لو۔
کل ہم بیکن کو پڑھ رہے تھے ، بیکن ایسی خوبصورت بات کہتا ہے کہ بندہ ایک لمحے کو سوچتا ہی رہتاہے ، ٹاپک تھا آف گریٹ پلیس ، گریٹ پلیس ، مطلب آپ کے پاس کوئی اختیار ہونا، کہ جیسے ہمارے زرداری صاحب کے پاس ہے، تو بیکن کہتا ہے کہ جب آپ لوگوں پر اختیار حاصل کر لیتے ہو تو اپنی ذات پر اختیار کھو دیتے ہو، جی ہاں ، ایسا ہی ہے ، ملک و قوم کا صدر جس کے پاس اتھارٹی ہے، اُسے کوئی چرسی بھی اُٹھ کر گالی دے دیتا ہے، کوئی مسئلہ نہیں، پر یہ بات جب ایک ایسے بندے کی ذات پر آتی ہے جس کی معاشرے میں کوئی خاص حثیت نہیں تو وہ لڑنے مرنے پر آمادہ ہوجا تا ہے ، ہے نا عجیب بات؟
بندہ پوچھے زرداری انسان نہیں ؟ وہ جن ہے کہ سارے کام ایک ہی دن میں کر دے ؟ آپ اپنے آپ کو کیوں نہیں دیکھتے کہ آپ نے کیا کیا ؟؟ اگر گیس نہیں ہے، بجلی نہیں ہے تو اس میں اکیلا زرداری قصور وار تو نہیں ہے !! یہ جو گیس چور بجلی چور بیٹھے ہیں یہ کس کھاتے میں جائیں گے ؟ اور شاعر کیا خوب فرماتا ہے کہ
شکوہِ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے۔
ارفع کریم کی مثال ہمارے سامنے ہے ، آج دینا ا ُسے سلیوٹ کرتی ہے، اس پر فخر کرتی ہے، مگر اس کے جو ایک مثال قائم کر دی کہ کچھ کر کے دکھاؤ ، کچھ بن کے دکھاؤ اُسے کتنے لوگ فالو کرئیں گے؟ یا گھر بیٹھ آپ سب گھر بیٹھ کر طعنے کوسنے دینے کے لئے پیدا کئے گئے ہو؟؟؟
خیر بات انصاف سے نکل کر کہاں آ گئی،
میں تو صرف یہ جانتی ہوں کہ اس دنیا میں کوئی بندہ مظلوم نہیں ہے، ہر کسی کو اس کے کئے کا روز ملتا ہے، اور کیسا خوب انصاف ہے کہ جیسا جرم ویسی سزا!!!
اس لئے اپنے اندر جھانکو، خود کو بہتر کرو، کوئی جو کرتا ہے کرے، لیکن آپ اکیلے ہی دنیا میں آئے تھے اور اکیلے ہی رب کی بارگاہ میں دنیا اور آخرت میں جواب دہ ہو۔
قلزم ہستی میں تو اُبھرا ہے مانند ِ حباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی۔
دوسروں پر الزام دھرنا بڑا آسان کام ہے، پیسے نہیں لگتے نا اور مزہ آتا ہے، پر اپنے اندر جھانکنا بڑا مشکل ہے، کیا کریں، ہم تو یہ نہیں چاہتے کہ کوئی ہمیں بُرا کہے تو ہم اپنے آپ کو کیسے بُرا کہہ سکتے ہیں؟؟ مگر ہمارے کہنے یا نا کہنے سے کیا ہوتا ہے، میں سمجھتی ہوں کہ عدالت روز لگتی ہے، انصاف روز ہوتا ہے، وہ جس نے ہمیں تخلیق کیا وہ ماسٹر مائنڈ خود جج کی سیٹ پر بیٹھ کر ایسا انصاف کر تاہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، میں اکثر مثال دیا کرتی ہوں کہ اگر آپ کسی کی بہن ، بیٹی ، بیوی اور ماں کا احترام نہیں کرتے، ان کو عزت نہیں دیتے تو پھر اپنے ذہن میں یہ خیال مت لائیں کہ آپ کی بہن ، بیٹی، بیوی، اور ماں محفوظ ہیں، چاہے آپ نے ان کو کتنی ہی مضبوط دیواروں کے اندر رکھ کر ان پر کتنی ہی پاپندیاں کیوں نا عائد کی ہوں، انصاف کرنے والی ذات اوپر بیٹھی ہے،
ایک ساس بہو بیاہ کر لاتی ہے ، چار دن سُکھ کے گزرتےہیں اور پھر وہی چخ چخ جو ہر گھر کا معمول ہے، اور وہی ساس ایک ماں بھی جو یہ چاہتی ہے کہ اُس کی بیٹی سُکھی رہے، ہنستی مسکراتی رہے، بھئی جب وہ کسی کی بیٹی کو سُکھ نہیں دے گی تو اس کی بیٹی کو دنیا کے کسی کونے سے سُکھ نہیں ملنے والا!
اس لئے کہ انصاف کرنے والا اوپر بیٹھا ہے۔
اگر آپ کسی دفترمیں نوکری کر رہے ہیں اور ساتھ ہی سات ہیرا پھیری کا کام بھی جاری ہے تاکہ آپ اپنی اولاد کو اچھا کھلا پلا سکیں، ان کی ضرورتیں پوری ہوں ، اور آپ کا گھرانہ خوشحال رہے ، تو یہ مت بھولیں کہ حرام کھلا کر آپ اپنی اولاد کے خواہشات تو پوری کر سکتے ہیں لیکن اگر وہ اولاد ہی آپ کو دھوکہ دینا شروع کر دے تو پھر آپ کس کو ذمہ دار ٹھہرانا پسند کر یں ؟؟
دنیا اس اصول پر چلتی ہے کہ اچھادو اور اچھا لو، بُرا دو اور بُرا لو۔
کل ہم بیکن کو پڑھ رہے تھے ، بیکن ایسی خوبصورت بات کہتا ہے کہ بندہ ایک لمحے کو سوچتا ہی رہتاہے ، ٹاپک تھا آف گریٹ پلیس ، گریٹ پلیس ، مطلب آپ کے پاس کوئی اختیار ہونا، کہ جیسے ہمارے زرداری صاحب کے پاس ہے، تو بیکن کہتا ہے کہ جب آپ لوگوں پر اختیار حاصل کر لیتے ہو تو اپنی ذات پر اختیار کھو دیتے ہو، جی ہاں ، ایسا ہی ہے ، ملک و قوم کا صدر جس کے پاس اتھارٹی ہے، اُسے کوئی چرسی بھی اُٹھ کر گالی دے دیتا ہے، کوئی مسئلہ نہیں، پر یہ بات جب ایک ایسے بندے کی ذات پر آتی ہے جس کی معاشرے میں کوئی خاص حثیت نہیں تو وہ لڑنے مرنے پر آمادہ ہوجا تا ہے ، ہے نا عجیب بات؟
بندہ پوچھے زرداری انسان نہیں ؟ وہ جن ہے کہ سارے کام ایک ہی دن میں کر دے ؟ آپ اپنے آپ کو کیوں نہیں دیکھتے کہ آپ نے کیا کیا ؟؟ اگر گیس نہیں ہے، بجلی نہیں ہے تو اس میں اکیلا زرداری قصور وار تو نہیں ہے !! یہ جو گیس چور بجلی چور بیٹھے ہیں یہ کس کھاتے میں جائیں گے ؟ اور شاعر کیا خوب فرماتا ہے کہ
شکوہِ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے۔
ارفع کریم کی مثال ہمارے سامنے ہے ، آج دینا ا ُسے سلیوٹ کرتی ہے، اس پر فخر کرتی ہے، مگر اس کے جو ایک مثال قائم کر دی کہ کچھ کر کے دکھاؤ ، کچھ بن کے دکھاؤ اُسے کتنے لوگ فالو کرئیں گے؟ یا گھر بیٹھ آپ سب گھر بیٹھ کر طعنے کوسنے دینے کے لئے پیدا کئے گئے ہو؟؟؟
خیر بات انصاف سے نکل کر کہاں آ گئی،
میں تو صرف یہ جانتی ہوں کہ اس دنیا میں کوئی بندہ مظلوم نہیں ہے، ہر کسی کو اس کے کئے کا روز ملتا ہے، اور کیسا خوب انصاف ہے کہ جیسا جرم ویسی سزا!!!
اس لئے اپنے اندر جھانکو، خود کو بہتر کرو، کوئی جو کرتا ہے کرے، لیکن آپ اکیلے ہی دنیا میں آئے تھے اور اکیلے ہی رب کی بارگاہ میں دنیا اور آخرت میں جواب دہ ہو۔
قلزم ہستی میں تو اُبھرا ہے مانند ِ حباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی۔