نوید ناظم
محفلین
دنیا میں کوئی انسان کسی اور انسان کی طرح ہوا نہ ہو گا۔۔۔سب کا چہرہ الگ، نصیب الگ اور عاقبت بھی الگ۔ یہاں ہر فرد، فردِ واحد ہے۔ ہم سب ایک ہو سکتے ہیں مگر ہم سب ایک جیسے نہیں ہو سکتے۔ انفرادیت، افراد کو ملنے والا خدائے واحد کی طرف سے خوبصورت تحفہ ہے۔۔۔۔کتنی عجیب بات ہے کہ سات ارب لوگوں میں کوئی بھی میری طرح نہیں۔۔۔یہ کوئی اتفاق نہیں بلکہ راز ہے اگر تلاش کیا جائے۔۔۔ انفرادیت' اصل میں احدیت کا نقارہ ہے۔ مخلوق، مخلوق ہو کر اپنے آپ میں یکتا رہتی ہے تو وہ جو احد ہے اُس کی یکتائی کا عالم کیا ہو سکتا ہے۔
اس دنیا میں ہم متاثر ہوتے رہتے ہیں کبھی اپنے ارد گرد کے ماحول سے، کبھی کسی انسان یا کسی خیال سے۔۔۔تو ضروری ہے کہ انسان جس خیال سے متاثر ہو اُسی خیال میں ڈھلتا جائے۔۔۔یہ فطری بھی ہے اور ضروری بھی مگر ایک خیال کا دوسرے خیال میں ڈھل جانا بھی انسان کی انفرادیت کو کم نہیں کرتا۔۔۔ کوئی اُمتی اگر اپنے پیغمبر کے خیال اور حکم کے مطابق سو فیصد بھی ڈھل جائے تو وہ اُمتی' پیغمبر نہیں کہلائے گا۔ مگر پھر بھی پیغمبر کی سنت ایک امتی کے لیے فرض کی حد تک ضروری ہوتی ہے۔
ہم ایک معاشرے میں رہتے ہیں جو اجتماعی معاشرہ ہے، اور یہ بھی افراد سے بنتا ہے، مطلب اجتماع کا وجود بھی انفرادیت سے ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کسی اجتماع میں ہم لوگ 'سب لوگ' بن جائیں، یہاں بھی انفرادیت قائم ہے۔ کوئی شخص اپنے علاوہ دوسرا شخص نہیں بن سکتا۔۔۔ یہ مجبوری نہیں ہے بلکہ انعام ہے اگر سمجھا جا سکے تو۔
ہمیں گلہ ہے کہ معاشرہ اچھا نہیں رہا مگر ہمیں فرد کی پرواہ نہیں، آج ادارے قائم کیے جاتے ہیں' معاشرے کی فلاح کے لیے اور معاشرے کی فلاح اس وقت تک ممکن نہیں جب تک فرد فلاح نہ پائے۔۔۔ہم پڑوسی ملکوں کے حال سے با خبر ہیں اور اپنے پڑوسی کے حال سے بے خبر۔ مطلب یہ ہے کہ جو ایک آدمی کا خیال نہ رکھ سکا کیسے ممکن ہے کہ وہ ایک لاکھ آدمیوں کا خیال رکھے گا۔ خبر نامہ کسی احساس پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ یہ محض کاروبار ہے۔۔۔ ہمیں بتایا جاتا یے کہ فلاں جگہ حادثے میں کسی کا قتل ہو گیا تو یہ اُس شخص کے احساس کی وجہ سے ہے نہ انسانیت کے درد کی وجہ سے بلکہ یہ پیسے کمانے کے لیے ہے۔۔۔تو بالعموم جو کام معاشرے کے لیے کیا جاتا ہے وہ حصولِ دولت کے لیے ہوتا ہے یا حصولِ شہرت کے لیے۔۔۔ خدمت وہ ہے جو فرد سے شروع کی جائے۔۔۔سب کو عید مبارک کسی کو عید مبارک نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔مخاطب کی ذات سے آشنائی نہ بھی ہو تو کم سے کم اُس کا نام ضرور پتا ہونا چاہیے۔۔۔ مقصد یہ نہیں کہ ہم معاشرے سے تعلق توڑ لیں مقصد یہ ہے کہ ہم 'فرد' سے ربط قائم رکھیں، ہمیں جس کا درد ہے اُس کی ذاتی زندگی سے کچھ نا کچھ آشنائی بھی ہونی چاہیے۔
باطن کی بات ہو یا ظاہر کی' انفرادیت کی اہمیت قائم ہے۔ فرد سے ہی ربطِ ملت قائم ہے' تخلیق کے اعتبار سے بھی اور عمل کے اظہار سے بھی۔۔۔ کُل کی جُزوی پہچان ممکن ہے اگر جُز کی کُلی پہچان ہو جائے۔ مدعا یہ ہے کہ جس نے اپنی انفرادیت کو پہچانا اور دوسرے کی انفرادیت کو تسلیم کیا اُس نے اپنے ساتھ بھی نیکی کی اور معاشرے کے ساتھ بھی۔
اس دنیا میں ہم متاثر ہوتے رہتے ہیں کبھی اپنے ارد گرد کے ماحول سے، کبھی کسی انسان یا کسی خیال سے۔۔۔تو ضروری ہے کہ انسان جس خیال سے متاثر ہو اُسی خیال میں ڈھلتا جائے۔۔۔یہ فطری بھی ہے اور ضروری بھی مگر ایک خیال کا دوسرے خیال میں ڈھل جانا بھی انسان کی انفرادیت کو کم نہیں کرتا۔۔۔ کوئی اُمتی اگر اپنے پیغمبر کے خیال اور حکم کے مطابق سو فیصد بھی ڈھل جائے تو وہ اُمتی' پیغمبر نہیں کہلائے گا۔ مگر پھر بھی پیغمبر کی سنت ایک امتی کے لیے فرض کی حد تک ضروری ہوتی ہے۔
ہم ایک معاشرے میں رہتے ہیں جو اجتماعی معاشرہ ہے، اور یہ بھی افراد سے بنتا ہے، مطلب اجتماع کا وجود بھی انفرادیت سے ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کسی اجتماع میں ہم لوگ 'سب لوگ' بن جائیں، یہاں بھی انفرادیت قائم ہے۔ کوئی شخص اپنے علاوہ دوسرا شخص نہیں بن سکتا۔۔۔ یہ مجبوری نہیں ہے بلکہ انعام ہے اگر سمجھا جا سکے تو۔
ہمیں گلہ ہے کہ معاشرہ اچھا نہیں رہا مگر ہمیں فرد کی پرواہ نہیں، آج ادارے قائم کیے جاتے ہیں' معاشرے کی فلاح کے لیے اور معاشرے کی فلاح اس وقت تک ممکن نہیں جب تک فرد فلاح نہ پائے۔۔۔ہم پڑوسی ملکوں کے حال سے با خبر ہیں اور اپنے پڑوسی کے حال سے بے خبر۔ مطلب یہ ہے کہ جو ایک آدمی کا خیال نہ رکھ سکا کیسے ممکن ہے کہ وہ ایک لاکھ آدمیوں کا خیال رکھے گا۔ خبر نامہ کسی احساس پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ یہ محض کاروبار ہے۔۔۔ ہمیں بتایا جاتا یے کہ فلاں جگہ حادثے میں کسی کا قتل ہو گیا تو یہ اُس شخص کے احساس کی وجہ سے ہے نہ انسانیت کے درد کی وجہ سے بلکہ یہ پیسے کمانے کے لیے ہے۔۔۔تو بالعموم جو کام معاشرے کے لیے کیا جاتا ہے وہ حصولِ دولت کے لیے ہوتا ہے یا حصولِ شہرت کے لیے۔۔۔ خدمت وہ ہے جو فرد سے شروع کی جائے۔۔۔سب کو عید مبارک کسی کو عید مبارک نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔مخاطب کی ذات سے آشنائی نہ بھی ہو تو کم سے کم اُس کا نام ضرور پتا ہونا چاہیے۔۔۔ مقصد یہ نہیں کہ ہم معاشرے سے تعلق توڑ لیں مقصد یہ ہے کہ ہم 'فرد' سے ربط قائم رکھیں، ہمیں جس کا درد ہے اُس کی ذاتی زندگی سے کچھ نا کچھ آشنائی بھی ہونی چاہیے۔
باطن کی بات ہو یا ظاہر کی' انفرادیت کی اہمیت قائم ہے۔ فرد سے ہی ربطِ ملت قائم ہے' تخلیق کے اعتبار سے بھی اور عمل کے اظہار سے بھی۔۔۔ کُل کی جُزوی پہچان ممکن ہے اگر جُز کی کُلی پہچان ہو جائے۔ مدعا یہ ہے کہ جس نے اپنی انفرادیت کو پہچانا اور دوسرے کی انفرادیت کو تسلیم کیا اُس نے اپنے ساتھ بھی نیکی کی اور معاشرے کے ساتھ بھی۔
آخری تدوین: