انقلاب جو برپا نہ ہوسکا- طاہرالقادری کے انقلابی دھرنے کی مختصر داستان
اسلام آباد (عامر میر) پاکستان میں انقلاب کیلئے دو ماہ سے جاری سیاسی ڈرامہ و دھرنا منگل کو اچانک ختم ہوگیامگر اس بار جنوری 2013میں آصف زرداری دور میں باعزت راستہ دینے کے برخلاف اس بار 2014 میں ایسا کچھ ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ نہیں ہوا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی جانب سے دھرنا اچانک ختم کرنے کا اعلان درحقیقت طے تھا حالانکہ انہوںنے 19اکتوبر کو لاہورمیں مینار پاکستان پر جلسے میں اعلان کیاتھا کہ وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ شہباز شریف کے استعفوں کے بغیر وہ دھرنا ختم نہیں کریں گے مگر حکومت سے کسی معاہدے اور اپنا کوئی مطالبہ منوائے بغیر دھرنا ختم کردیا۔ حکومت کے بعض باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری گذشتہ کئی ہفتوں سے گورنر پنجاب چوہدری سرور کی معرفت حکومت کے ساتھ پس پردہ مزاکرات میں مصروف تھے تاہم یہ جانتے اور دیکھتے ہوئے کہ قادری کے دھرنے کی ہوا نکل چکی ہے، شریف برادران کوئی معاہدہ کرکے انہیں واپسی کا کوئی باعزت راستہ یا طریقہ فراہم کرنے کے موڈ میںنہیں تھے جیسا کہ 2013 میں آصف زرداری نے دیا تھا۔یہ اب کھلی حقیقت ہے کہ طاہر القادری کو یقین دلایا گیا تھا کہ نواز حکومت ختم ہونے کے بعد مستقبل کے سیاسی سیٹ اپ میں انہیں مرکزی کردار دینے کا ذہن بنالیا گیاہے تاہم جاوید ہاشمی نے مارچ کے پشت پناہوں کی نشاندہی کرکے طاہر القادری اور عمران خان کے انقلاب کے غبارے سے ہوا نکال دی تھی۔ ڈاکٹر قادری کا دھرنا 2014 دو ماہ تک جاری رہا جبکہ دھرنا 2013 صرف چار دن (13 جنوری تا 17 جنوری) جاری رہا تھا۔ آصف زرداری نے معاہدہ کرکے اسلام آباد خالی کرالیا تھا مگر چیزیں ویسی کی ویسی رہی تھیں اور طاہر القادری چند ہفتوں بعد خالی ہاتھ اپنے نئے وطن کینیڈا پرواز کرگئے تھے۔انتہائی مایوس طاہر القادری جنہوںنے ایک ماہ قبل حکومت سے مذاکرات تقریباً ختم کردیئے تھے، نے 21 اکتوبر کی شب اپنا دھرنا خود ہی ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ 2014 کے برعکس 2013 میں زرداری حکومت نے انہیں واپسی کا باعزت راستہ فراہم یا تھا۔ پی پی اور اتحادی جماعتوں کے رہنمائوں پر مشتمل دس رکنی وفد نے ان کے بم پروف کنٹینر میں 5گھنٹے طویل بات چیت کے ذریعہ ایک معاہدہ کرکے دھرنا ختم کرایا تھا تاہم پارلیمنٹ کی تحلیل، حکومت کے استعفے اور الیکشن کمیشن کی تشکیل نو سمیت ان کا کوئی مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔ پی پی حکومت کے ہاتھ غیرمعمولی طور پر مضبوط ہوئے تھے جب نواز شریف کی دعوت پر اپوزیشن جماعتوں نے جمع ہوکر جمہوریت کے استحکام کا متفقہ عزم ظاہر کیا تھا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ جمہوری نظام کو پٹری سے اتارنے کی جمہوریت مخالف قوتوں کی کوششوں کی مزاحمت کی جائے گی۔2013 کے مقابلے میں طاہر القادری کی 2014میں واحد کامیابی وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ شہباز شریف کے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہونا ہے، اگرچہ اس میںسے ایک کو اسلام آباد ہائیکورٹ ختم کرچکی ہے۔ ڈاکٹر قادری نے اپنا لانگ مارچ موجودہ سیاسی نظام کے خلاف اور اس کو انقلاب کے ذریعہ اکھاڑ پھینکنے کیلئے شروع کیا تھا، مگر وہ 3اکتوبر کو آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کرکے اس کرپٹ اور بوسیدہ نظام کا حصہ بن گئے جس کا خاتمہ چاہتے تھے، اب وہ اسی پارلیمنٹ میں حصہ دار بننا چاہتے ہیں جس کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنارہے تھے۔لیکن لاکھوںکا سوال اب بھی باقی رہتا ہے کہ کیا طاہر القادری آئندہ عام انتخابات میں شرکت کے اہل ہونے کیلئے اپنی کینیڈین شہریت ترک کردیں گے؟ اگر ماضی کوئی پیمانہ ہے تو ایک طرف دہری شہریت رکھتے ہوئے اور دوسری جانب پاکستان کا سیاسی نظام سدھارنے کے حوالے سے 2013میںسپریم کورٹ کی شدید جرح کا سامنا کرنے کے باوجود طاہر القادری نے دہری شہریت ترک کرنے سے انکار کردیا تھا۔2013میں پارلیمنٹ کی جانب مارچ کرنے کے بعد سپریم کورٹ میں اپنی پٹیشن پر ججوں نے انہیں تنبیہ کی تھی کہ انہوں نے ملکہ الزبتھ سے وفاداری (کینیڈین شہری کی حیثیت سے) کا حلف اٹھایا اور پاکستان میں اصلاحات چاہ رہے ہیں۔2013 کے عام انتخابات سے قبل طاہر القادری نے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں اصلاحات کیلئے 1973 کے آئین کے آرٹیکل (3) 184 کے تحت درخواست دائر کی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان کا تقرر آئین کے آرٹیکل 213 اور 218 کے مطابق نہیں ہوا لہٰذا تقرریوں کو کالعدم قرار دیا جائے۔ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے فروری 2013 میں ڈاکٹر طاہر القادری کی پٹیشن کی سماعت کی جس میں ملکہ الزبتھ سے وفاداری کا حلف ان کے گلے کی ہڈی بن گیا۔ ڈاکٹر طاہر القادری سے کینیڈین شہری کی حیثیت سے درخواست گذار بننےکے حوالے سے اہلیت اور جواز کے بارے میں دریافت کیا گیا۔ عدالت عظمیٰ نے ملکہ الزبتھ کا وفادار ہونے اور پاکستان میں اصلاحات کی خواہش پر تنبیہ کی۔ عدالت میں سماعت جو طاہر القادری کی خواہش کے مطابق الیکشن کمیشن کی تحلیل کے حوالے سے تھی،عوامی تحریک کے سربراہ کی تین رکنی بنچ کو کینیڈین شہری بنتے وقت ان کے حلف کے مندرجات پر جواب دینے میں ختم ہوگئی۔ تب چیف جسٹس نے طاہر القادری کی جانب سے لیا گیا حلف برداری عدالت میں پڑھ کر سنایا ’’میں حلف اٹھاتا ہوں کہ ملکہ کینیڈا الزبتھ، ان کے وارثوں اور جانشینوں سے وفادار رہوں گا، کینیڈا کے قوانین کا پابند اور کینیڈین شہری کی حیثیت سے ذمہ داریاں ادا کروں گا۔ تین رکنی بنچ کی صدارت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے انتخابات سے محض چند ہفتوں قبل طاہر القادری کے اچانک پاکستانی سیاست میں وادر ہونے اور ملکی آئینی حدود میں بن بلائے مداخلت پر سوالات اٹھائے۔11فروری 2013کے عام انتخابات پر عدالت نے طاہر القادری کو ایک جامع بیان داخل کرنے کیلئےبھی کہا کہ انہوں نے ایک اور ملک سے حلف وفاداری اٹھایا ہے جبکہ وفاقی حکومت نے ساتھ ہی انہیں پاکستان کی شہریت برقرار رکھنے کی اجازت کا بھی نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔ چیف جسٹس نے اس موقع پر آبزرویشن دی کہ اپنی دہری شہریت پر طاہر القادری کو عدالت کو مطمئن کرنا چاہئے کہ ایک دوسرے ملک کا شہری پاکستان کی پارلیمنٹ پر عدم اعتماد کا اظہار نہیں کرسکتا۔ چیف جسٹس نے طاہر القادری سے استفسار کیا کہ انہوں نے کس بنیاد پر کینیڈا کی شہریت حاصل کی، کیا انہیں اپنی زندگی کو خطرات لاحق تھے اور یہ کہ انہوںنے کس حیثیت میں کینیڈا کی شہریت اختیار کی۔ جس پر طاہر القادری نےجواب دیا کہ انہوں نے مذہبی اسکالر کی حیثیت سے کینیڈا کی شہریت اختیار کی اور بتایا کہ انہوں نے اپنے اہل خانہ سمیت کینیڈا کی شہریت کیلئے 1999میں درخواست دی تھی اور بالآخر قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہونے کے بعد انہیں 2005میں کینیڈا کی شہریت مل گئی۔
اسلام آباد (عامر میر) پاکستان میں انقلاب کیلئے دو ماہ سے جاری سیاسی ڈرامہ و دھرنا منگل کو اچانک ختم ہوگیامگر اس بار جنوری 2013میں آصف زرداری دور میں باعزت راستہ دینے کے برخلاف اس بار 2014 میں ایسا کچھ ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ نہیں ہوا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی جانب سے دھرنا اچانک ختم کرنے کا اعلان درحقیقت طے تھا حالانکہ انہوںنے 19اکتوبر کو لاہورمیں مینار پاکستان پر جلسے میں اعلان کیاتھا کہ وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ شہباز شریف کے استعفوں کے بغیر وہ دھرنا ختم نہیں کریں گے مگر حکومت سے کسی معاہدے اور اپنا کوئی مطالبہ منوائے بغیر دھرنا ختم کردیا۔ حکومت کے بعض باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری گذشتہ کئی ہفتوں سے گورنر پنجاب چوہدری سرور کی معرفت حکومت کے ساتھ پس پردہ مزاکرات میں مصروف تھے تاہم یہ جانتے اور دیکھتے ہوئے کہ قادری کے دھرنے کی ہوا نکل چکی ہے، شریف برادران کوئی معاہدہ کرکے انہیں واپسی کا کوئی باعزت راستہ یا طریقہ فراہم کرنے کے موڈ میںنہیں تھے جیسا کہ 2013 میں آصف زرداری نے دیا تھا۔یہ اب کھلی حقیقت ہے کہ طاہر القادری کو یقین دلایا گیا تھا کہ نواز حکومت ختم ہونے کے بعد مستقبل کے سیاسی سیٹ اپ میں انہیں مرکزی کردار دینے کا ذہن بنالیا گیاہے تاہم جاوید ہاشمی نے مارچ کے پشت پناہوں کی نشاندہی کرکے طاہر القادری اور عمران خان کے انقلاب کے غبارے سے ہوا نکال دی تھی۔ ڈاکٹر قادری کا دھرنا 2014 دو ماہ تک جاری رہا جبکہ دھرنا 2013 صرف چار دن (13 جنوری تا 17 جنوری) جاری رہا تھا۔ آصف زرداری نے معاہدہ کرکے اسلام آباد خالی کرالیا تھا مگر چیزیں ویسی کی ویسی رہی تھیں اور طاہر القادری چند ہفتوں بعد خالی ہاتھ اپنے نئے وطن کینیڈا پرواز کرگئے تھے۔انتہائی مایوس طاہر القادری جنہوںنے ایک ماہ قبل حکومت سے مذاکرات تقریباً ختم کردیئے تھے، نے 21 اکتوبر کی شب اپنا دھرنا خود ہی ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ 2014 کے برعکس 2013 میں زرداری حکومت نے انہیں واپسی کا باعزت راستہ فراہم یا تھا۔ پی پی اور اتحادی جماعتوں کے رہنمائوں پر مشتمل دس رکنی وفد نے ان کے بم پروف کنٹینر میں 5گھنٹے طویل بات چیت کے ذریعہ ایک معاہدہ کرکے دھرنا ختم کرایا تھا تاہم پارلیمنٹ کی تحلیل، حکومت کے استعفے اور الیکشن کمیشن کی تشکیل نو سمیت ان کا کوئی مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔ پی پی حکومت کے ہاتھ غیرمعمولی طور پر مضبوط ہوئے تھے جب نواز شریف کی دعوت پر اپوزیشن جماعتوں نے جمع ہوکر جمہوریت کے استحکام کا متفقہ عزم ظاہر کیا تھا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ جمہوری نظام کو پٹری سے اتارنے کی جمہوریت مخالف قوتوں کی کوششوں کی مزاحمت کی جائے گی۔2013 کے مقابلے میں طاہر القادری کی 2014میں واحد کامیابی وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ شہباز شریف کے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہونا ہے، اگرچہ اس میںسے ایک کو اسلام آباد ہائیکورٹ ختم کرچکی ہے۔ ڈاکٹر قادری نے اپنا لانگ مارچ موجودہ سیاسی نظام کے خلاف اور اس کو انقلاب کے ذریعہ اکھاڑ پھینکنے کیلئے شروع کیا تھا، مگر وہ 3اکتوبر کو آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کرکے اس کرپٹ اور بوسیدہ نظام کا حصہ بن گئے جس کا خاتمہ چاہتے تھے، اب وہ اسی پارلیمنٹ میں حصہ دار بننا چاہتے ہیں جس کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنارہے تھے۔لیکن لاکھوںکا سوال اب بھی باقی رہتا ہے کہ کیا طاہر القادری آئندہ عام انتخابات میں شرکت کے اہل ہونے کیلئے اپنی کینیڈین شہریت ترک کردیں گے؟ اگر ماضی کوئی پیمانہ ہے تو ایک طرف دہری شہریت رکھتے ہوئے اور دوسری جانب پاکستان کا سیاسی نظام سدھارنے کے حوالے سے 2013میںسپریم کورٹ کی شدید جرح کا سامنا کرنے کے باوجود طاہر القادری نے دہری شہریت ترک کرنے سے انکار کردیا تھا۔2013میں پارلیمنٹ کی جانب مارچ کرنے کے بعد سپریم کورٹ میں اپنی پٹیشن پر ججوں نے انہیں تنبیہ کی تھی کہ انہوں نے ملکہ الزبتھ سے وفاداری (کینیڈین شہری کی حیثیت سے) کا حلف اٹھایا اور پاکستان میں اصلاحات چاہ رہے ہیں۔2013 کے عام انتخابات سے قبل طاہر القادری نے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں اصلاحات کیلئے 1973 کے آئین کے آرٹیکل (3) 184 کے تحت درخواست دائر کی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان کا تقرر آئین کے آرٹیکل 213 اور 218 کے مطابق نہیں ہوا لہٰذا تقرریوں کو کالعدم قرار دیا جائے۔ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے فروری 2013 میں ڈاکٹر طاہر القادری کی پٹیشن کی سماعت کی جس میں ملکہ الزبتھ سے وفاداری کا حلف ان کے گلے کی ہڈی بن گیا۔ ڈاکٹر طاہر القادری سے کینیڈین شہری کی حیثیت سے درخواست گذار بننےکے حوالے سے اہلیت اور جواز کے بارے میں دریافت کیا گیا۔ عدالت عظمیٰ نے ملکہ الزبتھ کا وفادار ہونے اور پاکستان میں اصلاحات کی خواہش پر تنبیہ کی۔ عدالت میں سماعت جو طاہر القادری کی خواہش کے مطابق الیکشن کمیشن کی تحلیل کے حوالے سے تھی،عوامی تحریک کے سربراہ کی تین رکنی بنچ کو کینیڈین شہری بنتے وقت ان کے حلف کے مندرجات پر جواب دینے میں ختم ہوگئی۔ تب چیف جسٹس نے طاہر القادری کی جانب سے لیا گیا حلف برداری عدالت میں پڑھ کر سنایا ’’میں حلف اٹھاتا ہوں کہ ملکہ کینیڈا الزبتھ، ان کے وارثوں اور جانشینوں سے وفادار رہوں گا، کینیڈا کے قوانین کا پابند اور کینیڈین شہری کی حیثیت سے ذمہ داریاں ادا کروں گا۔ تین رکنی بنچ کی صدارت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے انتخابات سے محض چند ہفتوں قبل طاہر القادری کے اچانک پاکستانی سیاست میں وادر ہونے اور ملکی آئینی حدود میں بن بلائے مداخلت پر سوالات اٹھائے۔11فروری 2013کے عام انتخابات پر عدالت نے طاہر القادری کو ایک جامع بیان داخل کرنے کیلئےبھی کہا کہ انہوں نے ایک اور ملک سے حلف وفاداری اٹھایا ہے جبکہ وفاقی حکومت نے ساتھ ہی انہیں پاکستان کی شہریت برقرار رکھنے کی اجازت کا بھی نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔ چیف جسٹس نے اس موقع پر آبزرویشن دی کہ اپنی دہری شہریت پر طاہر القادری کو عدالت کو مطمئن کرنا چاہئے کہ ایک دوسرے ملک کا شہری پاکستان کی پارلیمنٹ پر عدم اعتماد کا اظہار نہیں کرسکتا۔ چیف جسٹس نے طاہر القادری سے استفسار کیا کہ انہوں نے کس بنیاد پر کینیڈا کی شہریت حاصل کی، کیا انہیں اپنی زندگی کو خطرات لاحق تھے اور یہ کہ انہوںنے کس حیثیت میں کینیڈا کی شہریت اختیار کی۔ جس پر طاہر القادری نےجواب دیا کہ انہوں نے مذہبی اسکالر کی حیثیت سے کینیڈا کی شہریت اختیار کی اور بتایا کہ انہوں نے اپنے اہل خانہ سمیت کینیڈا کی شہریت کیلئے 1999میں درخواست دی تھی اور بالآخر قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہونے کے بعد انہیں 2005میں کینیڈا کی شہریت مل گئی۔