انمول انسان

سحرش سحر

محفلین
ضروری اعلان برائے انسانِ گمشدہ !

ایک اشرف المخلوقات .... نام، انسان ....مٹی میں جینے والا.....بناوٹ سے پاک.....شکل سےمعصوم........ چہرہ پرنور....منافقت سے دور .....لباسِ عاجزی میں ملبوس ...سر پر دستا ر فضیلت ....دل میں جذبہء انسانیت.....
" ""عرصہ دراز سے لا پتہ ہے ۔"""
اگر کسی کو ملے تو اس پتہ پر اطلاع دے اور دس ارب ڈالرز انعام پائے ۔
پتہ: ۳۰۰۰ ء کی جدید دنیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دس ارب ڈالرز؟ ؟؟؟؟؟؟
ارے، ڈھونڈو...پتہ کرو...... کھوج لگاؤ!
اس انسان کو کہیں سے بھی برآمد کرو ۔ اور اسے کسی چڑیا گھر یاعجائب گھرمیں محفوظ کر دو ۔ ایسے انمول و نایاب جاندار تو آج کل با لکل نا پید ہو گئے ہیں ۔
مگر ایسے انسان کو کھوجنا تو جوئےشیر لانے کے مترادف ہے ۔ کیونکہ اس حلیے و خصوصیات کا حامل انسان تو چراغ لے کر بلکہ ٹارچ لے کر ڈھونڈنا محال ہے ۔
خیر! یہ ۳۰۰۰ ء کی دنیا ہے ۔ سائنس نے بڑی ترقی کی ہے ۔ کئی سربستہ رازوں پر سے پردے اٹھ چکے ہیں ۔ اس نے تودنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے ۔۔ ہر چیز کے معنی بدل گئے ہیں ۔ اس دنیا کو تو چھوڑ نئی نئی دنیائیں تلاشی جا رہی ہے ۔ آئے روز نت نئی ایجادات ہو رہی ہیں ۔ دریافتیں ہو رہی ہیں ۔ ایسے ایسے آلے موجود ہیں جن سے اب کچھ بھی مخفی نہیں ۔ تو یہ "انمول انسان "بھلا کیا چیز ہے ۔ جلد ہی کوئی تفتیشی محکمے کا اڑن طشتری والا آسانی سے کھوج لے گا اور شاید وہی یہ رقم لے اڑے گا ۔
تمھیں اپنے اس غرض مند دل کو چھوٹا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ کیا خبر! سڑکوں بازاروں پارکوں پلازوں، ہوٹلوں، دفتروں، مارکیٹوں میں منہمک ، گلوبل ویلج کے مکینوں میں سے شاید وہ انمول ہیراکہیں نظر آ ہی جائے ۔ ایسا سنہری موقع!!!!!!! ...حرج ہی کیا ہے؟ ؟؟؟؟
او بھائی ....آپ نے انمول انسان کو کہیں دیکھا ہے؟
او ہیلو ...! میں آپ ہی سے مخاطب ہوں ۔
آپ جواب کیوں نہیں دے رہے؟ ؟؟؟
او بھائی آپ بتائیں نا...
میم....! سنیں آپ نے کوئی...... ؟؟؟؟؟؟
رکے،جی! میری بات سنیں پلیز، آپ......!
اوہووووو .....یہ کیا حماقت کر رہا ہوں ۔ یہ
سب تو اس جدید بستی یعنی گلوبل ویلج کے مکین ہیں ۔ دکھنے میں تو سب ہی کچھ کچھ انسان لگتے ہیں مگر یہ تو اس اشتہار والے گمشدہ انسان سے با لکل مختلف ہیں ۔ بناوٹی بے نور چہرے ...بے لباس تن ...انسانیت سے عاری....ہوس کے پجاری .......یہ سب انسان نمامشینیں ہیں، روبوٹس ہیں ۔
ہر ایک کےگرد یہ جو خودغرضی، لالچ، ہوس کا دبیزخول ہے شاید اسی سےان کی قوت سماعت مفلوج ہو گئی ہے ۔ تبھی توکسی بات کا جواب ہی نہیں دے رہے ہیں ۔
ارے! ان کی آنکھوں کی پتلیاں کہاں گئیں ؟ ان کی یہ سفید پتھرائی ہوئی آنکھیں کتنی خوفناک لگ رہی ہیں نا؟یقین جانئے اگر ان کا بلڈ ٹسٹ کروایاجائے تو ان کا خون بھی سفید ہوگا ۔
اور طرفہ تماشا یہ کہ سب نے اپنے ہاتھوں میں اپنا اپنا ریمورٹ کنٹرول ( فون) بھی تو سنبھا لا ہوا ہے ۔
سب کی نگاہیں ان کے سگنلز پر مرکوز ہیں ۔ اسی کے اشاروں پر روتے ہیں یا پھر ہنس دیتے ہیں ۔ آس پاس کوئی جئے یا مرے، کوئی ہنسے یا روئے، ان روبوٹس کو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
صبح سے رات ہو گئی مگر اس گنجان شہر میں انسان کا کو ئی سراغ ہی نہیں مل سکا ۔
وہ شخص انسان ہو ہی نہیں سکتا۔ جو راہ چلتے چلتے کوئی پتھر، کیلے کا چھلکا نہ ہٹا دے ۔
جو کسی کا بوجھ اٹھانے میں مدد نہ کرے-
جو دو لڑنے والوں کے بیچ بچ بچاو نہ کر ے۔
جو کسی غم زدہ کی دلجوئی نہ کر ے۔
جو اپنی کمائی میں سے کسی اور کے ہاتھ پر کچھ نہ رکھے ۔
جو کسی یتیم کے سر پر دست شفقت پھیر کر اس کے احساس محرومی کو کم نہ کرے ۔
افسوس! خود کوانسان کہلانا تو آسان ہے، پر انسان بننا بہت مشکل ہے ۔
آج اس بھرے پرے شہر میں جہاں تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں، اس کے مکینوں کے مابین برسوں کی مسافتیں ہیں ....خلیجِ بے حسی کچھ یوں حائل ہے کہ شاید اسے پاٹنے میں صدیوں لگ جائیں ۔ اس اتنی بڑی بھیڑ میں ہرایک کتنا تنہا و اکیلا ہے ۔ واقعی جتنا بڑا شہر ہوتا ہے اتنی ہی بڑی تنہائی ہوتی ہے ۔
تو پھر انسان کہاں ہے؟ ؟؟ وہ آخر کہاں کھو گیا ہے ؟ کہاں چھپ گیا ہے ؟(سکوت)
کوئی تو جواب دو ... ... کچھ تو کہو ....
کیا اس پیارے خالق نےیہ خوب صورت دنیا،ان بے حس و بے جان مشینوں کے لیے بنائی تھی ؟
نہیں.....با لکل نہیں!
تو پھر آئیں میرے ساتھ مل کے، جذبہ انسانیت سے مزین اس انمول انسان کو تلاش کریں اور اس کی قدر کریں جو تہہ در تہہ ترقی کے ملبہ تلے کہیں دب گیا ہے یا ترقی کی اس دوڑ میں شاید کہیں پیچھے، بہت پیچھے رہ گیا ہے ۔
کہیں وہ انمول ہیرا آپ تو نہیں؟؟؟
اگر نہیں ہے توابھی بھی وقت ہے، انسانیت کے اوصاف حمیدہ سے خود کو مزین کر کے انمول بنا جا سکتا ہے ۔
نوٹ ( کوئی بھی دعویدار، اشتہار والی شرائط پر پورا اترنا ضروری ہے تبھی وہ قابل قدروقیمت ہے ۔ اور کھوجنے والے کو انعامی رقم ۳۰۰۰ء میں ملے گی ۔ )
*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔****
سحرش سحر
 
آخری تدوین:
یہ ایسا کیفیت اور احساس ہے کیوں ہے سنتے ہیں کہاں تک یہ بات درست ہے حدیث اور قرآن کیا کہتا ہے محدود علم ہے میرا اور کیا ہے وہ بات اللہ تعالٰی کہتا ہے ساری دنیا میں ایک بهی انسان سچے دل سے میرے وحدانیت کا قائل ہو میں قیامت نہیں لاوں گا لوگ کہتے ہیں بحث علمی ہے علم محدود ہے میرا
وہ انسان ہے موجود ہے مگر کیسے ڈهونڈو سو بندوں میں ایک ہاں اس دور میں وہ انسان اپنے صفات کا نہیں رہا جو بہترین فطرت اور دل اللہ نے اسے دیا
 

ام اویس

محفلین
یہ ایسا کیفیت اور احساس ہے کیوں ہے سنتے ہیں کہاں تک یہ بات درست ہے حدیث اور قرآن کیا کہتا ہے محدود علم ہے میرا اور کیا ہے وہ بات اللہ تعالٰی کہتا ہے ساری دنیا میں ایک بهی انسان سچے دل سے میرے وحدانیت کا قائل ہو میں قیامت نہیں لاوں گا لوگ کہتے ہیں بحث علمی ہے علم محدود ہے میرا
وہ انسان ہے موجود ہے مگر کیسے ڈهونڈو سو بندوں میں ایک ہاں اس دور میں وہ انسان اپنے صفات کا نہیں رہا جو بہترین فطرت اور دل اللہ نے اسے دیا
ایسا نہیں کہ اس دور میں انسان نایاب ہے البتہ انسان کو پہچاننے والی نظر دھندلا رہی ہے ۔
 
Top